دا لیجنڈ آف مولا جٹ: فلم ریویو


گزشتہ سے پیوستہ دور حکومت میں جہاں ملک میں امن و امان کی صورتحال میں تسلی بخش اضافہ ہوا تھا وہیں پاکستانی سنیما نے ایک بار پھر بھرپور انداز میں سر اٹھانا شروع کیا تھا، ہر ہفتے، ہر مہینے کوئی نہ کوئی نئی پاکستانی فلم سینماز کی زینت بنتی تھی۔ میں نے بھی تب آنرز میں نیا نیا فلم میڈیا کا مضمون پڑھ رکھا تھا سو آئے روز فلموں پہ بڑے اچھے تبصرے کر لیتا تھا مگر پھر ایک فاشسٹ کی حکومت آئی جس نے قوم کے ساڑھے تین سال ذاتی بغض و عناد کے چکر میں حرام کر دیے۔ کوئی ایک کارنامہ سوائے صحت کارڈ کے (جسے میں ذاتی حیثیت میں بہتر سمجھتا ہوں، اس میں کتنے گھپلے ہوئے اس سے نابلد ہوں ) ایسا نہیں جسے کارہائے نمایاں میں شمار کیا جا سکے۔

خیر میں سیاسی بھول بھلیوں میں مزید گم نہیں ہونا چاہتا۔ کل بلال لاشاری کی ڈائریکشن میں بنی فلم مولا جٹ دیکھی۔ فلم دیکھنے سے پہلے اس پہ کیے گئے مختلف لوگوں کے تبصرے ایسے ہی پڑھے جیسے خان صاحب نے سائفر پڑھا تھا لہذا فلم کے بارے میں ابتدائی تاثر ٹانواں ٹانواں ہی تھا۔ شہزاد جوئیہ نے کہا کہ فلم کے پوسٹر میں ہی ہر اداکار کے ہاتھ میں کوئی نہ کوئی آلہ قتل ہے، یہ پنجابی رہتل کے بارے میں غلط تاثر اجاگر کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔

فہیم احمد نے لکھا کہ یورپ میں اگر ایسی فساد برپا کرنے والی فلمیں بنائی جاتی ہیں تو ان کا اثر زائل کرنے کے لیے بھی کئی ایسی فلمیں بنائی جاتی ہیں جو معاشرے کو شدت پسندی اور فاشزم سے باز رکھتی ہیں۔ ہو سکتا ہے دوستوں نے تکنیکی طور پر بھی فلم پر تبصرے کیے ہوں مگر میں نے اس لیے نہیں پڑھے کہ میری رائے میں کسی کے خیالات کی آمیزش نہ ہو جائے۔ کافی عرصے بعد ایک شاندار فلم ملی جس کا کچا چٹھا کھولنے کی جسارت کی جا سکتی ہے۔ فلم پر تبصرہ اگر صرف اس کے معروضی خیال اور سیاق و سباق پر کرنا ہو تو بہت آسان ہے کیونکہ خیال پر گرہ لگانا تو ہر کوئی کر سکتا ہے مگر فلم پر تکنیکی طور پر بات کرنا کافی مشکل اور اب تو مجھے بھی جان جوکھوں کا کام لگ رہا ہے۔

ہمارے فلم میڈیا کے استاد احمد حماد صاحب فرمایا کرتے تھے کہ فلم دیکھنے مت جایا کرو فلم پڑھنے جایا کرو اور وہ ہمیں بہانے بہانے سے اکثر و بیشتر سنیما لے جایا کرتے تھے اور ٹکٹس بھی خود خریدتے تھے۔ تب ان کے ساتھ بیٹھ کر فلم کو جس طرح سے پڑھنا سیکھا آج اسی انداز میں مولا جٹ پر لکھنے کا دل کر رہا ہے۔

تکنیکی طور پر مولا جٹ جیسی یہ فلم بلال لاشاری کی طرف سے پاکستانی سنیما انڈسٹری میں 1980 ء کے بعد پہلا ایٹمی دھماکہ ہے، جسے دیکھ کر بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ پاکستان میں ورلڈ کلاس فلم بنانے کا پوٹینشل بہرطور موجود ہے۔ کسی بھی فلم میں سب سے اہم عنصر اس کے تکنیکی جزئیات ہوتے ہیں، جو ڈائریکٹر کی سمجھ بوجھ اور ہنر کے غماز ہوتے ہیں۔ مثلاً فریمنگ، لائٹنگ، ساؤنڈ، ہیڈ روم، نوز روم، ڈولی کا صحیح استعمال اور سب سے اہم سینماٹوگرافی۔

ڈائیلاگ اور سیچوایشن کے مطابق سین اور گردونواح میں پڑی چیزیں بھی ڈائریکٹر کی اپروچ کا اندازہ لگانے میں بہت ممد و معاون ثابت ہوتی ہیں۔ کافی عرصے بعد جب ایسی شاندار فلم سنیما میں دیکھی تو 16۔ 2015 ء میں لی گئی وہ فلم میڈیا کی کلاسز یاد آ گئیں جن میں ہم فلم کے انہی جزئیات پر دل و دماغ کھول کر تنقید کیا کرتے تھے۔ جہاں پہلے ایک سین میں مولا جٹ مودے کے پیچھے بھاگ رہا تھا تو جان بوجھ کر کیمرہ شیک کیا گیا تا کہ کردار کی الجھن اور پریشانی کا مظاہرہ ہو۔

اسی طرح جب مولا جٹ دارو سے پہلی دفعہ ملنے گیا تو جہاں باقی بہت سارے سین اندھیرے یا کم روشنی میں فلمائے گئے تھے یہ روشنی میں اس لیے فلمایا گیا تا کہ ظلم و بربریت کے خلاف امید اور روشنی کا برملا اظہار ہو۔ جہاں تک فریمنگ کی بات ہے تو میں نے ذاتی حیثیت میں بہت کوشش کی کوئی ایک فریم ہی ٹیڑھا پکڑ لوں مگر شاید ساتھ بیٹھی محترمہ کے بار بار ڈر کر چمٹ جانے سے کوئی ایک آدھ فریم مس بھی ہو گیا ہو مگر حیرت اس بات کی ہے کہ ایک ایک فریم کو پرفیکشن کی حد تک ٹریٹ کیا گیا۔

اتنی تیز کیمرہ موومنٹ کے باوجود ٹیڑھا فریم ڈھونڈنا ناممکن ہی رہا۔ موسیقی کے بغیر گائے گئے گانے کو جب ڈرون کیمرہ کے ذریعے وائیڈ فریم میں لے جایا گیا تب جلتے چراغوں کی لو کو مستقل جلتے دیکھ کر سنجے لیلا بھنسالی کی فلم پدماوتی یاد آ گئی۔ لائٹنگ ڈیپارٹمنٹ کو بہت خوب انداز میں استعمال کر کے فلم میں جان ڈالی گئی۔ ہر سین میں روشنی یا اندھیرے کے ساتھ ڈائیلاگ اور سین کو بڑے اچھے انداز میں سنکرونائز کیا گیا۔ ڈولی کا استعمال بھی پرفیکشن کی حد تک تھا۔ قصہ مختصر بلال لاشاری کی یہ فلم دیکھنا پاکستانی سنیما کے شاندار مستقبل کے حوالے سے کسی سرشاری سے کم نہ تھا۔ تکنیک، مہارت اور پروفیشنلزم کے لحاظ سے میں اس فلم کو 10 / 10 نمبر دوں گا۔

اب اگر معروضی حالات اور سیاق و سباق کے ساتھ ساتھ سکرپٹ کی بات کی جائے تو یہ ایک مکمل طور پر الگ موضوع ہے۔ اس فلم کے حوالے سے سب سے مزے کی بات یہ تھی کہ یہ پنجابی فلم تھی اور ہم نے اور شاید ہمارے بڑوں نے بھی اس سے زیادہ شاندار پنجابی فلم کبھی نہیں دیکھی ہو گی۔ پنجابی رہتل کو بڑے جاندار طریقے سے اجاگر کیا گیا مگر اکثر یہ گمان بھی ہوتا رہا کہ یہ پنجابی رہتل موئن جو داڑو اور ہڑپے کے دور کی ہے، یا شاید ٹیکنالوجی کے زمانے سے پہلے کا پنجاب ایسا ہی ہوتا ہو اس کا اندازہ لگانا میرے لیے بہت مشکل ہے۔

سالٹ رینج اور روہتاس فورٹ کے مناظر دیکھ کر میرے اندر کے چکوالی کو بڑی تسکین ملی، یوں لگا جیسے تین ماہ گھر نہ جانے سے جو اداسی سی چھائی ہوئی تھی وہ چھٹ گئی ہو۔ سکرپٹ کو دیکھیں تو شاید یہی سکرپٹ آج کل کے دور میں مقبول عام ہے، ایسے سکرپٹ کے بغیر فلم کو کامیاب بنانا ذرا مشکل کام ہو سکتا ہے مگر پنجابیوں کی جس غیرت کا پرچار کیا گیا ہے میں بطور گلوبل ویلج کے باشندے کے اس نام نہاد غیرت پہ چار حرف بھیجتا ہوں۔

خاندان کے کسی دوسرے فرد کی پگڑی کے لیے امیدوار آنے پر اس کی گردن اتارنا، اپنی انا کی تسکین کے لیے کمزوروں کی لڑکی کو رکھیل بنا لینا، ایک معرکہ ہارنے پر غیرت کے نام پر جواں سال بھائی کا بہن کے ہاتھوں عبرتناک قتل اور پھر اسی غیرت کے نام پر بیٹے کے ہاتھوں باپ کا بہیمانہ قتل کسی گھٹیا، درندہ صفت اور الم ناک معاشرے کا وتیرہ ہی ہو سکتا ہے اور پھر اس کا سدباب بھی ہزاروں لوگوں کے قتل عام سے ہونا کسی مہذب اور رکھ رکھاؤ والے معاشرے کا خاصہ نہیں ہو سکتا۔

میں نے پہلے بھی لکھا کہ شاید ایسا ہی سکرپٹ فلم کی مقبولیت کی ڈیمانڈ ہو سکتا تھا مگر آج کل کے مہذب اور ترقی یافتہ دور میں ایسی فاشسٹ خیال کی فلم بنا کر لوگوں کے اذہان کو متاثر کرنا معاشرے کے لیے ناسور بھی بن سکتا ہے۔ یہ وہی سنیما ہے جسے لینن نے انقلاب روس کے لیے آلہ کار کے طور پر استعمال کیا تھا۔ سنیما کے ذریعے عوام الناس کے خیالات و جذبات کو سب سے زیادہ متاثر کیا جا سکتا ہے کیونکہ سنیما کی سکرین خود کو لوگوں کو اپنی حواس خمسہ پر طاری کر لینے پر مجبور کر دیتی ہے۔

چلو ٹھیک ہے کہ ایک آدھ ایسی فلم لوگوں کو پاکستانی سنیما کی طرف متوجہ کرنے کے لیے بنا بھی لی جائے مگر مستقبل میں ایسے کرداروں اور سکرپٹ کے ساتھ فلم بنانا تباہی اور انارکی کی طرف دھکیل سکتی ہے۔ سنیما میں بیٹھی خواتین اور خاص کر میرے ساتھ موجود دوست ہر ایسے اندوہناک سین یا اچانک قتل عام پہ باقاعدہ نفسیاتی طور پر ٹارچر ہو رہی تھی۔ بچوں، ادھیڑ عمر بزرگوں اور کمزور دل کے لوگوں کو تو یہ فلم بالکل بھی نہیں دیکھنی چاہیے۔

یوں کہیے کہ اس فلم کو دیکھنے کے لیے آپ کی اچھی خاصی ٹریننگ اور ایکسپوژر ہونا چاہیے تا کہ آپ فلم کو بطور فلم ہی دیکھیں یا پڑھیں وگرنہ اس سے پہلے ارطغرل غازی نے جو تباہی ہمارے معاشرے میں پھیلا دی ہے، یہ فلم اس پہ سونے پر سہاگے کا کام کرے گی۔ سکرپٹ وقت کی ضرورت ضرور ہو سکتا ہے مگر میں ایسے پنجابی رہتل کا ہر گز قائل نہیں اور سکرپٹ کو 2 / 10 نمبر ہی دوں گا۔

اداکاری کی بات کریں تو فواد خان، حمزہ علی عباسی، حمائمہ خان، شفقت چیمہ اور راشد محمود صاحب کی گیسٹ اپیرئینس بہت شاندار، نیچرل اور زبردست تھی مگر مائرہ خان کی اداکاری اور پنجابی ڈائیلاگ ڈلیوری قدرے کمزور اور مصنوعی لگ رہی تھی۔ حمزہ علی عباسی کا کردار نوری بالکل ایسے ہی Built up کیا گیا جیسے کرنے کا حق تھا اور اس کردار کی شان و شوکت اور رکھ رکھاؤ کو بنانے سنوارنے پر بلال لاشاری الگ سے داد کے مستحق ہیں۔ سینماٹوگرافی بہت اعلی ہے، اسے جتنی داد دی جائے کم ہے، اسے جدید تقاضوں سے مکمل طور پر ہم آہنگ کیا گیا ہے اور سینماٹوگرافی کے لیے بھی 10 / 10 نمبر ہی ہیں۔ آخر پہ بس اتنا ہی کہوں گا کہ ویلڈن بلال لاشاری۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments