بے وفائی: تحریر او سنگ ون


تحریر: او سنگ ون
ترجمہ: راجہ عبدالقیوم

لوگوں کا ہجوم جلدی جلدی اس خبر کو پڑھتا اور یک دم ان کے چہروں کا رنگ زرد ہو جاتا اور وہ فوراً شک بھری اور پریشان نظروں کا ایک دوسرے سے تبادلہ کرتے۔ ضمیمے۔ ضمیمے، چھوٹے چھوٹے دستی بلوں پر بہت بڑے حروف میں چھپی ہوئی یہ خبر نا قابل یقین سرعت کے ساتھ گلیوں میں گشت کر رہی تھی۔

یہ سیول کی عقبی گلیوں میں سے ایک میں پینے پلانے کی جگہ تھی۔ گھر کی بیرونی دیوار مستقل طور پر پیشاب سے گیلی تھی اور اس کی سخت بد بو ساری گلی میں پھیلی تھی۔ یہ سب کیا دھرا ان بد مست شرابیوں کا تھا جو یہاں اس جگہ کے باہر قطار اندر قطار اکٹھے ہوتے تھے۔ لیکن اس وقت یہ جگہ قریب قریب خالی تھی۔ شاید ابھی (لوگوں کے آنے ) کا وقت نہیں ہوا تھا۔ ابھی صرف تیس سال سے اوپر کی عمر کے دو افراد ایک میز پر بیٹھے خاموشی سے پی اور آپس میں آہستہ آہستہ باتیں کر رہے تھے۔

لگتا تھا کہ وہ سیاست پر بات کر رہے تھے کیونکہ وقتاً فوقتاً کچھ مشہور سیاسی شخصیات کے نام ان کی گفتگو میں سنے جا سکتے تھے (ان کے علاوہ) ایک پچیس چھبیس سال کا نوجوان گاہک ایک کونے میں میز پر تنہا بیٹھا شراب پی رہا تھا۔ جس انداز سے وہ حلق سے شراب انڈیلتے ہوئے دوسرے لوگوں کی گفتگو سن رہا تھا اس سے کسی نہ کسی طور پر اس کی بے چینی کا تاثر مل رہا تھا۔

وقتاً فوقتاً اس کی آنکھوں میں پریشانی کا ایک سایہ سا جھلک اٹھتا۔

” 38 متوازی لکیر کے خاتمے کے لئے قومی سطح پر تحریک چلائی جانی چاہیے“ گفتگو میں مصروف دو آدمیوں میں سے طویل قامت اور مضبوط جسم کے مالک نے اپنے تر لبوں کو ہاتھ کی پشت سے صاف کرتے ہوئے کہا۔

”لیکن ہمیں ایک چیز کو نظر انداز نہیں کرنا چاہیے۔ وہ لوگ جو اس وقت بڑے زور شور سے (اس لکیر) کے خاتمے کی تحریک کے حق میں بول رہے ہیں انہیں نہیں ہونا چاہیے ’

” میرا مطلب ہے جو کچھ وہ کہہ رہے ہیں اسے ہمیشہ من و عن تسلیم نہیں کیا جا نا چاہیے۔ یہ صاف ظاہر ہے کہ اس کے باوجود کہ وہ کیا کہتے ہیں، ان میں سے کچھ، دل ہی دل میں، 38 متوازی لائن کی حیثیت کو قائم رکھنے کی خواہش رکھتے ہیں۔ چلو کم از کم وقتی طور پر ہی سہی۔ یہ رجحان خاص طور پر بائیں بازو کے لوگوں میں پایا جاتا ہے۔ وہ اپنی طاقت کی بنیاد فراہم کرنے کے لئے کافی وقت حاصل کرنا چاہتے ہیں“ دوسرے شخص نے نحیف اور نرم آواز میں خیال ظاہر کیا، جو اس کے مضبوط گول چہرے سے میل نہیں کھاتی تھی بالکل اسی طرح جیسے اس کی غیر متوقع طور پر چھوٹی چھوٹی آنکھیں اس کے چہرے کے خاکے سے مطابقت نہیں رکھتی تھیں۔

”انہیں موقع آنے پر ایک ایک کر کے برخاست کیا جا سکتا ہے، یہ کوئی مسئلہ نہیں ہے“ پہلے شخص نے کہا اس پر تنگ آنکھوں والا بالکل واضح طور پر ناراض نظر آیا ”دہشت گردی ہی سیاست کا اول و آخر نہیں ہے۔ اپنی بہترین صورت میں بھی یہ صرف ایک واحد ناگزیر جز ہو سکتا ہے اور وہ بھی صرف ایک مجبوری کی صورت میں۔“

اسی لمحے کونے کی میز پر بیٹھے ہوئے نوجوان تنہا شرابی نے ان دونوں پر ایک تیز نظر ڈالی۔ کسی وجہ سے نوجوان آدمی کا چہرہ بہت گمبھیر ہو گیا۔ عین اس وقت اس جگہ کام کرنے والا ایک نوجوان لڑکا اپنے ہاتھ میں کاغذ کا ایک چھوٹا سا چوکور ٹکڑا اٹھائے پھولی ہوئی سانس کے ساتھ اندر داخل ہوا۔

” سنو، کیا آپ نے یہ خبر سنی ہے؟ سارا قصبہ الٹ پلٹ کر رہ گیا ہے“ اس نے چلا کر کہا۔ اس جگہ کے مالک نے، جو ایک ادھیڑ عمر کا شخص تھا، ہچکچاتے ہوئے وہ کاغذ کا ٹکڑا لے لیا۔ تیس سے اوپر کے دونوں افراد جو اکٹھے پی رہے تھے، نے مالک کی طرف دیکھا۔ ادھیڑ عمر شخص نے اپنی عینک کی مدد سے اس کاغذ کو پڑھنا شروع کیا لیکن ایک گہری سانس کے ساتھ وہ رک گیا۔ تنگ آنکھوں والے شخص نے جو اس ادھیڑ عمر شخص کو پڑھے ہوئے دیکھ رہا تھا، اس سے وہ کاغذ لے لیا اور پڑھنا شروع کر دیا۔ لمبا مضبوط شخص بھی (پڑھنے میں ) شا مل ہو گیا۔ جونہی انہوں نے پڑھنا ختم کیا تو انہوں نے نفرت سے اس کا غذ کو توڑ مروڑ دیا۔

”ایک اور عظیم آدمی مارا گیا“
کچھ دیر تک انہوں نے کچھ نہیں کہا لیکن وہ چوکنے اور دباؤ میں لگ رہے تھے۔
” اسے کس نے گولی ماری ہو گی؟“

” مخالف کیمپ کے کسی شخص نے، اور کون ہو سکتا ہے؟ یقیناً یہ وہی ہوں گے“ مضبوط آدمی نے کہا کچھ دیر تک تنگ آنکھوں والے نے غور کیا۔

لیکن ہم فوراً اس نتیجے پر نہیں پہنچ سکتے کہ یہ مخالف کیمپ والوں کا ہی کیا دھرا ہے۔ قتل ہمیشہ سیاسی مخالفین ہی نہیں کرتے۔ یہ قریب ترین سیاسی حلیفوں کا کام بھی ہو سکتا ہے۔ انہیں یہ فائدہ ہے۔ میرا مطلب ہے جو کسی کو قتل کر کے اس کی موت پر سب سے زیادہ غمگین بھی نظر آسکتے ہیں۔ یہ تو صرف عوام ہیں جنہیں دھوکا دیا جاتا ہے۔ اسی طرح تو سیاست کام کرتی ہے۔ ؟ جب وہ بات کر رہا تھا تو اس کے چہرے پر گمبھیرتا چھائی جا رہی تھی۔

اسی لمحے شراب پیتے ہوئے نوجوان نے دوبارہ اوپر نظر اٹھاتے ہوئے دونوں افراد پر اچٹتی نظر ڈالی۔ جب ان کی نظریں ملیں تو توانا شخص اٹھ کھڑا ہوا اور نوجوان آدمی کی میز پر آ گیا۔ مڑے تڑے کاغذ کی تہیں درست کر کے اس نے یہ کاغذ نوجوان آدمی کے پڑھنے کے لئے میز پر رکھ دیا اور پوچھا ”کیا تم اسے پڑھنا چاہتے ہو“

نوجوان آدمی نے بغیر اس کاغذ پر زیادہ نظر ڈالے، اپنا مشروب ختم کیا، اطمینان سے ادائیگی کی اور اپنا چہرہ باقی لوگوں سے دوسری طرف کیے وہاں سے چلا گیا۔

یہ میزوں اور کرسیوں سے اٹا ہوا نیم روشن دفتر تھا۔ جس انداز سے گلی کے ملے جلے شور کی آوازیں آر ہی تھیں اس سے اندازہ ہوتا تھا کہ یہ کوئی بڑی بڑی گلیوں سے دور دراز الگ تھلگ جگہ ہے۔

” آؤ جام تجویز کریں، وہ جلد ہی یہاں آئے گا“ کمرے میں موجود دو آدمیوں میں سے ایک نے کہا۔ شفاف محلول سے لبالب گلاسوں کے ٹکرانے کی خوشگوار آواز بلند ہوئی۔ اس سے زیادہ مکروہ پیشہ ور شخص میں نے اور نہیں دیکھا۔ میں پریشانی کے عالم میں تقریباً آپے سے باہر ہو رہا تھا کہ کہیں یہ سب کچھ الجھا کر نہ رکھ دے لیکن ابھی میں نے سگریٹ سلگایا ہی تھا کہ میں نے دو گولیاں چلنے کی آوازیں سنیں۔ میں نے اپنے پیکٹ سے سگریٹ نکالتے ہوئے اسے تمباکو کی دکان کے باہر گھومتے دیکھا تھا۔ یہ بجلی کے کوندے کی طرح تیز ہے۔

بس یہی ہے۔ لیکن میں حیراں ہوں کہ اتنی دیر گئے اسے کس چیز نے روکا ہوا ہے؟ جس شخص نے یہ کہا اس کا چہرہ لمبوترا اور آنکھیں ترچھی تھیں جو تیزی و طراری کی بجائے ناراضگی اور نفرت کا تاثر دے رہی تھیں۔ اس نے اپنی کلائی کی گھڑی پر ایک نظر ڈالی۔

عین اس وقت فلیٹ ہیٹ پہنے ایک شخص نے دروازہ کھولا اور کمرے میں داخل ہو گیا۔ اپنے ہیٹ کے سرے کو ذرا اوپر اٹھاتے ہوئے اس نے دونوں اشخاص کو سر ہلا کر (سلام کیا) اور ان کی طرف اخبارات کا بنڈل (گٹھا) پھینک دیا۔

” یہ اخبارات پڑھو۔ لگتا ہے کہ ہر چیز بڑی اچھی طرح تکمیل پذیر ہوئی ہے“ نئے آنے والے نے کہا۔ اس بار اس نے خود ہی سر ہلایا۔ دوسرے دو نے تیز تیز اخبارات پر نظر دوڑائی۔

قاتل ایک بے روزگار جوان آدمی ہے ”اس منصوبہ بندی کرنے والوں کے بارے میں تفتیش میں ابھی کوئی پیش رفت نہیں ہو سکی کیونکہ مجرم تاحال ہوش میں نہیں آیا ً۔ ایک گرے ہوئے بے ہوش نوجوان کی تصویر بھی چھپی تھی جس کا تمام چہرہ زخموں سے بگڑ چکا تھا۔ تیزی سے شہ سرخیاں اور تصویروں کے عنوان پڑھتے ہوئے لمبوترے چہرے والے کے لبوں پر عجیب سی مسکراہٹ نمو دار ہوئی“ ہم نے یہ ایک بار پھر کر لیا ”اس نے کہا“ بہتر ہو گا کہ تم اگلے اخبار پڑھو ”فلیٹ ہیٹ والے نے اپنی پیشانی سکیڑتے ہوئے اسے ایک آنکھ دبا کر کہا۔ لیکن لمبوترے چہرے سے عجیب سی مسکراہٹ غائب نہ ہوئی۔ اس کے ساتھی نے دوسرے اخبار کو کھولا

” گرفتار کیا گیا مشکوک آدمی ہو سکتا ہے اصل مجرم نہ ہو“ پھر اصل مجرم کون ہے؟ اپنے رومال میں منہ چھپائے سسکیاں بھرتی ہوئی ایک لڑکی کی تصویر چھپی تھی جسے مشکوک شخص کی بہن کے طور پر شناخت کیا گیا تھا۔ ایک اور تصویر مشکوک شخص کی ماں کی تھی جو اپنے بیٹے کی گرفتاری کی خبر سن کر بے ہوش ہو گئی تھی۔

” اس میں کیا لکھا ہے“

” بہن کے بقول ملزم قصبے میں عرصے سے بیمار ماں کے علاج کے لئے رقم ادھار لینے گیا تھا۔ میرا بھائی ایسا کام کبھی کر ہی نہیں سکتا۔ میں خدا کی قسم اٹھاتی ہوں کہ وہ مجرم نہیں ہے۔“ اس کے بعد لکھا تھا کہ لڑکی نامہ نگار کے مزید سوالوں کے جوابات دینے کے قابل نہیں رہی تھی۔ لمبوترے چہرے والے کے لبوں پر عجیب سی مسکراہٹ اسی اخبار کی رپورٹ سننے کے دوران بھی پھیلی رہی تھی۔ پھر اس نے کہا

” کچھ بھی ہو یہ کیس بند ہو گیا ہے“ اور یہی اہم بات ہے۔ ہمیں کسی بھی اور چیز سے پریشان ہونے یا تعلق رکھنے کی ضرورت نہیں ہے۔ کم، تم بھی ایک جام شراب لو۔ ”

فلیٹ ہیٹ والے نے ایک جام اٹھایا اور لمبوترے چہرے والے نے اس میں شراب انڈیلی۔ پھر اپنے ساتھی پر نظر ڈالتے ہوئے جو ابھی تک اخبارات دیکھ رہا تھا، لمبوترے چہرے والے نے اس سے اخبارات چھینے اور انہیں ترتیب سے تہہ کیا اور انہیں اپنے ساتھی کی جیب میں گھسیڑتے ہوئے اس نے کہا ”جب ہمارا لڑکا یہاں آئے گا تو اس (خبر) کو پڑھنے سے اس پر برا اثر پڑ سکتا ہے۔ اسے گھر لے جاؤ اور اگر اسے پڑھنا چاہتے ہو تو وہیں پڑھو“ پھر وہ فلیٹ ہیٹ والے شخص کی جانب مڑا اور اسے مخاطب کیا۔

”کم!“

کم نے پہلے اپنی شراب ختم کی اور خالی گلاس میز پر الٹا رکھتے ہوئے اس نے لمبوترے چہرے والے کی جانب نظر کی۔

” کیا آپ نے مسٹر چنگ سے بات نہیں کر لی؟ کیا ہر چیز تیار ہے؟“
فلیٹ ہیٹ والے شخص نے اثبات میں سر ہلایا۔
”کیا لڑکی بھی تیار ہے؟ کوئی خوبصورت لڑکی؟“

فلیٹ ہیٹ والے نے مثبت جواب کے انداز میں برا سا منہ بنایا۔ اسے دیکھتے ہوئے لمبوترے چہرے والے نے بھی برا سا منہ بنایا۔ مگر فوراً ہی اس کے چہرے پر کھچی لکیروں کی جگہ ایک بے نام سے سائے نے لے لی ”کیا تمہیں محسوس نہیں ہوا کہ کچھ عرصے سے ہمارے لڑکے کا رویہ کچھ عجیب سا ہو گیا ہے؟“ اس نے پوچھا۔

دبلے پتلے تشویش زدہ نظر آنے والے شخص نے اپنی جیب سے تہہ کیے ہوئے اخبار کو باہر نکالتے ہوئے استہزائیہ انداز میں کہا ”بالکل اپنی ماں کی وفات کے بعد سے کچھ اداس اداس لگتا ہے“

لمبوترے چہرے والے نے نفرت سے فرش پر تھوکتے ہوئے پوچھا ”کیا ایسا ہو سکتا ہے کہ وہ ہمارے مشن (مقصد) کے بارے میں شکوک و شبہات کا شکار ہو نا شروع ہو گیا ہو“ لیکن اس نے تیزی سے بات درمیان میں ہی کاٹ دی۔ دروازے کو باہر کی جانب سے کھولا جا رہا تھا۔ کمرے میں ٹھنڈی ہوا کا ایک تیز جھونکا پھیل گیا۔

” خوش آمدید! تمہیں اتنی دیر کیوں ہو گئی؟ خیر۔ بہت مبارک ہو ’‘ لمبوترے چہرے والے نے اپنا گلاس نئے آنے والے کی طرف اٹھا کر کہا۔

لیکن ابھی ابھی داخل ہونے والا شخص ایک لمحے کے لئے دوسروں پر نظر ڈالتے ہوئے آہستہ آہستہ میز کی جانب بڑھا۔ اس نے بغیر ان کی جانب کوئی توجہ دیے بوتل اٹھائی اور پینی شروع کر دی۔ یہ وہی نوجوان تھا جو کچھ دیر پہلے عقبی گلی کے شراب خانے میں اکیلا بیٹھا پی رہا تھا۔

اگرچہ شراب نوشی سے اس کا چہرہ سرخ ہونا شروع ہو گیا تھا لیکن اس کی آنکھوں میں کوئی گہرا کالا بادل نظر آ رہا تھا۔ اس کے بھیگے ہوئے سرخ ہونٹ اس کی دھندلائی آنکھوں سے بالکل متضاد تھے۔

” تم پہلے ہی کہیں اور چند گلاس پی چکے ہو؟“ ۔ ہم تو یہ سارا وقت تمہارا انتظار کرتے رہے کہ ہم مل کر جشن منائیں گے؟ لمبوترے چہرے والے نے مصنوعی غصے کا اظہار کرتے ہوئے نوجوان کو ایک خالی گلاس پیش کیا۔

لیکن نوجوان نے خالی گلاس قبول کرنے کی کوئی علامت ظاہر نہیں کی بلکہ وہ گلاس اور پھر لمبوترے چہرے والے کو دیکھتا رہا۔ ”ایک اور جام لو۔ اور پھر جہاں لڑکی ہے وہاں چلتے ہیں۔ اس سے تم بہت بہتر محسوس کرو گے۔ تمہارے لئے ہر چیز تیار ہے۔ بشمول لڑکی کے اور تمہیں معلوم ہے کہ کسی خاتون کو زیادہ دیر انتظار کرانا اخلاقاً کوئی اچھی بات نہیں ہے“ لمبوترے چہرے والے نے کہا۔ اس کے چہرے پر ہمیشہ رہنے والی عجیب سی مسکراہٹ پھیلی تھی اور اس نے اپنے تحکمانہ لہجے میں بات کی جس سے لگتا تھا کہ اسے دوسرے شخص کے محسوسات پر بھی مکمل اختیار حاصل تھا۔

اس نے اپنی بات جاری رکھی۔ ”مجھے معلوم ہے کہ کسی انتہائی پر تشدد لمحے کے بعد آدمی کتنی گھبراہٹ کا شکار ہو جاتا ہے اور اس کے بعد کس طرح محسوسات پر گمبھیر سیاہ بادل چھا جاتے ہیں۔ کسی آدمی کو قتل کرنے کے بعد یہ ہمیشہ ہوتا ہے اور اس کا بہترین علاج ایک لڑکی ہے۔ آدمی اپنے بچے کھچے جذبات لڑکی کے جسم میں ڈھیر کر سکتا ہے۔ اس کے بعد تم سکون کی نیند سو سکتے ہو اور سب کچھ دوبارہ نارمل ہو جائے گا“ ایسا کہتے ہوئے لمبوترے چہرے والا نوجوان کی آنکھوں میں دیکھتا رہا۔ نوجوان کا چہرہ پہلے سے بھی زیادہ سیاہ ہو گیا۔

” ایک اور جام لو اور لڑکی کے پاس چلے جاؤ۔ اس کا نرم جسم تمہارا انتظار کر رہا ہے۔ ٹھیک ہے ناں؟“ لمبوترے چہرے والے نے اسے قائل کرنے کے لئے کہا۔ نوجوان نے دوسرے شخص کی آنکھوں میں تیز آنکھوں سے گھورتے ہوئے کہا۔

”لڑکی کو واپس بھیج دو “
لمبوترے چہرے والے کے ہونٹ ایک استہزائیہ مسکراہٹ سے بھینچ گئے ”پھر تم کہاں جانا چاہتے ہو؟“
”گھر“
”گھر؟“
متجسس آنکھیں، اور سیاہ، پریشان آنکھیں خاموشی سے آپس میں چار ہوئیں ”اسے بھول جاؤ۔ کون سا گھر؟“
ایک بار پھر یوں لگا کہ ایک اندھیرا، کالا سایہ نوجوان کی آنکھوں سے گزر گیا۔

”میرا گھر۔“ وہ خود سے بڑبڑایا، اور پھر سر اٹھا کر دوسرے شخص کے چہرے کو دیکھا۔ لمبوترے چہرے والے نے اپنی چھوٹی چھوٹی آنکھیں جھپکائیں اور ایک آہ کو دبا لیا۔

اس کے بعد انہوں نے الفاظ کا کوئی تبادلہ نہیں کیا۔ نوجوان نے ایک جام انڈیلا، اسے غٹاغٹ پیا اور کمرے سے چلا گیا۔ لمبوترے چہرے والا کچھ دیر بند دروازے کو گہری خاموشی سے بغور دیکھتا رہا پھر بوتل پر جھپٹتے ہوئے اسے گلاس میں انڈیلے بغیر براہ راست اس سے شراب پینے لگا۔

شراب کی ایک لکیر سی اس کی ٹھوڑی اور گردن سے بہنے لگی۔ ایک لمحے کے لئے وہ اپنا سانس درست کرنے کے لئے رکا اور پھر دوبارہ پینی شروع کر دی۔ جب آخر کار بوتل ختم ہو گئی تو اس نے اسے نفرت سے کمرے کے کونے میں پھینک دیا جیسے وہ غصہ نکال رہا ہو۔

اندھیرے سرد آسمان پر ستارے یوں ٹمٹا رہے تھے جیسے برف پر بہت سے موتی جڑے ہوں۔ جب بھی تیز ہوا کا جھونکا آتا، گلی کے دونوں اطراف کے درختوں کی شاخوں میں سے گزرتا تو سوکھے ہوئے پتے اس کے قدموں کے قریب فٹ پاتھ پر برف کی طرح گرنے لگتے۔ نوجوان ایک درخت کا سہارا لے کر آسمان کو دیکھ رہا تھا۔ ابھی تک وہ اپنے دل کے بوجھل پن سے چھٹکارا حاصل نہیں کر سکا تھا۔ اس نے اپنی پتلون کی جیب سے اخبار کے ایک مڑے تڑے تراشے کو نکالا۔ ایک لمحے کے لئے تصویری سرخی ”مشتبہ شخص کی ماں جو اپنے بیٹے کی گرفتاری کی خبر پر بے ہوش ہو گئی“ کے اوپر لگی بوڑھی عورت کی تصویر پر اس کے ذہن کی آنکھ میں اس کی اپنی ماں کی شبیہ چھا گئی۔ ایک تصوراتی آواز اس کے دماغ میں گونجنے لگی ”یہ سب مادر وطن کے لئے ہے“ یہ آواز جاری رہی۔

” ہم سب نے اپنی مادر وطن پر جان نچھاور کرنے کی قسم کھائی ہے۔ ہمیں اچھی طرح معلوم ہے کہ ہمیں کیسے محسوس کرنا ہے لیکن زندگی میں ارفع مقاصد کے حصول کے لئے کچھ چیزیں ضرور قربان کرنی پڑتی ہیں“

یہ سب کچھ دو ماہ پہلے شروع ہوا تھا۔ زیر زمین انجمن جس سے وہ تعلق رکھتا تھا، نے تقریباً اسی وقت ایک اہم سیاسی شخصیت کو قتل کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔ نوجوان کا اس مقصد کے لئے ایک بندوق بردار کے طور پر انتخاب کیا گیا تھا لیکن جس رات کو یہ قتل کیا جانا تھا۔ عین اسی رات نوجوان کی اپنی والدہ ایک طویل علالت کے بعد اپنی آخری گھڑیوں پر تھی۔

اس رات، پہلے سے طے شدہ وقت سے ٹھیک نصف گھنٹہ پہلے اس کے گھر کے باہر ایک کار کے ہارن کی تیز آواز گونجی۔ اس کی روشن گھڑی کی دوسری سوئی ڈائل پر صحیح صحیح گھوم رہی تھی۔ ایک دفعہ پھر ہارن کی مختصر سی آواز گونجی۔ اس نے اندھیرے کا خاموشی سے مقابلہ کیا۔

” اسے ملتوی کرنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ صرف یہی سوچو کہ ہم نے اس کام کے لئے اب تک کتنی محنت اور وقت صرف کیا ہے۔ اس کے علاوہ، اگر ہم آج ناکام ہو گئے تو ہمارے تمام منصوبے خاک میں مل جائیں گے۔ اس کا مطلب ہو گا کہ ہمیں سب کچھ از سر نو ابتدا سے شروع کرنا پڑے گا۔ یہ سارا کچھ (کیوں ) جب کہ کامیابی تقریباً ہمارے ہاتھ میں ہے۔ اپنی ماں کے بارے میں پریشان مت ہو۔ ہم ان کا خیال رکھیں گے۔ کیا ہم نے اپنی مادر وطن کے لئے سب کچھ قربان کردینے کا حلف نہیں اٹھایا؟“

یہ سب کچھ ایک دھیمے مگر تشویش سے لبریز لہجے میں کہا گیا۔ اس نے خاموشی سے اپنے پیچھے دروازہ بند کیا۔ اپنی والدہ کے کراہنے کی آواز باہر بھی اس کا تعاقب کرتی رہی۔

1945 ء میں آزادی کے بعد ملک میں عجلت میں بنائی گئی سیاسی جماعتوں کا طوفان آ گیا تھا اور بے ترتیب جھگڑے کے نتیجے میں پیدا ہونے والی نظریاتی بد نظمی نے ملک کی جوان پود میں ایسا سیاسی شعور/ احساس بیدار کر دیا تھا جس نے انہیں باہم متصادم سیاسی جماعتوں میں دھکیل دیا۔

ہر ایک کا مادر وطن سے وفاداری کا دعویٰ تھا۔ اس نوجوان کو ہائی اسکول پاس کرنے کے بعد ایک چھوٹی سی فرم میں ملازمت مل گئی تھی اور اسے بھی لمبوترے چہرے والے نے جو اسی سکول سے فارغ التحصیل تھا زیر زمین سوسائٹی میں شمولیت کے لئے آمادہ کیا۔ مادر وطن کی بدنام اور تباہ حال تاریخ غیر محب وطن غداروں کے ہاتھوں میں رہی تھی اور اب بھی تھی اور زیر زمین تنظیم کا یہ نصب العین تھا کہ ان سب کی ایک ایک کر کے نشاندہی کی جائے اور اس سے پہلے کہ وہ (ملک کو ) دوبارہ کوئی خطرناک نقصان پہنچائیں، انہیں راستے سے ہٹا دیا جائے۔

جنہیں ہر قیمت پر ہٹایا جانا ہے۔ انہیں مادر وطن کے وقار اور عزت کے نام پر ہٹانا ہے۔ اس نے بندوق چلانی سیکھی۔ ایک بہترین طور پر منظم شخص کی حیثیت سے وہ جلد ہی نشانہ بازی میں تقریباً بام عروج تک جا پہنچا۔ نشانہ بازی کی عملی تربیت کے دوران جب مٹی کی بوتلیں ٹکڑے ٹکڑے ہو کر ایک ایک کر کے گرتیں تو اسے اپنے اندر فخر و انبساط اور جوش و جذبے کا طوفان سا اٹھتا محسوس ہوتا۔ پھر شبینہ بحث مباحثے ہوتے تھے۔ قابض امریکی فوج کے کمانڈر کو کوریا کے حالات کے بارے میں بہت کم معلوم تھا۔ تب وہ کون آدمی تھا جو اپنے فائدے کے لئے غلط ملط اطلاعات کمانڈر کو فراہم کر رہا تھا؟

تب وہ کون شخص تھا جو کمانڈر کو غلط ملط اطلاعات فراہم کر کے حالات کو اپنے مفاد میں استوار کر رہا تھا۔ ان کی بحثوں میں ایک نام عموماً زیر بحث آتا تھا۔ احتیاط کے ساتھ منصوبہ سازی ہوتی۔ روز بروز نوجوان کے دل سے گھر کا خیال دور سے دور ہوتا چلا گیا۔ اور جب یہ سب وقوع پذیر ہو رہا تھا اسی وقت اس کی والدہ کی علالت شدید ہوتی جا رہی تھی۔ غدار کو قتل کرنے کے لئے مقررہ دن سے پہلے والی شام وہ بہت دنوں کے بعد ماں سے ملنے گھر گیا تھا۔

بستر سے لگی اس کی ماں نے پورا دروازہ کھلنے کی آواز پر آنکھیں کھولیں۔ نچلی چھت والا کمرہ تاریک اور گھٹن زدہ تھا۔ وہ خاموشی سے ماں کے سامنے جھکا۔

مٹی کے تیل کے مدہم چراغ کا عکس، اس کی ماں کی خاموشی سے سوالیہ انداز میں اپنے بیٹے کا جائزہ لیتی ہوئی آنکھوں سے جھلک رہا تھا۔ اس کی آنکھیں بجھتے ہوئے انگاروں جیسی نظر آر ہی تھی۔

” ماں“

ایسے لگا کہ بوڑھی خاتون نے بہت دھیمے انداز میں یوں سر ہلایا ہو کہ جیسے اس نے اپنے بیٹے کو پہچان لیا ہو۔

”ماں“ کیا ڈاکٹر یہاں آتا رہا ہے؟ ”
لیکن بوڑھی خاتون نے کوئی ایسی علامت ظاہر نہ کی جس سے پتہ چلتا کہ اس نے اس کی بات سن لی ہے۔

یہ سوچ کر کہ اس (ماں ) نے اس کی بات نہیں سنی، اس بار اس نے اس کے کانوں کے قریب جھک کر ایک بار پھر اپنا سوال دہرایا۔ پھر اس نے اس کے تاثرات کا گہرا جائزہ لیا۔ اس کے جھریوں بھرے لب بہت ہلکے سے ہلے، لگا کہ اس کے ہاتھ کچھ پکڑنے کی جستجو میں ہیں۔

اپنا ایک ہاتھ ماں کے ہاتھوں میں دیتے ہوئے اس نے کہا
”ماں، تمہیں کیا چاہیے؟“

اس (ماں ) نے کوئی جواب نہ دیا، صرف کمزور سی گرفت میں اس (بیٹے ) کا ہاتھ تھام لیا۔ پھر وہ اس کا ہاتھ اپنے گالوں تک لے گئی۔ آہستہ سے وہ اس (بیٹے ) کا ہاتھ اپنے ہونٹوں تک لے گئی اور اسے سختی سے دبایا جیسے کے (بیٹے ) کے ہاتھ کو صرف دیکھنا اور چھونا کافی نہ ہو۔

اس نے اپنے حلق میں جیسے کچھ پھنستا ہوا محسوس کیا۔ اسے وہ مختصر گفتگو یاد آئی جو اس نے کافی دن پہلے آخری بار گھر سے جاتے ہوئے ماں سے کی تھی۔

( ”تم کب واپس آؤ گے؟“ ”میں آج واپس نہیں آ سکوں گا میں نے ہمسائے میں رہنے والی خاتون سے کہا ہے کہ وہ آ کر تمہارا خیال رکھے۔ پریشان مت ہو، میں نے اسے کچھ رقم بھی دے دی ہے۔ شام کو ڈاکٹر تمہیں دوبارہ دیکھنے آئے گا“

”اچھا“ پھر کافی دیر تک بے مقصد چھت کو گھورنے کے بعد اس کی ماں جیسے اپنے آپ سے بڑ بڑائی : بیٹا ماں کے لئے سب کچھ ہوتا ہے۔ بڑھاپے میں اور بھی زیادہ۔ لیکن میرا خیال ہے اس کا الٹ ہمیشہ صحیح نہیں ہوتا (یعنی ماں بیٹے کے لئے سب کچھ ہوتی ہے ) بیٹے کو اور بھی اہم کاموں کو نمٹانا ہوتا ہے۔ اس کا دل درد سے بھر آیا جب اس نے ماں سے یہ سنا، کیونکہ اس کے نہ چاہتے ہوئے بھی اسے ماں سے جدا ہونا ہی تھا) ۔

اور اب اس منظر کو یاد کرتے ہوئے، اسے محسوس ہوا کہ جیسے وہ اپنی ماں کو اپنا ہاتھ سہلاتے اور اپنے ہونٹوں کے ساتھ دباتے ہوئے دیکھ سکتا ہو۔ اس کی ماں کے ہاتھوں کی کمزور حرکت کچھ دیر بعد بالکل ساکت ہو گئی۔ اس نے اپنی آنکھوں کو ماں کی ہڈیوں بھری کمزور انگلیوں سے ہٹا کر اس کی آنکھوں پر مرکوز کیا۔ اس کی دھندلائی ہوئی آنکھیں بیٹے پر مرکوز ہوئیں پھر بیٹے پر مرکوز آنکھیں مٹی میں پڑے ہوئے چمک دمک سے محروم شیشے کے بنٹوں جیسی تھیں۔ ایک لمحے کے لئے اس نے پریشانی سے سوچا کہ شاید وہ اسے بالکل دیکھ ہی نہیں سکتی تھی بلکہ صرف اس کی موجودگی کو محسوس کر سکتی تھی۔

جاری ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments