مری کے ایک کیڈٹ کالج میں طالبعلم کے ساتھ چار سینیئر طلبا کا مبینہ ریپ کا مقدمہ درج

محمد زبیر خان - صحافی


ریپ
پاکستان کے صوبہ پنجاب کے مشہور سیاحتی مقام مری میں واقع ایک کیڈٹ کالج کے ہاسٹل میں ایک طالبعلم کے ساتھ چار سینیئر طالب علموں کی جانب سے مبینہ ریپ کیے جانے کی شکایت پر پولیس نے مقدمہ درج کر لیا گیا ہے۔

متاثرہ لڑکے کے والد کی مدعیت میں درج ایف آئی آر میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ جب متاثرہ طالبعلم نے کالج پرنسپل سے رابطہ کیا اور انھیں اس بابت آگاہ کیا تو پرنسپل نے طالب علم کو کہا کہ وہ اس واقعہ کا کسی سے ذکر نہ کریں ورنہ انھیں کالج سے نکال دیا جائے گا۔

واقعے کے بعد جب متاثرہ طالب علم کے والدین مری پہنچے اور واقعے کا مقدمہ درج کیا گیا تو کالج انتظامیہ نے متاثرہ طالب علم کے والد کے دعوے کے مطابق نہ صرف انھیں کالج کے اندر یرغمال بنا لیا بلکہ پولیس کو بھی مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا تھا۔

راولپنڈی پولیس ترجمان کے مطابق کار سرکار میں مداخلت اور مزاحمت کی دفعات کے تحت کالج انتظامیہ کے خلاف ایک الگ ایف آئی آر بھی درج کی گئی ہے۔

بی بی سی نے کالج کے پرنسپل سے رابطہ قائم کیا تو اُن کا کہنا تھا کہ وہ اس پر اپنا موقف وائس نوٹ کی شکل میں واٹس ایپ پر بھیجیں گے۔ جس کے بعد انھیں اس پر پیغام بھیج کر یاد دہانی بھی کروائی گئی مگر ان کی جانب سے کوئی جواب نہیں ملا۔

واقعہ کیا پیش آیا ہے؟

پولیس

iStock

واقعے کا مقدمہ متاثرہ طالب علم کے والد کی مدعیت میں درج کروایا گیا ہے۔ ایف آئی آر میں والد نے کہا کہ گذشتہ دنوں جب ان کی اپنے بیٹے سے فون پر بات ہوئی تو اس نے رونا شروع کر دیا۔ ’میں نے فون پر بار بار پوچھا کہ کیا ہوا تو وہ نہیں بتا رہا تھا۔ جس پر میں فی الفور مری پہنچا۔‘

ایف آئی آر میں کہا گیا ہے کہ ’میں مری سے اپنے بیٹے کو لے کر گھر آ گیا۔ جہاں پر اس کی طبعیت بحال ہوئی تو اس نے بتایا کہ اس کے ساتھ ہاسٹل کے کمرے میں رات ایک بجے چار مختلف لڑکوں نے ریپ کیا ہے۔ جن میں سے ایک کے پاس پستول بھی تھا۔ انھوں نے دھمکی دی کہ شور مچایا یا کسی کو بتایا تو جان سے مار دیں گے۔‘

مقدمے میں کہا گیا کہ بچے نے اس واقعے سے متعلق پرنسپل کو بتایا تو انھوں نے کہا کہ ’اس واقعے کے بارے میں کسی کو کچھ نہ بتانا ورنہ سکول سے نکال دوں گا۔‘

پولیس کارروائی میں مزاحمت

متاثرہ طالب علم کے والد کے مطابق ’جب ہم نے پولیس کی مدد حاصل کی اور اس کے بعد کالج پہنچے تو وہاں پر ہمیں کالج انتظامیہ کی جانب سے انتہائی نامناسب صورتحال کا سامنا کرنا پڑا۔ مجھے اور میرے ساتھ موجود دیگر لوگوں کو کالج انتظامیہ نے عملاً یرغمال بنا لیا تھا۔‘

ان کا مزید کہنا تھا کہ ’ہمیں کالج سے باہر نکلنے کی اجازت نہیں دے رہے تھے۔ ہمیں ڈرایا دھمکایا جا رہا تھا۔ ہمیں کہا جارہا تھا کہ اس کے نتائج اچھے نہیں ہوں گے، تاہم کسی نہ کسی طرح ہمیں پولیس نے وہاں سے بحفاظت نکالا۔‘

یہ بھی پڑھیے

’ریپ کی ذمہ داری ریپ ہونے والے کے بجائے ریپ کرنے والے پر عائد کرنا ہوگی‘

اسلام آباد: کمسن لڑکی کے ریپ کے الزام میں چینی کمپنی کا مالک گرفتار

جاوید اقبال: ’100 بچوں‘ کا سفاک قاتل کیا شہرت کا بھوکا ذہنی مریض تھا؟

راولپنڈی پولیس کے ترجمان سجاد الحسن کے مطابق مری میں واقع ایک کیڈٹ کالج کے ہاسٹل میں پیش آنے والے واقعے کے ’مقدمے میں نامزد دو ملزمان کو گرفتار کر لیا گیا ہے جبکہ دو کی تلاش جاری ہے۔ تفتیش کے نتیجے میں اگر کوئی اور ملزم ہوا تو اس کو بھی گرفتار کیا جائے گا۔‘

ترجمان کے مطابق واقعے کے بعد متاثرہ طالبعلم کا میڈیکل کروا لیا گیا ہے جس کی بنیاد پر گرفتاریاں کی گئی ہیں تاہم میڈیکل کی تحریری رپورٹ فی الحال موصول نہیں ہوئی ہے۔

سجاد الحسن کے مطابق مری پولیس جب قانونی کارروائی کے لیے تعلیمی ادارے پہنچی تو اس کو بھی مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا تھا، جس پر مری پولیس نے قانون کے مطابق کارروائی کی ہے اور پولیس کے خلاف مزاحمت اور قانونی کارروائی میں رکاوٹیں کھڑی کرنے کا بھی مقدمہ بھی درج کر لیا گیا ہے۔

پولیس اے ایس آئی کی مدعیت میں درج ہونے والے اس مقدمے میں کہا گیا ہے کہ جب پولیس کارروائی کے لیے پہنچی تو ’پولیس پارٹی پر پتھراؤ کیا گیا۔ جس سے سرکاری گاڑی کے شیشے ٹوٹ گئے۔ اس موقعے پر ہوائی فائرنگ بھی ہوئی۔‘

’بیٹے کے لیے پریشان ہیں‘

متاثرہ طالبعلم کے والد کا کہنا ہے کہ اُن کا بیٹا اس وقت سکتے کی کیفیت میں ہے۔

’ڈاکٹروں نے کہا ہے کہ ہر ممکن کوشش کریں کہ یہ اس واقعے کو بھول جائے۔ اس وقت اس کا علاج چل رہا ہے۔ میں اپنی حالت کو بیٹے کی زندگی اور تحفظ کے لیے نارمل رکھنے کی کوشش کر رہا ہوں تاکہ بیٹے کا مستقبل محفوظ کر سکوں۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ’ہم نے بیٹے کے اچھے مستقبل کے لیے لاکھوں روپے کی فیسیں ادا کی تھیں۔ ہمیں کیا پتا تھا کہ وہاں پر ایسا واقعہ پیش آئے گا جس کے نتیجے میں ہمیں اپنے بیٹے کی زندگی کے لالے پڑ جائیں گے۔ اس وقت ہمارا سارا خاندان سکتے کی کیفیت میں ہے۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ’یہ میرا فیصلہ ہے کہ میں سکول اور پھر ملزماں کو قرار واقعی سزا دلوانے کے لیے ہر ممکن کوشش کروں گا، ملزماں کو کبھی معاف نہیں کروں گا تاکہ آئندہ کسی اور طالبعلم کے ساتھ ایسا نہ ہو۔‘


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32540 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments