جھوٹ کی امر بیل


سنتے آئے کہ بد اچھا بدنام برا، ہوتے ہواتے اس کا عملی نمونہ بھی دیکھ لیا۔ عوامی سیاستدان غدار اور مفاد پرست ہیں، ملک دشمن ہیں۔ عوام کو بیوقوف بنا کے انتخاب جیتے کر اقتدار حاصل کرتے ہیں پھر اختیارات کا ناجائز استعمال کرتے ہوئے بدعنوانی!

یہی ہیں جو ستر سال سے ملکی اثاثے لوٹ رہے ہیں
یہی ہیں جو سرمایہ کاری کی آڑ میں تجوریاں بھر رہے ہیں
یہی ہیں جو ملک میں غربت اور معاشی بدحالی کا سبب ہیں وغیرہ وغیرہ

پاکستان میں فاطمہ جناح سے آج تک کسی نہ کسی وقت میں ہر عوامی رہنما کو ملک دشمن اور غدار وطن ہونے کے تمغے پہنائے گئے۔

باقاعدہ و منظم پروپیگنڈا کی اس فیکٹری کا افتتاح قیام پاکستان کے ابتدائی سالوں میں ہو گیا تھا۔
جبکہ ملک کے دولخت ہونے سے بیس سال پہلے سے کون عوامی رہنماؤں اور سیاستدانوں سے نالاں تھا؟
ملک کے پہلے وزیر اعظم کا قتل، اس کے شواہد اور گرفتار قاتل کو ختم کر دینے میں کون ملوث تھا؟
کون بظاہر ایک مجہول، فالج زدہ صدر کو بطور کٹھ پتلی استعمال کرتے ہوئے حکومت پے قابض رہا؟
کس ادارے کے اعلی افسران جمہوریت پسند محب وطن بنگالی سیاستدانوں، بیوروکریٹس، قانون دان، ماہر معاشیات اور دانشوروں سے نفرت کرتے تھے؟

کون تھے جنھوں نے منظم انداز میں مغربی پاکستان میں پروپیگنڈا کیا کہ بنگالی ہم سے مختلف ہیں۔ یہ نہ سچے مسلمان ہیں نہ پاکستانی! ان کی عورتیں ہندو پہناوا ساڑھی پہنتی ہیں۔ اسلام کے برخلاف موسیقی ان کی ثقافت کا جز ہے۔

وہی صوبہ بنگال جس نے تحریک پاکستان کے ہراول دستے کی آبیاری کی، پاکستان دشمن مشہور کر دیا گیا، ایک جانب صوبہ بنگال میں بدترین ریاستی آپریشن کیا جا رہا تھا اور دوسری جانب مغربی پاکستانی باشندوں کے ذہن نشین کرایا جا رہا تھا کہ بنگالی علیحدگی پسند ہیں۔ یہ صوبہ ملکی معیشت پر بوجھ ہے۔

”بھوکے بنگالی“ جیسی رکیک اور تذلیل آمیز اصطلاح عام کر دی گئی۔ نتیجہ آج آشکار ہے۔ ملک تقسیم ہوا، ملک کا سب سے اعلی تعلیم یافتہ حصہ الگ ہو گیا تو کس نے سکھ کا سانس لیا؟
نقصان ہوا سو ہوا لیکن پاکستانی سیاست میں پروپیگنڈا کی کامیابی دائمی ہو گئی۔

جھوٹ کی یہ امر بیل ہمیشہ سچ بولنے والوں کے خون سے سینچی جاتی ہے۔ ہم سب نے دیکھا سچ لکھنے بولنے والوں کے ہاتھ قلم ہوئے، زبان بندی ہوئی، بیروزگاری، جیل، کوڑے یہاں تک کہ نامعلوم فرشتوں کے ہاتھوں غائب ہو جانا بھی معمول بن گیا۔

ان پچھتر سالوں میں کسی دوسری صنعت نے اتنی ترقی نہیں کی جتنا پروپیگنڈے یعنی جھوٹے بیانئیے کے کاروبار نے کی ہے۔

جیسے ٹرنک کال کی جگہ ویڈیو کال، ٹیلی گراف کی واٹس ایپ اور اخبار کی سوشل میڈیا نے لے لی اسی طرح شہر شہر پھرنے والے اجرتی مجمع باز بھی اب کیبورڈ وارئیرز ہو گئے ہیں اور جھوٹ کی کھیتی والے سینہ ٹھونک کے کہتے ہیں کہ ہم نے پچھلے بائیس سال سائی بورگ مقبول کرنے میں صرف کیے ہیں، جسے بحیثیت سیاسی لیڈر عوام کی آنکھ کا تارا۔ امید کا شرارہ اور تبدیلی کا استعارہ بنانے کے لئے ہر حربہ اور ذریعۂ ابلاغ بروئے کار لایا گیا۔ ہمارے ایک دوست پہلے کے بعد ایسا دوسرا ماڈل تیار ہوتے دیکھ کے رہ نہ پائے اور سنسان ہائی وے پر سڑک کنارے کھڑی گاڑی کے سامنے جائے نماز پر نیت باندھے تنہا نمازی کی فوٹو دیکھ کر بولے، حرام خور فوٹو گرافر بھی ہر وقت ساتھ رکھتے ہیں۔ خیر، ہماری دعا ہے کہ اللہ نمازی، فوٹوگرافر اور ہمارے دوست کے گناہ معاف فرمائے، آمین۔

جھوٹے بیانیے یعنی پروپیگنڈے کا اہم اصول محض کسی ایک کو مقبول کروانا نہیں بلکہ ساتھ ہی اس کے مخالف کو بدنام کرنا بھی ہے۔

آج کل ہم پاکستان کی تاریخ کے جس سماجی تفرقے۔ اخلاق باختگی، سیاسی تنزلی اور جہل کے تاریک دور سے گزر رہے ہیں، اسے درج کرنے کے لئے مورخ جو قلم استعمال کرے گا بعد میں شاید اسے ناپاک جان کے تلف کر دے۔ حیف۔

مگر داد دینی پڑتی ہے ان شاطر دماغوں کی جنھوں نے کم عمر، جذباتی اور پاکستانی سیاست سے قطعی نابلد نوجوانوں کی نگاہ میں اپنے گدھے کو زیبرا نہیں بلکہ مشکی گھوڑا بنا دیا۔ ہمارے یہاں ووٹ ڈالنے کی عمر اٹھارہ سال ہے لیکن اٹھارہ سے بیس بائیس برس کے بچوں کو قصداً سیاسی حقائق اور سیاست میں حصہ لینے سے بہت دور رکھا گیا۔ بقیہ تمام سیاست دان چور اور نا اہل ہیں جبکہ ایک آسمانی اوتار ہمیں عطا ہوا ہے جس کے تمام پیوستہ رنگین و سنگین گناہ معاف کر دیے گئے ہیں اور یہی ہے جو پاکستان ہی نہیں پوری امت مسلمہ کی رہنمائی فرماتے ہوئے اسلام اور پاکستان کی سربلندی کا خواب سچ کر دکھائے گا۔

کہتے ہیں، جوانی کی نیند، جوانی کے عشق اور جوانی کی عبادت کا کوئی بدل نہیں! ایسے میں اس جوان کو یقین دلا دیا جائے کہ اس کے رہنما کی سیاسی نبرد آزمائی دراصل جہاد ہے جو اس پر فرض ہے تو وہ کسی سچائی پر کان نہیں دھرے گا۔ کیونکہ اسے یقین ہے کہ روز محشر یہ سوال ہو گا کہ تم نے اوتار اعظم کا ساتھ دے کر اسے پھر وزیر اعظم کیوں نہیں بنوایا؟

لہذا یہ کروڑوں پاکستانی نوجوان اس وقت ایک ہی شخصیت کے سحر میں مبتلا ہیں۔ دیگر سیاسی جماعتوں کو اپنے یوتھ ونگ کو موثر بنانے پر مکمل توجہ دینی پڑے گی ورنہ نتیجہ ضمنی انتخابات سا بھی ہو سکتا ہے۔
جھوٹا پروپیگنڈا باآسانی حقیقی اعلی کارکردگی کو مات دے جائے گا پھر نہ کہنا خبر نہ ہوئی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments