پاکستان میں کم عمری کی شادیاں اور قانون


اس موضوع پر بات کرتے ہوئے بنیادی سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ پاکستانی قانون کے مطابق شادی کی کم سے کم عمر کیا ہے اور اس کے قانونی و منطقی وجوہات اور دلائل کیا ہیں؟ کیا ایسی قانون سازی کرنا اسلام کے منافی ہے؟

وفاقی شرعی عدالت (ایف ایس سی) کے چیف جسٹس ڈاکٹر سید محمد انور مسکانزئی کی سربراہی میں تین رکنی ایف ایس سی بنچ نے فاروق عمر بھوجا کی جانب سے، 2021 میں، چائلڈ میرج ریسٹرینٹ ایکٹ (سی ایم آر اے ) 1929 کے سیکشن 4، 5، 6 کو چیلنج کرنے والی درخواست کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ اسلامی ریاست کی طرف سے لڑکیوں کی شادی کے لیے عمر کی کم از کم کوئی حد مقرر کرنا اسلام کے خلاف نہیں ہے۔ اور اسی لیے سی ایم آر اے 1929 کے تحت لڑکی کی شادی کے لیے کم از کم عمر کی حد 16 سال مقرر کرنے سے لڑکیوں کو بنیادی تعلیم حاصل کرنے میں مدد ملے گی۔ اور اسی طرح لڑکوں کی کم از کم عمر کی حد 18 سال مقرر کرنا بھی غیر اسلامی نہیں ہے۔ فیصلے میں کہا گیا ہے کہ تعلیم کی اہمیت خود وضاحتی ہے اور تعلیم کی ضرورت ہر ایک کے لیے، قطع نظر جنس، یکساں طور پر ضروری ہے۔ جیسا کہ ایک حدیث میں بیان کیا گیا ہے کہ ”علم کا حصول ہر مسلمان پر لازم ہے“ ۔

”حضور ﷺ کی طرف سے ایسے الفاظ کے استعمال ایک مسلم معاشرے میں اور ہر مسلمان کے لیے ہر حال میں تعلیم کی فرضیت کو واضح کرتا ہے۔ لہٰذا ایک صحت مند شادی کے لیے نہ صرف جسمانی صحت اور معاشی استحکام وغیرہ ضروری عوامل ہیں بلکہ ذہنی صحت اور فکری نشوونما بھی یکساں اہم ہیں جو کہ تعلیم کے ذریعے حاصل کی جا سکتی ہیں۔ اسلام میں شادی کے مقاصد میں سے ایک شخص کے نسب اور نسل کی حفاظت اور فروغ ہے۔ مقدس شریعت کا تصور جیسا کہ ابراہیم بن موسی بن محمد شتبی نے روایت کیا ہے کہ“ لڑکی کے لیے یا کسی بھی جنس سے قطع نظر، تعلیم حاصل کرنے کا عنصر حفظ العقل کے تصور کے تحت آتا ہے یعنی عقل کی حفاظت اور فروغ جو کہ شریعت کے بنیادی مقاصد میں سے ایک ہے۔

اسلام کی تعلیم کے مطابق لڑکی یا بیٹی کو بہترین تعلیم دینا انسان کے بہترین اعمال میں سے ایک ہے اور یہ جنت کی ضمانت ہے کیونکہ خواتین کو باشعور ہونا کسی فرد کی ترقی اور اس کے نتیجے میں کسی بھی قوم کی آنے والی نسل کے لیے کلید ہے۔ فیصلے میں کہا گیا ہے کہ اس کی اہمیت کی وجہ سے امام بخاری نے اپنی مشہور حدیث کی کتاب جامعہ البخاری شریف کا اپنی کتاب کے شروع میں لڑکیوں کی تعلیم کی اہمیت پر ایک پورا باب تشکیل دی۔ پس ان تمام دلائل کو سامنے رکھ کر یہ کہا جا سکتا ہے کہ لڑکی کی شادی کے لیے کم از کم عمر کی حد 16 سال مقرر کرنے سے لڑکیوں کو کم از کم بنیادی تعلیم حاصل کرنے میں مدد ملے گی اور یہی انصاف کا تقاضا ہے۔

اسی طرح مارچ 2022 میں اسلام آباد ہائی کورٹ کے جسٹس بابر ستار نے 16 سالہ سویرا فلک شیر کے کیس میں فیصلہ سناتے ہوئے کہا کہ 18 سال سے کم عمر لڑکی کی شادی غیر قانونی ہے اور ’18 سال سے کم عمر لڑکی اپنی مرضی سے بھی شادی نہیں کر سکتی۔ جبکہ والدین بھی 18 سال سے کم عمر لڑکی کی شادی نہیں کرا سکتے۔ کیونکہ قانون میں‘ بچے کی تعریف ایک ایسے شخص کے طور پر کی جاتی ہے جو 18 سال سے کم عمر ہو۔ ایسے بچے کو والدین، سرپرست یا ریاست کی طرف سے خیال رکھنے کے لیے مقررہ کردہ شخص کی جانب سے دیکھ بھال کی ضرورت ہوتی ہے۔ ایسے بچے کے ساتھ شادی کے معاہدے کو منسوب نہیں کیا جا سکتا۔ حیاتیاتی طور پر بلوغت کی عمر 18 سال ہے، محض جسمانی تبدیلیوں پر 18 سال سے پہلے قانونی طور پر بلوغت نہیں ہوتی۔ ’اور اس رو سے محض جسمانی بلوغت کی کوئی بھی 18 سال سے کم عمر لڑکی اپنی مرضی سے شادی کرنے کی اہل نہیں ہو جاتی۔

شادی اسلام میں ایک معاہدہ ہے اور قرآن کی سورہ النساء کی آیت 21 میں شادی سے مراد میثاق ہے، یعنی شوہر اور بیوی کے درمیان ایک پختہ عہد یا معاہدہ، اور حکم دیا گیا ہے کہ اسے تحریری طور پر درج کیا جائے۔ چونکہ فریقین کے درمیان کوئی معاہدہ نہیں ہو سکتا جب تک کہ وہ اس پر اپنی آزادانہ رضامندی نہ دیں۔ جس سے یہ واضح ہوتا ہے کہ ایسا معاہدہ بچوں کے ذریعے نہیں کیا جا سکتا۔ جب بچے سے گاڑی چلانے اور/یا ووٹ دینے کی توقع نہیں کی جاتی ہے تو اس سے زندگی بھر کے معاہدے میں جانے کی توقع کیسے کی جا سکتی ہے؟ شادی ایک تاحیات معاہدہ ہے اور جو بچہ یہ بھی نہیں سمجھتا ہے کہ معاہدہ کیا ہے اس سے یہ توقع نہیں کی جا سکتی کہ وہ اپنے یا اپنے جیون ساتھی کا انتخاب کرے اور اس حقیقت کی بنیاد پر بچپن کی شادی بالکل اسلامی نہیں ہو سکتی۔

مذکورہ بالا دلائل کی روشنی میں پاکستان میں کم عمری کی شادی کے خلاف بننے والا ایکٹ آئینی کتابوں کے ان چند قوانین میں سے ایک ہے جو بانی پاکستان محمد علی جناح نے اس وقت متعارف کروایا تھا جب وہ برطانوی ہندوستان کی قانون ساز اسمبلی کے رکن تھے۔ ، چائلڈ میرج ریسٹرینٹ ایکٹ (سی ایم آر اے ) 1929 کے سیکشن 4 کے مطابق شادی کے لیے لڑکی کی عمر کی کم از کم حد 16 سال اور لڑکے کی عمر کی حد 18 غیر اسلامی نہیں ہے۔ اس قانون کی خلاف ورزی کرنے پر چھ ماہ تک قید کی سزا اور 50 ہزار روپے تک جرمانہ بھی ہو سکتا ہے۔

اسی طرح نکاح خواں اور سرپرست کو بھی دو بچوں یا ایک بالغ فرد اور بچے کی شادی کرانے کے جرم میں اسی سزا کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ جسٹریٹ آف فرسٹ کلاس کے علاوہ کوئی بھی عدالت اس ایکٹ کے تحت کسی جرم کا نوٹس نہیں لے سکتی اور نہ ہی اس کی کوشش کر سکتی ہے۔ تاہم شکایت درج کروانے کی مدت ایک سال مقرر کی گئی ہے۔ اور جب تک کہ، پنجاب کے علاوہ، کسی یونین کونسل کی طرف سے شکایت نہ کی جائے جس کے دائرہ اختیار میں بچوں کی شادی ہو رہی ہے یا ہونے والی ہے تو کارروائی نہیں کی جا سکتی۔ اگر اس علاقے میں ایسی کوئی یونین کونسل نہیں ہے تو صوبائی حکومت اس سلسلے میں مذکرہ بالا اختیار کسی ایک شخص کو بھی دے سکتی ہے۔

اپریل 2014 میں، سندھ اسمبلی نے سندھ چائلڈ میرج ریسٹرینٹ ایکٹ منظور کیا، جس نے لڑکیوں اور لڑکوں دونوں کے لیے کم از کم عمر 18 سال کر دی ہے۔

پنجاب میرج ریسٹرینٹ (ترمیمی) ایکٹ، 2015 میں اضافی وضاحت کی شق بیان کرتی ہے کہ ایک شکایت کنندہ جو بچپن کی شادی کے معاملے کی اطلاع دینا چاہتا ہے اسے یونین کونسل میں شکایت جمع کرانے کی ضرورت ہوگی۔ چیئرمین یونین کونسل اس کے بعد کیس کی رپورٹ فیملی کورٹ کو دیں گے جو ملزم کو مذکورہ جرمانے کے مطابق سزا دے گی۔

عدالت کسی بھی فریق کو حکم امتناعی (بچوں کی شادی کو روکنے والا عدالتی حکم) کے ذریعے بچوں کی شادی کی تقریب، سہولت کاری یا انتظام کرنے سے روک سکتی ہے۔ اس میں دولہا، والدین یا سرپرست، نکاح رجسٹرار اور کوئی اور شخص شامل ہے۔ حکم امتناعی کی خلاف ورزی پر 3 ماہ تک قید اور 50 ہزار روپے جرمانے کی سزا ہے۔

کے پی کے چائلڈ پروٹیکشن اینڈ ویلفیئر ایکٹ، 2010، بچوں کی شادیوں کے خلاف تحفظ فراہم کرتا ہے۔ تاہم، اس کا سیکشن 30 کہتا ہے کہ بچوں کی شادی اور امتیازی رسم و رواج کے خلاف تحفظ ان موضوعات پر رائج وفاقی قوانین کے مطابق فراہم کیا جائے گا۔

پی پی سی کا موجودہ سیکشن 498۔ بی کے مطابق کسی بھی عمر کی لڑکی سے زبردستی اس کی مرضی کے خلاف شادی کرنے والے کو 3 سے 7 سال قید اور پانچ لاکھ روپے جرمانے کی سزا ہو سکتی ہے

مسلم فیملی لاز آرڈیننس 1961 کے قانون میں لڑکی کی شادی کی کم از کم عمر بڑھا کر 18 سال کر دی ہے اور مرد کی عمر کی حد 21 سال کر دی گئی ہے۔ یہ قانون غیر مسلم شہریوں پر بھی یکساں طور پر لاگوں ہے اور خلاف ورزی کرنے والے ہر فرد کو ایک ماہ تک کی سادہ قید، یا 1000 روپے تک کے جرمانے، یا دونوں سزا دی جائے گی۔

پاکستان میں کم عمری کی شادیوں سے متعلق اعداد و شمار بہت پریشان کن ہیں۔ ہمارا ملک کم عمری کی شادیوں کے حوالے سے دنیا میں چھٹے نمبر پر ہے۔ 2019 کے سروے کے مطابق ملک میں اکیس فیصد لڑکیوں کی شادیاں اٹھارہ سال کی عمر سے پہلے ہی کر دی جاتی ہیں جبکہ تیرہ فیصد بچیاں تو اپنی عمر کے چودہویں سال میں ہی بیاہ دی جاتی ہیں۔ 2017 میں کیے جانے والے ایک سروے کے مطابق پاکستان میں 16 سال سے کم عمر میں شادی کرائے جانے والے بچوں کی تعداد 7.3 ملین (% 6.0 ) اور 18 سال سے کم عمر میں شادی کرائے جانے والے بچوں کی تعداد 15.5 ملین (% 12.6 ) ہے۔

2012 میں مختلف ذرائع ابلاغ کے اداروں کی جانب سے بچوں کی شادی کے 75 واقعات رپورٹ کیے گئے تھے۔ ان کل واقعات میں سے 43 فیصد بچے 11 سے 15 سال اور 32 فیصد 6 سے 10 سال کی عمر کے تھے۔ 2008۔ 2009 میں 10۔ 14 سال کی عمر کے 24228 بچوں کی شادی کی اطلاع ملی اور 15۔ 19 سال کی عمر کے 1029784، بچوں کی شادی کی اطلاع ملی۔ کم عمری میں شادی شدہ بچوں کی تعداد لاکھوں میں ہے لیکن ان کی نگرانی اور اطلاع نہیں دی جاتی ہے۔

غربت، مذہبی و دنیاوی تعلیم کی کمی اور انٹر نیٹ کا غلط استعمال کم عمری کی شادیوں کی اہم وجوہات ہیں مگر سب سے ظالمانہ وجہ وہ فرسودہ رسم و رواج ہیں کہ جن کی وجہ سے کم عمر کی شادیاں فروغ پاتی ہیں۔ ان میں زیادہ تعداد ان بچیوں کی ہے جو اپنے خاندان کے کسی نہ کسی مرد کے کیے ہوئے کسی جرم کی پاداش میں ہرجانے کے طور اس سزا کے لئے منتخب کی جاتی ہیں یا ان کی شادی کروانے کے لئے بدلے میں دی جاتی ہیں جسے ستی، ونی یا سوارہ کہا جاتا ہے۔

یہ ایک رسم کے مختلف نام ہیں۔ پنجاب میں اسے ونی جبکہ سرحد میں سوارہ کہا جاتا ہے۔ سندھ اور بلوچستان میں بھی اسی طرح کی رسمیں ہیں جن کے ذریعے دو خاندانوں میں صلح کی خاطر جرگہ یا پنچایت کے ذریعے بطور جرمانہ ہرجانہ لڑکیاں دی جاتی ہیں بعض اوقات تو کم سن لڑکیاں بڑی عمر کے لوگوں سے بیاہی جاتی ہیں اور اسی کو ونی کہا جاتا ہے۔ پی پی سی کے سیکشن 310۔ اے کے مطابق ”جو کوئی بھی کسی عورت کو نکاح میں دے یا بصورت دیگر اسے شادی میں داخل ہونے پر مجبور کرے جیسا کہ بدلہ صلح، ونی یا سوارہ یا کسی بھی نام سے کوئی دوسری رسم یا رواج، دیوانی تنازعہ یا فوجداری ذمہ داری کے تصفیہ کے پیش نظر، تو اسے سات سال تک کہ قید کی سزا سنائی جا سکتی ہے جو کہ تین سال سے کم نہیں ہوگی اور پانچ لاکھ روپے جرمانے کی سزا کا بھی حقدار ہو گا“ ۔

اسی طرح غگ کی رسم بھی اکثر کم عمری کی شادیوں کا سبب بنی کہ جس کے معنی آواز لگانے یا اعلان کرنے کے ہیں۔ اس روایت کے تحت جس بھی مرد کو کوئی خاتون، کسی بھی عمر کی پسند آ جاتی تو وہ اس خاتون کے گھر آ کر شادی کا اعلان کر دیتا تھا کہ یہ خاتون اب میری ہے، اسے غگ یا ژغ کہتے ہیں۔ اس رسم کے تحت اگر کوئی شخص ایک خاتون سے شادی کا اعلان کرتا ہے تو برادری کا کوئی اور شخص اس خاتون کے لیے رشتہ نہیں بھجواتا اور اس خاتون کے لیے شادی کے رشتے آنا بند ہو جاتے تھے۔ اس روایت کے خاتمے کے لیے اگرچہ مختلف ادوار میں آواز اٹھائی گئی لیکن سنہ 2013 میں اس فرسودہ روایت کے خلاف عملی اقدامات کرتے ہوئے قانون سازی کی گئی جس کے مطابق اس قانون کے تحت جرم ثابت ہونے پر زیادہ سے زیادہ سات سال اور کم سے کم تین سال قید اور پانچ لاکھ روپے تک کا جرمانہ کیا جا سکتا ہے۔ ا

ایک اور فرسودہ رسم جو کہ اکثر کم عمری کی شادی کا سبب بنتی ہے اسے ہم وٹہ سٹہ کے نام سے جانتے ہیں۔ وٹہ سٹہ مراد ہے ایک گھر والے اپنی بیٹی کی شادی جس لڑکے سے کرتے ہیں ان کی بیٹی سے اپنے بیٹے کی شادی کرتے ہیں یعنی دونوں طرف سے رشتے لیے جاتے ہیں۔ پی پی سی کے موجودہ سیکشن 498۔ بی میں لکھا ہے : ”جو کوئی زبردستی یا کسی بھی طریقے سے کسی عورت کو شادی کرنے پر مجبور کرتا ہے اسے قید کی سزا دی جائے گی جو تین سال سے کم نہیں ہو سکتی ہے اور پانچ لاکھ تک کا جرمانہ بھی ادا کرنا ہو گا

نو عمری کی شادی کے مختلف نتائج ہوتے ہیں۔ ( 2011 ) سنتھیا کے مطابق، جو افراد کم عمری میں شادیاں کرتے ہیں وہ بہت سی جسمانی، ذہنی اور نفسیاتی صحت کی پیچیدگیوں کا شکار ہوتے ہیں۔ ہمارے معاشرے میں کم سن بچیاں مانع حمل طریقوں کے بارے میں غیر آگاہی کی وجہ سے کئی جنسی بیماریاں اور دیگر شدید انفیکشن کا شکار ہوتی ہیں جو اکثر زچہ اور بچہ اموات کا سبب بنتے ہیں۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ کم عمری لڑکوں کی شادی معیشت پر اس طرح براہ راست اثر انداز ہوتی ہے کہ اکثر شادی کے بعد ایسے نابالغ افراد کی تعلیم رک جاتی ہے، ان کا کیریئر بننے سے پہلے ہی ختم ہو جاتا ہے اور وہ معاشرے کے مفید شہری بننے کے بجائے اپنی زندگی ایک بوجھ کی صورت بسر کرتے ہیں۔ ناسمجھی کی شادیاں جہاں لڑائی جھگڑوں کا باعث بنتی ہیں وہاں گھریلو تشدد اور دیگر اقسام کی پریشانیوں کا بھی موجب بنتی ہیں۔ ایسی شادیاں کسی بھی صنف کی فلاح و بہبود کو کسی بھی طرح سے نقصان پہنچانے کا سبب بن سکتی ہیں۔

۔ ۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments