کبھی یوں بھی تو ہو


پورے چاند کی رات میں کبھی دریا دیکھا ہے آپ نے؟ ساحل کی فضا کوئی ماورائی روپ اوڑھ لیتی ہے۔ رومان بھرا، اس زمین سے باہر کا کوئی رنگ۔ میں جب بھی جاوید اختر کی یہ نظم جگجیت کی آواز میں سنتا ہوں تو مجھے پتہ نہیں کیوں وہ شب ماہ یاد آجاتی ہے۔

کبھی یوں بھی تو ہو
دریا کا ساحل ہو
پورے چاند کی رات ہو
اور تم آؤ۔
کبھی یوں بھی تو ہو
پریوں کی محفل ہو
کوئی تمہاری بات ہو
اور تم آؤ۔

بڑے دنوں کی بات ہے۔ کم و بیش تیس بتیس برس پہلے کی۔ گرمیوں کے روزے تھے۔ ہم دوستوں نے پروگرام بنایا کہ شہر کے پڑوس سے گزرنے والے چناب کے کنارے ایک افطاری کرتے ہیں۔ ہم چار لوگ تھے، میں، ندیم، یاسین اور خالد ٹائیگر۔ افسوس میرے یہ تینوں ساتھی اب اس دنیا میں نہیں۔ بچپن اور لڑکپن سے چلے آنے والے میرے ہم جولیوں کو خدا جانے کیا سوجھی کہ ایک ایک کر کے سبھی چلے گئے۔

ہم نے ایک بڑی دری لی اور کچھ برتن۔ ڈیرہ اڈا سے کڑھائی بنوائی۔ فروٹ اور بوتلیں خریدیں، موٹرسائیکلوں پر بیٹھے اور افطاری سے کوئی آدھ گھنٹہ پہلے دریائے چناب کے مظفرگڑھ کی جانب والے کنارے دری بچھا کر سامان وغیرہ آراستہ کر دیا۔ ملتان سے اور بھی لوگ آئے ہوئے تھے۔ افطاری ہو چکی تو ہم گپ شپ میں مگن ہوئے۔ ہمارے اردگرد والے ایک ایک کر کے سبھی چلے گئے۔ شام رات میں ڈھل گئی، اتفاق سے رات بھی چودھویں کی تھی۔

پتہ نہیں کتنی دیر باتوں میں بیت گئی، ایک دم مجھے احساس ہوا کہ ہمارا گردوپیش کوئی جادوئی چادر اوڑھ چکا ہے۔ کسی ساحر نے جیسے طلسمی فضا تخلیق کی ہو۔ چاند اوپر آ چکا تھا۔ دریا کا پانی رسان سے بہتا تھا۔ چاند کی ٹھنڈی دھوپ کی چادر دریا کی سطح پر بچھی تھی۔ پانی کی سطح پر چھوٹی چھوٹی لہریں قوسیں بناتیں تو چاندنی کی دودھیا چادر میں سلوٹیں پڑتیں جن پر چاند تھرتھراتا اور رقص کرتا۔ دریا سے نمی لے کر اور شب چار دھم کی خنک چاندنی کے جام پی کر ساحل کی ریت ٹھنڈی ہو گئی تھی۔

اس پر ہلکی ہوا۔ چہار سو فطرت اپنے کامل حسن کے ساتھ جلوہ نما تھی اور دلوں کو رومان سے بھرتی تھی۔ میرے باقی دوستوں کو بھی فطرت کی حسینہ نے اپنی زلف کا اسیر کر لیا تھا۔ وہ بھی دم بخود تھے اور دریا کی سطح پر پھیلے خلا کو تکتے تھے۔ میں اٹھا اور ننگے پیر ساحل کی ریت پر چہل قدمی کرنے لگا۔ آدھا کلومیٹر دور دریا کے پل سے ٹریفک گزر رہی تھی، خاموش ٹریفک اور اس کی متحرک روشنیاں، جیسے کسی ہانٹڈ فلم کا منظر ہو۔

چلتے چلتے میں اپنے ساتھیوں سے خاصا دور نکل گیا۔ کوئی خواب تھا میرے گردا گرد اور میں اس میں چلا جا رہا تھا۔ یک بہ یک میری نظر دریا سے ہٹ کر سامنے جو پڑی تو پچیس تیس قدم کے فاصلے پر کچھ حرکت محسوس ہوئی۔ ایک لمحے کو کچھ سمجھ نہ آیا پھر ذرا غور کیا تو میرے قدم خود بہ خود رک کر ٹھٹھر گئے۔ دو سیاہ ناگ تھے کم و بیش سات سات آٹھ آٹھ فٹ طویل اور خوب صحت مند۔ ان کی سیاہ جلد دودھیا چاندنی میں چمکتی تھی۔ دونوں پھن اٹھائے آمنے سامنے تھے۔

پھن زمین سے ایک ڈیڑھ فٹ بلند ضرور ہوں گے۔ چار چھ انچ کے فاصلے سے اک دوجے کے عین مقابل آنکھوں میں آنکھیں ڈالے ساکت۔ مجھے لگا لڑائی کے موڈ میں ہیں لیکن دونوں نے دھیرے سے پھن سے پھن ملایا اور پھر اک دوسرے کو لپیٹ میں لینے لگے۔ لپیٹ چکے تو لوٹ پوٹ ہونے لگے۔ کبھی پھن اٹھا لیتے۔ اک دوجے کے گرد لپٹے ان کے پھن زمین سے اڑھائی تین فٹ اوپر تک آ جاتے اور پھر وہ دائیں بائیں جھومتے۔ گویا کسی بال روم میں رقص فرما ہوں۔ اک دوجے میں گم وہ میری موجودگی سے بے خبر تھے۔ میرے سامنے رومانٹک منظر چل رہا تھا تاہم سانپ سے ایک ازلی خوف کی بنا پر اس رومان انگیز فضا میں بھی یہ رومانی منظر مجھے وحشت ناک لگا۔

زیادہ سے زیادہ ایک آدھ منٹ یہ تماشا میں نے دیکھا ہو گا کہ ایک دم سے میرے دفاعی سسٹم نے فوراً وہاں سے بھاگ لینے کی کمانڈ دی جسے میرے پیروں نے بلاچوں چرا تسلیم کیا۔ میں پلٹ کر تیزی سے دوستوں کی طرف بڑھا۔ چاندنی رات میں دریا کنارے کا سارا رومان تحلیل ہو کے خوف کی نالی سے بہہ چکا تھا۔ اسی عالم میں کسی موٹرسائیکل کی آواز میں نے سنی۔ ادھر میں اپنی دری کے پاس پہنچا جہاں میرے تینوں دوست بیٹھے تھے، ادھر دو موٹرسائیکلیں جن کی پیشانی کی بتیاں بجھی ہوئی تھیں، دری کے پاس آ کر رکیں۔

ان پر دو دو افراد سوار تھے۔ پیچھے بیٹھے ہوئے دونوں پھرتی سے اترے اور ہمارے سروں پر آن کھڑے ہوئے۔ ایک لمحے کو لگا کہ ڈاکا پڑ گیا ہے لیکن پھر پتہ چلا کہ ڈاکا نہیں چھاپہ ہے کیونکہ ان چاروں میں سے تین پولیس کی وردی میں تھے۔ چھاپہ اور ڈاکا ایک ہی انداز میں پڑا کرتا ہے۔ پولیس ہو یا ڈاکو، دونوں کو اپنے کلی اختیار پر مکمل بھروسا ہوتا ہے۔

سوال جواب کا طویل سلسلہ۔ کون ہو، کہاں سے آئے تو، کیوں بیٹھے ہو یہاں، وغیرہ وغیرہ۔ پھر خالی بوتلیں کھول کھول کر سونگھی جانے لگیں، ہمارے منہ سونگھے گئے۔ اللہ جانتا ہے کہ اس سے پہلے مجھے پتہ نہ تھا کہ منہ کیوں سونگھے جاتے ہیں۔ آخر کلام جب میں نے ابا جی کا نام بتایا جس کے ساتھ ایڈووکیٹ لگا ہوا تھا تو ہماری جان خلاصی ہوئی۔

دریا کنارے، ماہ شب چار دھم کی نقرئی دھوپ میں جب جاوید اختر، محبوب کی آمد کا تخیل تراش کر اس کے انتظار میں ہوتے ہیں تو آج بھی اسے سن کر مجھے یہ پورے چاند کی رات یاد آجاتی ہے۔ کالے ناگوں کی باہم خود رفتگی اور پولیس کی طرف سے اپنے حصے میں آنے والی تفتیشی پھٹکار۔ میں سوچتا ہوں کہ ہر ایک کا اپنا اپنا رومان ہے۔ لب دریا چھٹکی چاندنی کالے ناگوں کو جسمانی رومانس پر اکساتی یہ تو کالی وردی والی پولیس کو مال پانی کے رومانس پر۔

جاوید اختر خوش قسمت ہیں کہ پورے چاند کی رات میں دریا کنارے بیٹھ کے محبوب کی آمد کی امید کے نغمے لکھ سکتے ہیں۔ مملکت خداداد اسلامی جمہوریہ پاکستان میں تو ایسے عالم میں چھاپے کا ڈر رہتا ہے اور اگر خدا نہ کرے محبوب ساتھ ہو تو چھاپہ ”کامیاب“ قرار پاتا ہے۔

 


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments