اوریا مقبول جان کی متھیرا کی موجودگی میں دلچسپ اور پرمغز گفتگو


میں نے جب یہ عنوان دوستوں میں متعارف کروایا تو بہت سے دوست زیر لب مسکرائے اور کہا کہ یہ جملہ تو کھلا تضاد لگتا ہے پوچھنے پر فرمانے لگے کہ بھائی صاحب کون سے جہاں میں رہتے ہیں آپ؟ اوریا کی باتیں ”جذباتی چٹکلے بازیاں“ تو ہو سکتی ہیں پرمغز بالکل نہیں مگر جیسا آپ فرما رہے ہیں کہ یہ پرمغز قسم کی گفتگو انہوں نے متھیرا کی موجودگی میں کی ہے اس کا کریڈٹ تو پھر متھیرا کو جانا چاہیے اوریا کو نہیں۔ کیونکہ ان کے کالم اور ٹی وی پروگرام ان کا جو امیج بناتے ہیں وہ بالکل ہی مختلف ہے یا یوں کہہ لیں کہ وہ ایک دانشور سے زیادہ دانش گرد اور ایک جنگجو قسم کے جوتشی لگتے ہیں جو اپنے پیغامات کے ذریعے سے سراب بیچتے ہیں اور اپنے روحانی خوابوں کے ذریعے سے پیشگوئیاں فرماتے رہتے ہیں اور تدبیریں یا اندازے غلط ثابت ہو جانے پر فوری یو ٹرن لینے میں بھی کوئی عار محسوس نہیں کرتے۔

خیر یہ سب تو دوستوں کی ان کے بارے میں ایک رائے تھی مگر میری نظروں میں یہ ان کی ایک پر مغز قسم کی گفتگو تھی کیونکہ ہم نے تو کم ازکم پہلی بار ان کے منہ سے اس قسم کا کھرا سچ سنا ہے۔ اینکر کے ایک سوال کے جواب میں فرمانے لگے کہ

”اس ملک میں 90 فیصد برائی کی جڑ بیوروکریسی ہے دراصل یہی وہ وہ لوگ ہوتے ہیں جو سیاستدانوں کو کرپشن کے گر سکھاتے ہیں کیوں کہ سیاستدانوں کو فائل پڑھنی نہیں آتی اور وہ ان کے“ گرو ”بن جاتے ہیں بس پھر راز و نیاز شروع ہو جاتا ہے“

پروگرام تو طنز و مزاح کا تھا مگر اوریا صاحب نے اپنے سینئر ہونے کا فائدہ اٹھاتے ہوئے سنجیدہ گوئی کر ڈالی اور ہم جیسے سیدھے سادوں پر بڑا احسان فرمایا۔ ان کی گفتگو سے ہمیں جو سمجھ آئی ہے وہ شاید یہ کہنا چاہ رہے تھے کہ ملکی زوال میں سب سے زیادہ بیوروکریسی کا ہاتھ ہے اور سیاست دانوں کا کردار آٹے میں نمک کے برابر ہے۔ اگر ہم ان کے موقف کو مدنظر رکھتے ہوئے حساب کتاب نکالیں تو سب سے کم وقت یا دورانیہ جمہوریت کا بنتا ہے چاہے وہ جس طرح کی بھی رہی ہو پھر اس کا واضح مطلب یہی ہوا کہ اس ملک کو چلانے میں سب سے زیادہ کردار سول و ملٹری بیوروکریسی کا رہا ہے تو پھر موجودہ تنزلی کے ذمہ دار اکیلے سیاستدان کیسے ہو سکتے ہیں؟

ایک پختہ اور مستحکم ڈھانچہ جسے ایک طویل مدت اور بھرپور آزادی ملی ہو اس کے سامنے بچے جمہوروں کی کیا اہمیت یا اوقات ہو سکتی ہے؟ کیونکہ اس حساب سے تو سیاستدان ابھی بچے جمہورے ہیں مگر ایک بات بالکل صاف اور واضح ہو گئی کہ سیاستدان غلط نہیں ہوتے بلکہ انہیں غلط راستوں پر ڈالا جاتا ہے، جب تک سیم پیج رہتا ہے یہ سلسلہ چلتا رہتا ہے جیسے ہی کسی وزیراعظم کو اپنے عہدے کی طاقت و مرتبے کا گیان حاصل ہونے لگتا ہے تو اس سے پیچھا چھڑا کر کوئی اور متبادل ہیرو تراش لیا جاتا ہے۔ بہرحال دفتری بابووں کے سابق بابو نے اپنی پوزیشن عمر کے اس حصے میں واضح کی ہے جس عمر میں لوگ زیادہ تر صوفی قدرت اللہ شہاب یا تلقین بابے بن جاتے ہیں۔ ساری عمر دفتری رنگینیاں انجوائے کرنے کے بعد حج و عمرہ کی سعادت حاصل کر کے اپنے گناہ بخشوا لیتے ہیں اور بعد میں لوگوں کو سیدھا راہ دکھانے والے بن جاتے ہیں۔

اسی پروگرام میں ان سے پوچھا گیا کہ آپ ہمیشہ سخت لہجے میں کیوں باتیں کرتے ہیں؟ اس سوال کے جواب میں فرمانے لگے کہ

”بنیادی طور پر جو لبرل طبقہ ہے وہ میرا سافٹ امیج لوگوں تک پہنچنے نہیں دیتا وہ اچھے سے اس حقیقت کو جانتے ہیں کہ اگر میرا سافٹ امیج لوگوں تک پہنچ گیا تو وہ میری باتیں سننا شروع کر دیں گے“

اوریا صاحب کی بے چارگی پر بہت افسوس ہوا اور جان کر عجیب بھی لگا کہ ان کی ترقی کے راستے میں سب سے بڑی رکاوٹ لبرل طبقہ ہے جو ان کے سافٹ امیج کو ٹارنش یا کیموفلاج کرنے میں مصروف رہتا ہے۔ اوریا صاحب معذرت کے ساتھ سافٹ امیج کا دوسرا مفہوم یا مطلب منافقت یا موقع پرستی ہوتا ہے جسے ہم سلو پوائزننگ کا عمل بھی کہہ سکتے ہیں جو بہت آہستہ آہستہ برین واشنگ، ماڈریشن یا اینلائٹنمنٹ کے نام پر عوام کے دماغوں میں انڈیلا جاتا ہے اور انہی تضاد بیانیوں کی وجہ سے آج ہم نا تو پورے جمہوری بن پائے اور نا ہی پورے کے پورے مذہب میں داخل ہو پائے بس موقع کی مناسبت سے ادھر ادھر لڑھکتے رہتے ہیں۔ اوریا جی کے کہنے کا مقصد بھی یہی ہے کہ سافٹ امیج کے نام پر سیلف امیج کو موقع کی مناسبت سے ایک ایسے ڈھانچے میں فٹ کر لینا جس کی معاشرے میں بہت زیادہ ڈیمانڈ ہو اور انہوں نے اپنی زندگی فکری پچ کے دونوں طرف سے کھیلتے ہوئے خوب انجوائے کی ہے اور اب زندگی کی سہ پہر میں انہوں نے مساجد میں خطبے وغیرہ بھی دینا شروع کر دیے ہیں۔

سافٹ امیج کا یہی تو فائدہ ہوتا ہے کہ جس طبقے میں بھی قدم رکھو پذیرائی کا تاج ماتھے پر فوری سج جاتا ہے، ایک دنیا دار اور سیکولر بندے کو اتنی سپیس و سہولیات کہاں میسر ہوتی ہیں؟ سافٹ امیج والوں کو یہ استحقاق حاصل ہوتا ہے کہ لبرلوں کی محفل میں لبرل بن کے گفتگو فرما لیں اور جہاں اخلاقیات کا جمعہ بازار سجا ہوا ہو وہاں مذہب کے نام پر گھس جاؤ اور خوب داد سمیٹ لو۔

موجودہ آڈیو لیکس کے پس منظر کی وضاحت کرتے ہوئے اوریا کا کہنا تھا کہ

”کسی کی نجی زندگی میں نہیں گھسنا چاہیے اور مقدس آیات کا حوالہ دیتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ کسی کی ٹوہ میں نہ رہو اور سب سے بدترین چیز کسی کی پرائیویسی میں مخل ہونا ہے“

بالکل درست فرمایا مگر ذرا ٹرانس جینڈرز کو شناخت دینے کے حوالہ سے دیے جانے والے حقوق اور منظور ہونے والے بل پر آپ نے کیا رویہ اختیار فرمایا ہے ذرا غور فرما لیں؟ ٹرانسجینڈر معاملے پر آپ کا سافٹ امیج کچھ اس قسم کی پیش گوئیاں کر رہا ہے کہ

”لوگ تفریحاً اپنی جنس تبدیل کروائیں گے اور مرد کی مرد سے شادیاں ہونے لگیں گی“

موصوف اپنے اخلاقی بھاشن میں ایک حقیقت کو نظر انداز کر گئے کہ جنس بدلنا کوئی تفریح نہیں ہوتی اور ایسے معاشرے جہاں خواتین کو سیکس ٹوائے سے زیادہ اہمیت نہیں دی جاتی وہاں تفریح کے طور پر کون اپنی جنس تبدیل کروانے کا خطرہ مول لے سکتا ہے؟ اخلاقیات کا یہ کون سا پیمانہ ہے کہ آپ کسی کے کمفرٹ لیول یا زون میں غیرت بریگیڈ کا لیبل لگا کر گھس جائیں؟ دراصل بات یہ ہے کہ ”طبقہ اوریا“ سب سمجھتے اور جانتے ہیں اسی لئے اپنے کالمز، ٹی وی اسکرین یا کتابوں کی صورت میں وہی مال بیچتے ہیں جو اس معاشرے میں بکتا ہے۔ حقیقت میں یہ ہم سے کہیں زیادہ چالاک ہیں اور موقع سے فائدہ اٹھانا خوب جانتے ہیں۔

 


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments