سلطنت مغلیہ کی نئی کابینہ کا اہم اجلاس


آج سلطنت مغلیہ کی نئی نویلی کابینہ کا اہم اجلاس سلطنت کے نئے امیر سلطان عقاب الدین سحر خیز المعروف مغل صغیر کی زیر صدارت دیوان خاص میں منعقد ہواء۔ اجلاس کے شروع ہوتے ہی وفاقی وزیر مذہبی امور ملا فیضی نے کورنش بجا لاتے ہوئے تجویز پیش کی کہ خاندان مغلیہ کے دائمی منبع فیض، رہبر اعلی اور مغل صغیر کے بڑے بھائی مغل کبیر کی جلد صحت یابی اور باحفاظت وطن واپسی کے لئے دعا کروائی جائے۔

چنانچہ فوری طور پر سیٹلائیٹ لنک کے ذریعہ سلطنت مغلیہ کی مشہور و معروف مذہبی شخصیت اور ساکنان کوچہ حسن و جمال کے محرم راز جے ٹی جمی سے رابطہ کیا گیا اور ان سے دعا کی درخواست کی گئی جو کہ ظاہر ہے جے ٹی نے فوراً منظور کر لی۔ یہاں یہ بتانا ضروری ہے کہ جے ٹی کوئی عام مولوی نہیں بلکہ انٹرنیشنل سطح کے ایک منفرد سکالر اور ہشت پہلو شخصیت کے حامل انسان ہیں۔ وہ عالم دین بھی ہیں، جدی پشتی زمیندار بھی، کپڑوں کے تاجر بھی اور ٹووئر آپریٹر بھی۔ موڈ میں ہوں تو حوران حیلہ جو اور بتان فتنہ خو کے کمان ابرو سے نکلے تیروں کا جواب ہوائی بوسوں سے دیتے ہیں۔ ورنہ ”ہر دردمند دل کو رونا میرا رلا دے“ کی تفسیر بنے رہتے ہیں۔

جے ٹی کی جیب میں دو تین حکومتیں ہر وقت ہوتی ہیں جبکہ وہ خود کسی نہ کسی حکومت کی جیب میں اماوس کے شب گزیدہ چاند کی طرح چمکتے اور مفت اصلاح و تبلیغ میں مصروف رہتے ہیں۔ جس وقت وفاقی کابینہ نے ان سے رابطہ کیا، اس وقت وہ سابقہ مغل حکمران طغرل ثانی کے ڈیرے پر رونق افروز تھے۔ اور ساگوان کی لکڑی سے بنے دیدہ زیب پلنگ پہ بیٹھے ان کی کی بحالی کی رقت آمیز دعائیں پور خشوع و خضوع کے ساتھ کروا رہے تھے۔ مگر چونکہ ”کام درویش میں ہر تلخ ہے مانند ثبات“ اور سابقہ حکمرانوں کے ساتھ ساتھ حاضر سروس حکمرانوں کو بھی رشد و ہدایت کے بہتے چشموں کی ضرورت رہتی ہے۔ اس لئے جے ٹی نے فوری طور پر اپنی دعاؤں اور وفاؤں کا رخ سابقہ حکمرانوں سے موجودہ اولی الامر کی طرف موڑا اور نہ صرف مغل کبیر کی صحت یابی کی دعا کروائی بلکہ بونس کے طور پر موجودہ حکومت کی درازی عمر اور آخرت میں کامیابی کو بھی اس میں شامل کر لیا۔

دعا کے بعد اجلاس دوبارہ شروع ہواء تو وفاقی وزیر خارجہ لڈن میاں اور وزیر مملکت برائے خارجہ رضیہ سلطانہ نے اپنی وزارت کی کارکردگی کو کابینہ کے سامنے پیش کیا۔ لڈن میاں نے اجلاس کو بتایا کہ ان کی منت زاری اور ذاتی آہ و فغاں کی بدولت مملکت روسیاہ نے سلطنت مغلیہ کو سستا اور ادھار تیل دینے کی حامی ایک بار پھر سے بھری ہے۔ سستا اور ادھار کے دلنشیں اور روح پرور الفاظ سن کے اجلاس میں خوشی کی ایک لہر دوڑ گئی اور کابینہ کے ہر رکن کی آنکھوں میں وہی امید بھری چمک پیدا ہو گئی جو کسی بھی کریانہ سٹور پر ادھار گروسری لینے والوں کی آنکھ میں ہوتی ہے۔ اس موقع پر دیوان خاص جو پہلے ہی بقعہ نور بنا ہواء تھا، نعرہ تکبیر۔ اللہ اکبر، سلطنت مغلیہ زندہ باد، سلطنت روسیاہ زندہ باد جیسے فلک شگاف نعروں سے گونج اٹھا۔

مبارک سلامت کی آوازیں کچھ مدھم ہوئیں تو لڈن میاں نے وضاحت کی کہ یہ تیل گاڑیوں اور آٹو رکشا میں ڈالنے والا تیل نہیں بلکہ مردوں میں جان پیدا کرنے اور دیگر طبی فوائد سے لبریز سانڈے اور چیونٹے کا تیل ہے۔ وزیر خارجہ کے اس بیان پر کابینہ پر مردنی سی چھا گئی اور ماحول کو ایک بے نام سی سوگواری نے گھیر لیا۔

اس موقع پر وفاقی وزیر صحت بہلول دانا نے اجلاس کی ڈھارس بندھائی اور کابینہ کو بتایا کہ چونکہ سلطنت مغلیہ میں سانڈے اور چیونٹے کا تیل بھی وسیع پیمانے پر کھپت رہتا ہے اور اچھے دوا خانوں اور ماہر اطباء کے کلینکس پر اس کی سپلائی کا ایک مستقل مسئلہ ء بنا رہتا ہے اس لیے اس پیشکش کو معمولی نہ سمجھا جائے بلکہ اس پر سنجیدگی سے غور کیا جائے۔ چنانچہ کابینہ نے وزیر صحت بہلول دانا کی تجویز کی منظوری دی اور ان مقویات کی امپورٹ پر مزید کارروائی کے لئے نیشنل طبی کونسل سے رہنمائی طلب کر نے کا فیصلہ کیا۔

اس موقع پر کابینہ کے متعدد ارکان نے لڈن میاں کو ملنے والی نمونہ کی شیشیاں بطور تبرک لینے کی خواہش ظاہر کی۔ چنانچہ لڈن میاں نے کابینہ ممبران میں صاف اور شفاف قرعہ اندازی کے بعد مذکورہ شیشیاں سلطان عقاب الدین سحر خیز کو بطور تحفہ دے دیں اور کہا ”لے چاچا تو رکھ لے۔ یہ شیشیاں میرے تو کسی کام کی نہیں۔ مگر ہو سکتا ہے اس سے تیرا جیون سدھر جائے اور تیری شبھ کامنائیں پوری ہو جائیں“

اس کے بعد کابینہ نے سلطنت مغلیہ کی معیشت پر سنجیدگی سے غور شروع کیا تو وفاقی وزیر خزانہ کٹوری لال شرما نے مغل صغیر کی دست بوسی کا شرف حاصل کرنے کے بعد معیشت کی زبوں حالی اور قومی خزانے کی حرماں نصیبی کی داستان ہچکیاں لے لے کے سنائی۔ انہوں نے بتایا کہ سلطنت کی آمدنی کا زیادہ تر دارو مدار بیرون ملک سے ملنے والی زکات، عطیات اور صدقات پر ہے جبکہ اخراجات و مراعات بے پناہ ہیں۔ کابینہ نے متفقہ فیصلہ کیا کہ سلطنت مغلیہ کے غیر ضروری اخراجات میں کمی کے لیے سابقہ مغل حکومت میں قائم ہونے والی وفاقی وزارت عملیات و تعویزات کو ہمیشہ کے لئے تحلیل کر دیا جائے اور اس وزارت کے ماتحت کام کرنے والے موکلات، جنات اور چڑیلوں کی خدمات وزارت ہوا بازی کے سپرد کر دی جائیں۔

اس موقع پر سلطان سحر خیز نے فرمان جاری کیا کہ اس وزارت میں مشیر کے عہدے پر فائز بنگالی جادو گروں، نجومیوں، دست شناسوں اور کالے علم کی توڑ کے ماہرین کو کچھ نہ کہا جائے بلکہ ان کو پرانے فٹ پاتھ اڈوں، زیر زمین بیٹھکوں اور لب سڑک تھڑوں تک پورے تزک و احتشام کے ساتھ واپسی کی ٹرانسپورٹ فراہم کی جائے۔ اور اس ضمن میں سرکاری و غیر سرکاری چنگ چی رکشوں اور دیگر شاہی سواریوں کے استعمال میں کوئی کنجوسی نہ برتی جائے۔

سلطان کی اس دریا دلی پر پرانے اور نئے درباری امراء، اعلی حکام، وزراء اور چوبدار وغیرہ خوشی سے جھوم اٹھے۔ شاہی مورخ نے مغل صغیر کا اقبال بلند ہو کا نعرہ مستانہ لگا کر گویا شاہی تاریخ کے اگلے باب یعنی باب فیاضی کا اعلان کر دیا۔ خوشی اور سرشاری کی اس رو میں موقع مناسب دیکھ کر سیکرٹری کابینہ رکن الدولہ نے تخلیہ اور قیلولہ کا اشارہ کیا اور اجلاس کچھ دیر کے لیے روک دیا گیا۔

اڑھائی گھنٹہ کے مختصر قیلولہ کے بعد اجلاس دوبارہ شروع ہواء تو شرکاء نے سلطنت کو ملنے والے عطیات، صدقات اور زکات کی شرح نمود میں اضافہ کے لئے مختلف طریقوں پر غور کیا۔ اجلاس نے نوٹ کیا کہ صدقہ دینے والے ممالک اور افراد میں ہمدردی، صلہ رحمی اور کرم پروری کے جذبات پیدا کرنے کی اشد ضرورت ہے۔ چنانچہ وفاقی وزیر سیاسی امور شہزادہ جواں بخت مرزا نے تجویز پیش کی کہ بیرون ملک مانگنے کے لیے جانے والے وفود کو جھولی پھیلانے میں جھجک ختم کرنے، ٹنڈے اور لنگڑے فقیر کی ایکٹنگ کرنی اور آواز میں لوچ پیدا کر کے قسمیں کھانے کی ٹریننگ دی جائے۔

اجلاس نے یہ فیصلہ بھی کیا کہ پچھلے دس سال میں ہونے والے تمام قومی سانحات اور حادثات میں مرنے والے لوگوں کی تصاویر اور ویڈیوز محفوظ کر لی جائیں۔ اور اگلے سال رمضان شریف یا بڑی عید کے موقع پر جب مغل صغیر صدقہ و خیرات مانگنے دوست ممالک کے دورہ پر جائیں تو ان تصاویر اور ویڈیوز کو دکھا دکھا کر مانگیں تاکہ دینے والوں کو خوب ترس آئے۔

مغل صغیر نے یہ تجویز سنی تو وہ جذبات پر قابو نہ رکھ سکے۔ انہوں نے کابینہ کو اپنے حالیہ دورہ ترکیہ، امریکیہ، مملکت عربیہ اور چینیا کے نتائج سے کابینہ کو آگاہ کیا۔ انہوں نے بتایا کہ وہ جہاں بھی گئے انہوں نے یہی کہا ”میں مانگنے نہیں آیا۔ مجھے امداد نہیں چاہیے، ادھار نہیں چاہیے۔ مجھے صرف پیا ر چاہیے۔ میں سچے پیار کے تلاش میں آپ تک آیا ہوں۔ آپ قرض نہ دیں، امداد نہ دیں۔ بس پیار محبت میں جو کچھ ہو سکتا ہے وہ کر دیں“ ۔

مغل صغیر نے مزید کہا کہ وہ بچپن سے ہی پیار کے بھوکے ہیں۔ اور سچے پیار کی تلاش میں طوعاً و کرعاً تین دفعہ سہرا باندھ چکے ہیں مگر ابھی تک انہیں سچا پیار نہیں ملا۔ تاہم اگر کوئی مائل بہ کرم ہو تو وہ چوتھی دفعہ بھی کسی نگاہ ناز سے گھائل ہونے اور کسی کی زلف گرہ گیر کا اسیر ہونے کے لئے تیار رہیں۔ مگر اس عمر میں وہ رشتہ تلاش کرنے والی آنٹیوں اور میرج بیوروز پر اعتبار کے لئے تیار نہیں۔ پھر یہ بھی ہے کہ اس سب کے بعد بھی سچا پیار نہ ملا تو وہ کدھر جائیں گے؟ مغل صغیر کی اس ذاتی ٹریجڈی کا سن کر کابینہ کا ماحول پھر سوگوار ہو گیا اور اجلاس نے سچی محبت کے بے نام متلاشیوں اور شورش دل کی آزمائشوں میں مبتلا پریم جوگیوں کے لئے ایک منٹ کی خاموشی اختیار کی۔

اس کے بعد اگلے ایجنڈا آئٹم کے تحت وفاقی وزیر کھیل سردار نونہال سنگھ اور وزیر سائنس و ٹیکنالوجی مرزا فرخ سیر نے اجلاس کو ملکی تاریخ کی سب سے بڑی خوشخبری سنائی۔ انہوں نے بتایا کہ مملکت خداداد کے آلائش جواء سے متنفر کھلاڑیوں اور کہنہ مشق سائنسدانوں نے اپنی فوق الا دراک صلاحیتوں کو بروئے کار لا کر سائفر نامی ایک غیر ملکی کھلونے سے نت نئے کھیلوں کو ایجاد کیا ہے۔ جس پر پوری قوم کو اپنے ان ہونہار سپوتوں پر فخر ہے۔ اب ضرورت ہے کہ بیرون ملک سے اعلی کوالٹی کے لیک نہ ہونے والے سائفر امپورٹ کر کے سکولوں اور کالجوں میں تقسیم کیے جائیں تاکہ ملک کا بچہ بچہ سائفر کھیلوں میں مہارت پیدا کر سکے۔

کابینہ کے استفسار پر سردار نونہال سنگھ نے نمونے کا ایک سائفر اپنی جیب سے نکال کر ہوا میں اچھالا اور پھر منہ کھول کے اسے اپنے دانتوں سے کیچ کر کے دکھایا۔ اس موقع پر وفاقی وزیر توانائی آصف جاہ خود پر قابو نہ رکھ سکے اور بے اختیار بول اٹھے ”یہ کیا کھیل ہے؟ یہ کیا بے ہودگی ہے؟ ہاؤ از ڈیٹ؟ کوئی شرم ہوتی ہے، کوئی حیا ہوتی ہے؟“ تاہم کھیل کے اس دلکش مظاہرے نے کابینہ ممبران کے دل موہ لئے اور انہوں نے آصف جاہ کے اعتراض کے باوجود وزیر کھیل کی تجویز منظور کر لی۔ اتفاق رائے سے یہ فیصلہ بھی کیا گیا کہ سائفر کے کھیلوں کو اولمپکس اور ورلڈ کپ کے لیول پر بین الاقوامی سطح پر متعارف کروایا جائے۔

اجلاس نے اس ضمن میں انٹرنیشنل اولمپکس کمیٹی کے منفی رویے اور مختلف کھیلوں میں سلطنت مغلیہ کی کامیابیوں کو نظر انداز کرنے پر پر سخت تنقید کی۔ اجلاس نے نوٹ کیا کہ گزشتہ اولمپکس میں مغلیہ ریسلنگ ٹیم کا ہڈی پسلی تڑوائے بغیر اور تیراکی ٹیم کا ڈوبے بغیر واپس آجانا ایسی کامیابیاں ضرور تھیں جنہیں مقامی اور انٹرنیشنل سطح پر خاطر خواہ اہمیت ملنا چاہیے تھی۔ مگر اس کا ذکر نہ تو کسی فہرست نتائج میں کیا گیا اور نہ کسی میڈیا آؤٹ لیٹ کو اس کی ہوا لگنے دی گئی۔ اجلاس نے سلطنت مغلیہ سے اس امتیازی سلوک پر انٹرنیشنل اولمپکس کمیٹی کو تنبیہ جاری کی اور کمیٹی کو بتایا کہ وہ سطوت شاہی کا ادب ملحوظ رکھتے ہوئے اپنا رویہ درست کرے۔ ورنہ جو قوم اپنا نیوکلیر بنا سکتی ہے وہ اپنا اولمپکس بھی خود بنا سکتی ہے۔

اجلاس کے آخر میں وزیر دفاع سردار بھوپ سنگھ اور وزیر داخلہ رانا پر تاب سنگھ کی مشترکہ تحریک پر مغلیہ حکومت کے ہر دلعزیز سپہ سالار جناب امیر حمزہ کو سلطنت عربیہ کے دوست حکمران شیخ قاتل بن مقتول بن ظالم بن مظلوم کی طرف سے خلعت فاخرہ، ست ہزاری کا خطاب اور طلائی میڈل ملنے پر بصد احترام مبارکباد پیش کی گئی۔ اجلاس نے اس ضمن میں سابقہ مغلیہ حکمران طغرل ثانی کو عاقبت نا اندیش قرار دیتے ہوئے اس کے لایعنی احتجاج کو سختی سے مسترد کر دیا۔

واضح رہے کہ طغرل ثانی نے شکایت کی تھی کہ چونکہ شیخ قاتل کے دورہ سلطنت مغلیہ کے دوران شیخ کی گاڑیاں ڈرائیور بن بن کے وہ چلاتے رہے ہیں۔ اس لئے تعریفی سند اور میڈل بھی ان کو ہی ملنا چاہیے تھا۔ اجلاس نے اس ضمن میں دوست عرب حکومت کے اس بیان کو سراہا جس میں انہوں نے لعنت اللہ علی الکذبین کے بعد کہا تھا کہ طغرل ثانی کو میڈل اس لئے نہیں دیا گیا تھا کیونکہ سلطنت عربیہ کے بچے بچے کو پتا تھا کہ طغرل نے میڈل لے کر پاس نہیں رکھنا تھا بلکہ عادت سے مجبور ہو کر بیچ دینا تھا۔

اجلاس ختم ہواء تو سلطان عقاب الدین سحر خیز گل پاشی اور مساج کے بعد شاہی خوابگاہ میں استراحت کے لئے چلے گئے اور مصلے پر بیٹھ کر آہ و زاری کرتے سنے گئے۔ انہوں نے نالۂ نیم شب کے دوران شکستہ آواز میں ذات باری تعالی سے التجاء کی کہ وہ مغل کبیر کی صحت یابی کے لئے کی جانے والی جے ٹی جمی اور دوسرے مولویوں کی دعاؤں کو کینسل کر دیں۔ اور مغل کبیر کا قیام تا حیات لندن میں بڑھا دیں۔ انہوں نے دعا میں کہا کہ اگر مغل کبیر نے واقعی صحت یاب ہو کر واپس قدم رنجا فرما دیا تو تاریخ اپنے آپ کو دہرانے پر مجبور ہو جائے گی۔ اور انہیں مغل کبیر کے ساتھ وہی سلوک کرنا پڑے گا جو سلطنت مغلیہ میں بھائی بھائیوں کے ساتھ یا بیٹے باپوں کے ساتھ کرتے آئے ہیں۔ آخر بھائی یہ تخت اور تختے کا مسئلہ ٔ ہے باپو جی کی چھوڑی ہوئی ریوڑیاں تو نہیں؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments