ایک اسپیشل بچے کی ماں کی کہانی، میری زبانی


شہر کے ایک پوش علاقے کے نسبتاً پر سکون حصے میں واقع ریستوران میں سات خواتین ایک گول میز کے گرد بیٹھی ہیں۔ برسوں بعد آج ملاقات کے لمحے آئے ہیں۔ ورنہ جامعہ کے دنوں میں ان کی آپس میں گاڑھی چھنتی تھی۔ چھ سالوں کی شب و روز کی رفاقت تھی۔ ان میں سے تین کا تو ڈیپارٹمنٹ بھی ایک ہی تھا۔ اور چار میں سے دو دو کا گروپ ہاسٹل میں کمرے بھی شیر کرتا تھا۔ کھانے کی میز پر بے شمار اچھے برے ظہرانے اور عشائیے اکٹھے کیے تھے۔

شام کی چائے، گئے رات تک کی ٹیرس کی محفلیں، بے وقت ٹینگ، کنور نوڈلز اور کبابوں کی بیٹھکیں۔ مشکل میں ادھار لینا، دینا۔ تحفے تحائف۔ اداسیوں کے رونے، خوشیوں کی چہکاریں، اسائنمنٹس کے رولے، پراجیکٹس کی دوڑیں، گروپ میٹس کی غیبتیں اور شکایتیں، اساتذہ کی زیادتیاں، میس کے مسائل، خواہ مخواہ کے قہقہے، ہفتہ کی شب مووی نائٹ، مل بیٹھ کے رسالوں میں کہانیاں پڑھنا اور سنانا۔ آپس کی خفگیاں، ناراضگیاں۔ غرض اپنے گھروں سے دور ایک اور خاندان بن گیا تھا۔ جو ان کی دوستی سے عبارت تھا۔ ساتھ سے مہکتا تھا۔ دوسراہٹ سے سانس لیتا تھا۔

جب یونیورسٹی کے سال ختم ہو رہے تھے۔ ہاسٹل کے دروازے پر سب کا سامان بندھا پڑا تھا۔ اور گیٹ کے باہر ان کے والدین، بھائی اور جاننے والے ان کے منتظر کھڑے تھے تب بھی وہ سب آپس میں بار بار گلے مل رہی تھیں۔ مستقبل میں ملنے کے چانسز کا اندازہ لگا رہی تھیں۔ اپنی اپنی شادیوں پر بلانے اور آنے کی تاکیدیں کر رہی تھیں۔ لہجے نم، آنکھیں آنسوؤں سے لبریز لیکن لبوں پر مسکراہٹیں بھی تھیں۔ یوں لگتا تھا کہ ناممکن ہو گا، ورنہ مشکل تو ضرور ہو گا کہ وہ ایک دوسرے کے بنا رہ سکیں۔ اگلے ایک دو سال سبھی کی تو نہیں لیکن کبھی کسی کی دوسرے سے اور کبھی تیسری کی چوتھی سے ملاقات ہو جاتی۔ لیکن پھر سب ایسے غائب ہوئیں کہ نہ زمین کو پتہ چلا، نہ آسمان کو خبر ہوئی۔

سالوں کے بدلتے اوراق پر وہ بے خبر ہی رہتیں کہ دو سال پہلے فیس بک کے ذریعے تین کا رابطہ ہو گیا۔ جنہوں نے باقی چار کی کھوج بھی کر ڈالی۔ اور واٹس ایپ پر ایک گروپ بن گیا۔ تو سمجھو کہنے، سننے اور بتانے کو باتوں اور تجربوں کا ایک سیلاب تھا جو روکے نہ رکتا تھا۔ یوں محسوس ہوتا کہ سبھی سلسلے وہیں سے جڑ گئے ہیں جو ہاسٹل گیٹ پر جدا ہوتے سمے ٹوٹے تھے۔ تصویروں کا تبادلہ بھی ہوا اور آوازوں کا بھی۔ بچوں کو پالنے کے چیلنجز بھی گفتگو کا حصہ بنے۔

اور حالات حاضرہ بھی۔ دلچسپیاں بھی زیر موضوع آتیں۔ اور کاروبار کو فروغ دینے کے مشورے بھی ہوتے رہے۔ باوجود اس سب کے ملنے کی تمنا بھی روز افزوں ہوتی۔ جس میں کامیابی مہینوں بعد ہو سکی کہ کبھی کوئی مصروف تو کبھی دوسری کی عدم دستیابی۔ اور سونے پر سہاگہ دو کے علاوہ باقی پنجاب اور سندھ کے مختلف شہروں میں شادیوں کے بعد جا بسیں۔

خیر، آج وہ سب ایک دوسرے کے سامنے تھیں۔ گلے ملنے کی بے تکلفانہ خوشی، دیکھنے کا لطف، اور ہنسی مذاق کی وہی بہار جو کبھی ہاسٹل کی زندگی میں ان کے ساتھ تھی، بیان سے باہر ہے۔ علاوہ ایک کے سب بال بچے دار تھیں۔ سبھی کو ایک دوسرے کے بارے میں جاننے کا اشتیاق تھا۔ باتیں کھلنے پر معلوم ہوا کہ ان میں سے ایک اسی جامعہ میں اسسٹنٹ پروفیسر ہے۔ دو مکمل گھر داری کرتی ہیں۔ ایک اور نے بھی اپنی لیکچرر شپ چھوڑ کر گھر پر رہنے کو ترجیح دی تھی۔

پانچویں ایک لکھاری کے طور پر ابھری تھی جبکہ چھٹی اپنا بزنس چلا رہی تھی۔ اور ساتویں جس کے بارے سب نے اڑتے پڑتے سنا تھا کہ ایک پوٹینشل ٹرینر کی صورت میں اس کا بڑا نام ہے۔ اور اس سے پوچھنے کی کسی نے ضرورت ہی محسوس نہیں کی کہ وہ کیا کرتی ہے آج کل؟ سبھی کا خیال تھا کہ وہ تو اب کسی ادارے کی بہت سینئر پوزیشن پر ہو گی۔ اور باتوں کا رخ کسی اور طرف مڑنے لگا تو اس نے بے ساختہ کہا کہ میں بھی اب گھر پر ہی ہوتی ہوں۔

کیا، کیوں جیسے ردعمل کے جوابات کی آوازیں سبھی کی آئیں۔

سب کی نظریں اس کی طرف تھیں اور خود وہ ایک لمبے سفر کے ساری کٹھنائیوں کو ترتیب دینے میں چپ تھی۔ جب خاموشی طویل ہو گئی تو سبھی کو تجسس اور فکر نے گھیر لیا۔ تب وہ بولنا شروع ہوئی۔

یونیورسٹی کے ختم ہوتے ہی مجھے بڑی اچھی ملازمت مل گئی۔ ادارے کو ضرورت تھی اور مجھے بولنے کا فن آتا تھا۔ علم کی تمنا رب نے دل میں ڈال رکھی تھی۔ اس لئے سب کچھ میرے حق میں ہوتا گیا۔ مجھے پروفیشنلی وہ مقام ایک سال میں مل گیا جو کوئی اور سالوں میں کماتا ہے۔ پھر شادی کا زور بڑھنے لگا اور اللہ کے فضل سے ہم سفر بھی وہ ملا جس نے دل کی نرمی اور محبت کی گرمی سے مجھے اسیر کیا۔ بیٹا، بیٹی دے کے مولا نے مزید زیر بار کر دیا۔ زندگی کی کتاب نے نوکری کی جگہ اپنی کمپنی بھی دے دی۔ یعنی راوی چین ہی چین لکھ رہا تھا۔ میں منزلوں پر منزلیں مار رہی تھی کہ تب قادر مطلق نے مجھے دس سالوں بعد عبداللہ دے دیا۔ ایک تو اتنے عرصے بعد دوبارہ ماں بننا اور اوپر سے اس کی پیدائش پر یہ پتہ چلنا کہ وہ ڈاؤن سنڈروم کا شکار ہے۔

والدین کا پیار تھا اور اولاد کی کشش کہ ہم نے اس بات پر کسی ڈر، خفگی اور تکلیف کو دل میں جگہ نہیں دی۔ ہم الحمد للہ، با وسائل تھے اور تعلیم یافتہ بھی۔ خوف خدا بھی تھا اور امیدوں کے دیے بھی۔ کہ ہم اسے اچھا پال لیں گے۔ ہم دونوں میاں، بیوی اور اس کے بڑے بہن، بھائی اس کا بہت خیال رکھتے۔ ساتھ کل وقتی مددگار بھی ہوتی جو میری غیر موجودگی میں اس کے ساتھ لگی رہتی۔ درمیانے عمر کی سلجھی، باتمیز خاتون۔ لیکن جوں جوں عبداللہ بڑا ہو رہا تھا اس کے مزاج میں اتار چڑھاؤ رہنے لگا۔ کبھی سبک رو ہوا، کبھی تند ندی، کبھی تخلیق کی طرف مائل، کبھی تخیل کی آرزو۔ کبھی سوتے ہی رہنا اور کبھی ہزار جتنوں پر بستر نہ جانا۔ کبھی ابلے انڈے ہی کھاتے جانا اور بسا اوقات بس ہر وقت چاکلیٹس۔ کبھی سوکھی روٹی ہی کھاتے جانا اور اگر دل مائل ہو تو پلاؤ، بریانی۔ چار سال کا ہوا تو میں اسے اسکول داخل کروانے لے گئی۔ بڑے اسکول تو ایک طرف کسی چھوٹے اسکول نے بھی اسے داخل نہ کیا۔

شہر کے جانے مانے ادارے میں بڑے دونوں بچے جاتے تھے، وہاں تو کسی نے لفٹ ہی نہیں کروائی۔ ہم اسے چھوٹی موٹی قدرتی کمیوں کے ساتھ ایک کارآمد انسان بنانا چاہتے تھے۔ ہوم ٹیوٹر رکھا۔ ایک گھنٹے کے ہزاروں لے جاتا لیکن نہ توجہ، نہ احساس۔ سکھائی تو دور کی بات تھی۔ گھر میں ملازمائیں الگ غفلت برتتیں۔ کبھی وہ سیڑھیوں سے گر جاتا۔ کبھی کھیل کے میدان میں اسے بچے تنگ کرتے۔ کبھی اسے کوئی کیڑا کاٹ جاتا۔ اور میں دفتر میں ہو کر بھی نہ ہو پاتی۔

بازار لے جاتے تو سب گھور گھور کر اس کا جینا محال کر دیتے۔ وہ چھوٹا ہو کر بھی آنکھوں کے خنجر پہچان جاتا۔ دوسرے شہر ٹریننگ دینے جاتی۔ تو ان حالات کی وجہ سے کبھی کبھار اسے اور مددگار کو ساتھ لے جاتی۔ لیکن وہاں ملازمہ کا مزاج ہی نہ ملتا۔ بچے سے زیادہ بڑا ہوٹل، اس کا کھانا، ٹی وی بس یہی اس کا محور بن جاتا۔ اور احسان اس سے سوا۔

ان سارے تجربات میں عبداللہ سات سال کا ہو گیا۔ تندرست تھا۔ بولتا اور پھرتا تھا۔ کھا اور پی سکتا تھا۔ سن، سمجھ سکتا تھا۔ حساس اور فرماں بردار تھا۔ ہاں تھوڑا ’سلو لرنر‘ تھا۔ لیکن معاشرہ اسے مکمل محتاج، معذور اور مفلوج بنانے پر تلا تھا۔ ہم دس قدم اس کی بھلائی کو اٹھاتے۔ ادارے، لوگ اور بیرونی ماحول بیس قدم پیچھے دھکا دیتے۔ میرا بیٹا دن بدن مزید خاموش، چڑچڑا، اور عدم اعتماد کا شکار ہو رہا تھا۔ تب میں نے سوچا کہ میں جو گھر گھر، ادارہ بہ ادارہ، باہر خیر بانٹتی پھرتی ہوں۔ اس سب کا کیا جب میرے اپنے گھر کا چراغ، میرا لخت جگر، میرا خون یوں ستم ظریفیوں کا شکار رہے۔ اور تبھی سے میں عبداللہ کی کل وقتی استاد بھی ہوں اور مددگار بھی۔ کھیل کی ساتھی بھی ہوں اور اس کے غصے کو سہنے والی بھی۔ میں بھلے دنیا کی ٹرینر نہیں رہی لیکن اپنے عبداللہ کی ٹرینر میں ہی ہوں۔

میز کے گرد بیٹھے ساتوں نفوس بھیگی آنکھوں سے معاشرے اور انسانوں کے جنگل کے کئی روپ بھی دیکھ رہے تھے۔ جو اگر مثبت نہ ہوں تو کئی عبداللہ اور بے شمار ٹرینرز ان کی بے حسی کی نظر ہو جاتے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments