ارشد شریف: کینیا میں قتل ہونے والے صحافی کی میت پاکستان روانہ


کینیا میں پولیس اہلکاروں کی مبینہ فائرنگ سے ہلاک ہونے والے پاکستانی صحافی ارشد شریف کی میت قطر ایئر لائن کی پرواز کے ذریعے پاکستان روانہ کر دی گئی ہے جو آج شام دوحہ سے اسلام آباد پہنچے گی۔

ارشد شریف اتوار کی شب کینیا کے دارالحکومت نیروبی کے قریب فائرنگ کے ایک واقعے میں مارے گئے تھے اور پولیس کی ابتدائی رپورٹ کے مطابق پولیس اہلکاروں نے شناخت میں غلط فہمی پر اس گاڑی پر گولیاں چلائیں جس میں ارشد شریف سوار تھے۔

یہ واضح نہیں کہ ارشد شریف کینیا میں کیا کر رہے تھے تاہم کینیا کی پولیس کے ترجمان برونو شیوسو نے بی بی سی کو بتایا ہے کہ وہ ارشد شریف کی موت کے پسِ منظر کے حالات کی تحقیقات کر رہے ہیں۔

وفاقی وزیر اطلاعات مریم اورنگزیب کے مطابق صحافی ارشد شریف کی میت کو پاکستان روانہ کر دیا گیا ہے جس سے پہلے وزیر اعظم شہباز شریف کی کینیا کے صدر سے گفتگو کے نتیجے میں قانونی امور کو تیزی سے مکمل کیا گیا۔

وزیر اعظم شہباز شریف نے کینیا کے صدر ولیم روٹو کو ٹیلی فون کر کے پاکستانی صحافی ارشد شریف کے موت کے حوالے سے بات کر کے واقعے کی غیرجانبدارانہ اور شفاف تحقیقات پر زور دیا۔

اس موقعے پر کینیا کے صدر نے افسوس کا اظہار کیا، انصاف کے تقاضے پورے کرنے کی یقین دہانی کرائی اور کہا کہ واقعے کی تحقیقاتی رپورٹ جلد پیش کی جائے گی۔

وفاقی وزیر اطلاعات مریم اورنگزیب کے مطابق ارشد شریف کی میت کو 1 بج کر 25 منٹ پر نیروبی سے براستہ دوحہ اسلام آباد روانہ کیا گیا۔

مریم اورنگزیب کے مطابق کینیا میں پاکستان کی سفیر سیدہ ثقلین نے کئی گھنٹے تک مسلسل تمام مراحل کی نگرانی کی۔

https://twitter.com/CMShehbaz/status/1584505902157074435

ادھر ارشد شریف کی کینیا میں پولیس اہلکاروں کی مبینہ فائرنگ سے ہلاکت کی خبر سامنے آنے کے بعد صحافیوں اور صحافتی تنظیموں کے علاوہ ملک کی اہم سیاسی شخصیات کی جانب سے جہاں اس واقعے پر افسوس کا اظہار کیا گیا ہے وہیں اس واقعے کی غیر جانبدارانہ اور آزادانہ تحقیقات کا مطالبہ بھی کیا جا رہا ہے۔

پاکستان کے صدر ڈاکٹر عارف علوی کا کہنا ہے کہ ارشد شریف کی موت صحافت اور پاکستان کے لیے بڑا نقصان ہے۔ ’ان کی روح کو سکون ملے اور ان کے اہلخانہ بشمول ان کے فالوورز کو یہ صدمہ برداشت کرنے کی طاقت ملے۔‘

وزیراعظم شہباز شریف نے بھی اپنے پیغام میں کہا کہ ’ارشد شریف کی موت کی حیران کن خبر پر مجھے بہت دُکھ ہے۔‘

سابق وزیر اعظم عمران خان نے کہا کہ وہ اس ’بہیمانہ قتل‘ پر بےحد صدمے میں ہیں۔

ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ ارشد شریف کو ’ملک چھوڑنا پڑا مگر بیرونِ ملک پناہ کے دوران بھی انھوں نے سوشل میڈیا پر سچ بولنے اور طاقتور لوگوں کو بےنقاب کرنے کا سلسلہ جاری رکھا‘۔

ارشد شریف نے رواں سال اپریل میں سابق وزیر اعظم پاکستان عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد کے بعد یہ دعویٰ کیا تھا کہ انھیں وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) کی جانب سے ہراسانی کا سامنا ہے۔

بعدازاں وہ ملک چھوڑ کر چلے گئے تھے اور اطلاعات کے مطابق خود ساختہ جلا وطنی کے دوران وہ دبئی اور لندن میں مقیم رہے۔

https://twitter.com/ImranKhanPTI/status/1584523219541032961

یہ بھی پڑھیے

ارشد شریف: ’کینیا میں پاکستانی صحافی کی گاڑی پر نو گولیاں لگیں‘

عاصمہ شیرازی کا کالم: کون، کیوں، کیسے، کہاں؟

ارشد شریف اور دیگر صحافیوں کے خلاف مقدمات: ’دھمکیاں مل رہی ہیں کہ جب تم بلوچستان میں پیشی بھگتنے جاؤ گے تو اغوا کر لیا جائے گا‘

وفاقی وزیر اطلاعات مریم اورنگزیب کا کہنا تھا کہ پاکستانی میڈیا پر ارشد شریف سے متعلق جاری قیاس آرائیاں افسوسناک ہیں۔ ‘مصدقہ حقائق سامنے آنے تک قیاس آرائیوں سے گریز کیا جائے۔ ارشد شریف کی موت کے حوالے سے تمام حقائق تک پہنچیں گے۔’

پاکستان کے وزیر اعظم شہباز شریف نے ٹیلی فون پر ارشد شریف کی والدہ سے بھی تعزیت کی اور اس بات چیت کے دوران بیٹے کی میت جلد پاکستان لانے کی درخواست پر وزیر اعظم نے یقین دہانی کرائی کہ اس سلسلے میں تمام اقدامات ہنگامی بنیادوں پر کیے جا رہے ہیں۔

دوسری طرف اسلام آباد ہائیکورٹ نے ارشد شریف کے مبینہ قتل سے متعلق ایک درخواست پر وزارت داخلہ اور خارجہ کے نامزد افسر کو ارشد شریف کی فیملی سے فوری ملاقات کی ہدایت کرتے ہوئے منگل تک رپورٹ طلب کی ہے۔

بیرون ملک روانگی سے قبل ہراساں کیے جانے کا دعویٰ



کراچی میں پیدا ہونے والے 49 سالہ ارشد شریف نے متعدد پاکستانی نیوز چینلز میں کلیدی عہدوں پر کام کیا تھا۔ خود ساختہ جلاوطنی اختیار کرنے سے قبل وہ نجی نیوز چینل اے آر وائی سے منسلک تھے تاہم عمران خان کی حکومت کے خاتمے کے بعد انھیں نوکری سے فارغ کر دیا گیا تھا جس کا اعلان ان کے ملک چھوڑنے کے چند دن بعد اے آر وائی کی جانب سے کیا گیا تھا۔

بعدازاں وہ بیرون ملک سے اکثر وی لاگز کے ذریعے اپنی رائے کا اظہار کرتے رہتے تھے اور عمران خان کے خلاف ’بیرونی سازش‘ کے بیانیے کے حامی تھے۔

عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد کی کامیابی کے بعد بھی انھوں نے دعویٰ کیا تھا انھیں ایف آئی اے کی جانب سے ہراسانی کا سامنا ہے۔ ان کی درخواست پر اسلام آباد ہائی کورٹ نے ایف آئی اے کو صحافیوں کے خلاف شکایت کی صورت میں صحافتی تنظیموں کے ساتھ رابطہ کرنے کا حکم دیا تھا۔

ارشد شریف کے وکیل فیصل چوہدی کی جانب سے دائر درخواست میں موقف اپنایا گیا تھا کہ اُن کے موکل (ارشد شریف) کو ذرائع سے معلوم ہوا ہے کہ موجودہ حکومت نے اُن کو سبق سکھانے کا فیصلہ کیا ہے اور ان کو گرفتار کیا جا سکتا ہے جس کی وجہ ارشد شریف کی رپورٹنگ اور حکومت پر تنقید بتائی گئی۔

درخواست کے مطابق ارشد شریف ذرائع سے ملنے والی ان معلومات کے بعد ڈرے ہوئے تھے کیونکہ ’سول کپڑوں میں ملبوس افراد اُن کے گھر اور خاندان کی نگرانی کر رہے ہیں۔‘

تاہم ایف آئی اے کا دعویٰ تھا کہ اس نے نہ تو ارشد شریف کو گرفتار کیا ہے اور نہ ہی انھیں ہراساں کیا گیا۔ عدالتی حکم کے مطابق ایف آئی اے کے ڈائریکٹر نے بتایا تھا کہ درخواست گزار کے خلاف کوئی مقدمہ درج نہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32291 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments