‘مولا جٹ’ اور ‘دی لیجنڈ آف مولا جٹ ‘ میں کیا فرق ہے؟


پاکستان، امریکہ، انگلینڈ، کینیڈا اور آسٹریلیا سمیت دنیا کے کئی ملکوں  میں فلم کو ریلیزکے لیے پیش کردیا گیا ہے۔

 

دی لیجنڈ آف مولا جٹ: اس کہانی کے اپنے ہی ’مولاجٹ ‘ اور ’نوری نت‘ ہیں

(عمیر علوی) کراچی — طویل ترین انتظار کے بعد بلال لاشاری کی فلم ‘دی لیجنڈ آف مولا جٹ’ پاکستان سمیت دنیا بھر کے سنیما گھروں میں ریلیز کر دی گئی ہے اور ہر سو سوشل میڈیا پر اس کے چرچے ہیں۔

ایک اندازے کے مطابق ‘دی لیجنڈ آف مولا جٹ’ پاکستان کی تاریخ کی سب سے مہنگی فلم ہے جس کا بجٹ لگ بھگ 40 کروڑ روپے ہے۔ سن 2018 میں اس کا پہلا ٹریلر جاری کیا گیا تھا لیکن اس کی پروڈکشن کبھی قانونی چارہ جوئی تو کبھی اداکاروں کی عدم دستیابی کی وجہ سے تاخیر کا شکار ہوگئی تھی۔

فلم کے ٹریلر اور پھر رواں برس اس کی ریلیز کے اعلان کے بعد مبصرین توقع ظاہر کررہے تھے کہ ’دی لیجنڈ آف مولا جٹ‘ پاکستان کی فلمی صںعت کے لیے ’گیم چینجر‘ اور ایک ’بڑی بلاک بسٹر‘ ثابت ہوسکتی ہے۔

پاکستان، امریکہ، انگلینڈ، کینیڈا اور آسٹریلیا سمیت دنیا کے کئی ملکوں میں فلم کو ریلیزکے لیے پیش کردیا گیا ہے اور اطلاعات کے مطابق یورپی ملک ناروے کےسب سے بڑے سنیما اور امریکہ کے دارالحکومت واشنگٹن ڈی سی میں ‘دی لیجنڈ آف مولا جٹ’ کا پہلا شو ہاؤس فل گیا ہے۔لیکن پاکستان کی تین بڑی سنیما کمپنیوں نیوپلیکس، سینے پیکس اور سینے اسٹار نے ‘دی لیجنڈ آف مولا جٹ’ کی ایڈوانس بکنگ شروع نہیں کی اور نہ ہی اسے 14 اکتوبر کو شیڈول میں شامل کیا ہے۔

ذرائع کے مطابق فلم کے ڈسٹریبیوٹر ندیم مانڈوی والا سے ان تینوں سنیما چینز کے عہدے داروں کے مذاکرات جاری ہیں۔ سنیما مینجمنٹ کا کہنا ہے کہ انہیں فلم کے ٹکٹ کی قیمت بڑھانے سمیت پروڈیوسرز کے کئی مطالبات پر تحفظات ہیں جس کی وجہ سے فلم کو نمائش کے لیے پیش نہیں کیا گیا۔

فلم ،شائقین کی کتنی پزیرائی حاصل کرتی ہے ؟ آںے والے دنوں میں یہ تو واضح ہوجائے گا تاہم اس کی ریلیز کے ساتھ ہی یہ معمہ تو حل ہوگیا ہے کہ ‘دی لیجنڈ آف مولا جٹ’ نہ تو 1979 میں بننے والی ‘مولاجٹ’ کا ری میک ہے اور نہ ہی یہ پرانی فلم کا سیکوئل ہے۔ بلکہ اسے ‘ری بوٹ’ کہا جارہا ہے جس میں کردار تو کم و بیش وہی ہیں لیکن ان کی کہانی پچھلی فلم سے الگ ہے۔

‘مولا جٹ’ اور ‘دی لیجنڈ آف مولا جٹ ‘ میں کیا فرق ہے؟

’مولا جٹ‘ میں یہ واضح تھا کہ کہانی کے کردار پاکستانی پنجاب سے تعلق رکھتے ہیں اور اس میں کم و بیش اسی دور کی عکاسی بھی کی گئی تھی جس میں پولیس اور ہسپتال وغیرہ کے مناظر سے کہانی کے مقام اور دور کا اندازہ بہ آسانی ہوجاتا ہے۔

لیکن ’دی لیجنڈ آف مولاجٹ‘ ایک افسانوی دنیا یا فنتاسی کی صورت میں پیش کی گئی ہےجس میں اس کہانی کے ٹھیک ٹھیک دور کا اندازہ نہیں لگایا جاسکتا اور فلم میں چوں کہ کوٹ مٹھن کا ذکر آیا ہے جس سے یہ اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ یہ کہانی پنجاب کی ہے۔

کہانی کا مرکزی کردار مولا جٹ (فواد خان) ہے جو اپنے علاقے کا ناقابل شکست پہلوان ہے۔ لیکن جب وہ گاؤں کے لوگوں کی عزت بچانے کے لیے مخالف قبیلے ‘نت’ کے سردار جیوا (شفقت چیمہ) کے خلاف اٹھ کھڑا ہوتا ہے تو اسے یہ اندازہ نہیں ہوتا کہ نفرت کی یہ آگ کتنے گھروں کو اپنی لپیٹ میں لے گی۔

فلم میں ‘مولا جٹ’ کا مقابلہ کبھی ‘نوری نت’ (حمزہ علی عباسی) سے ہوتا ہے تو کبھی اس کے چھوٹے بھائی ‘ماکھا’ (گوہر رشید) سے یا ان کی اکلوتی بہن ‘دارو’ (حمائمہ ملک) بھی اس کے مقابل آتی ہے۔

مولا جٹ کی کی بچپن کی دوست ‘مکھو’ (ماہرہ خان) اس سے ٹوٹ کر محبت کرتی ہے جب کہ مولا کا منہ بولا بھائی مودا (فارس شفیع) ہر وقت اس کے ساتھ سائے کی طرح رہتا ہے۔مولا جٹ کے والدین کے مرنے کے بعد اس کی پرورش مودا کی ماں (راحیلہ آغا) کرتی ہے جو اپنے سگے بیٹے سے زیادہ مولا کو اس لیے پیار کرتی ہے تاکہ اسے بچپن میں ہونے والا وہ سانحہ دوبارہ نہ یاد آجائے جس نے اس کی زندگی کا رُخ موڑ دیا تھا۔

کہانی میں اس وقت ڈرامائی موڑ آتا ہے جب مولا کو اپنے والد کا گنڈاسا دیکھ کر ان پر بیتے واقعات کا پتا چل جاتا ہے۔ ماضی کے صدمے یاد آتے ہی مولا جٹ کے سر پر خون سوار ہوجاتا ہے جسے روکنے کے لیے نوری نت کو اس جیل سے باہر آنا پڑتا ہے جہاں اس نے خود کو اس لیے قید کیا ہوا ہوتا ہے تاکہ طاقت ور قیدیوں کو شکست دے کر اپنی برتری ثابت کرسکے۔

بلال لاشاری کی ہدایت کاری میں بننے والے فلم میں فواد خان اور حمزہ علی عباسی نے ‘مولا جٹ’ اور ‘نوری نت’ کے کردار ادا کیے ہیں جنہیں ‘مولا جٹ’ میں سلطان راہی اور مصطفیٰ قریشی نے اپنی اداکاری سے امر کردیا تھا۔

ان کرداروں کے ساتھ بننے والی ان دونوں پنجابی فلموں میں اگر کوئی بات مشترک ہے تو وہ یہ دونوں کے مکالمے اور اسکرپٹ ناصر ادیب نے لکھے ہیں۔ اس کے علاوہ دونوں فلموں کی کہانی اور کرداروں کا انجام ایک دوسرے سے بالکل مختلف ہیں۔

ہدایت کار بلال لاشاری کی فلم میں کہانی کا رخ مولا جٹ کے ساتھ بچپن میں پیش آنے والے ایسے واقعات مرتب کرتے ہیں جنہوں نے اس کی زندگی بدل ڈالی تھی۔ جب کہ پرانی فلم میں مولا جٹ ایک ایسا کردار ہے جو رعب دبدبہ تو رکھتا ہے لیکن اپنا ماضی چھوڑ چکا ہے۔

ماکھا نت کی ایک لڑکی پر دست درازی مولا جٹ کو نتوں کے مقابل لا کھڑی کرتی ہے اور پھر یہی تنازع جب شدت اختیار کرتا ہے تو حالات اسے گنڈاسا اٹھانے پر مجبور کردیتے ہیں۔ اس کے مقابلے میں ’دی لیجنڈ آف مولا جٹ‘ کی کہانی کی اٹھان اور اس کے اسباب بالکل مختلف ہیں۔ لیکن فلم کے اسکرپٹ اور مکالموں نے دو الگ الگ سچویشنز سے ایسے طاقتور کردار تراشے ہیں جو ایک دوسرے سے مماثلت کے باوجود ایک دوسرے سے مختلف ہیں۔

دونوں فلموں کے الگ الگ ’مولا‘ اور ’نوری‘

کسی کہانی یا فلم کا ایسا کردار جو اسے ادا کرنے والے فن کار ہی پر حاوی ہوجائے اور اس کی پہنچان بن جائے تو اس میں کسی اور اداکار کو دکھانا ایک بڑا رسک تصور ہوتا ہے۔ مولا جٹ اور نوری نت کے کردار سلطان راہی اور مصطفیٰ قریشی جیسے لیجنڈ فنکاروں کی شناخت ہیں اور فلم بینوں کو ان دو کرداروں میں یہی دو چہرے نظر آتے ہیں۔ اس لیے ان جمے جمائے کرداروں میں نئے چہرے دکھانا ’ دی لیجنڈ آف مولا جٹ‘ کے ہدایت کار اور اداکاروں کے لیے ایک بڑا چیلنج تھا جسےوہ نبھانے میں کام یاب رہے ہیں۔

فواد خان جو اپنے پورے کرئیر میں ایک رومانوی ہیرو کی شناخت رکھتے ہیں اور اپنے کے مداحوں سے پذیرائی سمیٹ چکے ہیں انہیں ایک بلند آہنگ اور لڑاکا کردار میں پیش کرنا اور فواد کا خود کو اس کردار میں ڈھالانا ہدایت کار اور ادکار دونوں ہی کی آزمائش تھی۔ پھر فواد خان15 برس بعد پاکستان کی بڑی اسکرین پر واپس آرہے تھے اس لیے یہ واپسی بھی زوردار ہونی چاہیے تھی۔

فواد خان نے خود کو سلطان راہی کے ادا کیے گئے کردار ’مولا جٹ‘ میں ڈھالنے کے بجائے اس میں اپنا رنگ بھرنے کی بڑی حد تک کامیاب کوشش کی ہے۔ انہوں نے اس فلم کے لیے اپنا 20 کلو وزن بڑھایا اور پنجابی بھی سیکھی۔فلم میں فواد خان جس طرح اکھاڑے یا کھلے میدان میں نظر آئے اس سے قبل کسی بھی پاکستانی فلم میں ان کی اس طرح کی فائٹ دیکھنے میں نہیں آئی اور اسے پاکستانی سنیما میں ان کی طویل عرصے بعد زوردار واپسی کہا جاسکتا ہے۔

‘مولا جٹ’ میں نوری نت کا کردار ادا کرنے والے مصطفٰی قریشی کے دھیمے مگر کاٹ دار لہجے کو خوب سراہا گیا تھا۔ نوری ایک اینٹی ہیرو کردار تھا۔ یعنی ولن ہونے کے باجود کہانی میں اس کا کردار ہیرو سے کسی طرح کم نہیں تھا۔ اس لیے مصطفیٰ قریشی نے اپنے مد مقابل بلند آہنگ اور للکارنے کے انداز میں مکالمے ادا کرنے والے کردار مولا جٹ کے ساتھ اپنے کردار کی یکسانیت سے بچنے کے لیے دھیمہ لہجہ اختیار کیا تھا۔

اس ایک اور وجہ یہ بھی بتائی جاتی ہے کہ ان کا تعلق سندھ سے تھا اور انہوں نےاپنے لہجے کی چھاپ کے ساتھ پنجابی کے مکالموں کو خوبی سے نبھایا تھا۔ اس لیے مولا جٹ کے کسی بھی زوردار مکالمے کے جواب میں نوری کے دھیمے لہجے میں کہے گئے مکالمے اسے اپنے مقابل کے کردار تلے دبنے نہیں دیتے تھے۔

اس فلم میں حمزہ علی عباسی نے بھی مصطفیٰ قریشی کی طرح دھیمہ لہجہ اختیار کیا ہےجسے شائقین نے خوب پسند کیا۔ یہی نہیں انہوں نے پرانی ‘مولا جٹ’ کے کئی مکالمے نئے انداز میں پیش کیے جس میں ‘نواں آیاں ا ے سوہنیا’ قابلِ ذکر ہے۔

‘دی لیجنڈ آف مولا جٹ’ کی جان حمزہ علی عباسی کا نوری نت ہے جس نے زیادہ تر وقت جیل میں گزارا لیکن اس نے شائقین کو بور نہیں ہونے دیا اور جب جب نوری اسکرین پر آیا مداحوں کو کچھ نیا دیکھنے کو ملا۔

مصطفیٰ قریشی سے جب فلم کے پریس شو کے بعد نوری کے کردار سے متعلق سوال کیا گیا تو انہوں نے حمزہ علی عباسی کی تعریف کرتے ہوئے کہا کہ “پرانی مولا جٹ میں بھی نوری حاوی تھا اور اس فلم میں بھی نوری حاوی ہے۔”

اس کے ساتھ یہ کہنا بھی غلط نہیں ہوگا کہ جس طرح دونو ں فلموں کی کہانی مختلف ہیں اسی طرح دونوں کے لیڈ کرداروں کے نام تو مولا جٹ اور نوری نت ہیں لیکن اپنی پیش کش میں یہ مختلف کردار ہیں۔

’مکھو‘ اور ’دارو‘

ایک ایسی فلم جس کی زیادہ تر کہانی دو مردوں کے گرد گھومتی ہے اس میں ماہرہ خان نے مولا جٹ کی محبوبہ ‘مکھو’ اور حمائمہ ملک نے نوری نت کی بہن ‘دارو’ کا کردار خوبی سے نبھایا ہے۔

اس سے قبل دونوں اداکارائیں فلم ‘بول’ میں اداکاری کر چکی جس میں حمائمہ اور ماہرہ بہنیں بنی تھیں۔ لیکن ‘دی لیجنڈ آف مولا جٹ’ میں دونوں ایک فریم میں نظر نہیں آئیں۔

ماہرہ خان کی یہ پہلی پنجابی فلم ہے جس میں انہوں نے ایک ایسی لڑکی کا کردار ادا کیا ہے جو کسی سے نہیں ڈرتی، لیکن مولا کی محبت میں وہ ہر حد پار کرنے کے لیے تیار رہتی ہے۔ماہرہ کی اداکاری سے یہ کہیں ظاہر نہیں ہوا کہ وہ پنجابی زبان سے ناآشنا ہیں۔

دوسری جانب ہدایت کار نے فلم میں حمائمہ ملک کے کردار کے ذریعے ایک گلیمر کا ٹچ دیا ہے۔ 11 برس بعد کسی بڑی فلم میں کام کرنے والی حمائمہ کا کردار تو ولن کا ہے لیکن اس نے ہیرو کو ٹف ٹائم دیا ہے۔ وہ اس فلم میں نوری نت اور ماکھا نت کی بہن بنی ہیں۔

پرانی فلم میں ماکھا کا کردار چھوٹا تھا جسے اداکار ادیب نے نبھایا تھا لیکن ‘دی لیجنڈ آف مولا جٹ’ میں یہ کردار مرزا گوہر رشید نے ادا کیا ہے جس کو زیادہ وقت دیا گیا ہے۔

انہوں نے فلم میں ایک ایسے بگڑے ہوئے نوجوان کا کردار ادا کیا ہے جو اپنے بڑے بھائی سے حسد کرتا ہے جب کہ اپنی بہن کی بات نہیں سنتا۔ ‘ماکھا’ اپنے باپ کی توجہ حاصل کرنے کے لیے زور مارتا ہےلیکن اس کے باوجود بھی وہ نوری نت کی جگہ نہیں لے پاتا۔

فلم میں گلوکار فارس شفیع کی اداکاری بھی قابلِ تعریف ہے کیوں کہ ایک ایسی کہانی جس میں جٹ اور نت ایک دوسرے کے خون کے پیاسے تھے، کسی بھی اداکار کے لیے کامیڈی کرنا آسان نہیں ہوتا۔ ان کاکردار نہ صرف ہر کسی کو شعر سنانے کے لیے ہر وقت تیار رہتا ہے بلکہ جب مولا پر مصیبت آتی ہے تو اپنی جان کی بازی لگاکر اسے بچاتا بھی ہے۔

ہدایت کار بلال لاشاری نے اس فلم کے لیے سینئر اداکار نیر اعجاز، شفقت چیمہ اور علی عظمت سمیت دیگر نامور اداکاروں کو حصہ بنایا ہے جو کہانی میں فلم بینوں کی دلچسپی برقرار رکھنے میں کامیاب رہے ہیں۔

عموماً پاکستانی بالخصوص پنجابی فلموں کی شوٹنگ اسٹوڈیو میں ہوتی ہے جہاں سیٹ بناکر توڑ دیے جاتے ہیں تاہم بلال لاشاری نے اس فلم کے لیے ایک ایسا سیٹ بنایا جو ایک مکمل گاؤں کا منظر پیش کررہا تھا۔ فلم کا پروڈکشن ڈیزائن اور ویژول ایفکٹس عالمی معیار سے کم نہیں تھے۔

جس اکھاڑے میں مولا جٹ اپنے حریفوں کو زیر کرتا تھا یا جن حویلیوں میں جٹ اور نت قبیلے کے سردار رہتے تھے ان کے دیو قامت سیٹ نے کہانی میں جان ڈال دی۔

فلم میں فائٹ کوریوگرافی کے لیے بھی ہالی وڈ سے ایکشن ڈایریکٹر کی ٹیم کو پاکستان مدعو کیا گیا تھا جس نے انہیں گنڈاسے سمیت تمام ہتھیار چلانے کی مشق کرائی۔

گانوں کی کمی کو پسِ پردہ موسیقی نے کیسے پورا کیا؟

پرانی مولا جٹ کے پروڈیوسر سرور بھٹی کے مطابق انہوں نے اپنی فلم کی شوٹنگ کا آغاز میڈم نورجہاں کے گیت سے کیا تھا اور اس کے ابتدائی سیکوئنس ہی میں ایک گیت شامل ہے لیکن دی لیجنڈ آف مولا جٹ نہ صرف ’مولا جٹ‘ بلکہ پاکستان اور بھارت میں بننے والی فلموں کے اس عام چلن سے اس لیے بھی مختلف ہے کہ اس میں کوئی گانا شامل نہیں۔

‘دی لیجنڈ آف مولا جٹ’ میں نہ تو کوئی گانا ہے اور نہ ہی فلم میں کوئی ایسا رومانوی سین ہے جس کی وجہ سے فلم کی کہانی کو بریک لگے۔ لیکن فلم میں سرمد غفور کی دی گئی پس پردہ موسیقی اتنی جاندرا ہے کہ وہ فلم میں اس روایتی عنصر کی کمی محسوس نہیں ہونے دیتی۔

یہاں اس ڈانس نمبر کا ذکر کرنا بھی ضروری ہے جسے کلائمکس کے قریب اداکارہ صائمہ بلوچ نے پرفارم کیا۔ انہوں نے اس فلم میں ایک ایسی لڑکی کا کردار ادا کیا جسے ‘ماکھا’ فلم کے آغاز میں زبردستی اپنے ساتھ لے جاتا ہے۔

فلم کی سب سے خاص بات اس کے مکالمے ہیں۔ فواد خان کا کردار مولا جٹ ہو یا حمزہ علی عباسی کا نوری نت ہر کسی کے حصے میں ایسے مکالمے آئے ہیں جنہیں دیکھنے کے لیے بار بار سنیما جایا جاسکتا ہے۔

یہ بات درست ہے کہ ان میں سے زیادہ تر ڈائیلاگ پنجابی زبان میں ہیں اور لوگوں کے سنے ہوئے ہیں لیکن کئی مکالموں کی سیٹنگ بدل کر انہیں ایسے انداز میں بیان کیا گیا ہےجو پنجابی نہ سمجھنے والوں کو بھی آسانی سے سمجھ آجائیں گے۔

‘گیم آف تھرونز’ اور ‘گلیڈی ایٹر’ سے مشابہت

‘دی لیجنڈ آف مولا جٹ’ کے ریلیز ہوتے ہی کئی مبصرین کا کہنا تھا کہ مولا جٹ میں خامیاں کم ہیں جب کہ کوئی اسے پاکستانی ‘گیم آف تھرونز’ قرار دے رہا ہے۔

انگریزی اخبار ‘دی گارجین’ کے لیے لکھتے ہوئے کیتھ کلارک کا کہنا تھا کہ “دی لیجنڈ آف مولال جٹ دراصل گلیڈی ایٹر اور گیم آف تھرونز کا کمبی نیشن ہے۔”

انہوں نے کہا کہ ‘دی لیجنڈر آف مولا جٹ’ دیکھ کر ہالی وڈ کی فلم ‘گلیڈی ایٹر’ اور معروف ٹی وی سیریز ‘گیم آف تھرونز’ کی یاد آتی ہے اور یہی اس فلم کا سب سے کمزور پہلو بھی ہے۔

سن 1979 میں ریلیزہونےوالی ‘مولا جٹ’ کے پروڈیوسر سرور بھٹی نے اپنے متعدد انٹرویوز میں یہ بات واضح کی ہے کہ ‘دی لیجنڈ آف مولا جٹ ‘ میں پنجابی کلچر سے زیادہ ‘باربیرین کنگڈم’ کا کلچر پیش کیا جارہا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ فلم میں کسی بھی کردار کا حلیہ پنجابی نہیں تھا بلکہ وہ تو ساؤتھ انڈین فلم ‘باہوبلی ‘ سے مماثلت رکھتا تھا اورشاید اسی وجہ سے لوگ اسے اس طرح نہ سراہیں جیسے پرانی فلم کو سراہا گیا تھا۔

کیا ‘دی لیجنڈ آف مولا جٹ’ پاکستانی فلم انڈسٹری کی ‘شعلے’ بن سکتی ہے؟

بھارت میں سن 1975 میں فلم ‘شعلے’ ریلیز ہوئی تھی جو اس وقت کے لحاظ سے بھارتی کم بلکہ امریکی فلم زیادہ لگتی تھی۔ اس فلم کے نہ صرف مکالمے اور گانے آج بھی لوگوں کو یاد ہیں بلکہ اس کے لیے ہدایت کار رمیش سپی نے ہالی وڈ سے فائٹ انسٹرکٹر بلا کر بالی وڈ کو پہلی بار بڑے لیول کے ایکشن سین دیے تھے۔

‘شعلے’ کو نئی طرز پر بننے کی وجہ سے شائقین نے آغاز میں پسند نہیں کیا اور آہستہ آہستہ فلم لوگوں کو پسند آنا شروع ہوئی۔ ‘شعلے’نے ریلیز کے پہلے مہینے کے بعد اس قدر شہرت حاصل کی کہ ماہرین بالی وڈ کو دو ادوار میں تقسیم کرنے لگے جس میں ایک دور اس فلم کے بننے سے پہلے اور ایک دور اس کی ریلیز کے بعد سے شروع ہوتا ہے۔

‘شعلے ‘ کی کامیابی کے بعد انٹرنیشنل اسٹیج پر ‘کری ویسٹرن’ کی ایک اصطلاح سامنے آئی جس میں وہ کاؤ بوائے فلمیں شامل ہوتی تھیں جو کری یعنی شوربا کھانے والے ملک میں بنی ہوں۔

‘دی لیجنڈ آف مولا جٹ’ پربھی ‘شعلے’ کی طرح مغربی تکنیک اور اندازِ پیش کش کی مماثلت جیسے سوال اٹھائے گئے ہیں۔ان سوالات کے ساتھ کیا ‘دی لیجنڈ آف مولا جٹ’ کی کامیابی سے پاکستان کی فلم انڈسری کو فائدہ ہوگا؟ کیا اس سے ملک کی اردو اور پنجابی سنیما انڈسٹری کو سہارا ملے گا؟ کیا یہ فلم بھئ اپنی کامیابی سےایک نئے دور کا آغاز کرپائے گی؟ ظاہر کے اس کا فیصلہ ہونا ابھی باقی ہے۔البتہ کوئی بھی فلم بیں یہ ضرور بتا سکتا ہے کہ سنیما میں اس فلم کو دیکھنے والے مایوس نہیں لوٹیں گے۔

وائس آف امریکہ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

وائس آف امریکہ

”ہم سب“ اور ”وائس آف امریکہ“ کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے مطابق ”وائس آف امریکہ“ کی خبریں اور مضامین ”ہم سب“ پر شائع کیے جاتے ہیں۔

voa has 3331 posts and counting.See all posts by voa

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments