پرانے بیجنگ کے گلی کوچوں کا حسن


کچھ کھو گیا تھا۔ کیا؟ کہوں گی بہت کچھ۔ شاید وہ وقت، وہ حسن، وہ روایات جو بہت قدیم شہروں کے اندر اس کے قدیمی حصے کا ہار سنگھار ہوا کرتی تھیں۔ اس کی خوبصورتی تھی۔ اس کا حسن تھی۔ جدت اور ماڈرن ازم کے ہتھوڑے اگر بے رحمی سے چل پڑیں اور کچھ بڑوں کو انھیں مٹانے کا جنون سوار ہو جائے تو پھر شہر کا بیش قیمت سرمایہ داؤ پر لگ جاتا ہے۔

میرے لاہور کے ساتھ ایسا ہی تو ہوا تھا۔ اور اس وقت جب میں بیجنگ کے تھین آن من سکوائر سے ملتے ہوئے اسDongxijiaomin کے لمبے ترین ہوٹانگز میں داخل ہوئی ہوں۔ تو وہ سارے منظر جو کتابوں میں کہیں محفوظ تھے۔ اور جو میں نے ڈاکٹر تھنگ کی جانب سے ملنے والی کتابوں سے پڑھے تھے۔ اچھلتے کودتے سامنے آ گئے ہیں۔ ان سے بہت سے ملتے جلتے دیس میں بھی تھے۔ کچھ ابھی زندہ ہیں اور کچھ کتابوں میں زندہ تھے۔ بہت سارے کھو گئے ہیں۔ اس وقت یہ سب میرے ساتھ چل رہے تھے۔

”یہ کمبخت ماری تاریخ کب جان چھوڑتی ہے؟ اسے تو عادت ہے اپنی خود نمائی کی۔ خواہ مخواہ ہی بیچ میں اپنی پردانی جتانے لگ پڑتی ہے۔“

میں اب ہوشیار ہو گئی ہوں۔ کہہ لیجیے بیٹی کو قائل اور مطمئن کرنے کے حربوں میں۔ تنگ شیاؤ کے ساتھ اور سہارے نے آسانیاں تو بہت پیدا کردی تھیں۔ تھوڑا سا خوف جو اس بڑھاپے کی دین ہے ایسے مواقع پر پھدک کر باہر آ جاتا ہے۔ ڈھیٹ ہڈی اسے کب خاطر میں لاتی ہے۔

بیجنگ کا یہ قدیمی حصہ اتنی پرتوں میں گندھا ہوا ہے کہ ہر بار لچھے دار پراٹھے کی طرح اس کی کوئی نہ کوئی پرت سامنے آ کر حیرت زدہ کر جاتی ہے۔ گزشتہ راتوں اور پھر دن میں یہاں آنے کے باوجود اس وقت منظروں کا ایک نہ رکنے والا بہاؤ مجھے اپنے ساتھ ساتھ یوں بہائے لیے جا رہا تھا کہ اس میں نئے رنگوں کی اتنی بہتات تھی کہ مجھے لگتا تھا جیسے میں یہ سب پہلی بار دیکھ رہی ہوں۔

قبل مسیح سے ہی شہر تو حفاظتی دیواروں میں قید ہوتے تھے۔ ہاں ہر عہد کی، ہر خطے کی پرانی دنیا کا یہی کلچر تھا۔ تاہم اب ماڈرن دنیا اسے اس پرانے جامے سے آزاد کردینے کی خواہش مند ہوتی ہے۔ تو یہی کچھ اس کے ساتھ بھی ہوا۔ سکینڈرنگ روڈ بن رہی تھی۔ بیچ میں یہ پھڈا ڈالے بیٹھی تھی۔ بس ایک ٹوٹا یادگار کے طور پر رہنے دیا گیا ہے۔ باقی کا صفایا ہو گیا۔

ایسا ہی کچھ بیجنگ کے عام شہریوں کے گھروں جنہیں ہوٹانگز کہا جاتا ہے کے ساتھ ہوا کہ 2008 کے اولمپکس میں بہت سے علاقے اس کی بھینٹ چڑھ گئے۔

شہر ممنوعہ اور تھین آن من سکوائر شہر کی مرکزی جگہیں کل بھی تھیں اور آج بھی ہیں بادشاہوں کے محلات کے آس پاس ہی درباریوں کی شاہوں سے ذرا کم تر درجے کی محل باڑیاں بنی ہوئی تھیں۔ وہ درباری امراء اور وزرا جو آج کی ماڈرن زبان میں ارسٹو کریٹک کلاس یعنی اشرافیہ کہلاتی ہے۔ جن کے گھر وسعت اور تعمیر کے اعتبار سے اب کلاسیک میں شمار ہوتے ہیں۔ جنہیں ان کے پرانے منہ متھوں کے ساتھ ان کے اندر خانے ماڈرن اور جدت کے رنگوں سے سجا کر بڑے بڑے ہوٹلوں اور کاروباری مراکز میں بدل دیے گئے ہیں۔ قدرے فاصلے پر کاریگروں، دست کاروں کے گھر تھے۔ جو سادہ اور چھوٹے تھے۔ یہی ہوٹانگز ہیں۔

قدیم بیجنگ کا حسن صرف اس کے دروازوں کا ہی مرہون نہیں اس کے ساتھ کتنے اور عناصر شامل ہیں۔ گو چلتے ہوئے اب میں نے تاریخ کو آواز دی تھی۔ ”کچھ بتاؤ مجھے۔“

” ارے بھئی تم مرکزی جگہ پر کھڑی ہو۔ قدیم ترین حصے کی پہلی شاخ Shichahai اور بیل ڈرم ٹاور جسے تم دیکھتی آ رہی ہو ہے اور دوسری Qianmen اورDashilar سٹریٹ ہے۔ “

تو سب سے پہلے قدیم گلی میں داخل ہوتے ہیں بھئی نام کتنا مشکل تھا۔ ایک تو چینی گلی کوچوں کے نام بھی ان کے اپنے ناموں کی طرح مشکل ترین ہیں۔ کمبخت مارے زبان پر چڑھنے کا نام ہی نہیں لیتے۔ نخرے دکھاتے ہیں۔ لو ذرا آپ بھی دیکھ لیں NanLuoguxiang Gang and druan Lane، Guozijian Street، Jinyu Street، Yandaixie Streetیقین آ گیا نہ آپ کو۔ پھر وہاں تمباکو پوچ سٹریٹ تھی اور بھی ایسے ہی مشکل ترین نام والیاں بہتیری تھیں۔

میں نے کہا۔ ”بھئی سلامت رہو۔ پھلو پھولو۔ بیجنگ کے وجود کا گہنا ہو۔“

اب جب سائیکل رکشاؤں کی سہولت میسر ہو تو مجھے کیا کتے نے کاٹا تھا کہ میں غریب ٹانگوں کا بھرتہ بناتی۔ ڈرائیور نے کمال مہارت سے اوپر چڑھا لیا۔

”ہائے“ دل سے ہوک نکلی تھی۔ کوئی یاد آیا تھا۔ بھلا کون؟ میرا پوربو پاکستان۔ اس سواری کے وہاں ڈھاکہ میں جی بھر کر مزے ضرور لوٹے تھے۔ تاہم ایک خلش بھی تنگ کرتی تھی کہ یہ بیسویں صدی ہے جہاں انسان کو انسان کھینچ رہا تھا۔ دل اکثر مضطرب ہوتا۔ ان کی ابھری ہوئی ہڈیاں پسلیاں بنیان میں سے جھانکتے ہوئے مجھے اپنے مجرم ہونے کا خوفناک احساس دلاتیں۔

مگر یہاں ایسے کسی دکھ بھرے احساس کا رتی برابر شائبہ تک نہ تھا۔ اچک کر مزے سے بیٹھی تھی اور بے حد مسرور انداز سے اپنے اردگرد دیکھا تھا۔ نوجوان صحت مند لڑکا جس سے میں نے کہا تھا کہ مجھے اس نے ہر ہر گلی کی سیر کروانی ہے۔ شکر ہے انگریزی سمجھتا بھی تھا اور کچھ کچھ بولنے کا بھی گزارہ تھا۔

میری مسرور آنکھوں نے آسمان کو دیکھا۔ نکھرا ہوا آسمان جس کی چھتر چھاؤں میں لپٹی دھرتی کا یہ ٹکڑا جو سنہری دھوپ میں ہنس رہا تھا۔

واہ میرے مولا واہ میرے سائیں تیری دنیا کے رنگ کیا ہی حسین و جمیل ہیں؟ گلیاں تھیں کہیں کھلی کھلی، کہیں تنگ اور کہیں تنگی کا وہ عالم کہ پکار کر کہتی ہوں۔ راہ فرار نہیں۔ بس آ سینے نال لگ جا ٹھاہ کر کے۔ منہ متھوں کا ذکر کیا کہ کہیں تو بس جیسے سیمنٹ گھلے پانیوں کے رنگ کے عکاس ہوں۔ کہیں سرخ، کہیں پیلے سے مار دھاڑ کرتے ہوں۔ چوبی

دروازے کہیں چمکتے دمکتے، کہیں مفلوک الحال، کہیں سبزے کی بہار، کہیں چھدرے چھدرے درختوں کی بہتات۔ کہیں ہریالی پھولوں بیلوں کی رونقیں، کہیں خشک سالی کے منظر، کہیں بچے کھیلتے، کہیں بڑوں کے جتھے باتیں کرتے اور میز کے گرد بیٹھے شطرنج ٹائپ کسی کھیل سے شغل کرتے۔

کہیں ہنستے مسکراتے دانت نکالتے ملکی و غیر ملکی مردوزن۔ کہیں پیدل چلتے اور کہیں میرے طرح کے گھوڑوں پر چڑھے۔

کتے بلیاں بھی انہی گلیوں میں بھاگتے پھر رہے تھے۔ رکشہ سواری آتی تو رک کر منہ اٹھا کر اسے دیکھتے جیسے کہتے ہوں۔ جم جم آؤ جی صدقے آؤ۔ دور دیسوں سے ہمیں دیکھنے ملنے آئے ہو۔ کہیں آرٹ کے شاہکار نظر آتے۔

یہیں ہوٹل بھی بنے ہوئے ہیں۔ یہیں قہوہ خانے بھی ہیں۔ ڈرائیور بتا بھی رہا تھا۔ رک رک کر دکھا بھی رہا تھا۔ مجھے تحریک ہو رہی تھی رکوں کچھ کھاؤں پیوں اور اپنی ہر نوالے بسم اللہ کہنے والے چھچھورے اور لالچی سے رانجھے کو راضی کروں۔ مگر کیا کھاؤں گی؟ سوال کھڑا پوچھتا تھا۔

چلو بے ضرر سی کافی کا کپ تو ہو گا ہی۔

اب ٹوبیکوپوچ سٹریٹ اور اس کے ہوٹونگز دیکھنا کون سا کم خوبصورت تجربہ تھا۔ بیجنگ کے قدیم ترین ہوٹانگز یہی تو ہیں۔ وہیں Dashibeiکے بغل میں۔

اس کی دکانیں دیکھنا، ان میں جانا اور رنگا رنگ چیزوں سے دل کو خوش کرنا۔ کس قدر دلچسپ شغل تھا۔ برونز کے پائپ اتنے خوبصورت اور اتنی اقسام کے تھے کہ میں دکان کے چھوٹے سے تھڑے پر بیٹھ کر سوچتی رہی کہ اگر میں اس کا ایک آدھ دانہ خریدوں تو میرے ملنے والوں میں سے کون سا ایسا سموکر ہے جو اس تحفے کا صحیح معنوں میں مستحق ہو گا۔ اتنے

خوبصورت سبز زمرد کے ٹکڑے تھے کہ پتھروں، موتیوں اور جیولری سے ساری زندگی کوئی دلچسپی نہ رکھنے کے باوجود بھی میری ان پر سے نظریں ہٹتی نہ تھیں۔

ہاں البتہ چینی دستکاری کی بے شمار چیزیں تھیں۔ تبت کی سوغاتیں۔ اندرون منگولیا کی چیزیں سستی بھی اور مہنگی بھی۔ جنہیں دیکھ دیکھ کر بندے کا دل ہی نہیں بھرتا تھا۔ یہاں ہندوستانی کپڑا بھی مل رہا تھا۔ کاش بریزے یا گل احمد کی بھی کوئی چیز نظر آتی۔ تب میرا من کیسے ناچتا؟ کھانے پینے کی دکانیں اور ریسٹورنٹ بھی تھے۔ بیٹھنے کے انتظامات بھی بہترین۔ بس مسئلہ تو چیزوں کا تھا۔ کون سی ہیں، کون سی کھانی چاہیے۔

ہائے کاش دہی بھلے، سموسے چاٹ کی ریڑھیاں ہوتیں۔ کھوکھے ہوتے۔ کہیں خوبصورت لڑکیوں کی تیز رفتاریوں کو گھورتے، کہیں یہ دیکھتے کہ پورا یورپی کلچر پروان چڑھا ہوا ہے۔ بس چوما چاٹی کے منظر نہیں تھے۔ باقی بانہوں میں بانہیں ڈال کر گھومنے پھرنے والے منظروں کی بہتیری بہتات تھی۔

اور یہی وہ گلیاں ہیں جو جتنی قدیم ہیں اتنی ہی ان کی تاریخ طویل اور لطف و دلچسپی سے بھری ہوئی ہے۔ بیجنگ میں پہلی بار تو گلیاں یوآنYuan کے شاہی دور میں ظاہر ہوئیں۔ 1206 سے 1368 کے درمیان۔ یہاں اس ڈرامہ کا ذکر کرنا عین مناسب ہو گا جسے میں نے عمران کی فرمائش پر دیکھا تھا۔ Scholar Zhang Boits the Sea ڈرامے میں ملازمہ کہتی ہے۔

” تم نے مجھے اگر تلاش کرنا ہے تو زونتر نام کی گلی میں آجانا۔ میں وہیں رہتی ہوں مل جاؤں گی تمہیں۔ تو ظاہر ہوتا ہے کہ یہ اور اس سے ملحقہ گلیاں یو آن دور میں موجود تھیں۔

پہلا منظر تو وہی تھا کہ مرکزی دروازے سے اونٹوں کے کاروان آنکھوں کے سامنے آ موجود ہوئے۔ اب رک گئی ہوں۔ تصور کی دنیا کی ساری فضا ان کی سریلی گھنٹیوں

سے جیسے نغمہ بار سی تھی۔ ملحقہ بغلی گلیوں کے سلسلے جو کہیں آگے جاکر بند ہوتے اور کہیں آگے بڑھتے نئے دروازے اور نئے منظر کھولتے تھے۔ انہیں بھی چلتے چلتے رک کر دیکھتی چلی جاتی تھی۔

تحریریں یاد آ رہی ہیں جو ان دنوں پرانے بیجنگ بارے پڑھ رہی ہوں۔ یہ گلیاں پھیری والوں کی صداؤں سے بھری پری، ان کے ٹھیلے ریڑھے ان پر سجی اشیا جیلی ٹوفو اور سیر شدہ سویا بین دودھ کے مختلف النوع اسنیکس سے لدی پھندی ہوتیں۔ باسیوں کے کانوں میں ان آوازوں کا گھسنا گویا ان کے چہروں کو گل رنگ سا بنا دیتا تھا۔ بے اختیار ہی وہ گلی میں نکل پڑتے۔

ان چہکتی مہکتی گلیوں میں گھروں کے اندر کشادہ صحن اور احاطے جن میں زندگی کا ایک اپنا ہی رنگ ہوتا تھا۔

یہیں کہیں بازار کے کسی گوشے میں مسخروں نے اپنی دنیا آباد کر رکھی ہوتی تھی۔ جگت بازی اور حاضر جوابی کے مقابلے، لوگوں کے دل کھول کر ہنسنے اور قہقہے لگانے کے انداز بھی کتنے عوامی سے ہوتے۔ بیجنگ کے انہی بازاروں میں میوزیکل کہانی کی روایت کا بھی کیا حسین سلسلہ تھا۔ ڈرم بجتا۔ ایک تار والے موسیقی کے آلات بجائے جاتے۔

یہ سب کتنی خوبصورت تصویریں تھیں۔ زندگی کی ضرورت اور جذبوں سے بھرپور جنہیں اگر جوڑ دیا جائے تو تصویری شاہکار بن جائے۔ بصری صورت میں دیکھا جائے اور صوتی صورت میں سنا جائے تو ایک ایسے نغمے کی صورت فضا میں بکھر جائے کہ جس کے ہر سر میں سے تڑپتا اور پھڑکتا ماضی نکلے۔ وہ ماضی جو وقت کی دھول میں کہیں کھو گیا ہے۔

تو اب میں یہاں اس گھر کے دروازے پر کھڑی سوچ رہی ہوں ان گلیوں کی دنیا کا حسن، ان میں رچا بسا اپنایت کا رنگ اور ماحول بھی کیا چیز تھا۔ ان کے نام بھی کیسے کیسے

شاعرانہ تھے کہ بے اختیار ہی داد دینی پڑتی ہے۔ یہ کہنا بھی لازم ہو جاتا ہے۔ کہ لوگ کتنے تخلیقی ذہن کے مالک تھے؟

ذرا سنیے اور سر دھنیے۔ خوبانی کے پھولوں کا دن، پھول کی ٹہنی اور چاند رات۔ کچھ نام ایسے بھی سننے کو ملے۔ جو روزمرہ زندگی کے عکاس تھے۔ مثلاً دیکھیے۔ چائے کی پتی والی گلی، الکوحل ایلی، ایگ پلانٹ ایلی وغیرہ وغیرہ۔ اس کا ایک اور دلچسپ ترین پہلو یہ بھی ہے کہ بزرگوں کی یادداشتوں کے مطابق مختلف گلیوں کی وجہ شہرت ان کی مختلف اور مخصوص خوشبو اور مہک تھی۔ مثلاً اناج والی گلی، بند گوبھی کی خوشبو والی گلی مشہور تھیں۔ Sedan chair ایلی میں خمیر اٹھے سویا بین دودھ کی خوشبو کی مہکار رچی ہوئی ہوتی تھی۔ یار لوگ مرتے تھے۔ ”پروردگار ان کی مہکار کیسے کیسے تڑپاتی تھی۔

مجھے بہت کچھ یاد آیا تھا۔ سچ تو یہ ہے کہ گلیوں کی یہ صفت کوئی بیجنگ میں نرالی نہیں۔ دنیا کا ہر قدیم ترین شہر اسی احساس کا امین ہے۔ کیا لاہور، کیا روم، کیا ایتھنز اور کیا بغداد، کیا دمشق سبھی ایسے ہی لطیف اور خوبصورت جذبوں سے مالامال تھے۔ شام کے عظیم شاعر نے تو پرانے دمشق کی گلیوں کو جس انداز میں سراہا ہے اس کی تو مثال نہیں۔

دمشق کے گھر تعمیر کے کسی آسمانی صحیفے سے کم نہیں
ہمارے گھروں کے ڈیزائن
ہماری جذباتی وابستگیوں کی بنیادوں پر ہیں
ہر گھر دوسرے سے جڑا ہوا
ہر بالکونی دوسری کی طرف بڑھتی ہوئی
دمشق کے گھر پیار و محبت کے مظہر ہیں
وہ ہر صبح ایک دوسرے کو خوش آمدید کہتے ہیں
اور راتوں کو راز داری سے ملاقاتیں کرتے ہیں

ان گلیوں کے ایک اور من موہنے سے منظر کی جھلک دیکھو۔ خوانچہ فروشوں کی صداؤں کا حسن اور رومانیت ہے۔ میرے لیے یہ منظر بھی بڑا اپنا اپنا سا تھا۔ کس طرح یہ لوگ کہیں اپنی آواز کا جادو جگاتے، کہیں مزاحیہ رنگ میں لمبے لمبے جملے بولتے، کہیں وہ کسی آلے، کبھی کسی موسیقی کے آلات پر فروخت کرنے والے مال پر کہیں شاعرانہ مصرعے، آواز

کے اونچے اور پست لہجے، کہیں دور سے آتی آوازیں اور کہیں نزدیک سے صحنوں برآمدوں میں بیٹھے لوگوں اور بچوں کو متوجہ کرتیں۔ یہ صدائیں ایک موثر متوازن اور دیر پا تاثر کی حامل تھیں۔

اوقات مختلف ہوتے۔ چیزیں مختلف ہوتیں۔ صبحیں ڈیپ فرائیڈ ڈواسٹکس dough sticks اور تل کے بیجوں سے سجے کیک کے لیے ہوتیں۔ شام میں پھلوں کے لیے صدائیں لگتیں اور رات کو نوڈلز، بھاپ میں دم شدہ بند اورwonton سوپ کے لیے سر والی اور بے سری آوازوں کی بارش سی ہوتی۔

Wonton سوپ بارے تسنیم نے مجھے بتایا تھا۔ خالص چینی سوپ چکن یا پورک کے بڑے بڑے ٹکڑوں میں مختلف سبزیاں ڈال کر بنایا جانے والا جسے ادرک لہسن اور سبزیوں کے ساتھ پکایا جاتا ہے۔ وہ گاہکوں کو متوجہ کرنے کے لیے آوازیں لگانے کی بجائے ڈرم یا ڈھول کو ہاتھ یا چھڑی سے بجاتے یہ گویا اعلان ہوتا کہ سوپ والا آ گیا ہے۔

ہائے ایسے ہی منظر میرے لاہور کے تھے۔ میرے بچپن کے تھے۔
٭٭٭


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments