کینیا اور عمران سیریز کے پراسرار کھوجی


آج صبح پانچ بجے حسب عادت سوشل میڈیا دیکھا۔ ایک خبر دیکھ کر لگا شاید نیند کی جھونک میں کچھ غلط پڑھ لیا۔ دوبارہ پڑھا تو یہ جان کے دل بیٹھتا محسوس ہوا کہ خبر بھی درست ہے اور پڑھا بھی درست ہے۔ عجب اضطراب میں ٹویٹر دیکھا تو ٹرینڈ ہی ایک بے دیار مسافر کے نام کا تھا۔

اسکے بعد سے دن چڑھے تک واقعے کی تفصیل جاننے کی کوشش میں رہی۔ جتنے اکاؤنٹس اتنے ٹویٹ گویا جتنے منہ اتنی باتیں جتنے پلیٹ فارم اتنے بیانات اور اتنا ہی مخمصہ یعنی کنفیوژن بہر طور خبر سچ تھی کہ ارشد شریف نہیں رہے، کینیا کے دارالحکومت نیروبی کے قریب ایک انجانی گولی اس ناگہانی کا سبب بنی۔ اب متضاد اطلاعات ہیں، کسی پولیس مقابلے کے درمیان آ کے بے گناہ جاں بحق ہوئے یا کسی نے بطور خاص نشانہ لیا۔

کینیا حکومت کے سرکاری بیان میں یہی کہا جا رہا ہے کہ غلط فہمی کی بناء پے پولیس سے گولی چلی۔ بقیہ مکمل تحقیق کے بعد رپورٹ پیش کی جائے گی۔

مگر ایک بار پھر پروپیگنڈا مشینری مکمل طور پر متحرک ہے، ناصرف یقین دلا رہی ہے کہ ارشد شریف کو عمداً قتل کروایا گیا ہے بلکہ ٹویٹر کے تفتیشی افسران بالا نے تو جرم کا کھرا بھی نکال لیا ہے۔ عمران سیریز سے تربیت لینے والے ان تمام جاسوس حضرات کو شاید کسی پہنچی ہوئی شخصیت کے موکلوں نے یہ خبر پہنچائی ہے۔ دروغ بر گردن راوی، کسی کی نا وقت موت کو نہ تو تماشا بنایا جا سکتا ہے نہ ہی حادثے کو شہادت کہہ سکتے ہیں۔

مگر سیاست وہ شطرنجی بساط ہے جہاں اکثر قاتل ہی مقتول کے جنازے پر سب سے زیادہ دلگیر نظر آتا ہے۔ ملک میں یوں بھی اس وقت سیاسی تفرقہ زوروں پر ہے تو رسم دنیا، موقع اور دستور سے بھرپور فائدہ اٹھایا جا رہا ہے۔

وہی ٹکسالی مصرعے یہاں وہاں نظر آرہے ہیں۔

ہم جو تاریک راہوں میں مارے گئے
میں کس کے ہاتھ پے اپنا لہو تلاش کروں
قتل گاہوں سے چن کر ہمارے علم
ظلم پھر ظلم ہے بڑھتا ہے تو مٹ جاتا ہے
وغیرہ وغیرہ

ارشد شریف، عرصے تک غیر متنازعہ اور غیر جانبدار صحافی رہے۔ بعد ازاں اپنی منشاء سے عمران خان کے حامی صحافیوں کی صف اول میں آ کھڑے ہوئے۔ جب تک خان اور ان کے اساتذہ ایک پیج پر رہے، ارشد اور ان کے ہم خیال صحافی چین کی بنسی بجاتے ہوئے، بعوض تابعدارانہ صحافت نیوز چینلوں کے اہم عہدوں، بہترین تنخواہوں اور مراعات سے نوازے جاتے رہے۔ اس دور میں ان تمام نے طاقتور ترین بادشاہ گر کی سوچ کو زبان دی بلکہ کہا جائے تو ان کی زبان بن گئے۔ سب اچھا جا رہا تھا۔ خان کی طرح انہیں بھی یقین محکم تھا کہ دس سال کے لئے تبدیلی کو تبدیل نہیں کیا جائے گا کہ یک لخت لانے والوں کی برداشت ختم ہوئی اور انہوں نے کچھ ہچر مچر کے بعد وہ صفحہ ہی پھاڑ ڈالا جہاں شیر و بکری ایک گھاٹ سے پانی پی رہے تھے۔

اولاً تو انہیں کیا خود خان کو بھی اپنے اوپر زعم تھا کہ یہ ان بن وقتی ہے، کچھ دن کی دوری بے چین کرے گی اور پھر سیاں لوٹ آئیں گے۔ مگر حاسدوں کی نظر نے کام کیا اور ایسی ٹھنی، ایسی ٹھنی کہ ہنستے بستے حکومتی بینچ پے خاک اڑ گئی اور ایسی آندھی چلی کہ دس برس تو ایک طرف چار سال بھی پورے نہ ہونے پائے۔

ایسے میں چند صحافیوں نے خان کو قوم کا نجات دہندہ قرار دیتے ہوئے اپنی وفاداریوں کو اس سے ہی مشروط و منسوب کر لیا۔ حالات نے کچھ اور رنگ بدلا، عمران ریاض کی ڈنڈا ڈولی ہوئی، جمیل فاروقی کی تواضع کی گئی اور ان سے پہلے ایک رات خاموشی سے ارشد شریف پاکستان چھوڑ گئے۔

میرا مقصد قطعاً اس دل خراش سانحے سے من چاہے نتائج اخذ کرنا نہیں ہے۔ لیکن اس موت نے، اس ملک نے اور اس شہر نیروبی نے جیسے ان گہرے زخموں نے کھرنڈ نوچ دیے، خوں رستے دل کی جراحی بے سود ہوئی اور سارے ٹانکے ادھڑ گئے۔ نوے کے فوجی آپریشن کے بعد کراچی کے سیاسی کارکنوں کی بڑی تعداد جان بچانے کے لئے کینیا چلی گئی تھی۔ ان میں سے نجانے کتنے یہ ظالم شہر کھا گیا۔ کچھ کی میتیں گھر آئیں اور کچھ کا کوئی سراغ بھی نہ مل سکا۔

بات سراغ کی ہو تو سینکڑوں بلکہ ہزاروں ہیں جن کا ان بہتر سالوں میں سراغ نہ مل سکا کہ کہاں گئے؟ کون لے گیا؟ مار دیے گئے تو کس نے اور کیوں مارا؟ جاننے والے جانتے ہیں مگر کس میں ہمت ہے کہ جان ہتھیلی پر رکھ کے محضر میں لکھا نام باآواز بلند لے۔

جب ملک کے پانچ صوبے تھے تب سے ایک آسیب آزادیٔ جمہور کا دشمن ہے، ابتداء بنگال اور بلوچ صوبوں سے ہوئی اور طاعون کی طرح سب میں پھیلتی گئی۔

طاقت کا نشہ شیر کے منہ کو لگا خون ہے اور اتنی آسانی سے ختم نہیں ہوتا۔

سنتے ہیں، جب ڈکیت بہت مشہور ہو جائے تو اکثر کاغذی بھرتی کے لئے وہ جرائم بھی اس کے کھاتے میں ڈال دیے جاتے ہیں جو نہ اس نے کیے ہوتے ہیں نہ کروائے ہوتے ہیں۔ پہنچے ہوئے نامی ڈکیت ان جھوٹی وارداتوں پر ہنستے ہیں کیونکہ اس سے ان کے دبدبے اور دہشت میں اضافہ ہی ہوتا ہے۔ خدا معلوم بات کہاں سے شروع ہوکے کہاں تک آ گئی۔ بس آج سوچ یونہی یہاں وہاں بھٹک رہی ہے، جس کی ماں زندہ ہو اس کے جانے کا دکھ مجھے سوا تر ہوتا ہے۔ جس کے بچے چھوٹے ہوں تو درد اور بڑھ جاتا ہے۔ ارشد کی والدہ حیات ہیں جیسے مشعال خان کی ہیں اور اس کے بھی ایسے ہی معصوم بچے ہیں جیسے بلوچ گمشدہ افراد کے مظاہروں میں نظر آتے ہیں۔

حق مغفرت کرے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments