اردو ادبی صحافت اور جامعات


معاشیات کا ایک قانون ہے جس سے قانون تقلیل افادہ مختتم (law of diminishing marginal utility) کہا جاتا ہے۔ اس قانون کی روسے کسی شے کے یکے بعد دیگرے استعمال سے اس شے کا مختتم افادہ گرتا چلا جاتا ہے۔ سادہ الفاظ میں یعنی اگر آپ کو بھوک لگی ہے اور سیب کھاتے ہیں تو پہلے سیب میں آپ کو مزہ یعنی افادہ بہت زیادہ حاصل ہو گا۔ آپ بہت لطف اندوز ہوں گے، مگر وہی لطف دوسرے، تیسرے اور چوتھے سیب سے آپ کو میسر نہیں ہو گا، یعنی ہر اکائی کے استعمال کے بعد دوسری اکائی کا افادہ کم ہوجاتا ہے۔

اس قانون کی خاص بات یہ ہے کہ یہ علم پر لاگو نہیں ہوتا۔ علم پر اس قانون کا بالکل اطلاق نہیں ہوتا۔ ایسا نہیں ہے کہ آپ تھوڑا علم حاصل کریں اس کے بعد آپ کا دماغ بھر جائے، نہیں بلکہ جوں جوں علم کے مدارج طے کرتے جاتے ہیں علم کی طلب بڑھتی چلی جاتی ہے اور علم کی یہ خواہش کبھی پوری نہیں ہوتی۔ معاشیات کے اس قانون کا سہارا لینے کا مقصد یہی ہے کہ علم وہ بحر بے کراں ہے جس کا کوئی کنارہ نہیں اور جو بھی ایک دفعہ اس سمندر کے قریب آتا ہے وہ اپنی پیاس بجھانے، کبھی اس سمندر سے سیراب نہیں ہوتا، جوں جوں اس سمندر کی گہرائیوں میں اترتا چلا جائے گا، اس کی پیاس اور طلب میں اضافہ ہو گا۔

پس جس طرح سمندر کی گہرائی کو ماپنے کے لیے سمندر میں اترنا پڑتا ہے اسی طرح مختلف علوم کی حقیقت جاننے کے لیے ضروری ہے کہ اس کی گہرائیوں میں اترا جائے تاکہ صحیح معنوں میں اس موضوع کے تمام پہلووٴں سے آگاہ ہو سکیں۔ راقم الحروف کی طالب علمانہ کوشش رہی ہے کہ منتخب کردہ موضوع کے متعلق کماحقہ حق ادا کرسکیں۔ اس سفر کے دوران لاکھ جتن کے بعد ہم اردو صحافت اور ادبی کالم نگاری کے تمام اسرار و رموز تک پہنچنے میں کامیاب ہوئے، لیکن یہ ہرگز دعویٰ کرنے کا حق اور اختیار نہیں کہ موضوع کا پورا پورا حق ادا کیا ہے اور درحقیقت یہ کسی ایک محقق کے بس کی بات بھی نہیں۔

اردو صحافت اور ادبی کالم نگاری میں ایک جہاں آباد ہے، جو اپنے اندر موضوعات کے اعتبار سے بے پناہ وسعت کا حامل ہے۔ جن پر ہمارے محققین کو وسیع سطح پر کام کرنے کی ضرورت ہے۔ یوں تو اردو صحافت اور اس کی مختلف اصناف پر کثیر تعداد میں کتابیں لکھی جا چکی ہیں۔ لیکن ان کتابوں کا مواد ایک دوسرے سے زیادہ مختلف نہیں۔ مقالے کے لیے مطالعے کی غرض سے جن کتابوں پر راقم کی نظر پڑی، سب میں تقریباً ایک جیسے مطالب پڑھنے کو ملے۔

اس سے ایک تو یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ آج کل ہمارے محققین تحقیق کم بلکہ تقلید اور نقل زیادہ کرتے ہیں۔ اس کی وجہ سے اردو صحافت کی تاریخ پر مبنی کوئی ایک بھی جامع کتاب پڑھنے کو نہیں ملی، جس میں اردو صحافت کی تاریخ اور اردو صحافت کے مختلف ادوار کا ذکر تاریخ کے تناظر اور دلائل کے ساتھ پیش کیا گیا ہو۔ اردو صحافت محققین کے لیے توجہ طلب اور وسیع موضوع ہے۔ جس میں بے پناہ مواقعے تحقیق کے موجود ہیں۔ اردو صحافت کی مختلف اصناف، خاص کر غیر افسانوی نثر کی شکل میں، اردو ادبی کالم نگاری اور مزاح نگاری پر بھی تحقیقی کام ہونا چاہیے۔

راقم کو دوران تحقیق جو سب سے بڑی مشکل پیش آئی وہ یہ کہ موضوع کے مطابق بہت کم کتابیں پڑھنے ملیں اور اگر پڑھنے کو ملیں تو الفاظ کی الٹ پھیر کے ساتھ تقریبا اًیک جیسے مطالب تمام کتب میں میسر تھے۔ اگر محققین اس موضوع پر تحقیق کرتے تو اس میں مزید کئی تاریخی حقائق کو اجاگر کرنے کی گنجائش ہے۔ اردو صحافت پر تحقیق اس لیے بھی ضروری ہے کہ اردو صحافت کا اردو کی ترویج اور ترقی میں کلیدی کردار رہا ہے۔ یہ اردو صحافت ہی تو ہے جس نے اردو کو فروغ دیا اور گھر گھر پہنچایا۔

اردو صحافت کی مختلف اصناف نے بشمول مجموعی اردو کو پہچان دی۔ اردو کی معروف اصناف ادبی کالم نگاری، مزاح نگاری، مکالمہ، رپورتاژ اور مضمون نگاری صحافت ہی کی ایجاد ہے۔ ادبی کالم، مضمون اور مزاح نگاری کی شکل میں اردو کے دامن میں موضوعات، مفاہیم اور بہترین تخلیقات کا خزانہ موجود ہے۔ بد قسمتی سے ان سے استفادہ نہیں کیا گیا۔ جامعات میں بھی زیادہ تر پذیرائی اور ترجیح افسانوی ادب کو دی جاتی ہے۔ اس کی ایک وجہ یہ بھی ہو سکتی ہے ہم بطور قوم حقیقت سے زیادہ افسانوں کے قائل ہیں۔

ہمارے ملک کے حکمرانوں سے لے کر ، سماجی، سیاسی چھوٹی بڑی کم و بیش تمام شخصیات بذات خود افسانوی کردار ہیں۔ جن کے قول و فعل، عمل اور کردار میں وسیع خلا حائل ہے۔ اس لیے ہماری توجہ غیر افسانوی نثر پر زیادہ مرکوز نہیں رہی۔ ادب میں غیر افسانوی نثر کی اتنی ہی اہمیت ہے جتنی افسانوی نثر کی، بلکہ اگر میں یہ لکھوں تو بے جا نہ ہو گا کہ غیر افسانوی نثر افسانوی نثر سے سماج کے لیے زیادہ فائدہ مند ہے۔ تحقیق کے اس سفر کے دوران بہت سے موضوعات کا ادراک ہوا جن پر بی ایس، ایم اے، ایم فل اور پی ایچ ڈی کی سطح پر تحقیقی کام ہونا چاہیے تاکہ ادب کے دامن میں مزید وسعت آ کر وہ بحر زخار بن سکے۔

ان موضوعات میں :
# اردو ادب اور اردو صحافت
# اردو صحافت کا اردو کے فروغ میں کردار، ابتدا سے عصر حاضر تک
# اردو صحافت کی اردو ادب کے لیے خدمات
# اردو اخبارات اور غیر افسانوی نثر
# اردو صحافت اور ادبی کالم نگاری تحقیقی و تنقیدی جائزہ
# صحافت کے مختلف ادوار
# اردو صحافت کے فروغ میں ادیبوں کا کردار
# انیس ویں صدی میں اردو صحافت اور اردو ادب
# بیس ویں صدی اردو ادبی کالم نگاری کا سنہرا دور
# اکیس ویں صدی میں اردو صحافت
# اکیس ویں صدی میں اردو ٹیلی ویژن
# اکیس ویں صدی کے اردو اخبارات اور اردو زبان
# اردو کے معروف ادبی کالم نگار اور مزاح نگار
# غیر افسانوی ادب کے فروغ میں اخبارات کا کردار
# اردو صحافتی زبان اور اردو زبان
# اردو کالم نگاری کی تاریخ
# ترقی پسند تحریک اور اردو ادبی کالم نگاری
# پاکستان کے ادبی رسائل کی تاریخ
# اردو صحافت اور نونہال
# اردو صحافت اور ادب کے درمیان حائل رکاوٹیں
# جدید کالم نگار اور ادبی کالم نگاری
# اکیس ویں صدی میں اردو مزاح نگاری
# اردو صحافت کے فروغ میں خواتین کا کردار
# اردو ادبی کالم نگاری اور خواتین کالم نگار۔
اس کے علاوہ بھی متعدد موضوعات ہیں جو تحقیق طلب ہیں۔

اردو ادب کے فروغ میں سب سے اہم کردار جامعات کا ہوتا ہے۔ یہی جامعات ہی تو ہیں جہاں شاعر اور ادیب پرورش پاتے ہیں۔ تاریخ کے اوراق پلٹنے سے معلوم ہوتا ہے کہ انیسویں اور بیسویں صدی کے تعلیمی ادارے اردو زبان و ادب کے فروغ میں پیش پیش تھے۔ اس زمانے میں تعلیمی اداروں سے طلبہ نہیں بلکہ ادیب نکلتے تھے۔ جو زمانہ طالب علمی ہی میں اعلیٰ ادب تخلیق کرتے تھے۔ ایسا لگ رہا ہے کہ تقسیم کے بعد تعلیمی اداروں نے اس فریضے کو اپنے کندھوں سے اتار پھینکا ہے۔

اگر میں آج ملکی جامعات پر نظر دوڑاؤں تو مجھے ان تعلیمی اداروں سے وابستہ نامور ادیب، لکھاری، محقق، کالم نگار، افسانہ نگار، شاعر اور نثر نگار نظر نہیں آرہے۔ ہونا تو یہ چاہیے کہ پاکستان کی بڑی جامعات میں جو لوگ تدریس سے وابستہ ہوں وہ پاکستان کے اعلیٰ اور مایہ ناز ادیب ہوں، کالم نگار ہوں، ناول نگار ہوں، افسانہ نگار ہوں۔ آج پاکستان کے بڑے اخبارات اور معروف رسائل میں جامعات کے شعبہٴ اردو کے تدریس سے وابستہ افراد کہیں نظر نہیں آرہے ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ ہم نے ادب کو بھی تقسیم کیا ہے۔ جامعات کی سطح پر پڑھایا جانے والا ادب نظریاتی ہے عملی نہیں، کیوں کہ عملی میدان میں جامعات سے منسلک اور فارغ التحصیل افراد نظر نہیں آرہے، اگر ہیں بھی تو بہت کم۔

جامعات کے طلبہ میں بھی افسانوی و غیر افسانوی نثر لکھنے کا رجحان بہت کم ہے۔ آج پاکستان میں اخبارات اور ٹی وی چینلز سے ایسے افراد وابستہ ہیں جنھیں اردو سے نہ کوئی لگاوٴ ہے اور نہ ہی اردو جانتے ہیں۔ اس کی سب سے بڑی وجہ ہماری جامعات کا کردار ہے۔ ہماری جامعات اس میدان میں اپنا کردار نہیں ادا کر رہی ہیں۔ ہونا تو یہ چاہیے کہ جامعات کی سطح پر طلبہ کو تیار کیا جائے، انھیں وقت کے تقاضوں کے مطابق تعلیم دی جائے تاکہ وہ صحافت کے میدان میں بھی قدم رکھ کر جو خلا اردو ادب اور اردو صحافت کے درمیان حائل ہے اس کو کم کرسکیں۔

اس کے لیے ضروری ہے کہ جامعات میں رائج نظام تعلیم اور نصاب میں تبدیلی کی جائے۔ اگر جامعہ کراچی شعبہٴ اردو میں رائج نصاب ہی کی بات کی جائے تو وہ وقت کے تقاضوں کے عین مطابق نہیں۔ طلبہ صرف اور صرف ادب کے اصول و ضوابط تک محدود کیا گیا ہے۔ جامعات کا نصاب زیادہ تر کلاسیکی ادب پر مشتمل ہے، جدید ادب نصاب میں کہیں کہیں برکت کے طور پر رکھا گیا ہے اور جدید ادب پڑھانے والے بھی کم ہیں۔ بہت کم پروفیسرز جدید ادب پر گہری نگاہ رکھتے ہیں۔

شعر و نثر کی تشریح عصر حاضر کے تقاضوں کے مطابق نہیں کی جاتی بلکہ میر اور غالب کے دور کے حالات کو مدنظر رکھ کر وضاحت کی جاتی ہے۔ اس سے انکار ممکن نہیں کہ ادب کے طالب علموں کے لیے ادب کی تاریخ پڑھائی جائے لیکن اس کا ہرگز مطلب یہ نہیں ہے کہ پورا نصاب ہی اسی پر مرکوز ہو۔ وقت کے تقاضوں کے مطابق نصاب میں تغیر و تبدل ضروری ہے۔ آج جدید کالم نگاری، جدید ادبی کالم نگاری، جدید اردو صحافت، اکیس ویں صدی کے اہم ادیب، ادبی کالم نگار اور شاعروں کے متعلق نصاب میں کچھ بھی پڑھنے کو نہیں ملتا۔

اس کا سب سے بڑا نقصان یہ ہوتا ہے کہ طلبہ یعنی نوجوان نسل کلاسیکی ادب سے آشنا ہوتی ہے مگر جدید ادب سے محروم۔ جس کی وجہ سے ایک وسیع خلا طلبہ اور جدید ادب کے درمیان حائل ہوجاتا ہے۔ طلبہ اٹھارہویں، انیسویں صدی کے ادیبوں کی تعلیمات سے آشنا ہوتے ہیں لیکن جب وہ جامعات سے باہر قدم رکھتے ہیں تو انھیں پڑھنے، سننے اور دیکھنے کو جدید ادب ملتا ہے۔ جامعات کی سطح ہی سے طلبہ کو افسانوی و غیر افسانوی نثر لکھنے کی ترغیب دی جائے، جو طلبہ تحقیق، تنقید اور تخلیق کار رجحان رکھتے ہیں، ان کی رہنمائی کی جائے، ان کی اصلاح کر کے انھیں نکھارا جائے۔

طلبہ کو مختلف اداروں سے منسلک رکھا جائے۔ خاص کر صحافتی اداروں سے ان کا تعلق جوڑا جائے، تاکہ آج اردو صحافت کے نام پر جو کھلواڑ ہو رہا ہے، اردو زبان کو مسخ کر کے پیش کیا جا رہا ہے، اس کو روکا جا سکے۔ اگر ہم نے اردو کے تحفظ کو یقینی بنانا ہے تو جامعات کو میدان میں اترنا ہو گا، صرف ادبی مجلے نکالنے، ادبی تحریکیں چلانے، ادبی کانفرنس اور سیمینار کے انعقاد کرنے سے کچھ نہیں ہو گا، کیوں کہ ان محفلوں سے مستفید صرف علم اور ادب سے وابستہ افراد ہو رہے ہیں جب کہ اردو اخبارات اور ٹیلی ویژن کی رسائی عوام تک ہے۔

اب اخبارات میں جو زبان رائج ہوگی وہی زبان عوام میں بھی سرایت کر جائے گی، اس لیے ہمیں اردو زبان و ادب کے تحفظ اور فروغ کے لیے اردو صحافت کے میدان میں بھی قدم رکھنا ہو گا اور جامعات کو اس ضمن میں اپنا بھر پور کردار ادا کرنا ہو گا۔ جامعات کے شعبہٴ اردو میں جدید صحافت کے متعلق کمپیوٹر لیب ہونی چا ہیں تاکہ طلبہ کو عملی میدان میں قدم رکھنے میں مشکل پیش نہ آئے، مگر بد قسمتی سے ایسے اقدامات نظر نہیں آ رہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments