نواز شریف کو دوبارہ اپنے بیانیے کی طرف جانا پڑے گا


اتوار کے روز ملک کے مختلف حلقوں میں قومی اسمبلی کی آٹھ اور صوبائی اسمبلی پنجاب کی تین نشستوں پر انتخابات ہوئے۔ قومی اسمبلی کی آٹھ میں سے سات نشستوں پر پی ٹی آئی کے چیئرمین عمران خان خود امیدوار تھے جس میں ملیر کی ایک نشست چھوڑ کر باقی تمام جگہوں سے وہ فتح حاصل کرنے میں کامیاب ہوئے ہیں۔ پنجاب اسمبلی کی نشستوں پر ہوئے ضمنی الیکشن کی طرح حالیہ انتخابی نتائج کے بعد بھی نون لیگ کا سارا زور اپنی شکست کی وجوہات پر غور و فکر کی بجائے اسپن ڈاکٹرائن پر ہے۔

عجیب و غریب تاویلیں بیان کی جا رہی ہیں۔ کوئی عمران خان کے مد مقابل امیدوار کو تیسرے درجے کی قیادت قرار دے کر ہزیمت کم کرنے کی کوشش میں ہے تو کوئی کم مارجن سے عمران خان کی فتح کی آڑ لے کر بات ٹالنے کے چکر میں ہے۔ اب لاکھ تاویلیں گھڑ لی جائیں جتنا مرضی زور اسپن ڈاکٹرائن پر لگا لیا جائے نون لیگ کی سیاست کو جو دھچکا پہنچا ہے اس کا مداوا جلد اور آسان نہیں ہو گا۔ اصل وجہ یہی ہے کہ خوف کی فضا میں کیے گئے سیاسی فیصلوں کا یہی نتیجہ نکلنا تھا۔

آج جو سیاسی منظر نامہ بن چکا ہے کون تسلیم کرے گا کہ کہنہ مشق سیاستدان عدم اعتماد کا ایڈونچر کرنے سے قبل اس سے نا واقف تھے۔ ووٹ کو عزت دو کے نعرے کو پذیرائی اس لیے ملی تھی کیونکہ عوامی بالادستی کی بات کی گئی تھی۔ نون لیگ نے عدم اعتماد کا ایڈونچر کر کے مگر خود اپنے متعلق اس تاثر کو تقویت دے دی ہے کہ پچھلے تین سال کی جدوجہد جمہوریت نہیں بلکہ دراصل مفادات کی خاطر تھی۔ پنجاب اسمبلی کی نشستوں پر ہونے والے ضمنی انتخابات میں شکست کا سارا ملبہ لوٹوں پر ڈالا جا رہا تھا، حالیہ انتخابات میں کسی لوٹے کو ٹکٹ نہیں ملا، پھر ان نتائج کا سبب کیا ہو سکتا ہے؟

اس کالم کے ذریعے یہ نا چیز بارہا دہائی دیتا رہا کہ عمران حکومت کی رخصتی کے بعد جو بھی فارمولا بنا اس سے ملکی مسائل فوراً حل ہوں گے نہ ہی پلک جھپکتے عوامی مشکلات میں کمی آئے گی۔ کیونکہ جو بھی سیٹ اپ قائم ہوا، آئی ایم ایف کے ساتھ معاہدہ اسے ہر صورت مکمل کرنا پڑے گا۔ کوئی بھی حکومت آ جائے زمینی حقیقت یہی رہے گی کہ ریاست پاکستان عالمی مالیاتی ادارے کی خواہشات سے روگردانی کی متحمل نہیں ہو سکتی۔ نون لیگ کے چند اہم رہنماؤں تک بھی اپنے تحفظات پہنچائے کہ موجودہ معاشی حالات کے تناظر میں کسی بھی دوسری جماعت کی نسبت نون لیگ کے مفاد میں اقتدار سنبھالنا سب سے نقصان دہ ہو گا۔

کیونکہ آئی ایم ایف سے معاہدہ پایہ تکمیل تک پہنچا تو لا محالہ مہنگائی کا سیلاب آئے گا جس کے بعد تحریک انصاف اپنی ناکامی عوام کے ذہنوں سے محو کر کے خود کو سیاسی شہید کے طور پر متعارف کرا لے گی۔ اس کے علاوہ اس خدشے کا بھی اظہار کیا تھا کہ پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم جیسی جماعتیں اقتدار کے فوائد سے مکمل طور پر بہرہ مند ہوتی رہیں گی مگر حکومتی اتحاد کی سربراہی سنبھال کر بدنامی صرف نون لیگ کے حصے میں آئی گی۔

حالیہ انتخابات میں پیپلز پارٹی، جے یو آئی اور اے این کی نسبتاً بہتر کارکردگی سے یہ خدشات درست ثابت ہوئے ہیں۔ نون لیگ سے تعلق رکھنے والے سیاستدانوں کے پاس مفروضہ خوف کے بیان کے سوا کوئی تسلی بخش جواب نہیں تھا کہ صرف عمران خان کو وزیراعظم ہاؤس سے نکالنے سے عوام کے مسائل کس طرح حل ہوں گے اور کیا گارنٹی ہے کہ نئی بننے والی حکومت کو آسانی سے چلنے دیا جائے گا۔

ن لیگ اور اس وقت کی دیگر اپوزیشن جماعتوں کو مگر تحریک انصاف کو اقتدار کے ایوانوں سے بیدخل کرنے کی پتہ نہیں کیا جلدی تھی؟ حالانکہ نون لیگ اور پی ڈی ایم کی دیگر جماعتیں اگر اقتدار حاصل کرنے میں اتنی بے صبری کا مظاہرہ نہ کرتیں، تو دیوالیہ پن کے کنارے پر کھڑی معیشت میں کسی ریاستی ادارے کے لیے دوبارہ تحریک انصاف کی سرپرستی کا تصور ممکن ہی نہیں ہو سکتا تھا۔ حالانکہ جس شخصیت کی تقرری کا خوف سر پر سوار تھا وہ نون لیگ کی سیاست کے لیے اتنی نقصان دہ نہیں ہو سکتی تھی جتنی شہباز شریف صاحب کی خواہش اقتدار ہوئی ہے۔

یہ سمجھنا کہ معیشت کو سنبھالا دے کر اگلا انتخاب جیت لیا جائے گا خام خیالی ہے۔ معیشت سے متعلق تمام اشاریے ہیں بتا رہے ہیں کہ اتنی جلدی یہ سدھرنے والی نہیں اور نہ اس کے لیے درکار ماحول بنانے میں اب تک ریاستی ادارے سنجیدہ نظر آ رہے ہیں۔ اسحاق ڈار کے آنے سے وقتی طور پر روپے کی قدر میں بہتری آئی ہے موجودہ حالات میں لیکن وہ دیرپا نظر نہیں آ رہی۔ زر مبادلہ کے ذخائر اور کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ جوں کا توں ہے اور آنے والے دنوں میں گیس کی کمی کے سبب ایکسپورٹ کا حجم مزید کم ہو گا۔

پٹرولیم مصنوعات میں معمولی کمی کے بعد بالآخر اسحاق ڈار بھی لیوی بڑھانے پر مجبور ہو چکے ہیں۔ مفتاح اسماعیل کو قربانی کا بکرا بنا کر چند حلقوں میں کامیابی حاصل نہیں ہوئی۔ معیشت کسی شخصیت کے نہیں اپنے اصولوں کے تابع چلتی ہے اگلے انتخابات تک ڈار اکنامکس بھی نتائج حاصل نہ کر پائی تو الزام کس کے سر ڈالا جائے گا؟

عوام ابھی سے عمران خان کی بدترین کارکردگی اور تاریخی مہنگائی و بے روزگاری بھول کر ان کی ہر بات پر آمنا و صدقنا کہہ رہے ہیں۔ یہ تصور کیا جا رہا تھا کہ اقتدار سے فراغت کے بعد خان صاحب کا عوام میں نکلنا مشکل ہو گا اور وہ کسی سہارے کے بغیر انتخابات میں نمایاں کارکردگی نہیں دکھا سکیں گے۔ یقیناً اس میں تحریک انصاف کے پراپیگنڈے کا بھی کمال ہے کہ بدترین پرفارمنس کے باوجود نہ صرف عمران خان کے جلسوں میں لوگوں کی شرکت دیدنی ہے بلکہ انتخابی معرکے میں بھی اس نے نون لیگ کو بری شکست سے دوچار کیا۔

لیکن اس شکست کی بڑی وجہ ابلاغ کے محاذ پر نون لیگ کی کمزوری کے ساتھ ساتھ عوام میں شعور کی کمی اور نا خواندگی بھی ہے۔ ہم مسلسل خبردار کر رہے تھے کہ جس طرح عمران خان کا کرپشن مخالف بیانیہ خوب بکا تھا ہمارے نیم خواندہ معاشرے میں امریکہ مخالف سازشی بیانیہ بھی بہت اثر انگیز ہو سکتا ہے۔ اس پراپیگنڈے کا اثر زائل کرنے کے لیے ضروری تھا کہ جلد از جلد حکومت سپریم کورٹ میں امریکی مداخلت کی تحقیقات کرانے کے لیے کھلی سماعت کراتی۔

اب مگر تاخیر ہو چکی، کمزوری اور معاملات پر حکومت کی گرفت نہ ہونے کے سبب عمران خان عصبیت حاصل کر چکے۔ اب تحقیقات کا نتیجہ کچھ بھی نکلے اور عمران خان کو کسی مقدمے میں سزا بھی ہو جائے ان کی سیاست پر کوئی فرق نہیں پڑے گا۔ اگلا انتخاب اگر جیتنا ہے تو نون لیگ کو نتائج سے بے پرواہ ہو کر اپنی حکمت عملی پر نظر ثانی کرنا ہوگی۔ نون لیگ کے قائد نواز شریف کو چاہیے جلد از جلد واپس آ کر واضح الفاظ میں قوم کو آگاہ کریں وطن عزیز کی موجودہ حالت کی اصل وجوہات اور اسباب کیا ہیں اور ان کی جماعت غیر مقبول اقدامات لینے پر مجبور کیوں ہوئی۔ لیگی قیادت کو اب یہ ادراک ہونا چاہیے کہ عمران خان کے پراپیگنڈے کا توڑ پھسپھسی تقریروں سے نہیں صرف جارحانہ بیانیے سے ہی کیا جا سکتا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments