کیا پاکستان میں جمہوریت کا خواب ایک سراب ہی رہے گا؟


پاکستان میں جمہوریت ایک خواب تھی اور وہ خواب لیاقت علی خان کے قتل کے ساتھ ہی، قاتلوں نے اپنی طرف سے ابدی نیند سلا دیا۔ سیاسی جماعتوں کی جگہ، سیاسی جماعتوں کے بھیس میں گروپوں کی تشکیل کا عمل شروع کر دیا گیا۔ پاکستان پہ مسلط اسی غاصبانہ حاکمیت کے ہائبرڈ نظام نے پاکستان کو یوں اپنے چنگل میں لیا ہوا ہے کہ جس سے نجات کی کوئی راہ، کوئی کوشش نظر نہیں آتی، تاہم اب بھی پاکستان میں جمہوریت کا قیام محب وطن شہریوں کا خواب ضرور ہے جو پاکستان کو ایک خود مختار اور مضبوط و مستحکم ملک کے شہری کے طور پر دیکھنے کے خواہاں ہیں اور اس کے لئے اپنی کوششوں کا سفر جاری رکھے ہوئے ہیں۔

آمرانہ طرز کی اسی حاکمیت کے نظام میں سیاسی جماعتوں کی جگہ، سیاسی جماعتوں کے نام پر شخصی، خاندانی، علاقائی اور فرقہ واریت کی بنیادوں پر مختلف گروپ قائم ہیں اور ناجائز طور پر خود کو سیاسی جماعت قرار دینے کے دعویدار ہیں۔ ملک میں جنرل پرویز مشرف کی طویل حاکمیت کے دور کے بعد ، ملک میں جمہوریت کے قیام کی راہ ہموار ہوتے دیکھ کر ، پاکستان میں حاکمیت کے پرانے نظام کو مضبوط بنانے کے لئے ایک بار پھر باقاعدہ منصوبہ بندی سے ایک سازش کا آغاز کیا گیا۔ عمران خان اور چند دوسرے افراد اس سازش میں آلہ کار بننے پر رضامند ہوئے۔ غاصبانہ حاکمیت کی ’کمانڈ‘ نے پارلیمنٹ، انتظامیہ اور عدلیہ پر اپنی لگامیں سخت کیں اور جمہوریت کے قیام کی راہ مسدود کرتے ہوئے ڈھونگ الیکشن کے ذریعے عمران خان کو الیکشن جتوا کر اس کی حکومت قائم کرائی گئی۔

عمران خان کی اس حکومت نے پاکستان کو اس تیزی سے کمزوری اور ناتوانی کا شکار کیا کہ یوں معلوم ہونے لگا کہ عمران خان کی صورت قائم کر دہ نظام اسی لئے لایا گیا ہے تا کہ پاکستان کو کمزور سے کمزور تر کر دیا جائے۔ اسی صورتحال میں اپوزیشن جماعتوں کا اتحاد پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ ’پی ڈی ایم‘ کا قیام عمل میں آیا اور پاکستان کے مظلوم، بے بس اور عاجز عوام کے جمہوریت کے پرانے خواب کو پھر سے قائم کر دیا گیا۔ عوام ملک میں جمہوریت کے خواب کو حقیقت میں تبدیل ہونے کی امید میں مبتلا ہوئے کہ پہلی بار ملک پہ مسلط غاصبانہ حاکمیت کے ہائبرڈ نظام کو نام لے کر للکارا گیا۔ عوام پھر یہ خواب دیکھنے لگے کہ ملک میں ان کے ووٹ کو عزت ملے گی، پارلیمنٹ کو بالا دستی حاصل ہوگی۔

دوسری طرف ملک میں غاصبانہ حاکمیت کے ہائبرڈ نظام کو مضبوط سے مضبوط تر کرنے والوں کی طرف سے عمران خان کے ذریعے ہی آمرانہ طرز حکومت کو مضبوط تر کرنے کے اقدامات بھی شروع ہو گئے۔ سب سے پہلے میڈیا کی لگامیں کسی گئیں، پرنٹ و الیکٹرانک میڈیا کے بعد دور جدید کے کارگر آرگن سوشل میڈیا کو بھی زیر عتاب لانے کی قانون سازی روبہ عمل آنے لگی اور اسی صورتحال میں ملک میں اسلام کی آڑ میں صدارتی نظام حکومت قائم کرنے کی لابنگ شروع کر دی گئی۔

پھر وہ ہوا جسے جمہوریت کے قیام کے داعیوں نے مقصد کے حصول میں ایک پیش رفت کے طور پر دیکھا، لیکن بتدریج یہ صورتحال سامنے آنے لگی کہ ملک میں جمہوریت کے قیام میں پیش رفت ایک خواب ہے اور خواب ہی رہے گی۔ حکومت کی تبدیلی کا عمل تو شاید ہائبرڈ نظام کا ”پلان بی“ ہے۔ عمران خان کی حکومت کو عدم اعتماد کے ذریعے ہٹائے جانے اور ’پی ڈی ایم‘ حکومت کے قیام کے بعد صورتحال پیدا ہو گئی کہ ملک پہ مسلط غاصبانہ حاکمیت کے ہائبرڈ نظام کو ملک کے لئے ایک ناگزیر ضرورت ہونا ثابت کیا جانے لگا۔ حکومت ہی نہیں اپوزیشن بھی بالا تر حاکمیت سے درخواست گو بن کر رہ گئے کہ ”ہم آپ کے اچھے منیجر بن سکتے ہیں“ ۔ یوں محسوس ہوتا ہے کہ ”پی ڈی ایم“ نے عوام کو جمہوریت کا جو خواب دکھانے کی کوشش کی تھی، وہ ایک سراب ثابت ہو رہا ہے۔

انہی دنوں ہندوستان کی خالق سیاسی جماعت کانگریس کے صدارتی الیکشن شروع ہوئے جس میں کانگریس کے آئین کے مطابق نئے صدر کے انتخاب کے لئے ووٹنگ کا عمل شروع ہوا۔ اس سے مجھے خیال آیا کہ پاکستان کی تینوں بڑی سیاسی جماعتوں، پاکستان مسلم لیگ ن، پاکستان پیپلز پارٹی اور پاکستان تحریک انصاف کی جماعتوں کے آئین کا مطالعہ کیا جائے۔ تینوں جماعتوں کی ویب سائٹ دیکھنے سے معلوم ہوا کہ مسلم لیگ نون کی پارٹی ویب سائٹ پہ پارٹی کا منشور، عزم تو موجود ہے لیکن آئین ویب سائٹ پہ موجود نہیں ہے۔

پیپلز پارٹی کا آئین دیکھا، تحریک انصاف کے آئین کا جائزہ لیا تو ایک تلخ حقیقت سامنے آئی کہ ان سیاسی جماعتوں نے الیکشن کمیشن میں رجسٹریشن کے لئے آئین کی کاپی جمع کرانے کی غرض سے ہی اپنے اپنے آئین تشکیل دیے ہیں۔ یہ آئین ایسے نہیں ہیں کہ جن سے ایک سیاسی جماعت کو چلانے کے قواعد و ضوابط موجود ہوں۔ ان سیاسی جماعتوں کے آئین میں، اہم ترین عہدے پارٹی سربراہ، صدر کے انتخاب سمیت کئی اہم امور میں رولز کی پیروی کی بات کی گئی لیکن وہ رولز آئین میں شامل ہی نہیں ہیں۔ تاہم آئین میں یہ ضرور لکھا گیا ہے کہ یہ رولز پارٹی انتظامیہ ضرورت کے مطابق تشکیل دے گی۔ یعنی رولز کی تیاری اور ترمیم کو بھی ایک باقاعدہ آئینی و قانونی طریقہ کار کے بجائے صوابدیدی اختیار بنا دیا گیا ہے۔

یہ صورتحال اس وقت زیادہ تکلیف دی ہو جاتی ہے کہ جب ہندوستان کی سیاسی جماعت کانگریس کے آئین کا مطالعہ کیا جائے، برطانیہ کی حکمران جماعت کنزرویٹیو پارٹی کے آئین کو پڑھا جائے جس میں آئین کے تمام لوازمات، شرائط کی سختی سے پیروی نظر آتی ہے، برطانوی اپوزیشن پارٹی لیبر پارٹی کا آئین دیکھا جائے۔ یوں پاکستان کی تینوں بڑی سیاسی جماعتیں، سیاسی جماعت کے پردے میں گروپ کی شکل میں نظر آتی ہیں جہاں پارٹی معاملات قواعد و ضوابط کے بجائے صوابدیدی اختیار ات کے طور پر چلائے جاتے ہیں۔

یوں مختصر طور پر یہ کہا جا سکتا ہے کہ پاکستان کی سیاسی جماعتیں ملک میں ”ووٹ کو عزت دو “ ، ملک کی پالیسیاں بنانے، چلانے، نظام حکومت میں پارلیمنٹ کی بالادستی کے لئے ایسے لوازمات، ایسی بنیادی شرائط سے ہی محروم رکھی گئی ہیں کہ جو سیاسی جماعت میں شہریوں کی شرکت کو یوں ممکن دکھاتی ہیں کہ ہر شہری خود کو ملک کا حکمران تصور کرتا ہے۔ آگاہی کے اس دور میں اب غاصبانہ حاکمیت مسلط کرنے والے ہی نہیں بلکہ سیاسی جماعتیں اور سیاسی شخصیات کی بھی کوئی بات مخفی نہیں رہ سکتی۔ انٹرنیٹ، سوشل میڈیا کے عالمی نظام نے شہری حقوق کو شہری حقوق کے ساتھ ملکی اختیارات کے حوالے سے بھی وہ علم اور شعور عطا کر دیا ہے کہ جس سے غلام اور رعایا کے طرز برتاؤ کے شکار عوام کو مجبور اور بے بس رکھنا دن بدن مشکل سے مشکل تر ہی نہیں ہو چلا بلکہ

ناممکن بھی ہو جائے گا۔ پاکستان کے ہر شہری کو انڈین کانگریس، برطانوی سیاسی جماعت کنزرویٹیو پارٹی و لیبر پارٹی کے پارٹی آئین کا بغور مطالعہ کرنا چاہیے تا کہ وہ ان کا اپنی سیاسی جماعتوں کے آئین سے موازنہ کرتے ہوئے اپنی حیثیت کا اور کردار کا تعین کر سکیں۔

انڈین کانگریس کے آئین کا ویب لنک

https://cdn.inc.in/constitutions/inc_constitution_files/000/000/001/original/Congress-Constitution.pdf?1505640610

برطانوی حکمران جماعت کنزرویٹیو پارٹی کے آئین کا ویب لنک

Click to access Conservative%20Party%20Constitution%20%20as%20amended%20January%202021.pdf

برطانوی اپوزیشن جماعت لیبر پارٹی کا آئین
https://link.springer.com/content/pdf/bbm:978-1-349-00256-6/1.pdf


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments