بچوں کو یہ 8 اہم ڈیجیٹل اسکلز سیکھانے کی اشد ضرورت ہے


ڈیجیٹل میڈیا ہماری زندگی کا ایک اہم حصہ بن چکا ہے۔ اب اس کا صرف استعمال نہیں بلکہ اس کا محفوظ اور بھرپور استعمال ہی اصل مہارت ہے۔ اس میڈیم نے جہاں ہم بڑوں کی زندگی کا اندازہ بدل دیا ہے وہاں یہ بچوں کی زندگی، ذہنی نشوونما اور نفسیاتی شخصیت پر کیا اثر ڈال رہا ہے۔ اس کا فی الحال احاطہ ممکن نہیں۔ 2016 میں شائع ہونے والی ایک رپورٹ میں ورلڈ اکنامک فورم نے اس اہم موضوع پر بڑی سنجیدگی سے اپنی تشویش کا اظہار کیا تھا۔ یہ رپورٹ 6 سال گزر جانے کے بعد بھی اپنی اہمیت رکھتی ہے۔

ٹیکنالوجی کا سماجی اور اقتصادی اثر بہت وسیع اور تیز رفتار ہے جس کی بدولت معلومات کی رفتار اور حجم میں تیزی سے اضافہ ہوا ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ 10 سالوں میں دنیا کی پوری آبادی کا 90 فیصد حصہ انٹرنیٹ سے منسلک ہو جائے گا۔ زندگی کی اکثر چیزوں کے انٹرنیٹ کے ساتھ رابطے کی وجہ سے ڈیجیٹل یہ دنیا جلد ہی اس میں ضم ہو جائے گی۔ یہ تبدیلیاں دلچسپ امکانات کا اعلان کر رہی ہیں لیکن یہ غیر یقینی صورتحال بھی پیدا کر رہی ہیں اور ہمارے بچے اس متحرک تبدیلی کے مرکزی شکار ہیں۔

بچے ڈیجیٹل ٹیکنالوجیز اور میڈیا کو تیزی سے چھوٹی عمر میں اور طویل عرصے تک استعمال کر رہے ہیں۔ وہ روزانہ اوسطاً سات گھنٹے اسکرین کے سامنے گزارتے ہیں۔ ٹیلی ویژن، کمپیوٹرز، موبائل فونز اور مختلف ڈیجیٹل آلات پر استعمال ہونے والا وقت اس وقت سے زیادہ ہے جو بچے اپنے والدین کے ساتھ یا اسکول میں گزارتے ہیں۔ اس طرح یہ وقت ان کی صحت اور نشوونما پر اہم اثر ڈال رہا ہے۔ وہ کون سا ڈیجیٹل مواد استعمال کرتے ہیں، وہ آن لائن کس سے ملتے ہیں اور بات چیت کرتے ہیں اور وہ اسکرین پر کتنا وقت گزارتے ہیں۔ یہ تمام عوامل بچوں کی مجموعی نشوونما پر بہت زیادہ اثر انداز ہوتے ہیں جو ماہرین کے لئے لمحہ فکریہ ہے۔

یہ درست ہے کہ ڈیجیٹل دنیا سیکھنے اور تفریح کا ایک وسیع میدان ہے لیکن یہ اس ڈیجیٹل دنیا میں بچے بہت سے خطرات سے دوچار ہوسکتے ہیں، جیسے سائبر کرائم، ٹیکنالوجی کی لت، فحش اور پرتشدد مواد دیکھنا، نسلی بنیاد پرستی اور ڈیٹا کی چوری وغیرہ۔ مسئلہ ڈیجیٹل دنیا کی تیز رفتاری اور ہمیشہ سے ابھرتی ہوئی تحریک میں پنہاں ہے، جہاں مناسب انٹرنیٹ گورننس اور بچوں کے تحفظ کے لیے پالیسیاں سست روی کا شکار ہیں، جو انہیں غیر موثر بنا رہی ہیں۔

مزید یہ کہ ڈیجیٹل عمر کا بہت فرق ہے۔ بچوں کا ٹیکنالوجی استعمال کرنے کا طریقہ کار بڑوں سے بہت مختلف ہے۔ یہ فرق والدین اور اساتذہ کے لیے سمجھنا مشکل ہے اور اس سے لاحق خطرات اور مسائل کو پوری طرح سمجھنا کوئی آسان کام نہیں ہے جن کا آن لائن بچوں کو سامنا ہو سکتا ہے۔ اس کے نتیجے میں بالغ افراد ڈیجیٹل ٹیکنالوجیز کے محفوظ اور ذمہ دارانہ استعمال کے بارے میں بچوں کو مشورہ دینے سے قاصر ہوتے ہیں۔ اسی طرح یہ فرق قابل قبول رویے کے بارے میں مختلف نقطہ نظر کو جنم دیتا ہے۔

ہم بحیثیت والدین، اساتذہ اور رہنما، اپنے بچوں کو ڈیجیٹل دور کے لیے کیسے تیار کر سکتے ہیں؟ بلا شبہ ہمیں بچوں کو ڈیجیٹل انٹیلی جنس سے آراستہ کرنا بہت ضروری ہے تاکہ وہ وقت اور حالات کا مقابلہ کرسکیں۔

ڈیجیٹل انٹیلی جنس (ڈی کیو) سماجی، جذباتی اور علمی صلاحیتوں کا مجموعہ ہے جو افراد کو مختلف چیلنجوں کا سامنا کرنے اور ڈیجیٹل زندگی کے تقاضوں کے مطابق ڈھالنے کے قابل بناتی ہے۔ ان صلاحیتوں کو بڑے پیمانے پر آٹھ باہم مربوط حصوں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے۔

ڈیجیٹل شناخت: کسی کی آن لائن شناخت، ساکھ بنانے اور اس کا نظم کرنے کی صلاحیت ہے۔ اس میں کسی کی آن لائن شخصیت کے بارے میں آگاہی اور کسی کی آن لائن موجودگی کے قلیل مدتی اور طویل مدتی اثرات کا انتظام شامل ہے۔

ڈیجیٹل استعمال: آن لائن اور آف لائن زندگی کے درمیان صحت مند توازن حاصل کرنے کے لیے ڈیجیٹل آلات اور میڈیا کو استعمال کرنے کی صلاحیت، بشمول کنٹرول میں مہارت شامل ہے۔

ڈیجیٹل سیفٹی: آن لائن خطرات کو کنٹرول کرنے کی صلاحیت (مثلاً سائبر کرائم، گرومنگ، ریڈیکلائزیشن) کے ساتھ ساتھ نامناسب مواد (مثلاً تشدد اور فحاشی) ، اور ان خطرات سے بچنے اور ان کو محدود کرنے کی صلاحیت شامل ہے۔

ڈیجیٹل سیکیورٹی: سائبر خطرات (جیسے ہیکنگ، مالویئر وائرس) کا پتہ لگانے کی صلاحیت، بہترین طریقوں کو سمجھنے اور ڈیٹا کے تحفظ کے لیے مناسب حفاظتی ٹولز استعمال کرنے کی صلاحیت شامل ہے۔

ڈیجیٹل جذباتی ذہانت:پروقار اور مناسب رویہ اپنانے اور آن لائن دوسروں کے ساتھ اچھے تعلقات استوار کرنے کی صلاحیت کا نام ہے۔

ڈیجیٹل مواصلات: ڈیجیٹل ٹیکنالوجیز اور میڈیا کا استعمال کرتے ہوئے دوسروں کے ساتھ بات چیت اور تعاون کرنے کی صلاحیت کو فروغ دینا ہے۔

ڈیجیٹل خواندگی: بہترین مواد کو تلاش کرنے، جانچنے، استعمال کرنے، شیئر کرنے اور تخلیق کرنے کی صلاحیت کے ساتھ ساتھ کمپیوٹیشنل سوچ میں قابلیت حاصل کرنا شامل ہے۔

ڈیجیٹل حقوق: ذاتی اور قانونی حقوق کو سمجھنے اور برقرار رکھنے کی صلاحیت، بشمول پرائیویسی کے حقوق، دانشورانہ املاک، تقریر کی آزادی اور نفرت انگیز تقریر سے تحفظ کی صلاحیتوں سے آگاہی ہے۔

یاد رکھیں، ان صلاحیتوں کے حصول کی جڑیں مطلوبہ انسانی اقدار جیسے باہمی احترام، ہمدردی اور سمجھداری میں قائم ہونی چاہئیں۔ یہ اقدار ٹیکنالوجی کے دانشمندانہ اور ذمہ دارانہ استعمال کی سہولت فراہم کرتی ہیں۔ یہ ایک ایسی خصوصیت ہے جو مستقبل کے قائدین کی بھرپور نشاندہی کرے گی۔ درحقیقت، انسانی اقدار پر مبنی ڈیجیٹل ذہانت کو فروغ دینا ہمارے بچوں کے لیے ضروری ہے کہ وہ ٹیکنالوجی میں مہارت حاصل کرنے کے بجائے ان اقدار میں مہارت حاصل کریں تاکہ انسانی اقدار اور وقار ہمیں بحال رہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments