مرگِ حق و باطل


بہ وجوہ کل ایک مطب میں ایک نوجوان ڈاکٹر کے ساتھ میرا کچھ وقت گزرا، نئی نسل کے ذہن پڑھنا ایک دل چسپ اور ضروری عمل ہے، سو میں نے موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے بات چیت کا آغاز کی جو پہاڑی علاقے کی سڑک کی طرح بل کھاتی ہوئی سیاست کی وادی میں اتر گئی۔ڈاکٹر صاحب کی جن باتوں نے مجھے چونکایا پہلے وہ سن لیں، انہوں نے کہا میں نے ’مشرقی پاکستان‘ کا نام کبھی نہیں سنا، میرے کریدنے پر انہوں نے فرمایا کہ انہیں یہ معلوم ہے کہ پاکستان ٹوٹ گیا تھا، پھر انہوں نے کہا ’اچھا آپ بنگلہ دیش کی بات کر رہے ہیں‘، اور ساتھ ہی زیرلب بڑبڑائے ’وہ تو ہر چیز میں ہم سے آگے نکل گیا ہے‘۔ ڈاکٹر صاحب نے بتایا کہ پاکستان بھٹو نے توڑا تھا، میں نے پوچھا،” آپ کی نظر سے حمودالرحمن کمیشن رپورٹ گزری ہے؟“ انہوں نے فرمایا،” میں نے ’اس چیز‘ کا نام پہلے کبھی نہیں سنا۔ “آئین پاکستان کا نام انہوں نے سن رکھا تھا، اٹھارہویں ترمیم کے وجودِ مسعود سے وہ یک سر بے خبر تھے، بہرحال ان کا ایقان تھا کہ پاکستان کے مسائل کا حل صدارتی نظام میں عنقا ہے۔ ڈاکٹر صاحب نے بتایا کہ وہ ملک کے سیاست دانوں میں سے عمران خان کو پسند فرماتے ہیں، جس سے مزید تصدیق ہوئی کہ پاکستان کے ’پڑھے لکھے‘ لوگ خان صاحب کے حامی ہیں۔

ابھی کچھ سال پہلے تک ہم اپنے سیاسی خیالات اپنے گھر کے بڑوں سے اخذ کیا کرتے تھے،مشاہدہ یہی تھا کہ باپ اگر پیپلز پارٹی یا مسلم لیگ کا حامی ہوتا تو بچے بھی عموماً اسی جماعت کو پسند کرتے،اسی روایت کا شاخسانہ ہے کہ ہم کئی لوگوں کو جانتے ہیں جو اپنا تعارف خاندانی مسلم لیگی کے طور پر کرواتے ہیں۔ مجھے یاد ہے میاں صلاح الدین 1970 کے الیکشن میں لاہور شہر کے حلقے سے امیدوار تھے، وہ کنویسنگ کے لیے والد صاحب کے پاس ہمارے آبائی گھر شیش محل روڈ تشریف لائے تھے، بعد میں اس ملاقات کی نسبت سے ہم نے والد صاحبکو اماں جان سے سیاست پر کچھ گفتگو کرتے سنا، ہم پر اس کے نقوش مرتب ہوئے، اسی طرح والد صاحب بھٹو صاحب یا مودودی صاحب کے حوالے سے جس رائے کا اظہار کیا کرتے تھے اس کے اثرات ہم پر تادیر قائم رہے۔ اب ایسا کم کم ہوتا ہے، اب سیاست کے باب میں (بلکہ اکثر معاملات میں) بچوں کے معلم نہ اسکول کے اساتذہ ہیں نہ ماں باپ۔اس دور میں عقائد و خیالات سینچنے کا سب سے موثر ذریعہ سوشل میڈیا ہے، ٹک ٹاک سے ٹوئٹر تک۔ جن ڈاکٹر صاحب کا ابھی میں نے ذکرِ خیر کیا ان کے سیاسی عقائد بھی ڈیجیٹل میڈیا کی عطا ہیں، کیوں کہ انہوں نے بتایا تھا کہ پاکستان کے حوالے سے انہوں نے جو آخری کتاب پڑھ رکھی تھی اس کا نام تھا ’مطالعہ پاکستان برائے جماعت ہشتم‘۔

پاکستان میں عمران خان اور ان کے کوچ نے سوشل میڈیا کی اہمیت کو بہت پہلے سمجھ لیا تھا، 2013 کے انتخابات سے پہلے سے وہ انٹرنیشنل میڈیا کمپنیوں سے استفادہ کر رہے ہیں، عمران خان صرف اپنے جلسوں پر کروڑوں روپیہ نہیں خرچ رہے، بلکہ ڈیجیٹل میڈیا پر بھی حیران کن رقم لگا رہے ہیں، اس کا نتیجہ یہ ہے کہ مجھے بھی فیس بک سے گوگل تک، ہر پلیٹ فارم پر ’ایمان دار‘ عمران خان کی پوسٹس دکھائی جاتی ہیں، گو کہ میرے الگوردھم کے تحت ایسا نہیں ہونا چاہیے، یہی معاملہ آپ میں سے اکثر کو بھی درپیش رہا ہو گا، اسے کہتے ہیں ’ہر طرف تیرا جلوہ‘ جو ہمہ گیر ذہن سازی کا باعث بنتا ہے۔ ہمارے ایک زمیندار دوست بتا رہے تھے کہ ان کے گاﺅں میں وائی فائی یا اسمارٹ فونز مفقود ہیں، لیکن نوجوان موبائل شاپ سے سو دو سو کے بیسیوں ٹک ٹاک لوڈ کروا لیتے ہیں اوران میں ’جب آئے گا عمران‘ جیسے گیتوں پر رقص کرتی ہوئی خواتین کے ٹک ٹاک بھی شامل ہوتے ہیں۔ کیا آپ کو معلوم ہے کہ ڈیجیٹل میڈیا پر عمران خان کی حمایت کرنے والوں کے فالوورز دنوں میں ایک منظم نظام کے تحت لاکھوں تک پہنچا دیے جاتے ہیں اور انہیں یوٹیوب، فیس بک اور ٹک ٹاک سے اچھی خاصی آمدن ہونے لگتی ہے؟ یعنی عمران خان کی حمایت کرنے سے آپ خوش حال ہو سکتے ہیں، یہ حقیقت ہے کہ ڈیجیٹل میڈیا پر عمران خان کی مخالفت کرنا معاشی خود کشی کے مترادف ہے جو کوئی نظریاتی دیوانہ ہی کر سکتا ہےاور اگرسوشل میڈیا نفوذ کے حوالے سے دوسری سیاسی جماعتوں کا جائزہ لیا جائے تو وہ پتھر کے دور میں زندہ ہیں۔

حالیہ ضمنی انتخابات کو اسی پس منظر میں دیکھنا چاہیے۔ بیانیہ بنانے کو تو بہت سے دلائل تراشے جا سکتے ہیں، مثلاً، عمران خان صرف ایک قومی اسمبلی کی نشست پر خود امیدوار نہیں تھے، اور وہ نشست تحریکِ انصاف ہار گئی، عمران خان کراچی میں کسی عبدالحکیم بلوچ نامی شخص سے الیکشن ہار گئے، اس الیکشن میں چار ایسی نشستیں تھیں، ایک قومی اور تین صوبائی، جن پر عمران خان خود امیدوار نہیں تھے، اور ان میں سے دو پی ڈی ایم جیتی اور دو تحریکِ انصاف۔ یہ سب نکات اپنی جگہ درست ہیں مگر اس میں بھی کوئی کلام نہیں کہ عمران خان ایک انتہائی بے سروپا حکومت کرنے کے بعد بھی بتدریج مقبول ہو رہے ہیں، پنجاب کی تین صوبائی نشستوں کا نتیجہ اس ضمن میں سب سے معنی خیز ہے۔

ہم عہد پس مرگِ حق میں سانس لے رہے ہیں، سچ اور جھوٹ کی بحث تمام ہو چکی ہے، حق و باطل کی جنگ ساقط قرار پائی ہے، مریم نواز نے۔۔۔ اوہ، معاف کیجیے گا، پروین شاکر نے کیا خوب کہا ہے:

میں سچ کہوں گی مگر پھر بھی ہار جاﺅں گی
وہ جھوٹ بولے گا اور لاجواب کر دے گا

(بشکریہ روزنامہ جنگ)


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments