کیا آپ کی شادی ٹوٹنے والی ہے؟


کیا آپ نے کئی دن سے اپنی بیوی سے بات نہیں کی؟
کیا آپ نے کئی ہفتوں سے اپنے شوہر کے ساتھ کھانا نہیں کھایا؟
کیا آپ نے کئی مہینوں سے اپنے شریک حیات سے ہمبستری نہیں کی؟

اگر ان سوالوں کا جواب اثبات میں ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ آپ کی شادی کسی بھی وقت کسی بحران کا شکار ہو سکتی ہے اور اگر اس بحران سے نہ نکلی تو ٹوٹ بھی سکتی ہے؟

پچھلے چالیس برس میں سینکڑوں شادی شدہ جوڑوں کی تھراپی کے بعد میں اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ شادی کے ٹوٹنے کی بہت سی وجوہات ہو سکتی ہیں میں اس کالم میں صرف پانچ کا ذکر کروں گا۔

پہلی وجہ بہت سے دوستوں اور رشتہ داروں کا دخل در معقولات کرنا ہے۔ میری نگاہ میں بہت سے جوڑوں کو اگر موقع اور وقت دیا جاتا تو وہ مل جل کر باہمی مشورے سے اپنے مسائل کا حقیقت پسندانہ اور تسلی بخش حل تلاش کر لیتے لیکن ان کے رشتہ داروں اور دوستوں نے انہیں موقع ہی نہیں دیا اور ایسے ایسے مشورے دیے کہ شادی کی عمارت مکمل ہونے سے پہلے ہی ڈھے گئی۔ میں سمجھتا ہوں کہ دوستوں اور رشتہ داروں کو یہ سمجھنا چاہیے کہ شادی بنیادی طور پر دو عقل و بالغ انسانوں کا ایک محبت بھرا رشتہ ہے اور انہیں اس رشتے کا اور ان کے فیصلوں کا احترام کرنا چاہیے۔

دوسری وجہ میاں یا بیوی کا نفسیاتی مسائل کا شکار ہونا ہے۔ اگر میاں یا بیوی کو اینزائٹی یا ڈپریشن ہے۔ اگر ایک حد سے زیادہ حساس ہے یا دوسرے کو بہت جلد غصہ آ جاتا ہے تو میاں بیوی کو مل کر اس مسئلے کا حل تلاش کرنا چاہیے اور اگر ضرورت ہو تو کسی ماہر نفسیات سے مشورہ کرنا چاہیے۔

تیسری وجہ مالی مسائل ہیں۔ اکیسویں صدی میں بھی بہت سے جوڑے ایسے ہیں جن میں صرف شوہر ملازمت کرتا ہے اور کچھ کما کر لاتا ہے۔ ایسے میں اگر اس کی ملازمت چلی جائے اور گھر میں دولت آنی بند ہو جائے تو دولت کی کمی محبت کی کمی بن جاتی ہے۔ جو جوڑے ایک دوسرے کو ٹوٹ کر چاہتے ہیں وہ مل کر مالی مسئلے کا حل تلاش کرتے ہیں اور اپنی محبت کو دولت کی بھینٹ نہیں چڑھنے دیتے۔

چوتھی وجہ رومانوی اور جنسی مسائل ہیں۔ بہت سے مردوں اور عورتوں نے ابھی تک نہیں سیکھا کہ انہیں محبت کے پودے کے پھلنے پھولنے کے لیے ضروری ہے کہ اسے باقاعدگی سے پانی ملنا چاہیے۔ بعض لوگوں نے محبت کے اظہار کی زبان ہی نہیں سیکھی ہوتی کیونکہ انہوں نے شادی سے پہلے محبت ہی نہیں کی ہوتی۔

پانچویں وجہ بچوں کی تربیت ہے۔ بعض جوڑوں کے بچوں کی تربیت کے بارے میں خیالات و نظریات مختلف ہی نہیں متضاد بھی ہوتے ہیں اور وہ بچوں کے سامنے اتنا لڑتے جھگڑتے ہیں کہ وہ اختلافات زہر بن کر شادی کو مسموم بنا دیتے ہیں اور ایک دن شادی کے بندھن کو توڑ دیتے ہیں۔

اپنے سائیکو تھراپی کلینک میں جن جوڑوں کی مدد کرتے ہیں اور ان کی شادی کو ٹوٹنے سے بچاتے ہیں ہم انہیں تین مشورے دیتے ہیں۔

پہلا مشورہ یہ ہے چاہے شادی کو کتنے ہی سال ہو جائیں انہیں ہر ہفتے ڈیٹ پر جانا چاہیے۔ خاندان کے رشتہ داروں سے دور ایک دوسرے کی قربت میں وقت گزاریں۔ چائے پئیں۔ کھانا کھائیں۔ فلم دیکھیں۔ موسیقی سنیں۔ ہنسیں مسکرائیں اور زندگی سے لطف اندوز ہوں۔ ایسا کرنے سے محبت دل کے نہاں خانوں میں سرگوشیاں کرتی رہتی ہے۔

دوسرا مشورہ یہ ہے میاں بیوی ایک دوسرے کے دوست بن جائیں کیونکہ دوستی محبت اور رومانس کی عمارت کو پختہ اور پائدار بنیاد فراہم کرتی ہے۔

IN LOVE FRIENDSHIP IS THE CAKE ROMANCE IS THE ICING

تیسرا مشورہ یہ کہ جب بھی کوئی ذاتی یا خاندانی ’مالی یا سماجی مسئلہ سامنے آئے اس کا مل جل کر حل تلاش کریں۔ ہم جوڑوں کو مسائل کے حل کا اے  بی سی کا طریقہ سکھاتے ہیں۔
جب ایک فریق کا موقف اے ہو
اور دوسرے فریق کا موقف بی ہو
تو دونوں ایک دوسرے کو قائل کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور لڑنے لگتے ہیں۔

ہم انہیں سکھاتے ہیں ایک اور حل بھی ممکن ہے جو ۔ سی۔ ہے یہ حل اے اور بی کے ملاپ سے بنتا ہے۔ اس حل میں دونوں فریق اپنے حل میں نرمی پیدا کرتے ہیں اور دوسرے کے حل کو سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اس حل میں دونوں ایک دوسرے سے ہمدردانہ طور پر پیش آتے ہیں۔

جو جوڑے خوش دلی اور خوش اسلوبی سے اپنے مسائل کا حل تلاش کر لیتے ہیں وہ خوشحال اور کامیاب رہتے ہیں۔ ایسے جوڑے کامیاب شادی کا راز جان لیتے ہیں کہ محبت اور دوستی مسائل سے زیادہ اہم ہیں۔ وہ اپنی انا کو پیچھے چھوڑ کر اپنے شریک حیات اپنے دوست اور اپنے محبوب کو گلے لگا لیتے ہیں۔ وہ جان لیتے ہیں کہ محبت میں ہمیشہ جیتنا اچھا نہیں ہوتا۔ کبھی کبھی ہارنے میں جیتنے سے زیادہ مزا آتا ہے۔

یہ محبت کا راز ہے اور یہ راز صرف اس وقت سمجھ میں آتا ہے جب آپ کی بیوی اور شوہر آپ کا محبوب بھی ہو اور دوست بھی ہو اور اگر ایسا نہیں ہے تو پھر شادی صرف دکھاوا ہے۔ منافقت ہے۔ وقت گزاری ہے۔ دنیا داری ہے۔ ایسی شادی کبھی بھی بحران کا شکار ہو سکتی ہے ٹوٹ سکتی ہے۔

ایسی شادیوں بستروں میں کیکٹس اگ آتے ہیں جو جسموں ذہنوں اور روحوں کو زخمی کرتے رہتے ہیں۔
ایسی شادیاں بظاہر سکھی لیکن در پردہ دکھی ہوتی ہیں۔
ایسی شادیوں کے بارے میں عرفان ستار کہتے ہیں
یہاں تکرار ساعت کے سوا کیا رہ گیا ہے
مسلسل ایک حالت کے سوا کیا رہ گیا ہے
بہت ممکن ہے کچھ دن میں اسے ہم ترک کر دیں
تمہارا قرب عادت کے سوا کیا رہ گیا ہے
اذیت تھی مگر لذت بھی کچھ اس میں سوا تھی
اذیت ہے ’اذیت کے سوا کیا رہ گیا ہے۔
۔ ۔

ڈاکٹر خالد سہیل

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

ڈاکٹر خالد سہیل

ڈاکٹر خالد سہیل ایک ماہر نفسیات ہیں۔ وہ کینیڈا میں مقیم ہیں۔ ان کے مضمون میں کسی مریض کا کیس بیان کرنے سے پہلے نام تبدیل کیا جاتا ہے، اور مریض سے تحریری اجازت لی جاتی ہے۔

dr-khalid-sohail has 689 posts and counting.See all posts by dr-khalid-sohail

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments