دل لگایا تھا اک ”گھڑی“ کے لیے


یہ کیسی ”گھڑی“ تھی جو کسی کے ”سال“ ہڑپ کر گئی؟ پروین شاکر نے کہا تھا ؛
”حسن کے سمجھنے کو عمر چاہیے جاناں!“
”دوگھڑی کی چاہت میں لڑکیاں نہیں کھلتیں“

سوچ ہی رہا تھا کہ دور سے ہاشو شکاری کو آتے ہوئے دیکھا۔ سر جھٹک کر اس کی جاب متوجہ ہو گیا۔ وہ قریب آیا اور پوچھا : بادشاہو! پریشان ہو؟ میں نے کہا :بقول پروین شاکر، اگر بندہ دو گھڑی میں نہیں ”کھل“ سکتا تو میرے کپتان کو ایک گھڑی نے کیونکر کھول دیا؟ ہاشو نے چٹکی بجائی اور بولا: پٹواری ہی رہنا، پروین شاکر نے یہ بات لڑکیوں کے بارے کہی تھی لڑکوں بارے نہیں اور کسی کپتان کے بارے تو ہرگز نہیں۔

جب سے میرا کپتان نا اہل ہوا ہے میں ایک گھڑی سو نہیں پایا، بس ہر لمحہ اپنی گھڑی کی جانب دیکھتا اور سوچتا رہتا ہوں کہ نہ جانے کس گھڑی میرا کپتان دوبارہ اہل ہو گا؟ ایک گھڑی نے میرے کپتان پر کیسی گھڑی لائی ہے کہ اب اپنے کھیتوں میں پڑے گھڑے بھی گھڑیاں دکھنے لگے ہیں۔ میرا کپتان ”خان“ ہے اور توشہ ”خانہ“ ہے لیکن پھر بھی نہ جانے کیوں اس خان اور خانہ کی بن نہیں سکی؟ گزرے زمانے میں ”خان اور سسی“ کا انجام پڑھا تھا لیکن معلوم نہ تھا کہ اپنی جاگتی آنکھوں ”خان اور خانہ“ کا انجام بھی دیکھیں گے۔

میرے کپتان کو تو گھڑی بھی اچھی نہ ملی۔ کسے پتا تھا کہ گھڑیاں ”وقت بتانے“ کی بجائے ”اوقات دکھانا“ شروع کر دیں گی؟ میں نے اب یہ سوچتے ہوئے گھڑی پہننی ہی چھوڑ دی ہے۔ سوچتا ہوں اک گھڑی کے لیے کسی کو اتنی گھڑیاں نا اہل کرنا بنتا نہیں تھا لیکن پھر اپنے کپتان کا یہ قول یاد آتا ہے کہ ”جب آپ نا اہل ہوتے تو آپ نے کوئی نہ کوئی جرم کیا ہوتا ہے“ ۔ ہائے کاش! میں کوئی سائنسدان ہوتا تو ایک ایسی گھڑی ضرور بناتا جو ایسی گھڑی کا بھی بتاتی جس میں چور کا بچ نکلنا یقینی ہوتا۔

 پٹواریوں نے ”گھڑی چور گھڑی چور“ کے طعنے مار مار کر میرا جینا محال کر رکھا ہے۔ سوچتا ہوں کہ کپتان کا ساتھ چھوڑ دوں لیکن پھر خیال آتا ہے کہ میں کوئی پٹواری تھوڑی ہوں؟

میرے کپتان نے وہ گھڑی سعودی عرب کا سٹینڈرڈ ٹائم دیکھنے کے لیے اپنے پاس رکھی تھی لیکن دشمنوں نے چوری کا الزام لگا دیا۔ پٹواری کہتے ہیں کہ کپتان کرپشن صاف کرنے آیا تھا لیکن توشہ خانے کی صفائی کر گیا۔ میں کہتا ہوں کہ میرے خان نے پچھتر سالوں کا گند چار سالوں میں صاف کرنا تھا جس کے لیے ایک ایک گھڑی قیمتی تھی اور دیکھو میرے کپتان نے ایک ”گھڑی“ بھی ضائع نہیں کی۔

مجھے یاد ہے وہ لمحہ جب میں ہاشو شکاری کے گھر بیٹھا ہوا تھا اور مہمان بس آیا ہی چاہتے تھے۔ اس نے اپنی بیوی کو بلایا اور کہا: میرے دوست آ رہے ہیں، جلدی سے گھڑی ’گلدان‘ ایش ٹرے اور جوتے وغیرہ چھپا دو۔ بیوی نے حیران ہو کر پوچھا: کیوں؟ کیا آپ کے سارے دوست چور ہیں؟ ہاشو نے اطمینان سے جواب دیا تھا:نہیں! لیکن ان کے گھر سے ہوبہو یہی چیزیں چوری ہو چکی ہیں۔ ان دنوں تو یہ واقعہ مجھے شدت سے یاد آنے لگا ہے۔ خود سے پوچھ پوچھ کر ہلکان ہو چکا ہوں کہ کیا میرا کپتان ہاشو شکاری جتنا بھی دوراندیش نہیں تھا؟

پھر سوچتا ہوں کہ چونکہ کرپٹ نہیں ہے ناں اسی لیے وہ گھڑی بیچنے کے لیے اسی گھڑی ساز کے پاس واپس بھیجی۔ ایک بار میرے گھر چین اور امریکا سے مہمان آئے۔ چینی نے کہا: میں آنکھیں بند کر کے گھڑی پر ہاتھ رکھ کر ٹائم بتا سکتا ہوں۔ یہ سن کر امریکن نے بڑ ہانکی : میں سورج دیکھ کر ٹائم بتا سکتا ہوں۔ دونوں بات کر چکے تو میں نے زور دار ڈکار مارتے ہوئے کہا :لو جی سات بج گئے ہیں۔ دونوں نے حیران ہو کر پوچھا: تم نے کیسے ٹائم بتا دیا؟

میں نے مسکراتے ہوئے کہا: اوئے ”پاگلو“ بجلی چلی گئی ہے۔ پٹواری اس کا ”مطبل“ پوچھتے ہیں تو میں کہتا ہوں : میرا کپتان پرائم منسٹر ہاؤس رہتا تھا جہاں بجلی نہیں جاتی لہذا اسے گھڑی کی ضرورت تھی اور اس نے رکھ لی۔ اگر وہ بھی تمھاری طرح لوڈشیڈنگ والے علاقے میں رہتا تو گھڑی کی بجائے بجلی کے آنے جانے وقت معلوم کر لیتا۔ میں جس پٹواری کو بھی یہ دلیل دیتا ہوں وہ کم عقل ہنستا جاتا ہے لیکن میری دلیل مانتا نہیں۔ آخر میں میری تازہ غزل قارئین کی نظر:

دل لگایا تھا اک ”گھڑی“ کے لیے
بن گئی چھیڑ خسروی کے لیے
ساری گھڑیاں ہی مجھ کو زیبا ہیں
ہاتھ باقی ہیں ہتھکڑی کے لیے
میرا تحفہ ہے میری مرضی ہے
یہ گھڑی تھی کیا سبھی کے لیے؟
اس گھڑی نے مجھے دکھائی ہے
میری اوقات، زندگی کے لیے
مجھ سے توشے کی بات مت کرنا
میں تو آیا تھا بانسری کے لیے
چار سالوں نے کیسے دھو ڈالا؟
بھیس راچا تھا اک صدی کے لیے
جو نہ نکلا مرے لیے کوثر
اس کی گردن ہے بس چھری کے لیے


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments