حئی ابن یقزان! دنیا کا پہلا فلسفیانہ ناول



جی ہاں آج جی چاہتا ہے کہ ذرا اس علمی ورثہ کا تذکرہ ہو جائے جس سے ہماری سوسائٹی عموماً نابلد ہو چکی ہے۔ اس وقت کا تذکرہ جب مسلم تہذیب دنیا کے لیے روشنی کا مینار تھی۔ آج جب مسلمان ملکوں میں عدم برداشت اور جذباتیت کا دور دورہ ہے اور علم کے حوالے پچھلے کئی سو سال سے یورپین اقوام کے توسط سے ہم تک پہنچتے ہیں۔ سائنس ہو یا مذہبی ڈگری، ہم ہر بات کے لیے اس کی طرف ہی دیکھتے ہیں اور اس کا حوالہ دیے بغیر بات مستند نہیں گرد انی جاتی، بالخصوص تعلیم یافتہ حلقوں میں۔

دور جدید کے نظریات اور افکار کو مغربی روشن خیالی اور اس کی نشت ثانیہ کا ثمر قرار دیا جاتا ہے۔ انسانی حقوق ہوں یا آزادانہ سوچ، عقلیت پسندی ہو یا ہر چیز میں تحقیقی رویے، ان سب کا ماخذ سترہویں اور اٹھارہویں صدی کے یورپین مفکرین کی باہمی مباحث اور سوچ ہی قرار پاتا ہے۔ ان مفکرین کے اگر صرف نام ہی لکھنے بیٹھوں تو الگ مضمون بن جائے اس لیے چند ناموں مثلاً جان لاک، روسو، والٹیر اور کانٹ لیکن ان مفکرین کی علی کاوشیں ایک ایسی ہستی کے ذکر کے بغیر مکمل نہیں ہوں گی جس کی کتاب نے ان کے افکار کو جلا بخشی۔ جی ہاں میری مراد بارہویں صدی عیسوی کے اندلس اور موجودہ سپین کے مسلمان فلسفی/طبیب ابوبکر محمد بن عبدالمالک ابن محمد ابن طفیل سے ہے جو مغرب میں ابن طفیل کے نام سے ہی معروف ہیں اور اس کتاب کا نام حئی ابن یقزان ہے۔

اس کتاب کا تعارف سب سے پہلے 1671 میں آکسفورڈ یونیورسٹی کے ایڈورڈ پوکاک نے Philosophus Autodidactus یعنی ”خود ساختہ فلسفی کے“ نام سے کیا جو اس نے لاطینی زبان میں اس کتاب کے ایک مسودے کا ترجمہ تھا جو کے اس کے والد کو شام کے شہر حلب میں چالیس سال پہلے کام کے دوران ملا تھا۔ تاریخ بتاتی ہے کہ اس ترجمے نے برطانیہ اور دوسرے یورپین علمی حلقوں کی توجہ اپنی طرف مبذول کروا لی اور وقت کے بیسٹ سیلر کی حیثیت حاصل کر لی۔

اگلے چند سالوں میں اس کے تراجم دوسری یورپین زبانوں میں ہونا شروع ہو گئے اور انگریزی میں بھی پہلے 1686 اور پھر 1706 میں کیمبرج یونیورسٹی کے عربی زبان کے پروفیسر سائمن اوکلے نے اس کا ترجمہ شائع کیا۔ میں نے اسی ترجمے کو جب پڑھنا شروع کیا تو ختم کیے بغیر کتاب کو اپنے سے جدا نہ کر سکا۔ مجھے سمجھ آئی کہ کیوں اس نے سترہویں صدی کے شروع میں علمی حلقوں میں تہلکہ مچا دیا۔ کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ سیاسی لبرل ازم کے بانی جان لاک کی کتاب ”Tabula Rasa“ پر اس کے اثرات کا پرتو نظر آتا ہے، جس نے کہ آزاد اور شعوری انسانی سوچ کا تصور دیا۔ اس کتاب میں بیان کردہ خیالات، جو کہ کہانی کی شکل میں بیان کیے گئے ہیں، تو قارئین کو شاید نئے نہ لگیں لیکن یاد رہے کہ اس کے مصنف کا تعلق آج کے دور جدید سے نہیں بلکہ یورپ کی روشن خیالی کے آغاز سے بھی پانچ سو سال پہلے کا ہے۔

یہ ناول اگرچہ ایک مہم جوئی کی کہانی ہے لیکن اس میں انسانی تخیل کی طاقت اور مسائل کو سمجھنے میں عقلیت پسندی کو اجاگر کیا گیا۔ یہ کہانی سمندر میں ایک جزیرے پر ایک بچے کی کہانی ہے، جزیرہ تو وسائل کے اعتبار سے جنت نظیر بیان کیا گیا ہے۔ وہ انسانی بچہ اس جزیرے پر کیسے پہنچا اس کے بارے مصنف زیادہ بات نہیں کرتا اگرچہ اس بارے میں مفروضوں پر بات ہو سکتی ہے۔ لیکن ہم آگے بڑھتے ہیں کہ اس کی پرورش ایک ہرنی کرتی ہے۔

اس بچے کا نام حئی ابن یقزان ہے۔ جیسے حئی بڑا ہو رہا ہے وہ اپنے گردونواح کے مشاہدہ کرتا ہے، مصنف اس بچے کے مشاہدے کی گہرائی اور باریک بینی کو بیان کرتا ہے کہ وہ اپنے ارد گرد جانوروں کی خصوصیات، مثلاً ان کے مضبوط سینگ، دانت، کھر وغیرہ جن سے وہ اپنی حفاظت کرتے ہیں، کو حسرت سے دیکھتا ہے کیونکہ اس کے پاس نہیں لیکن پھر اس کو اپنی قوت کا احساس ہوتا کہ کہ کیسے اپنے ہاتھ اور انگلیوں سے مختلف اوزار کو استعمال میں لاتے ہوئے اپنے جوتے بنا سکتا ہے، مردہ جانوروں کی کھال سے اپنا لباس تیار کر سکتا ہے وغیرہ۔

اس کو اپنے شعور کا احساس ہوتا ہے کہ کیسے اس کے پاس سوچنے اور منصوبہ بندی کی قابلیت ہے۔ سات سال کی عمر میں جب وہ ہرنی مر جاتی ہے تو صدمے سے نڈھال وہ اس کو زندہ دیکھنا چاہتا ہے لیکن اس کے لیے ضروری ہے کہ وہ یہ سمجھے کہ ہرنی کی موت کیسے ہوئی۔ بظاہر اس کے جسم پر بیماری کا کوئی نشان نہ پاتے ہوئے وہ اس کے جسم کا پوسٹ مارٹم کرنے کا فیصلہ کرتا ہے، جو کہ آج بھی مسلم سوسائٹی میں موضوع ممنوع سمجھا جاتا ہے۔ اس کام کے لیے وہ ایک تیز دھار پتھر کو استعمال کرتے ہوئے، جسم کے ہر حصے کام معائنہ کرتے ہوئے جسم میں گردش خون کے لیے شریانوں اور دل کے رول کو سمجھتا ہے اور اگرچہ وہ ہرن کو واپس زندہ تو نہیں کر سکتا لیکن سارے عمل کی تشبیہ سے اپنے انسانی جسم کی ساخت اور مختلف اعضاء کی بناوٹ کی تفصیل بیان کرنے کے قابل ہو جاتا ہے اور جب ہرن کا جسم گلنا سڑنا شروع ہو جاتا ہے تو وہ ایک پرندے کے عمل کو دیکھ کر اس کو دفنا دیتا ہے۔ یہاں مصنف قرآن میں بیان کردہ کہانی کی طرف اشارہ کرتا نظر آتا ہے۔

جیسے جیسے اس کی عمر بڑھتی ہے حئی کے مشاہدے اور عقل میں اضافہ ہوتا نظر آتا ہے اور مصنف انسانی سوچ کی پختگی کے مختلف مراحل کا بیان اس کی زندگی کی کہانی کی شکل میں بیان کرتا نظر آتا ہے۔ وقت کے ساتھ اپنے گرد کی دنیا کے مشاہدے اور اس کے عقل کی بنیاد پر تجزیے سے نہ صرف اس کے علم و تجربے میں اضافہ نظر آتا ہے بلکہ وہ اس کے استعمال کے ذریعے اپنی زندگی کو بہتر سے بہتر کرتا نظر آتا ہے۔ کہانی کے اس حصے کو ایک انسائیکلوپیڈیا کا درجہ بھی دیا گیا ہے۔

اٹھائیس سال کی عمر کو پہنچنے پر مصنف بتاتا ہے کہ حئی اب قدرتی عوامل مثلاً پانی کا بھاپ بننا کا بغور مطالعہ۔ شروع کرتا ہے اور سرا ٹھاکر آسمان پر چاند اور ستاروں کو گردش کو سمجھنے کی کوششیں کرتا نظر آتا ہے۔ اب وہ ایک پختہ عمر کو پہنچ چکا ہے اور اس کی توجہ کائنات اور اس کی آغاز پر ہوجاتی ہے، ابھی تک کی کہانی میں حئی ایک جامد سوچ والا نہیں بلکہ سوچ بچار والا انسان نظر آتا ہے جو ہمیشہ حقیقت کی جستجو میں مصروف رہتا ہے۔

نئے مشاہدات اور معلومات کی روشنی میں وہ اپنی رائے تبدیل کرتا نظر آتا ہے اور کائنات اور اس کے آغاز بارے سوچ بھی اسی نقطہ نظر کی عکاسی کرتی ہے، کائنات کے آغاز بارے بے یقینی کی کیفیت اس کو زیادہ پریشان نہیں کرتی کیونکہ اس کے حساب سے ابھی بہت سے سوالات کا جواب باقی ہے۔ یاد رہے کہ اس کتاب کے یورپین زبانوں میں ترجمے کے وقت ایسی بے یقینی باآسانی کفر کے فتوے تک لے جا سکتی تھی۔ اسی طرح خدا کے ہو نے یا نہ ہونے کے بارے سوچتے ہوئے وہ ایک ایسی ہستی کی موجودگی کا قائل ہو جاتا ہے جس کو ہم سب خدا کے نام سے جانتے ہیں۔

یہاں یہ یاد رکھنا ضروری ہے کہ ہماری طرح حئی کو خدا یا خالق کائنات کی موجودگی کی خبر کسی وحی یا پیغمبر یا آبا و اجداد اور روایات کے ذریعے نہیں ملی بلکہ یہ اس کی اپنی سوچ اور عقلی دلائل کے استعمال سے ملی۔ مصنف کے مطابق حئی اب اخلاقیات بارے سوچنا شروع کرتا ہے، یاد رہے کہ اس جزیرے میں کسی اور انسان کی غیر موجودگی کی بنا پر اس کے ان خیالات کا منبع اس کے گردونواح اور اس کے حالات ہیں۔ کہانی بتاتی ہے کہ کس طرح خالق کائنات کی اپنی مخلوق کے لیے ہمدردی کا مشاہدہ اس کے رویوں پر اثر انداز ہوتا ہے مثلاً جانوروں سے محبت کے نتیجے میں اس کی خوراک صرف سبزیوں مشتمل ہو جاتی ہے اور اپنے اردگرد پودوں اور درختوں کا بھی خیال رکھتا ہے، وہ صرف ان چیزوں کا استعمال کرتا ہے جن کی فراوانی ہے کہ کہیں اس کے ہاتھوں کہیں کسی کی نسل ہمیشہ کے لیے ختم نہ ہو جائے۔

جب حئی کی عمر انچاس سال ہوتی ہے تو کہانی اچانک ایک غیر متوقع موڑ لیتی ہے، جی ہاں اس جزیرے پر ایک مہمان کی آمد۔ مصنف اس کا تعارف سلمان اور اس کے دوست آصل کے نام سے کراتا ہے جن کا تعلق ایک قریبی جزیرے سے ہے جہاں انسانوں کی بڑی تعداد رہتی ہے اور ان کا ایک مذہب بھی ہے۔ جہاں آصل چیزوں کی حقیقت کی تلاش میں رہتا ہے اور اس کا یقین ہے کہ اس کے لوگوں کی مذہبی کتاب کے معنی کو انسانی عقل کے استعمال کے ذریعے اور بہتر انداز میں سمجھا جا سکتا ہے وہیں سلمان ایک سادہ انسان ہے اور اپنے مذہب کی رسومات کی ادائیگی ہی کو کافی سمجھتا ہے اور اپنے آپ کو ان کے معانی اور انسانی سوچ کے ذریعے غور و فکر میں نہیں الجھاتا، کہانی بتاتی ہے کہ آصل اپنی لوگوں کی زبانی جمع خرچ سے اکتا کر غور و فکر کے لیے ایک کشتی لے کر ایک غیر آباد جزیرے پر آ جاتا ہے جو درحقیقت حئی کا مسکن ہے۔

دونوں ایک دوسرے کو دیکھ کر حیران ہوتے ہیں اگرچہ حئی کی حیرانی زیادہ ہے کیونکہ اس نے کبھی کسی دوسرے انسان کو نہیں دیکھا۔ بہرحال دونوں میں دوستی ہو جاتی ہے، آصل حئی کو انسانی زبان سکھاتا ہے اور حئی کہ مشاہدات اور اس کے نتیجے میں خدا کی موجودگی کے ادراک سے اس کو احساس ہوتا ہے کہ انسانی عقل اور روایات دونوں ہی کے ذریعے سچ تک پہنچا جا سکتا ہے۔ آصل حئی کو اپنے اور اپنے لوگوں کے بارے بتاتا ہے کہ کس طرح ان کا مذہب ان کی زندگیوں کی راہنمائی کرتا ہے۔

حئی کو یہ سب سن کر حیرانی نہیں ہوتی اور وہ ان لوگوں سے ملنا چاہتا ہے۔ آصل اس تجویز پر گھبراتا ہے کیونکہ وہ تو اسی ماحول سے تنگ آ کر اسے چھوڑ چکا ہے بہرحال وہ اپنے دوست کی بات مان لیتا ہے۔ کہانی کہ مطابق اسی دوران ایک بھٹکی ہوئی کشتی اس جزیرے تک آجاتی ہے اور دونوں دوست اس کے ذریعے آصل کے جزیرے تک پہنچ جاتے ہیں، جہاں آصل اس کا تعارف اپنے لوگوں سے کرواتا ہے۔ حئی نوٹ کرتا ہے کہ ان لوگوں کا مشاہدہ تو بہت تیز ہے اور وہ مذہب کے بارے میں بہت باریک بینی کا مظاہرہ کرتے ہیں۔

اس نے دیکھا کہ وہ مذہبی رسومات کی ادائیگی کا تو بڑا اہتمام کرتے ہیں لیکن یہ امر ان کو ایسے بہت سے دوسرے کاموں سے نہیں روکتا جن کے سامنے اخلاقی لحاظ سے سوالیہ نشان ہو۔ وہ لوگوں کو اپنی فلسفیانہ بصیرت کے ادراک سے آگاہ کرنے کی کوشش شروع کرتا ہے لیکن اس کو پتہ چلتا ہے کہ وہ لوگ ان باتوں کے ادراک کے لیے تیار نہیں۔ حئی اگرچہ اپنی کوششیں جاری رکھتا ہے لیکن لوگوں کے رویے میں تبدیلی شروع ہو جاتی ہے اور وہ نہ صرف اس سے بدتمیزی سے پیش آتے ہیں بلکہ کوشش کرتے ہیں کہ اس سے سامنا ہی نہ ہو۔

بل آخر حئی اس نتیجے پر پہنچتا ہے کہ ان لوگوں سے بات چیت فضول ہے کیونکہ اس سے ان کے رویے اور سخت ہو رہے ہیں۔ وہ یہ بھی سمجھتا ہے کہ ان لوگوں کے لیے عقل سے زیادہ ان کا عقیدہ اور رسومات ہی قابل استعمال ہیں اور یہ کہ سلمان یعنی ان کے حکمران کے کیے لیے ضروری ہے کہ وہ عوام کو قانونی ضابطوں میں ہی رکھے اور ان کے لیے یہی کافی ہے کہ وہ اپنے نیک آبا و اجداد کے نقش قدم پر چلتے ہوئے مذہبی رسومات کی ادائیگی تک ہی محدود رہیں اور نئے خیالات اور افکار سے دور رہیں۔ اس تجربے کے بعد ، بقول مصنف حئی اور آصل سوسائٹی کو چھوڑ کر دوبارہ حئی کے جزیرے پر واپس چلے جاتے ہیں، جہاں وہ مرتے دم تک خدا کی موجودگی کے ادراک کے ساتھ زندگی گزار دیتے ہیں۔

حئی ابن یقزان اگر چہ ایک دلچسپ کہانی ہے لیکن یہ اس لیے ہی اہم نہیں ہے بلکہ اس میں ایک خیال کی وضاحت کی گئی ہے کہ کس طرح انسانی عقل اور جستجو کے ذریعے نہ صرف قدرتی عوامل کی سمجھا اور استعمال کیا جا سکتا ہے بلکہ انسانی زندگی کے مقصد اور اخلاقیات بارے بڑے سوالات کا جواب بھی مل سکتا ہے۔ یہ کہانی ایک انسان کی زندگی کا بیان ہے جس نے کسی مذہب و روایت یا سوسائٹی کے اثر کے بغیر سچ کو تلاش کر لیا۔ آپ کو شاید کہانی میں بیان کردہ خیالات نئے نہ لگیں اور یہ صرف اس لیے ہے کہ ہم سب ایک ماڈرن دور میں رہ رہے ہیں جہاں ان فلسفیانہ خیالات کا ادراک ہو چکا اور اس کو روٹین سمجھا جانے لگا ہے لیکن بارہویں صدی میں جب ابن طفیل یہ کہانی لکھ رہے تھے تو ایسے خیالات کا اظہار اگر انقلابی نہ بھی ہو تو بھی غیر معمولی تو تھا ہی۔

سترہویں صدی کے آغاز میں اس کے یورپین زبانوں میں ترجمے نے علمی حلقوں میں تہلکہ مچا دیا اور اگرچہ اس کی تفصیل پھر کسی نشست میں لیکن اس کہانی نے اس علمی سوچ پر ”جلتی پر تیل“ کا کام کیا اور ہر انسان میں ایک ”اندرونی روشنی“ کی موجودگی کا احساس دلایا جس کے ذریعے وہ صحیح اور غلط، سچ اور جھوٹ میں تمیز کر سکتا ہے۔ آج کا سوال یہ ہے کہ بارہویں صدی میں لکھے جانے والی کتاب کے خیالات نے یورپ میں انسانی حقوق اور انسانی ترقی کی شروعات میں بنیادی کردار تو ادا کیا لیکن اکیسویں صدی میں مسلمان معاشرے انسانی حقوق اور انسانی ترقی کے سارے اشاریوں میں اپنے ہم عصر معاشروں سے پیچھے کیوں رہ گئے؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments