فائنل کال ضروری کیوں


یہ اس کی فائنل کال تھی، اس کے پاس وقت نہیں تھا، ملک کا وزیر خزانہ بدل چکا تھا، ڈالر کو صرف بریک ہی نہیں بلکہ وہ الٹا نیچے آنا شروع ہو گیا تھا، ملکی معیشت بہتری کی جانب گامزن ہونے کا راستہ واضح ہو چلا تھا، ڈیزل پٹرول اور گیس کی قیمتیں کم ہونا شروع ہو گئی تھیں، ملک عالمی تنہائی سے نکل رہا تھا، وہ تمام عالمی رہنما جنھوں نے پاکستان سے بات کرنی چھوڑ دی تھی وہ قریب ہو چلے تھے، جن کی فون کال کے لیے ”کپسیحا“ نے بڑی کوششیں کی تھیں لیکن اس نے اسے منہ نہیں لگایا تھا وہی اب ”چاچو“ کے ساتھ ہنس ہنس کر تصویریں تصویریں بنوا رہے تھے، اگرچہ یہ نشانیاں ملک و قوم کے لیے بہتر تھیں لیکن ”کپسیحا“ اور اس کے ”ہاں واری“ بڑے پریشان تھے کیونکہ وہ دیکھ رہے تھے کہ اگر حالات اسی نہج پر جاری رہے تو ان کی اڑائی کی دھول اور گرد و غبار بیٹھ جائے گا، قوم کی آنکھیں کھل جائیں گی، ممکن ہے کہ اس کے ”ہاں واری“ بھی دھول چھٹنے کے بعد منظر کو اچھی طرح دیکھ سکیں، یہ سوچ سوچ کر اسے ہول اٹھ رہے تھے، وہ بس یہی چاہتا تھا کہ منظر واضح ہونے سے پہلے فائنل کال ہو جائے، اس کے ”ہاں واری“ کٹ مریں لیکن ”فساد فی سبیل اللہ“ کے شہید یا غازی بن کر اسے سنگھاسن پر بٹھا دیں، اسے ہر قیمت پر تخت چاہیے تھا، بھلے پورا ملک تاخت ہو جاتا یا تختہ۔

یہ اس کی فائنل کال تھی، اس کے پاس وقت نہیں تھا، سابق کی بیٹی رہا ہو چکی تھی، وہ بڑے دھڑلے سے اسے اور اس کے باپ کو کرپٹ کہتا تھا، فیصلہ دینے والا قاضی بھی اللہ کے گھر میں سابق کے بیٹوں کے سامنے معافیاں مانگ چکا تھا کہ وہ مجبور تھا، اسے فیصلہ دینے کی بجائے فیصلہ لینا پڑا تھا، عوام بھی دیے گئے فیصلوں کو مشکوک سمجھنے لگے تھے، چار سال میں آٹے دال کا بھاؤ معلوم ہوا تو عوام کو یہ سمجھ بھی آ گئی تھی کہ کرپٹ اور اہل کون تھا، اوپر سے بڑے بڑے سکینڈل آئے جنھوں نے دیانت کا رہا سہا بھرم بھی چھومنتر کر دیا تھا، ان حالات میں اس کی پیری کو خطرہ تھا، تصنع کی قلعی کو حقیقت کی دھوپ لمحہ بہ لمحہ اڑائے جا رہی تھی، لہذا وہ فائنل کال دینا چاہتا تھا، سابق کی بیٹی لندن اپنے باپ کے پاس جا چکی تھی، وہاں ایک دھواں دار قسم کی پریس کانفرنس ہو چکی تھی، اس کی واپسی کے اشارے مل رہے تھے، وقت کا پہیا الٹا چلنا شروع ہو گیا تھا، سوشل میڈیا سے گندگی کی صفائی کا کام بھی شروع ہو چکا تھا، عوام کو معلوم ہو گیا کہ فرضی ”ابسولوٹلی ناٹ“ کے مقابلے میں تاریخ نے ایک اصلی ”ابسولوٹلی ناٹ“ بھی دیکھا تھا جب ایٹمی دھماکے نہ کرنے کے عوض ایک خطیر رقم کی پیشکش وڈے تھانیدار کی طرف سے کی گئی تھی، جب ”کپسیحا“ اور اس کے ”ہاں واریوں“ کو معلوم ہوا تو انھوں نے بھد اڑائی کہ ”اب ابسولوٹلی ناٹ ساشے پیک میں بھی دستیاب ہے“ ، ابھی اس بھد نے اڑنا شروع ہی کیا تھا کہ ایک منجھے ہوئے شکاری نے ”پاکستان کے ایٹمی دھماکے کپسیحا نے کیے تھے“ کا جال پھینکا اور اڑتے پنچھی کو شکار کر لیا، وہ پریشان تھا کہ تاریخ بدلی نہیں جا سکتی تھی، اس نے تو عوام کو بتایا تھا کہ وہ فٹنس کا شاہ کار ہے لیکن اب وہ ڈر رہا تھا کیونکہ عوام نے دیکھ لیا تھا کہ بیساکھیوں کے باوجود وہ ملک نہ چلا سکا تھا بلکہ ملک کیا چلاتا بیساکھیاں ہٹیں تو وہ تو خود ایک قدم نہ چل پایا تھا، نقاب ہٹ رہے تھے اور وہ بڑا پریشان تھا، لہذا وہ فائنل کال کے موڈ میں تھا لیکن پریشانی یہ تھی کہ مونچھوں والا بابا بھی یہی کہہ رہا تھا کہ اب کہ ہم واقعی اس کو ”فائنل“ کر دیں گے۔

وہ فائنل کال دینا چاہتا تھا، اس کے پاس وقت نہیں تھا، سب سے بڑی پریشانی یہی تھی کہ سابق وطن واپس آ گیا تو اس کا کیا بنے گا، اڑان بھرنے کو تیار بہت سے پنچھی واپس پلٹ سکتے تھے، وہ تو اکیلا کھیلتا تھا، باؤلنگ، بیٹنگ، فیلڈنگ، کمنٹری، ایمپائرنگ اور تماشائی کا کردار بھی خود ادا کرنے کا عادی تھا، اگر سابق واپس آ جاتا تو میدان کا نقشہ بدل جانا تھا، اس کے آنے سے پہلے بہتر ہوتی معیشت تابوت میں آخری کیل ثابت ہو سکتی تھی، لہذا وہ اسے کسی بھی قیمت پر روکنا چاہتا تھا لیکن اسے روکنا اس کے بس میں نہیں تھا، ہاں وہ یہ کر سکتا تھا اور یہی کرنے چلے تھا کہ فائنل کال کے وہ ہڑبونگ مچائے کہ ملک میں دوبارہ بے یقینی جنم لے، ڈالر دوبارہ اڑنا شروع کر دے، مہنگائی بھی دوبارہ تیزی سے غریبوں کو کچلنا شروع کر دے، اگر یہ چیزیں ہو جاتیں تو سابق کے واپس آنے سے پڑنے والا فرق خاصا کم ہو سکتا تھا، اس کے اپنے زیر اقتدار صوبے میں ملازمین کی تنخواہوں کے پیسے نہیں تھے، سترہ کلو میٹر کے وزیراعظم نے پیسے دے کر صوبے کو عوامی دیوالیہ ہونے سے بچایا تھا، اس کا امیج خراب ہوتا جا رہا تھا جسے کسی بھی قیمت پر بہتر بنانا تھا، اسے کچھ غرض نہیں تھی کہ سندھ، کے پی کے اور بلوچستان میں سیلاب کے ماروں کا کیا حال ہے، اسے بس فائنل کال دینا تھی لیکن وہ بھول چکا تھا کہ اس فائنل کے بعد سپر اور ہو گا اور نہ ہی کوئی چانس، 2018 والا سپورٹنگ گراؤنڈ ہو گا، نہ ہی وہ گھر کے ایمپائر اور نہ وہی وہ ڈھیٹ ریفری، وہ فائنل کال دے رہا تھا جبکہ میں بیٹھا سوچ رہا تھا کہ کہیں ایسا تو نہیں کہ یہ اس کی ”فائنل کال“ نہ ہو بلکہ اس کی ”کال کا فائنل“ ہو، دی اینڈ۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments