وہ آدمی ہے مگر دیکھنے کی تاب نہیں


باتوں ہی باتوں میں کبھی بالی وڈ کی حسیناؤں کا ذکر چھڑتا تو ان کے دل کی تاریں چھڑ جاتیں، ان کی آنکھیں ہیروں کی طرح چمکنے لگتیں اور چہرہ تمتمانے لگتا تھا وہ ان حسیناؤں کی ایمان شکن اداؤں پر بڑی تفصیل سے روشنی ڈالتے تھے۔ اصل حیرانی تو ہمیں تب ہوتی تھی جب وہ بالی وڈ کی نازک اندام اپسراؤں کے شجرے تک گنوا دیا کرتے تھے۔ کبھی میرے جیسا کوئی ناقص العلم اپنے تئیں کسی بات کا اضافہ کرنے کی کوشش کرتا تو وہ فوراً یوں گویا ہوتے ”نہیں تگہ صاحب ایسے نہیں ہے، فلاں ادا کارہ کی ماں کا تعلق کلکتہ، بنگال سے تھا، یہ اس کے باپ کی تیسری اور ماں کی دوسری شادی تھی، اس کی دوسری بہن بھی فلموں میں کام کرتی رہی ہے، وہ زیادہ کامیاب نہ ہو سکی“ وغیرہ وغیرہ

وہ صرف اداکاروں او ر اداکاراؤں کی ہی تاریخ نہیں جانتے تھے بلکہ تاریخ کے مضمون پر مجموعی طور پر اچھی خاصی گرپ رکھتے تھے۔ برصغیر پاک و ہند کی تاریخ پر بلا تکان گفتگو کرتے تھے۔ تاریخ کے قابل ذکر کرداروں کی نجی زندگی کے تنگ و تاریک گوشوں پر روشنی ڈالنے میں خاصا ملکہ رکھتے تھے، مگر گاڑی ذرا لائن سے تب اتر جاتی تھی جب کوئی ان سے مغرب کی تاریخ سے متعلق سوال کر ڈالتا یا ان سے رائے کے اظہار کی توقع کرتا تھا، تب ان کا جواب کسی حد تک واضح ہوتا تھا ”بھئی مجھ سے صرف انڈو پاک ہسٹری کی بات کیا کرو، یورپین اور امریکن ہسٹری پر میرا مطالعہ زیادہ نہیں ہے“ ۔ یوں خود کو بر صغیر پاک و ہند کی تاریخ کے میدان تک محدود کر کے وہ اس میں کھل کر کھیلتے تھے۔

ٹریننگ کے دوران ہمیں ہر ہفتے میں ایک بار گھڑ سواری بھی کرائی جاتی تھی۔ جس دن گھڑ سواری کے لیے روانہ ہونا ہوتا تھا، موصوف کے اعضاء مضمحل سے ہو جاتے تھے، ہاتھوں میں رعشہ سا اتر آتا تھا، چہرے پر پژمردگی سی چھا جاتی تھی، بلند قامت گھوڑے پر بیٹھ کر اسے بھگانا اور پھر خود کو گرنے سے بچانا جان جوکھم کا کام تھا۔ لہذا پوری کوشش کرتے کہ کسی طرح اس کار عبث سے جان چھوٹی رہے۔ چند منٹ کی گھڑ سواری کا خوف ہفتہ بھر ان کے اعصاب پہ چھایا رہتا تھا۔ کچھ شرارتی دوستوں نے ان کی اس کمزوری کا ایسا ٹھٹھہ اڑایا کہ راستے میں کہیں بچوں کے پنگھوڑوں پر لکڑی کے گھوڑے دیکھتے تو انھیں چھیڑنا شروع کر دیتے۔ مگر مجال ہے کبھی انھوں نے برا منایا ہو یا کسی کا ترش روئی سے جواب دیا ہو، ایسی باتوں کو ہمیشہ ہنس کر ٹال دیتے تھے۔

امن و آشتی کے ایسے علمبردار تھے کہ کبھی کبھی ان پر موہن داس کرم چند گاندھی ثانی ہونے کا گمان ہوتا تھا۔ کھیل کا میدان ہو یا کلاس روم، پریڈ گراؤنڈ ہو یا ہاسٹل کبھی کسی نزع کا حصہ نہیں بنے۔ کبھی کسی پارٹی یا گروپ کو جوائن نہیں کیا۔ ایک بار ہم جنوبی پنجاب والوں کا ایک گروپ سے کسی بات پر جھگڑا ہو گیا تو ہمارے گروپ کے ارکان شدید غصے میں بھرے پھر رہے تھے۔ طرفین سے ایک دوسرے پر تندو تلخ جملے اچھالے جا رہے تھے۔ ہمیں یقین تھا کہ موصوف ہمارے گروپ کا حصہ ہونے کے ناتے اس اہم ترین معاملے پر اپنا قطعی اور دو ٹوک نقطۂ نظر ضرور پیش کریں گے۔ مگر یہ ہماری خام خیالی تھی موصوف نے ہماری طویل جذباتی تقریر کے جواب میں صرف اتنا کہا ”ہاں انھیں ایسا نہیں کرنا چاہیے تھا“ ۔

کلاس روم میں جب ہر طرف ہا ہا کار مچی رہتی تھی، ٹھٹھے مذاق کا دور دورہ ہوتا تھا، ایک دوسرے پر پھبتیاں کسی جا رہی ہوتی تھیں تو موصوف ایک کونے میں دیوار سے ٹیک لگائے خاموشی سے بیٹھے رہتے تھے، نہ کسی کو چھیڑتے تھے نہ کوئی انھیں چھیڑتا تھا۔ انسٹرکٹرز آتے، پڑھا کے چلے جاتے، مجال ہے کبھی کوئی لفظ بولا ہو، کوئی سوال کیا ہو۔ ٹریننگ کے پورے سال میں خاموشی کی ایسی دبیز چادر اوڑھے رکھی کہ قریبی دوستوں کے علاوہ کسی سے تعارف ہو سکا نہ کھل کر بات چیت۔ یعنی مختار صدیقی کے اس شعر کی چلتی پھرتی تصویر بنے رہے۔

”تکتہ وروں نے ہم کو سمجھایا، خاص بنو اور عام رہو
محفل محفل صحبت رکھو، دنیا میں گمنام رہو ”

کسی سے اختلاف رائے کے اظہار کا انداز ایسا اچھوتا تھا کہ بندہ سوچ میں پڑ جاتا تھا کہ موصوف نے اختلاف کیا ہے یا اتفاق کیا ہے۔ با رہا کوشش کی کہ کسی معاملے میں ان کی حتمی رائے معلوم کی جا سکے مگر مجال ہے ہمیں کامیابی نصیب ہوئی ہو، ہر موضوع پر مبہم ترین رائے دینا ہو ان کی شخصیت کا خاصہ تھا۔ ایک بار کالج انتظامیہ نے چھٹی کی یقین دہانی کے باوجود چھٹی نہیں دی، تمام لڑکے شدید ہیجانی کیفیت میں اول فول بک رہے تھے، ہر کوئی کسی نہ کسی انداز میں غصے کا اظہار کر رہا تھا، مگر یہ صاحب پتھر کے بت کی طرح ساکت و جامد تھے۔ جب ان سے کالج انتظامیہ کے اس فیصلے سے متعلق رائے مانگی گئی تو انھوں نے کہا ”کالج انتظامیہ کو ایسا نہیں کرنا چاہیے تھا“ ۔ تب دل چاہتا تھا کہ کالج انتظامیہ کو چھوڑ کے بندہ اس کو پکڑ لے۔

جڑی بوٹیوں اور عرقیات و معجونات کے سکہ بند عالم تھے۔ طبی اعتبار سے انسانوں کے مختلف مزاجوں کو بڑی اچھی طرح سمجھتے تھے۔ دیسی ادویات کی چھوٹی بڑی پوٹلیاں اور معجونات کی چھوٹی بڑی ڈبیاں ان کی الماری کے عقبی کونوں میں دھری رہتی تھیں، جن پر بے تکلف دوستوں کی نگاہیں پڑ ہی جاتی تھیں۔ انھیں دعوٰی تھا کہ سلاجیت، کستوری اور زعفران جیسی بیش قیمت چیزوں کے اصلی اور نقلی ہونے کو وہ فی الفور پہچان سکتے ہیں۔ لیکن شومئی قسمت دیکھیے کہ بارہ ماہ کی ٹریننگ میں سے تقریباً گیارہ ماہ ان کے گھٹنوں اور پاؤں کے تلووں میں درد رہا۔ بہتیری دیسی ادویات استعمال کیں، مختلف قسم کے تیل مالش کر ڈالے مگر یہ ٹیسیں کم ہونے میں نہ آئیں۔ کبھی ہم حال چال پوچھتے تو کہتے ”تگہ صاحب ان دردوں کی وجوہات کچھ اور ہیں۔

ٹریننگ کے تمام ایونٹس میں ہم بھاگ دوڑ کے بمشکل ہی وقت پر پہنچ پاتے تھے مگر وہ معجزاتی طور پر دس پندرہ منٹ قبل ہی اپنی پہنچ یقینی بنالیا کرتے تھے۔ جب ہم علی الصبح تولیہ اور صابن تھامے غسل خانے کی طرف دوڑ رہے ہوتے تھے تو وہ صاف ستھری وردی پہنے، مکمل تیار ہو کر نہایت اطمینان سے گیلری میں ٹہل رہے ہوتے تھے۔ تب ہم بھنا کر کبھی کبھی کہہ دیتے تھے ”لگتا ہے پریڈ گراؤنڈ کا تالا جناب نے ہی کھولنا ہے“ تو وہ نہایت اطمینان سے جواب دیتے ”تگہ صاحب! اس عمر میں ہم سزا کے متحمل نہیں ہو سکتے“ ۔

حافظہ اس بلا کا پایا تھا کہ واقعات کو جزئیات سمیت یاد رکھ لیتے تھے۔ مزید یہ کہ انھیں اپنے حافظے پر بلا کا اعتماد بھی تھا۔ ایک بار کسی مقابلے کے امتحان کی تیاری کی غرض سے میں ایک کتاب پڑھ رہا تھا تو مجھ سے کہنے لگے ”تگہ صاحب! ہمارا مطالعہ اور مشاہدہ اب اس لیول پر پہنچ گیا ہے کہ ہمیں اب بغیر پڑھے پرچے دینے چاہئیں“ ۔ میں ان کی یہ بات سن تو لیتا تھا مگر مجھے یہ منطق حد سے زیادہ بے تکی لگتی تھی۔

حالانکہ ہمیں یقین تھا کہ ان عارضوں سے خلاصی کم ہی لوگوں کو نصیب ہوتی ہے پھر بھی ہم ٹریننگ کے بعد موصوف سے کمر، گھٹنوں اور تلووں کے دردوں کے علاوہ دیگر عارضوں کے رفع ہونے کی بابت فون کر کے پوچھتے رہتے تھے۔ وہ جب ہانپتی کانپتی آواز میں خدا کا شکر ادا کرتے تو اصل حالات ہم پہ آشکار ہو جاتے تھے۔ ٹریننگ سے واپس آئے ہوئے تھوڑا ہی عرصہ گزرا تھا کہ پنجاب پبلک سروس کمیشن نے ”تاریخ“ کے لیکچرار کے لیے پنجاب بھی میں 6 سیٹوں پر امتحان لینے کو اشتہار دیا تو موصوف نے اپلائی کر دیا۔ پھر ایک دن مجھے فون کر کے خوشخبری سناتے ہوئے کہا ”تگہ صاحب میں نے کتاب کو ہاتھ لگائے بغیر لیکچرار کا تحریری امتحان پاس کر لیا ہے“ میں نے کامیابی پر مبارک باد دی اور حیران ہو کر پوچھا ”کیا اب آپ انٹرویو کی تیاری کے لیے بھی کوئی کتاب نہیں پڑھو گے“

”نہیں، بالکل نہیں، کوئی کتاب نہیں پڑھوں گا“ انھوں نے اعتماد سے جواب دیا کچھ دن کے بعد ایک با ر پھر انھوں نے مجھے فون کیا اور کہا ”تگہ صاحب میں تاریخ کا لیکچرار بھرتی ہو گیا ہوں“ ۔ اس خوشخبری نے مجھے ایک عجیب خوشگوار حیرت سے دوچار کر دیا تھا۔

یوں میرا بہت پیارا دوست خالد مجید پولیس کو خیر آباد کہہ کر تاریخ کا لیکچرار بھرتی ہو گیا۔ اس کے رخصت ہو جانے سے محکمہ پولیس کو ناقابل تلافی نقصان پہنچا ہے۔ یہ وہ خلا ہے جسے صدیوں پورا نہیں کیا جا سکے گا کہ محکمہ پولیس ایک مدبر، راست گو، حق پرست، نیک طینت، نڈر اور ماہر پولیس افسر سے محروم ہو گیا ہے۔ لیکن خوشی اس بات کی ہے کہ اسے اس کی پسند کی نوکری مل گئی ہے۔ اب وہ گورنمنٹ ڈگری کالج وہاڑی میں نسل نو کو ایسی تاریخ پڑھانے پر مامور ہو چکا ہے جس کے بارے میں جون ایلیا نے بڑا خوبصورت جملہ کہا تھا ”مسلمانوں نے پچھلے ایک ہزار سال میں تاریخ کے دسترخوان پر نمک حرامی کے سوا کچھ نہیں کیا“ ۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments