ایک فرض شناس لیڈی ڈاکٹر اور ایک بدمعاش کا سچا واقعہ


ڈاکٹر سدرہ نے جب گائناکالوجی میں اپنی سپیشلائزیشن مکمل کی تو انھیں اپنے گھر سے تقریباً بیالیس کلومیٹر دور ایک تحصیل ہیڈ کوارٹر ہسپتال میں کنسلٹنٹ کی پوسٹ مل گئی۔ وہاں کام کرتے ہوئے انھیں ابھی دوسرا سال ہی تھا کہ انھوں نے گھر کے قریب اپنا ایک چھوٹا سا ہسپتال بھی بنا لیا۔ صبح کے وقت سرکاری ہسپتال میں ڈیوٹی کرنے کے بعد شام کو وہ اپنے ہسپتال میں بیٹھ جاتیں اور وہاں آتی غریب خواتین کے چیک اپ کی فیس بھی اکثر چھوڑ دیا کرتیں۔

انھیں تحصیل ہیڈ کوارٹر کے ہسپتال میں کام کرتے تیسرا سال چل رہا تھا جب وہ صبح کے وقت معمول کے مطابق سرکاری ہسپتال میں بیٹھی مریض دیکھ رہی تھیں جب ان کی ایک جانی پہچانی مریضہ کمرے میں داخل ہوئیں۔ وہ آٹھ ماہ کی حاملہ خاتون پچھلے سات ماہ سے ان کے پاس مسلسل چیک اپ کے لیے آ رہی تھی اس لیے اس سے جان پہچان بھی ہو چکی تھی۔ مگر ڈاکٹر سدرہ کو بالکل اندازہ نہیں تھا کہ آج کا یہ چیک اپ کس قیامت کا آغاز ثابت ہونے والا ہے۔ انھوں نے مریضہ کا چیک اپ کیا تو اندازہ ہوا کہ حمل کی صورت حال ٹھیک نہیں ہے۔

مریضہ کا الٹراساؤنڈ کرنے کے بعد انھوں نے اسے بتایا کہ اس کا فوری طور پہ آپریشن کرنا ضروری ہو گیا ہے ورنہ بچے کی جان کو خطرہ لاحق ہو سکتا ہے، اس لیے وہ اپنے گھر والوں کو فوراً مطلع کرے صورت حال سے۔ مریضہ پہلے تو گھبرا گئی پھر پوچھنے لگی کہ آپریشن سے کیا کیا مسائل پیدا ہو سکتے ہیں اور آپریشن نہ کرنے سے کیا کیا خطرات لاحق ہیں۔ ڈاکٹر سدرہ نے تحمل سے اسے ساری صورت حال سمجھا دی اور اسے یہ بھی بتا دیا کہ یہاں ہمارے پاس فی الحال بے ہوشی والا ڈاکٹر میسر نہیں ہے اس لیے یہاں آپریشن ہونا ممکن نہیں ہے۔

آپ کو یا تو ڈسٹرکٹ ہیڈ کوارٹر ہسپتال میں جانا ہو گا یا کسی پرائیویٹ ہسپتال سے آپریشن کروانا ہو گا۔ مریضہ نے پریشانی کے عالم میں ہی اس سے استفسار شروع کر دیا کہ اگر پرائیویٹ ہی کرنا ہے تو آپ خود ہی کر دیں کیونکہ شروع سے چیک اپ کرنے کی وجہ سے میرے حمل کے متعلق آپ سے بہتر تو کوئی نہیں جانتا، مجھے اپنے ہسپتال کا بتا دیں میں وہاں آ جاؤں گی۔

ڈاکٹر سدرہ عموماً سرکاری ہسپتال میں آئے مریضوں کو اپنے ہسپتال کے متعلق نہیں بتایا کرتی تھیں مگر اس مریضہ کے اصرار پہ انھوں نے اسے اپنے ہسپتال کا پتا بتا دیا۔ مریضہ نے اخراجات کے متعلق پوچھا تو اسے بتا دیا کہ اس آپریشن میں تیس ہزار تک اخراجات ہو سکتے ہیں مگر کوشش کی جائے گی جتنے کم سے کم اخراجات ہوں ان میں مکمل کر دیا جائے آپریشن۔ مریضہ ساری تفصیلات جاننے کے بعد ڈاکٹر سدرہ کو دعائیں دیتی کمرے سے نکل گئی۔

اس کے جانے کے بعد ڈاکٹر سدرہ باقی مریضوں کو دیکھنے میں لگ گئیں، بہ مشکل گھنٹہ گزرا ہو گا کہ کوئی شخص دروازے کو دھکا دے کر اندر داخل ہوا۔ یہ چیک اپ کا زنانہ کمرہ تھا اس لیے وہاں مردوں کا داخلہ منع تھا تو خواتین وہاں آ کر اپنے نقاب وغیرہ اتار کر بیٹھی ہوئی تھیں مگر اس طرح کسی مرد کو اندر آتا دیکھ کر وہ سب اپنی اپنی چادریں اور نقاب سنبھالنے لگ گئیں مگر اس مرد کی ساری توجہ صرف میز کی دوسری طرف کرسی پہ بیٹھی ڈاکٹر سدرہ پہ تھی۔

وہ سیدھا ان کے سر پہ جا کھڑا ہوا اور بغیر کسی لحاظ کے ڈاکٹر سدرہ کو ماں باپ کی ننگی گالیاں دینی شروع کر دیں۔ کمرے میں باقی سارے نفوس پہ سکتہ چھایا ہوا تھا بس وہ بندہ چیخ چیخ کر مغلظات بک رہا تھا اور ساتھ ڈاکٹر سدرہ کو دھمکیاں بھی دے رہا تھا کہ

” تو ہوتی کون ہے یہاں بیٹھ کر اپنا پرائیویٹ ہسپتال چلانے والی، تیری اوقات ہی کیا ہے۔ تو اب ہم سے پیسے لے گی، تو جانتی نہیں ہے ہمیں۔ تجھے تو میں چوک میں ننگا کروں گا تو پیسے لے کر میری بیوی کا آپریشن کرے گی۔ تجھے تو میں ایسا سبق سکھاؤں گا کہ کسی کو منہ دکھانے کے قابل نہیں رہے گی، ابھی بتاتا ہوں تجھے میں“

یہ سب کہتا اور گالیاں دیتا وہ کمرے سے نکلا تو ڈاکٹر سدرہ کا سکتہ ٹوٹا اور ان کی آنکھوں سے آنسوؤں کے دریا بہہ نکلے۔ اس آدمی نے باہر آ کر ہیلپ کاؤنٹر پہ لکھا ڈی سی کا نمبر ملایا اور چیخ چیخ کر وہاں بتایا کہ اس کی بیوی کو زبردستی پرائیویٹ ہسپتال میں بلا کر آپریشن کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔

ڈی سی نے فون ملایا ایم ایس کو اور آرڈر دیا کہ معاملے کو فوراً دیکھو اور شکایت دور کرو لواحقین کی۔ ایم ایس جسے صورت حال کا پتا بھی نہیں تھا اس نے جب اس طرح اچانک ڈی سی کا حکم آلود فون سنا تو اس کے ہاتھ پاؤں پھول گئے۔ اس نے فوراً ڈی ایم ایس اور باقی عملے کے اہم ممبران کو بلایا اور کچھ دیر میں ہی سب اصل صورت حال سے آگاہ ہو گئے مگر اب ڈی سی کا فون آنے کی وجہ سے انھیں کسی طرح معاملہ صلح صفائی سے ختم کرنا تھا۔ انھوں نے ڈاکٹر سدرہ کو بلایا جس کی رو رو کر آنکھیں سوج چکی تھیں اور اسے سمجھانا شروع کر دیا کہ ڈی سی انوالو ہو گیا ہے اس لیے اب معافی شافی مانگ کر معاملہ ختم کرتے ہیں۔

ڈاکٹر سدرہ نے یہ سنا تو بے یقینی سے ایم ایس کو دیکھنے لگی کہ وہ بغیر کسی قصور کے اسے معافی مانگنے کا کس منہ سے کہہ رہے ہیں۔ چاہ کر بھی وہ زیادہ دیر تک ایم ایس کو انکار نہ کر سکیں اور معافی مانگنے پہ رضامند تو ہو گئیں مگر یہ دکھ ان کے دل میں چبھنے لگا کہ اتنی پڑھائی کرنے اور اپنا مقام بنانے کے باوجود آج انھیں ایک جاہل انسان سے بغیر کسی غلطی کے معافی مانگنی پڑ رہی ہے۔

متعلقہ آدمی کو بلایا گیا، اس سے معذرت کی گئی مگر وہ ضد پہ اڑا دھمکیاں دیتا رہا۔ ڈاکٹر سدرہ نے معافی مانگی تو اس نے اپنے رویے میں کچھ نرمی پیدا کی اور شرط رکھی کہ معافی صرف اس صورت میں ملے گی کہ ڈاکٹر سدرہ اس کے گھر آئیں اور اس کے پورے خاندان کے سامنے اس کی بیوی سے باقاعدہ معافی مانگیں۔

یہ شرط سن کر تو ڈاکٹر سدرہ ہتھے سے اکھڑ گئیں اور صاف انکار کر دیا۔ ایم ایس نے صورت حال کو سنبھالنے کی کوشش کی مگر وہ آدمی اپنی ضد پہ اڑا رہا اور جب ڈاکٹر سدرہ نے سخت لہجے میں اس کی شرط ماننے سے بالکل انکار کر دیا تو وہ آدمی مغلظات پہ اتر آیا اور گالی دے کر دھمکی دینے لگا کہ ”ڈاکٹر معافی نہیں مانگے گی تو وہ اسے چوک میں ننگا کرے گا سب کے سامنے“

ایسی واہیات زبان سن کر اتنی دیر سے ضبط کر کے چپ بیٹھے ڈی ایم ایس کو تو آگ لگ گئی، وہ ایک دم اچھل کر کرسی سے کھڑا ہوا اور دھاڑ کر بولا کہ ”نکل جا بے غیرت انسان یہاں سے اور جا کے اکھاڑ لے جو اکھاڑ سکتا ہے تو ہمارا“

اس آدمی نے گالیوں کا رخ ڈاکٹر سدرہ سے ہٹا کر ڈی ایم ایس کی طرف موڑ لیا اور دھمکیاں دیتا وہاں سے نکل گیا۔

ڈی ایم ایس لال چہرے کے ساتھ کرسی پہ بیٹھا تو ڈاکٹر سدرہ کا چہرہ زرد ہوا پڑا تھا جبکہ ایم ایس کی ہوائیاں اڑی ہوئی تھیں کہ معاملہ بگڑ گیا ہے، اب ڈی سی پتا نہیں کیا کرے گا۔

ڈی ایم ایس نے خود ہی ڈی سی کو فون کیا اور اصل واقعہ کے ساتھ ساری موجودہ صورتحال سے آگاہ کیا، ڈی سی نے معاملات کی تحقیق کے بعد کوئی رسپانس دینے کا کہہ کر فون کاٹ دیا۔

اس واقعہ کے بعد تیسرا دن تھا جب ڈاکٹر سدرہ ہسپتال سے واپس گھر جا رہی تھیں کہ راستے میں نسبتاً ویران جگہ پہ ایک جیپ نے انھیں تیزی سے اوور ٹیک کیا اور ان کے آگے جا کر سڑک پہ رک گئی۔ ڈاکٹر سدرہ نے بریک تو لگا لی مگر ان کے کچھ سمجھنے سے پہلے ہی جیپ سے وہی آدمی دو مزید بندوں کے ساتھ جیپ سے نکلا اور ڈرائیونگ والے دروازے کے ساتھ آ کر کھڑا ہو گیا۔ ان تینوں کے ہاتھ میں کلاشنکوفیں تھیں۔ کچھ دیر تو کھڑا ڈاکٹر سدرہ کو گھورتا رہا پھر قہقہہ لگا کر بولا کہ ”یہ تو صرف ٹرائل تھا، ابھی دیکھو تمھارے ساتھ کرتا کیا ہوں میں“

یہ کہہ کر اپنے ساتھیوں کے ساتھ دوبارہ سے جیپ میں بیٹھا اور جیپ بھگا لی۔ ڈاکٹر سدرہ کو اپنے حواسوں میں واپس آتے آتے کچھ وقت لگا اور پھر کپکپاتے ہاتھوں سے گاڑی چلا کر وہ اپنے گھر جا پہنچیں۔

اس کے اگلے دن سے ان کے خاوند نے ایک سیکیورٹی گارڈ کی خدمات حاصل کر لیں اور اب روزانہ گارڈ کے ساتھ وہ خود انھیں ہسپتال لانے لے جانے لگے۔

شاہ رخ جتوئی کا کیس یاد ہے؟ جس نے شاہ زیب کو قتل کر دیا تھا۔ شاہ زیب کے سامنے اس کی بڑی بہن سے بدتمیزی کی گئی، جس پہ شاہ زیب آگے بڑھا تو اسے فائرنگ کر کے قتل کر دیا گیا۔

پھر مقتول کے ورثا پہ پریشر ڈال کر صلح نامہ لکھوا لیا گیا تھا جس پہ عدالت نے حکومت پاکستان کو مدعی بنا کر کیس جاری رکھنے کا فیصلہ کیا تھا۔ لیکن مدعی کے طور پہ حکومت پاکستان ہونے کے باوجود چند دن پہلے اس شاہ رخ جتوئی کو عدالت سے باعزت بری کر دیا گیا ہے۔

یہی ہمارے ملک کی کڑوی سچائی ہے کہ یہاں جس کی لاٹھی اس کی بھینس والا معاملہ ہی چل رہا ہے۔

طاقت کے نشے میں ڈوبے انسان نما جانوروں نے جانے ایسے کتنے ہی واقعات تخلیق کیے ہیں، ظلم کی جانے کیسی کیسی داستانیں رقم کی ہوئی ہیں۔ لیکن اس مملکت خداداد میں مظلوم کی دادرسی کا کوئی رواج نہیں، غریبوں کو انصاف ملنے کا کوئی امکان نہیں۔ یہاں محنت یا صلاحیت نہیں، صرف طاقت اور دولت رکھنے والوں کا راج ہوتا ہے، انھی کی بات سنی جاتی ہے۔

ڈاکٹر سدرہ والے واقعے کا جب علم ہوا تو اسے گزرے تقریباً تین ماہ ہو چکے تھے۔ وہ خیریت سے تھیں اور یہی معمول چل رہا تھا کہ وہ ہر جگہ سیکورٹی گارڈ کے ساتھ ہی آ جا رہی تھیں۔

(نوٹ : ڈاکٹر سدرہ والا واقعہ ایک سچا واقعہ ہے، مگر نام فرضی ہے )
دعا ہے کہ اللہ ہر مظلوم کو انسان نما درندوں کے شر سے بچا کر رکھے۔
(آمین)


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments