تو جو نہیں ہے


خزاں کے موسم کی وہ اک اداس اور خاموش رات تھی، جب سردی کی جھڑی کی آواز رات کو ایک مترنم انداز میں کانوں میں رس گھول رہی تھی۔ وہ دن بھر کا تھکا ہارا باوجود ہزار کوشش کے بستر پر پڑا پہلو پہ پہلو بدلتے سونے کی کوشش کر رہا تھا، مگر نیند تھی کہ کوسوں دور۔ گویا آج کی رات شاید اسے جاگ کر ہی گزارنی تھی اور کسی کے بے خواب راتوں کی اذیت اور اس کے دل سے نکلی بد دعاؤں کا بدلہ دینا تھا۔ جب کسی طرح بھی وہ سو نہ پایا تو اٹھ کر کھڑکی کے پاس آ کر کھڑا ہو گیا۔

اس نے کھڑکی کے کواڑ کھولے تو بارش کی چند بوندیں اس کے چہرے پر گریں اور اس نے ٹھنڈ کی وجہ سے ایک دم جھرجھری لی۔ کھڑکی کھول کر جب اس نے گھر کے سامنے والے قبرستان کی طرف نظر دوڑائی تو تاحد نگاہ اندھیرا اور وحشت کا راج تھا۔ ”میں تمہارے لئے ہر طرح کی قربانی دینے کو تیار ہوں۔ مگر مجھے یہ تو بتاؤ میری منزل کہاں ہے؟“ وہ بارش میں بھیگتی ہوئی اسی کھڑکی کے باہر کھڑی، اس سے پوچھ رہی تھی۔ سردی سے اس کا پورا جسم کانپ رہا تھا اور بار بار دانت بج رہے تھے۔ مگر پھر بھی کسی کا قرب، اس کی محفل اور اس کی سانسوں کی گرمی نے سردی کی شدت کو دبائے ہوئے تھا اور وہ فیصلے کے انتظار میں گھر کے باہر کھڑی کے پاس کھڑی تھی۔

” میں اس وقت کچھ نہیں کہہ سکتا۔ شاید کبھی بھی کچھ نہ کہہ سکوں۔ تو جا، بس چلی جا یہاں سے۔ اور بھول جا۔“ وہ بے نیازی سے سپاٹ آنکھوں کے ساتھ اس کو اپنی محبت سے آزاد کرنا چاہ رہا تھا۔ ”چلی جاؤں؟ مگر کہاں؟ کس کے ساتھ؟ میں نے اپنی زندگی میں تیرے علاوہ کسی اور کو کبھی آنے ہی نہیں دیا۔ اب کہاں جاؤں، کس کے ساتھ جاؤں۔ میں تو تیری محبت کی زنجیر میں کب سے قید ہوں۔ اب تو آزادی سے چلنا بھی بھول چکی ہوں“ وہ اونچی آواز میں سوالیہ نظروں سے کواڑ کو پکڑے اس شخص سے پوچھ رہی تھی، جو اس کو کئی سال محبت کے بندھن میں قید رکھنے کے بعد ، اب اسے آزادی دینا چاہتا تھا، مگر اس کے قدم کیچڑ نما دلدل میں اس بری طرح دھنس چکے تھے کہ اب یہاں سے وہ ہل بھی نہیں سکتی تھی۔

بارش کی بوندیں اور اس کی آنکھ کے آنسو ایک ساتھ زمین پر گر کر ایک دوسرے میں گڈمڈ ہو رہے تھے۔ ”میں کیا کروں، میں تمہیں نہیں اپنا سکتا۔ کیونکہ۔۔۔“ اور اس نے کواڑ بند کر دیا۔ پھر اس نے کمرے میں جلتا ہوا چراغ بجھایا اور بستر پر دراز ہو گیا۔ اس نے دو تین بار کواڑ کو کھٹکھٹایا، مگر اندر سوئے ہوئے شخص نے کواڑ بند رکھنے میں ہی بہتری سمجھی اور ضمیر کو سلا کر خود بھی سو گیا۔ بارش کے ساتھ ساتھ اب برفیلی ہواؤں نے بھی خنکی کی شدت کو مزید بڑھا دیا تھا، اور وہ گیلے لباس اور بھیگتی آنکھوں کے ساتھ باہر بارش میں بھیگتے ہوئے طوفان کی بے رحم موجوں کو اپنے وجود پر سہ رہی تھی۔

” رات کے اس سمے کہاں جاؤں؟ اس شہر میں کوئی اپنا ہے بھی تو نہیں۔ جو تھا اس نے دروازے بند کر لیے، اب کس کے پاس جاؤں“ ۔ وہ اپنے آپ سے باتیں کرتی وہیں زمین پر بیٹھ گئی اور بارش کے پانی سے اپنے ماضی کی تختی کو دھونے کی کوشش کرتی رہی۔ جب حال میں انسان بے حال ہو جائے، تو اس کا ماضی کسی دردناک اذیت سے کم نہیں ہوتا۔ پھر وہی یادیں، وہی باتیں، وہی لمحے جو کبھی خوشبو بکھیرتے تھے، اب سانپ کی طرح ڈستے ہیں اور ہر ڈنگ کے ساتھ نیا زہر دل پہ وار کرتا ہے، جو پہلے وار سے بھی زیادہ شدید ہوتا ہے۔ ماضی کی یادوں کا یہ سانپ اور اس کے وار، شاید تلوار کے وار سے بھی زیادہ سخت اور گہرے ہوتے ہیں جن کے نشان کبھی مٹ نہیں سکتے۔

” دیکھو تم اگر مجھے نہ ملی تو میں مرجاؤں گا“ اسے کہیں سے یہ آواز سنائی دی۔ اس نے ادھر ادھر نگاہ دوڑائی تو اندھیرے اور اس کے وجود کے سوا کوئی تیسرا موجود نہ تھا۔ ”ویسے تیرے گھر والے اگر شادی کے لئے نہ مانے تو تم کیا کرو گی؟“ یادوں کی دستک نے اسے آن گھیرا۔ ”میں۔ میں تمہارے لئے کچھ بھی کر سکتی ہوں۔ کیونکہ میں اب تمہاری محبت کی اسیر ہوں۔“ وہ ماضی کی خوشگوار یادوں کے اوراق سے ایک ایک ورق کو پلٹ رہی تھی، اور اپنی محبت، اپنی وفا اور اپنے عزم کو یاد کرتے ہوئے رو رہی تھی۔

” دیکھو اس کا اعتبار مت کرو۔ وہ پہلے بھی یہی کھیل کئی لوگوں کے ساتھ کھیل چکا ہے۔ ہماری بات مان لو اور اس کا دھیان دل سے نکال دو“ اچانک اندھیرے میں اس کی مردہ ماں کی تصویر یوں سامنے آ گئی جیسے وہ آئنے میں اپنا آپ دیکھ رہی ہو۔ ”نہیں ماں میرے ساتھ وہ ایسا نہیں کرے گا۔ اس نے مجھ سے وعدہ کر رکھا ہے۔ وہ میری محبت کا کبھی خون نہیں کرے گا۔ تو مجھے اس کے پاس جانے دے بس۔ میں تیرے آگے ہاتھ جوڑتی ہوں۔ مجھے جانے دے اس کے پاس“ وہ ہاتھ جوڑ کر ماں سے اجازت مانگ رہی تھی، جو اس کی شادی کسی دوسرے بندے سے کرنا چاہتی تھی۔

”ماں! اب میں کیا کروں؟“ وہ اس ہیولے سے پوچھ رہی تھی، جو اندھیرے میں دھندلا دھندلا سا دکھائی دینے لگ پڑا تھا۔ اس نے آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر دیکھا کہ شاید ماں کا چہرہ واضح ہو جائے، مگر وہ آہستہ آہستہ غائب ہو گیا۔ ”ماں مجھے چھوڑ کے مت جا۔ ماں!“ وہ چیخی اور پھر سدا کے لئے خاموش ہو گئی۔ شاید ماں سے ملنے کی جلدی تھی یا ماضی سے چھٹکارا چاہتی تھی کہ اس نے صبح کا بھی انتظار نہیں کیا۔ اس شخص نے جب اگلی صبح کواڑ کھولے تو سامنے قبرستان میں لوگ کسی لاوارث میت کو دفنا رہے تھے، جو سردی کی شدت اور آنسوؤں کے سیلاب میں ڈوبنے کی وجہ سے مر گیا تھا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments