عمران خان کا بطور وزیر اعظم بے اختیار ہونے کا گلہ اور سوشل میڈیا پر بحث: ’پہلے کسی نے ایک پیج کی بات بھی نہیں کی‘


پاکستان کی سیاسی تاریخ میں جمہوری حکومتوں اور فوج کے درمیان طاقت اور اختیار کی رسہ کشی کوئی نئی بات نہیں۔ جنرل ایوب خان کے پہلے مارشل لا سے نواز شریف حکومت کا تختہ الٹنے والے آرمی چیف جنرل مشرف تک کئی بار فوج نے براہ راست حکومت کی۔

تاہم جمہوری ادوار میں بھی پس پردہ اسٹیبلشمنٹ کے کردار پر سوالات اٹھتے رہے ہیں جس میں مرکزی سوال یہ رہا ہے کہ پاکستان میں سول حکومت اہم فیصلوں کے معاملے میں کتنی بااختیار ہوتی ہے؟

اس بحث میں ایک تازہ جان حال ہی میں پاکستان تحریک انصاف چیئرمین اور سابق وزیر اعظم عمران خان کے اس بیان نے ڈال دی ہے جس میں انھوں نے یہ گلہ کیا کہ حکومت کی ذمہ داری ان کی تھی لیکن حکمرانی کوئی اور کر رہا تھا۔

تاہم ان کے اس بیان نے جہاں پرانی بحث کو زندہ کر دیا وہیں سوشل میڈیا پر ناقدین عمران خان کو ان کے دور حکومت کے چند بیانات بھی یاد دلاتے دکھائی دیے اور سوال کیا کہ ’ایک پیج‘ کا پرچار کرنے والے سابق وزیر اعظم کو اپنے اقتدار کی بے اختیاری حکومت جانے کے بعد ہی کیوں یاد آ رہی ہے؟

دوسری جانب عمران خان کے حامیوں کا بھی نقطہ نظر ہے جن کے مطابق کوئی بھی وزیر اعظم حکومت میں رہتے ہوئے کبھی بھی طاقتور حلقوں کے خلاف ملکی مفاد میں بات نہیں کرتا۔ تاہم ان دونوں نقطہ نظر پر نظر ڈالنے سے پہلے یہ جاننا ضروری ہے کہ عمران خان نے کیا بیان دیا؟

’اصل طاقت کسی اور کی تھی‘

عمران خان نے لاہور میں بدھ کے روز صحافیوں سے ملاقات اور بات چیت کی۔ اس گفتگو کی اخبارات میں رپورٹنگ کے مطابق انھوں نے گلہ کیا کہ ’جب میری حکومت تھی تو تمام کاموں کی ذمہ داری مجھ پر تھی، تاہم اصل طاقت کسی اور کے پاس تھی۔‘

عمران خان

’ذمہ داری میری تھی لیکن حکمرانی کسی اور کی تھی۔ مجھے ساڑھے تین سال میں آدھی پاور بھی مل جاتی تو شیر شاہ سوری سے مقابلہ کر لیتے۔ ہم اربوں کے ٹیکس ڈیفالٹر پکڑتے تو پتہ چلتا وہ کہیں اور چلے جاتے اور حکم کچھ اور مل جاتا۔‘

بظاہر عمران خان نے کسی ادارے یا شخصیت کا نام نہیں لیا تاہم ایک اور مقام پر اسی دن صحافی کے اس سوال کے جواب میں کہ وہ کن طاقتور لوگوں کی بات کر رہے ہیں، انھوں نے جواب دیا کہ ’یہی این آر او والے، آپ اعتزاز احسن کا بیان دیکھ لیں۔‘

واضح رہے کہ سینیئر وکیل اور رہنما پیپلز پارٹی اعتزاز احسن نے 11 اکتوبر کو الزام عائد کیا تھا کہ ’نواز شریف، شہباز شریف اور مریم کو مقدموں سے جنرل باجوہ نے نکلوایا ہے۔‘

گذشتہ روز تحریک انصاف کے سابق وفاقی وزیر اعظم سواتی کو ٹویٹر پر جنرل باجوہ کو این آر او دینے کے الزام کے بعد ایف آئی اے نے مقدمہ درج کرنے کے بعد گرفتار کر لیا جس کے بعد عمران خان نے نام لیے بغیر متعلقہ اداروں کو تنقید کا نشانہ بنایا۔

عمران خان اور تحریک انصاف کی جانب سے کبھی ’نیوٹرلز‘ اور کبھی کسی اور نام سے ڈھکے چھپے الفاظ میں اسٹیبلشمنٹ یا فوج کے خلاف تنقید کا سلسلہ تو ان کی حکومت کے خلاف عدم اعتماد کی کامیابی سے ہی شروع ہو چکا تھا۔ تاہم گذشتہ چند ماہ کے دوران اس تنقید میں اُتار چڑھاؤ کے بعد حالیہ دنوں میں اس میں شدت دیکھی گئی۔

عمران خان کے وہ بیان جو سوشل میڈیا پر گردش کر رہے ہیں

تحریک انصاف کی جانب سے اس تنقید کے بعد، جو مسلم لیگ ن رہنماؤں کی عدالتوں سے بریت کے بعد شدت اختیار کر رہی ہے، سوشل میڈیا پر عمران خان کے چند بیانات کا حوالہ دیا جا رہا ہے جو اس وقت کے ہیں جب وہ برسراقتدار تھے۔

ان بیانات میں سے ایک تین دسمبر 2018 کا ہے جس میں عمران خان صحافیوں سے گفتگو میں کہتے ہیں کہ ’اس وقت پاکستان کی فوج پی ٹی آئی کے منشور کے ساتھ کھڑی ہے۔۔۔ ایک اسٹیبلشمنٹ ہوتی ہے جنرل ضیا کی، ایک ہوتی ہے جنرل مشرف کی، ایک ہے جنرل باجوہ کی جو ایک منتخب حکومت کے ساتھ کھڑے ہیں، ایک پیج پر کھڑے ہیں۔‘

ایک صحافی جب ان سے اس موقع پر سوال کرتا ہے کہ ’فیصلے کیا آپ کرتے ہیں؟‘ تو عمران خان جواب دیتے ہیں کہ ’ظاہر ہے میں لیتا ہوں، ایک فیصلہ ایسا نہیں ہے جو کہ میرا فیصلہ نہ ہو۔‘

ایک اور ویڈیو 24 مارچ 2020 کی ہے جس میں صحافیوں سے گفتگو میں عمران خان کہتے نظر آتے ہیں کہ ’جو بھی فیصلہ ہے، ذمہ دار میں ہوں اور میں ذمہ دار ایسے ہوں کہ کوئی فیصلہ میرے پوچھے بغیر نہیں ہوتا۔‘

یہ بھی پڑھیے

پاکستانی تاریخ کی ’تاریک ترین‘ رات جب ’ملک بچانے‘ کے لیے مارشل لا نافذ کیا گیا

’ریلیکس میجر، گولی مت چلانا‘: 12 اکتوبر کی یادیں

کیا نواز شریف اور عمران خان کی تنقید نے فوج کی ’سیاسی صلاحیت‘ کو کمزور کر دیا ہے؟

فوج میں 12 میجر جنرلز کی ایک ساتھ ’غیر معمولی‘ ترقیاں اہم کیوں ہیں؟

’پہلے کسی نے ایک پیج کی بات بھی نہیں کی‘

عمران خان کے پرانے اور حالیہ بیانات میں تضاد تو واضح ہے تاہم جن حالات میں یہ بیانات دیے گئے وہ بھی یکسر مختلف ہیں۔ واضح رہے کہ عمران خان سے قبل مسلم لیگ ن کی جانب سے بھی فوج اور اسٹیبلشمنٹ پر سیاسی عمل میں مداخلت کے الزامات لگاتے رہے ہیں تاہم فوج کی جانب سے پہلے اور اب بھی تمام الزامات کی تردید کی جاتی رہی ہے اور یہ موقف اپنایا جاتا رہا ہے کہ وہ اس عمل میں نیوٹرل ہے۔

سوشل میڈیا پر عمران خان کے بیانات میں موجود اس تضاد نے اس بحث کو جنم دیا کہ اختیار اور اقتدار کے درمیان کتنا گہرا تعلق ہے۔

صحافی مظہر عباس نے لکھا کہ ’پاکستان میں کون سا وزیراعظم رہا ہے جو سب سے زیادہ بااختیار تھا اور کون سا وزیراعظم ہے جس نے یہ بات نہیں کی جو اب عمران خان کر رہے ہیں کہ ان کے پاس طاقت اور اختیار نہیں تھا۔‘

https://twitter.com/MazharAbbasGEO/status/1580495089570545667

ایک صارف نے اس کے جواب میں لکھا کہ ’کوئی بھی وزیر اعظم بااختیار نہیں تھا لیکن فرق یہ ہے کہ اس بار ایک وزیر اعظم اقتدار سے ہٹائے جانے کے بعد کُھل کر یہ بات کر رہا ہے۔‘

نوید خان نے لکھا کہ ’اگر کسی وزیر اعظم کو لگتا ہے کہ ان کے پاس اقتدار نہیں ہے تو وہ استعفی کیوں نہیں دیتے؟ وہ صرف ذمہ داری اور ناہلی دوسروں پر ڈالنے کی کوشش کرتے ہیں۔‘

https://twitter.com/naveed_nwl/status/1580522296854601728

چوہدری نسیم نے بھی نوید خان کی بات سے اتفاق کیا۔ انھوں نے لکھا کہ ’پاکستان کے سب سویلین وزیر اعظم جب اقتدار سے نکلتے ہیں تو کہتے ہیں کہ وہ تو بے اختیار تھے۔ اگر یہ حکومت میں ہوں کر یہ بات کریں تو شاید لوگ ان پر یقین کر بھی لیں۔ سچائی یہ ہے کہ ان کے پاس حکومت چلانے کی اہلیت اور صلاحیت ہی نہیں ہوتی۔‘

خرم نامی صارف نے لکھا کہ ’صرف یہ دیکھ لیں کہ پاکستان کے کتنے وزرائے اعظم نے اپنی مدت پوری کی۔ اس سے ہی جواب مل جائے گا کہ ان کے پاس کتنا اختیار ہوتا ہے۔‘

ساجد منیر نے جواب دیا کہ ’عمران خان سے پہلے کسی نے ایک پیج کی بات بھی تو نہیں کی تھی۔‘

https://twitter.com/SajidMunir2464/status/1580669076795367425


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32506 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments