ڈجکوٹ کی یادیں


ڈجکوٹ لائلپور نام کے اس شہر سے قریب سولہ میل دور بسی تاریخی آبادی تھی کہ جسے 1975 میں سعودی شاہ فیصل کے نام پر فیصل آباد ہونا پڑا، ڈجکوٹ جسے ساندل بار کی آبادکاری کے دوران چکمنبر 263 کا نام دیا گیا، دراصل ایک بہت پرانی آبادی ہے، اس کی تاریخ سے دلچسپی رکھنے والے اسے ولندیزی /ڈچ مہم جؤوں کی کی آمد سے منسلک کر کے ڈچکوٹ کا نام دیتے ہیں جسے بعد ازاں ڈجکوٹ کہا جانے لگا۔ 1949 میں پنجاب پر قبضے کے بعد ، پنجاب کے کھلے میدان اور چوڑے دریاؤں نے انگریز کی آنکھیں خیرہ کر دی تھیں۔

پنجاب کے پانچ دوآبے اور پانچ باریں تھیں۔ دو دریاؤں کے درمیانی علاقے کو دوآبہ اور اس کی درمیانی قدرے بے آباد پٹی کو بار کہا جاتا تھا۔ انگریز نے شمال سے جنوب کی جانب ایستادہ ان سینکڑوں میل لمبی پٹیوں کو آباد کرنے کا منصوبہ بنایا۔ زمین اور محنتی کسان پنجاب کے پاس تھے اور منصوبہ بندی اور مشینری انگریز کے پاس۔ دریاؤں سے نہریں نکالی گئیں اور کاشتکاری کے لحاظ سے تجربہ کار اضلاع سے پنجابیوں کو مختلف ترغیبات سے زمینیں آباد کرنے کے لیے لایا جانے لگا۔ پنجاب کی پانچ باروں کو آباد کرنے کا سلسلہ گوندل بار سے شروع ہوا اور کرانہ بار سے ہوتا ہوا ساندل بار میں پہنچا، ڈجکوٹ ساندل بار کا معروف قصبہ تھا۔

تاریخی طور پر پرانا ڈجکوٹ ہندوستانی بودوباش کی طرز پر تنگ اور پیچ دار گلیوں پر مشتمل ایک چھوٹا سا قصبہ تھا۔ بابا شیر شاہ ولی کی درگاہ اس کی پہچان تھی کہ جہاں موسم بہار کے آغاز میں ایک بڑا میلہ لگتا تھا۔ دربار کے ساتھ ہی ڈجکوٹ کا قدرے بدنام تھانہ اور نیک نام ہائی سکول واقع تھے۔ یہ دونوں عمارتیں بیسویں صدی کے اوائل کی یادگار تھیں۔ سکول کے متعلق بتایا جاتا تھا کہ اس کی شکل انگریزی حرف H کی شکل کی ہے۔ سکول کے بورڈنگ ہاؤس کے بلند گیٹ پر اس کی تعمیر کا سال 1916 کندھ تھا۔ یہ وہ زمانہ تھا کہ جب ستلج اور بیاس کے دیس سے آنے والے آباد کاروں نے ڈجکوٹ کی معاشی سماجی اور معاشی زندگی میں ایک تحرک پیدا کر دیا تھا، ڈجکوٹ کا سکول، اس کی غلہ منڈی اور تھانہ اس کی تہذیبی زندگی کے نمایاں ستون تھے۔

ڈجکوٹ اور ساندل بار کے باسی راوی اور چناب کے درمیانی دوآبے میں مختلف زمانوں سے آباد ہوتے آئے تھے، ان میں آریائی نقوش اور نیلی سبز انکھوں والے کھرل سیال اور وٹو بھی تھے اور دراوڑی نقوش والے مصلی بھی کہ جن کے متعلق خیال کیا جاتا ہے کہ وہ ہڑپہ اور موہنجو داڑو کی تہذیب کے وارث تھے جنہیں تاریخ کے ایک لمبے عرصے میں حملہ آور قبائل نے بستیوں اور شہروں سے نکال باہر کیا تھا۔ ان میں سے زیادہ تر سمٹتے سمٹے ہندوستان کے جنوب کی طرف چلے گئے تھے۔ کہا جاتا ہے کہ ان دراوڑی قبائل کی قدیم زبان کے الفاظ کا قابل قدر حصہ ہندوستان کی جنوب کی زبانوں ملیالم، تامل، کنڑ اوڑیا اور کیرل میں آج بھی موجود ہے

1967 کا ڈجکوٹ شہری اور دیہی طرز کی تقسیم سے عبارت تھا، اس کا مشرقی حصہ بل کھاتی تنگ گلیوں اور پر پیچ بازاروں پر مشتمل تھا، اسی حصے میں سکول، تھانہ اور بس اڈہ واقع تھے، 1947 کے بعد اس حصے میں انڈیا سے پدھارے ہندوؤں کی جگہ غیر کاشتکار مسلمان دکاندار اور مزدور آباد ہو گئے تھے۔ مغربی حصہ چک نمبر 263۔ رب کہلاتا تھا کہ جس میں سکھ کاشتکاروں کے چھوڑے مکانوں میں مسلمان کاشتکار آن آباد ہوئے تھے، ان میں امرتسر کے گاؤں منڈیالہ کے راجپوت اور ڈوگر، امرتسر کے تلونڈی اور رڈالہ کے راجپوت۔ جالندھر کی تحصیل نکودر کے ارائیں، ہوشیار پور کے گاؤں تھتھلاں، کھنڈے، چک ڈھکی اور بشوہی کے گجر اور جالندھر کے اعوان زیادہ تعداد میں تھے، اسی حصے میں ہوشیار پور کے ملک/ تیلی، قریشی /مراسی اور آدم پور کے شیخ /بھرائی اور گجر بھی آباد تھے

ہمارے حصے میں ”نکریاں والا احاطہ“ آیا تھا، خدا جانے یہ نکرے کون تھے، میں آج تک ان کی تلاش میں ہوں، اس سلسلے میں، میں نے سانول دھامی سے بھی رابطہ کیا ہے۔ سانول دھامی یوٹیوب پر اپنے وڈیو چینل ”سنتالی نامہ“ کے ذریعے ڈجکوٹ سے انڈیا ہجرت کر جانے والے بہت سے لوگوں کے انٹرویوز کر چکے ہیں۔ ابھی تک اس سلسلے میں کچھ پتہ نہیں چل سکا، میری خواہش تھی کہ اس گھر سے جانے والوں میں سے کوئی زندہ ہو تو میں اس کے ساتھ اپنے احساسات اور جذبات سانجھے کروں۔ امکان اس لیے کم نظر آتا ہے کہ ہجرت کو 75 سال ہو چلے ہیں۔ اور سانول کے بقول انہوں نے جتنے لوگوں کے بھی انٹرویوز کیے تھے وہ سب وفات پا چکے ہیں۔ اس سلسلے میں کوشش بہرحال جاری ہے۔

طارق گجر

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

طارق گجر

طارق گجر بنیادی طور پر پنجابی شاعر اور افسانہ نگار ہیں، تقسیم پنجاب ان کی تخلیقی شخصیت کا ہمیشہ سے محرک رہا ہے۔ وہ ان پنجابی لکھاریوں میں شمار ہوتے ہیں جنہوں نے 1947 کے بعد پنجابیوں کو درپیش شناختی بحران کے حوالے سے قابل قدر تخلیقی کام کیا ہے۔ اس حوالے سے ان کی شاعری کی کتاب ”رت رلے پانی“ قابل ذکر ہے۔ پچھلے چند سالوں سے انہوں نے پنجاب کی تقسیم کے عینی شاہدین کے انٹرویوز کے ذریعے تقسیم پنجاب کے سلیبسی نقطہ نظر کے متوازی پنجاب کے عوام کا نقطہ نطر سامنے لانے کے سلسلے میں بھی کام کیا ہے۔ طارق گجر جمہوریت، مکالمے، صنفی برابری اور آزادیٔ رائے پر کامل یقین رکھتے ہیں اور پاکستانی میں بسنے والی اقوام کے درمیان مکالمے کے لیے کوشاں رہتے ہیں

tariq-mahmood-gujjar has 10 posts and counting.See all posts by tariq-mahmood-gujjar

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments