ابھار


فرخندہ کریم پینتالیس برس کی ایک پر وقار خاتون تھیں۔ میں نے پہلی بار انھیں بھوربن میں دیکھا تھا۔ عام طور پر ان کے چہرے پر گہری سنجیدگی طاری رہتی لیکن جب بعد میں ملاقاتیں ہوئیں تو اندازہ ہوا کہ جاننے والوں کی محفل میں وہ خوب ہنستی تھیں اور ہنسی مذاق بھی کرتی تھیں۔ فرخندہ کریم کا قد لمبا تھا، رنگت سفید تھی، بال سیاہ تھے، جسم قدرے فربہ تھا لیکن برا نہیں لگتا تھا۔ لبوں پر ہلکی سی گلابی لپ اسٹک اور بالوں میں دھیمی دھیمی خوشبو ہوتی۔ کسی مرد کو اپنے قریب دیکھ کر وہ کچھ گھبرا سی جاتی تھیں اور بے وجہ دائیں بائیں دیکھنے لگتیں۔ وہ اپنی ماں کے ساتھ رہتی تھیں اور مجھے یہ سن کر حیرت ہوئی تھی کہ وہ ابھی تک کنواری تھیں۔

میں گرمیوں کی چھٹیاں گزارنے کے لیے وہاں موجود تھا۔ میں سلمان بھائی کے گھر میں رہتا تھا۔ سلمان بھائی کو وراثت میں باپ کا کروڑوں کا بزنس اور بھوربن کا مکان ملا تھا۔ یہ مکان گرمیوں کے سیزن کے علاوہ سال کے باقی مہینوں میں بند رہتا تھا۔ گرمیوں میں سلمان بھائی اپنی فیملی کے ساتھ تین ماہ یہاں گزارتے تھے۔ انھوں نے کچھ ایسی محبت سے مجھے اپنے گھر میں چھٹیاں گزارنے کی دعوت دی کہ میں رد نہ کر سکا۔

سلمان بھائی دراصل میرے دوست تھے لیکن مجھے اپنے بڑے بھائی کی طرح ہی عزیز تھے۔ سلمان بھائی اپنے دو بچوں شانی، مانی اور بھابی سارہ کے ساتھ آئے تھے۔ فرخندہ کریم کا گھر ان کے گھر سے قریب ہی تھا۔ ایک دو بار آمنا سامنا ہوا۔ شناسائی بڑھی تو ایک دوسرے کے گھر آنا جانا شروع ہو گیا۔ ایک دن سلمان بھائی نے بتایا کہ بزنس کے سلسلے میں انھیں واپس کراچی جانا پڑے گا۔ بھابی تو منھ بنا کر بیٹھ گئیں۔ میں نے روکنے کی کوشش کی لیکن وہ نہ مانے۔ کہا کہ جانا بہت ضروری ہے بصورت دیگر نقصان ہو گا۔ بہرحال وہ چلے گئے۔ ان کے جانے کے بعد دو تین دن بوریت کے تھے۔ پھر بھابی سارہ کی چھوٹی بہن فرحی آ گئی۔

فرحی کی عمر بیس اکیس برس تھی۔ اس کے دلکش چہرے پر ہلکی سی مسکراہٹ رہتی۔ بھرے بھرے ہونٹوں کے گوشے پر سیاہ تل اس کی دلکشی میں اضافہ کرتا تھا۔ سلمان بھائی نے ٹیبل ٹینس کا اہتمام بھی کر رکھا تھا۔ میں چونکہ ٹیبل ٹینس کا عمدہ کھلاڑی ہوں اور فرحی کو ٹیبل ٹینس سے عشق ہے اس لیے روزانہ کی بنیاد پر میچ کھیلے جانے لگے۔ میچ کے بعد لاؤنج میں بیٹھ کر چائے پی جاتی اور گپ شپ ہوتی۔ اسی دوران میں نے محسوس کیا کہ فرحی مجھے میٹھی میٹھی نگاہوں سے دیکھنے لگی ہے۔

ایک شام فرخندہ ملنے کے لیے آئی۔ اسے شکوہ تھا کہ کئی دنوں سے ہمارا ان کے آنا جانا نہیں ہوا۔ باتوں باتوں میں ٹیبل ٹینس کا ذکر ہوا تو اس نے دلچسپی کا اظہار کیا۔ طے ہوا کہ وہ سہ پہر کو آئے گی اور ٹیبل ٹینس سیکھے گی۔ دوسرے دن سہ پہر کو ہم تینوں ٹیبل ٹینس والے روم میں تھے۔ میں فرخندہ کو کھیل کے بنیادی اصول بتا رہا تھا۔

”دیکھو ہٹ کے بعد گیند کو سرور کے ایک طرف ٹیبل سے اچھلنا چاہیے، نیٹ کے اوپر سے مارے بغیر، اور دوسری طرف کی میز کو چھونا چاہیے۔ سروس کے وقت کھلاڑی، اس کا ریکٹ اور گیند میز کی پچھلی لائن کے پیچھے ہونا چاہیے۔ وصول کنندہ اپنی طرف سے اچھلتی ہوئی گیند کو واپس سرور کی طرف پھینکے گا اور غلطی تک یہ سلسلہ جاری رہے گا۔ غلطی پر مخالف کو ایک پوائنٹ ملے گا۔ کم از کم دو پوائنٹ کے فرق کے ساتھ ہمیں گیارہ سکور کرنا ہے۔ اس طرح ہم ایک سیٹ جیت جائیں گے۔ “

فرخندہ نے سر ہلایا اور بولی۔
”ٹھیک ہے میں سمجھ گئی ہوں۔ سروس کیسے کرنی ہے؟“

میں نے گیند کو ہتھیلی پر رکھا۔

”سروس کا آغاز کھلی ہتھیلی میں گیند سے ہونا چاہیے۔ گیند کو عمودی اور کم از کم سولہ سینٹی میٹر ہوا میں پھینکنا چاہیے۔ گیند پھینکنے کے بعد سرور کو اپنے آزاد بازو اور ہاتھ کو راستے سے ہٹانا چاہیے یہ رسیور کو گیند دکھانا ہے۔ تو کیا خیال ہے ٹرائی کرو۔“

فرخندہ میرے قریب آ گئی۔ اس نے قریباً فلیٹ سینے سے دوپٹا اتار کر ایک طرف رکھ دیا۔ غیر ارادی طور پر میں اسے دیکھ رہا تھا۔ اس نے دزدیدہ نگاہوں سے مجھے دیکھتے ہوئے ہاتھ آگے بڑھایا۔ میں نے اس کے ہاتھ کو اپنے ہاتھ میں لیا اور صحیح پوزیشن میں کرتے ہوئے گیند اس کی ہتھیلی پر رکھا۔ پھر اس کا دوسرا ہاتھ تھاما جس سے اس نے ریکٹ پکڑا ہوا تھا۔ اس کے بعد سرو کیا۔ گیند ٹیبل پر لگ کر اچھلی اور دوسری طرف گر گئی۔ فرحی جو دلچسپی سے دیکھ رہی تھی اس نے فوراً گیند اٹھائی اور ریکٹ سے سرو کرتے ہوئے ہماری طرف پھینکی۔

”چلیں میں کوشش کرتی ہوں۔“ فرخندہ نے نرمی سے اپنا ہاتھ چھڑاتے ہوئے کہا۔ تب مجھے احساس ہوا کہ میں نے ابھی تک اس کا ہاتھ تھاما ہوا تھا۔ فرخندہ نے دو تین بار الٹی سیدھی سروس کی اس کے بعد عمدگی سے سروس کرنے لگی۔ مجھے شبہ ہوا کہ وہ یہ کھیل اچھی طرح جانتی ہے۔ بہرحال اس دن کھیل سیکھنے میں خاصی دیر ہو گئی۔ ہم نے میچ اگلے دن تک کے لیے ملتوی کر دیا اور چائے کے لیے لاؤنج میں آ گئے۔ چند دن میں ہی فرخندہ مہارت سے کھیلنے لگی تھی۔

اب ایسا ہوتا تھا کہ پہلے میرا اور فرحی کا میچ ہوتا پھر جیتنے والا فرخندہ سے کھیلتا۔ اگر فرحی جیت جاتی تو وہ فرخندہ سے مقابلہ کرتی اور میں فرخندہ کو ٹپس دیتا۔ لیکن جب میں اور فرخندہ کھیل رہے ہوتے تو فرحی بور ہوتی رہتی۔ ہم نے سوچا کہ ایک اور کھلاڑی ہونا چاہیے تاکہ ڈبلز میچ ہو۔ ایسے میں میرا دھیان کاشر کی طرف منتقل ہوا۔ شام کو واک کے دوران میری کاشر سے دعا سلام ہوتی تھی۔ اس کی عمر تیس کے لگ بھگ تھی۔ جسم کچھ بھاری تھا اور چہرے پر ہلکی داڑھی تھی۔ وہ ایک شاندار ہوٹل کا مالک تھا، ٹرانسپورٹ کا کام بھی تھا اچھا خاصا امیر آدمی تھا۔ وہ اکثر تیز تیز واک کرتا دکھائی دیتا تھا۔ غالباً وہ اپنا وزن کم کرنا چاہتا تھا۔ باتوں باتوں میں کھلا کہ وہ ٹیبل ٹینس کھیلتا رہا ہے۔ چناں چہ اسے ٹیم میں شامل کر لیا گیا۔

فرحی کھیل میں میری پارٹنر تھی۔ اب ہم بھرپور میچ ہونے لگے۔ کھیلتے کھیلتے ہم بالکل بھول جاتے کہ ٹیبل ٹینس سے باہر بھی ایک دنیا ہے۔ جہاں پھول کھلتے ہیں، بارشیں ہوتی ہیں، لوگ روزگار کے لیے باہر نکلتے ہیں، کوئی مہنگے ہوٹلوں میں کھاتا ہے کسی کو دو وقت کا کھانا نہیں ملتا، کوئی بیمار ہے اور ہسپتالوں کے چکر لگا رہا ہے، کسی کا مکان گر گیا ہے، کسی کی گاڑی چوری ہو گئی ہے۔ میں کئی بار ایسے ہی خیالوں میں گم ہوتا کہ فرحی کی آواز آتی۔

”پارٹنر! کیا سوچ رہے ہو؟ سروس کراؤ۔“

میں گھبرا کر ریکٹ اور گیند کو دیکھنے لگتا۔ فرحی جب پارٹنر کہتی تو مجھے ایسی نظروں سے دیکھتی جیسے کوئی پیغام دے رہی ہو لیکن وہ پیغام میں سمجھ نہیں پاتا تھا یا پھر سمجھنے کی کوشش نہیں کرتا تھا۔ میرے لیے اتنا ہی کافی تھا کہ چائے کے وقت وہ مجھے چائے کا کپ پکڑاتی تو میری انگلیاں اس کی انگلیوں سے چھو جاتیں، چائے پیتے ہوئے وہ بسکٹ اٹھا کر میری طرف بڑھاتی اور میں ایک بسکٹ اور کھا لیتا یا کھیل کے دوران وہ اپنے مخصوص لہجے میں مجھے ”پارٹنر“ کہہ دیتی۔

کئی بار ایسا بھی ہوا کہ فرحی نے کوئی بہت اچھی شاٹ کھیلی اور پوائنٹ سکور کیا۔ پھر وہ میری طرف جھکی جھکی آنکھوں سے دیکھتی۔ وہ آنکھیں مجھے اپنی طرف بلاتی ہوئی محسوس ہوتیں۔ وہ میرے بالکل پاس کھڑی ہوتی اتنا پاس کہ میں اسے بازوؤں میں لے لوں لیکن میں ایسا کر نہیں سکتا تھا۔ کھیلنے والے دو اور لوگ بھی وہاں ہوتے تھے۔

ایک مہکتی ہوئی شام میں ہم لاؤنج میں بیٹھے تھے۔ کھیل ہو چکا تھا اور اب چائے کا وقت تھا۔ بھابی سارہ چائے دے کر اپنے کمرے میں جا چکی تھیں۔ فرحی میرے سامنے صوفے پر بیٹھی اپنے بالوں کی آوارہ لٹوں میں بار بار ہاتھ پھیر رہی تھی جو بار بار اس کے چہرے پر پھیل کر اس کے شفاف گالوں کو چومتی تھیں۔ اس نے کپ میں چائے ڈالی اور آگے بڑھ کر میری طرف کپ بڑھایا۔ میں نے کپ میز پر رکھا۔ فرحی نے ایک چمچ چینی ڈالی اور چمچ گھما کر واپس رکھنے لگی تو وہ نیچے گر گیا۔

”اوہ سوری“ وہ چمچ اٹھانے کے لیے جھک گئی۔ مجھے اس کا سرخ ہوتا ہوا چہرہ اور سینے کے تھرتھراتے ابھار اپنے بہت قریب نظر آئے۔ اس نے جھکے جھکے میری طرف ایک لمحے کے لیے دیکھا۔ وہ میرے اس قدر قریب تھی کہ میں اس کی گرم سانسیں اپنے گالوں پر محسوس کر رہا تھا۔ اس کے گلابی ہونٹ ذرا سے کھل گئے تھے۔ عین اسی وقت مجھے آہٹ سنائی دی۔ شاید فرخندہ اور کاشر بھی کمرے میں آ رہے تھے۔ میں غیر ارادی طور پر پیچھے ہٹا۔

فرحی نے زیر لب کچھ کہا اور ہونٹ چباتے ہوئے پیچھے ہٹ کر بیٹھ گئی۔ فرخندہ اور کاشر نے بھی چائے لی اور باتیں شروع ہو گئیں۔ فرحی مجھ سے بات نہیں کر رہی تھی۔ مجھے ایسا لگا کہ فرخندہ نے نوٹس کیا ہے۔ چائے کے بعد کاشر چلا گیا۔ فرخندہ جانے کے لیے اٹھی تو شام کا اندھیرا پھیل رہا تھا۔ سورج پہاڑوں کے پیچھے چھپ رہا تھا۔ میں اسے رخصت کرنے کے لیے دروازے تک گیا۔ اس کا گھر زیادہ دور نہیں تھا۔ وہاں سے دکھائی بھی دیتا تھا پھر بھی میں اسے گھر تک چھوڑنے کے لیے اس کے ساتھ چل پڑا۔ کچھ دور تک سڑک تھی اس کے بعد ایک پگڈنڈی اس کے گھر تک جاتی تھی۔ پتھریلے راستے پر اس کا پاؤں پھسلا تو میں نے اس کا ہاتھ تھام لیا۔ ہم گھر کے قریب پہنچ چکے تھے۔ فرخندہ رک گئی اور میری آنکھوں میں جھانکتے ہوئے بولی۔

”فرحی تمہیں کیسی لگتی ہے؟“

میں اس کا سوال سن کر حیران ہوا۔ مجھے اندازہ نہیں تھا کہ وہ مجھ سے فرحی کے بارے میں پوچھے گی۔ میں نے ایک گہری سانس لی اور کہا۔

”وہ اچھی لڑکی ہے۔ زندگی سے بھرپور ہے۔“

”اس کا مطلب یہ ہے کہ تم اسے چاہتے ہو۔“ وہ افق پر پہاڑوں کے پیچھے ڈوبتے ہوئے سورج کے آخری کنارے کو دیکھ رہی تھی۔

”اچھا لگنا اور چاہنا دو الگ باتیں ہیں۔ تم یہ نتیجہ کیسے نکال سکتی ہو؟“ میں نے نفی میں سر ہلایا۔
”تم نے کبھی اس کی آنکھوں میں نہیں دیکھا۔ وہ تمہیں کتنی پیار بھری نظروں سے دیکھتی ہے۔“
میں کچھ کہہ نہ سکا۔ چند لمحوں کی خاموشی کے بعد وہ بولی۔
”شاید تمہیں پتا نہیں تم اس کی زندگی میں آنے والے پہلے مرد نہیں ہو۔“

اس نے مجھے الوداع کہا اور تیز تیز چلتی ہوئی اپنے گھر کی طرف بڑھ گئی۔ مجھے بوجھل قدموں سے واپسی کے راستے پر چل پڑا۔ فرحی مجھے باہر ہی ٹہلتی ہوئی مل گئی۔ وہ ہلکی پھلکی واک کر رہی تھی یا شاید میری منتظر تھی۔

”چھوڑ آئے؟“ اس نے میری طرف سوالیہ نظروں سے دیکھتے ہوئے کہا۔
”ہاں چھوڑ آیا۔“ میں نے آہستگی سے کہا۔
”کتنوں کو چھوڑا ہے تم نے؟“ اس نے میرے قریب آتے ہوئے کہا۔

”اپنی زندگی کے چوبیس برسوں میں مجھے کوئی ملا ہی نہیں، چھوڑتا کسے؟“ میں نے جواب دیا۔ وہ چند لمحوں تک مجھے دیکھتی رہی پھر میرا ہاتھ پکڑ لان میں پتھر کی بنچ کی طرف بڑھی۔

”آؤ یہاں بیٹھتے ہیں۔“

ہم بنچ پر بیٹھ گئے۔ آسمان پر ستارے نمودار ہو چکے تھے۔ دور پہاڑوں پر اب روشنیاں جگمگا رہی تھیں۔ لان میں ایک بلب روشن تھا اس کی مدھم روشنی میں مجھے فرحی کچھ اداس لگ رہی تھی۔

”آج تم بہت اچھا کھیلی، دونوں گیمز ہم جیت گئے۔“ میں نے اس کا دھیان بٹانے کے لیے کہا۔

”ہاں آج میں ٹیبل ٹینس میں جیت گئی لیکن محبت کی بازی ہار چکی ہوں۔“ اس نے ٹھہرے ہوئے لہجے میں کہا۔ میں نے اس کی طرف دیکھا۔ اس کے گلابی ہونٹ کپکپا رہے تھے۔ شاید وہ کچھ اور بھی کہنا چاہتی تھی۔

”یہ دو سال پہلے کی بات ہے۔ میرا ایک بوائے فرینڈ تھا۔ میری غلطی تھی جو میں نے اس پر بھروسا کر لیا لیکن وہ مجھ سے کھیل رہا تھا۔ اس نے مجھے دھوکا دیا اور میں تنہا رہ گئی۔ اس کے بعد میں نے فیصلہ کر لیا کہ کسی سے محبت نہیں کروں گی۔“

میں نے اس کے ہاتھ پر ہاتھ رکھا اور چند لمحے کی خاموشی کے بعد کہا۔
”سب ایک جیسے تو نہیں ہوتے۔ زندگی میں بہت سے لوگ ملتے ہیں، کچھ اچھے ہوتے ہیں اور کچھ برے۔“
”شاید مجھے اچھے لوگوں کی پہچان نہیں ہے۔“

میں نے کچھ کہنے کے لیے منھ کھولا ہی تھا کہ بھابی سارہ کی آواز سنائی دی۔ وہ ہمیں اندر بلا رہی تھیں۔ ہم اندر چلے آئے۔ لاؤنج میں ٹی وی آن تھا۔ شانی اور مانی کارٹون دیکھ رہے تھے۔ میں اپنے کمرے میں چلا گیا۔

اگلے دن جب ہم ٹیبل ٹینس کے میچ کے لیے اکٹھے ہوئے تو ذاتی باتوں کے بجائے کھیل پر توجہ دی۔ اچھی شام گزری۔ میں نے محسوس کیا کہ فرحی کاشر سے کچھ زیادہ ہی باتیں کر رہی تھی۔ چائے کے بعد میں نے فرخندہ کو گھر تک چھوڑنے کی آفر کی تو اس نے انکار کر دیا۔

”کاشر نے جانا ہی ہے یہ مجھے گھر تک کمپنی دے گا۔“ فرخندہ نے کہا۔ میں کندھے اچکا کر رہ گیا۔

صبح میں سیر کے لیے نکل گیا۔ سہ پہر تک فراغت ہوتی تھی تو میں کہیں نہ کہیں نکل جاتا تھا۔ مختلف جگہوں پر گھومنے کے بعد واپسی کے سفر پر جب میں گھر کی طرف رواں دواں تھا تو مجھے ایک سفید کار دکھائی دی۔ میں نے کئی بار کاشر کو اس کار میں گھومتے دیکھا تھا۔ آج اس کے ساتھ کوئی اور بھی تھا۔ میں نے اس کے لمبے بالوں کی جھلک دیکھی تھی۔ مجھے شبہ ہوا کہ وہ فرخندہ ہے۔ اگرچہ مجھے اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا تھا اس کے باوجود میں یونہی اپنے گھر جانے سے پہلے اس کے گھر چلا گیا۔ وہاں فرخندہ کی ماں سے ملاقات ہوئی۔ پتہ چلا کی فرخندہ گھر میں نہیں ہے۔ میرا شبہ یقین میں بدل گیا۔

فرخندہ کا جھکاؤ کاشر کی طرف بڑھتا جا رہا تھا۔ میں سوچ رہا تھا کہ جلد ہی کوئی اچھی خبر ملے گی مگر افسوس کہ جو خبر ملی وہ بہت بری تھی۔ میں سو رہا تھا کہ کسی کی زوردار آواز نے مجھے جگا دیا۔ میں ہڑبڑا کر اٹھا۔ فرحی میرے سامنے تھی۔ اس کے چہرے پر ہوائیاں اڑ رہی تھیں۔ اس نے پھولی ہوئی سانسوں کے درمیان بتایا کہ بہت برا حادثہ ہوا ہے۔ میں اٹھ کھڑا ہوا۔ صبح کے سات بجے تھے۔ ہم تیز تیز قدموں سے چلتے ہوئے باہر نکلے۔ بہت سے لوگ فرخندہ کے گھر کے پاس کھڑے تھے اور کھائی کی جانب دیکھ رہے تھے۔ جب ہم وہاں پہنچے تو فرخندہ کی لاش نکالی جا رہی تھی۔ فرحی اس کی لاش دیکھ کر بری طرح رونے لگی۔ میری بھی آنکھیں بھیگ گئیں۔

”کیا ہوا بھائی صاحب؟“ میں نے ایک شخص سے پوچھا۔

”صبح ہی کسی نے اس عورت کی لاش دیکھی ہے۔ پتہ نہیں اس نے خود کشی کی ہے یا کسی نے کھائی میں گرا کر مار دیا۔“ اس نے بتایا۔

پولیس بھی پہنچ گئی تھی اور لاش کو تحویل میں لے لیا تھا۔ پوسٹ مارٹم کی رپورٹ سے معلوم ہوا کہ اس کے ساتھ ریپ ہوا تھا۔ فوراً ہمارا خیال کاشر کی طرف گیا۔ ہم نے پولیس کو بتا دیا۔ پولیس اس کے ہوٹل پہنچی تو وہ فرار ہو چکا تھا۔ میں اس قدر دلبرداشتہ تھا کہ اسی شام وہ جگہ چھوڑ کر اپنے شہر واپس آ گیا اور پھر کئی برس تک وہاں نہ گیا۔ اب سات برس بعد سلمان بھائی کے اصرار پر بھوربن میں آیا تھا۔ سب کچھ ویسا ہی تھا مگر فرحی نہیں تھی۔

چند برس پہلے اس کی شادی ہو گئی تھی۔ میں یونہی ٹہلتے ٹہلتے فرخندہ کے گھر کی طرف چل پڑا۔ اس کے گھر کے قریب ہی ایک جگہ زمین پر ایک ابھار نظر آ رہا تھا۔ اس ابھار پر کوئی تختی نہیں لگی تھی مگر مجھے معلوم تھا کہ یہ قبر فرخندہ کی ہے۔ اس شام اسے اسی جگہ دفن کیا گیا تھا۔ لگتا تھا کسی نے قبر کی دیکھ بھال نہیں کی۔ بارشوں کی وجہ سے قبر کا ابھار فلیٹ ہوتا جا رہا تھا۔ میں تیز تیز قدموں سے چلنے لگا۔ میں نے سوچا اس سے پہلے کہ اس قبر کا نشان مٹ جائے میں اسے پختہ کروا دوں اور اس پر ایک تختی لگوا دوں کہ یہاں فرخندہ کریم دفن ہے جو آج بھی انصاف کی منتظر ہے۔

 


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments