سفر، نامہ اور کتاب


السلام علیکم جاوید بھائی

میسنجر پر آپ کا پیغام ملا اور ”اکبر زمیں میں غیرت۔ قومی سے گڑ گیا“ ۔ بھلا اس بات کا کیا عذر تلاش کریں کہ خود مصنف اپنی کتابیں آپ کو ارسال کرے اور آپ اس کی رسید تک نہ بھیج پائیں۔ تو ہم ”عذر گناہ بدتر از گناہ“ کو صحیح جانتے ہوئے اپنی ناخلفی اور بد تہذیبی کا ندامت میں ڈوبا ہوا اعتراف کرنا چاہیں گے۔

گو کہ ”ہوئی تاخیر تو کچھ باعث تاخیر بھی تھا“ ۔ دفتر میں کچھ مراتب میں تبدیلی آئی ہے۔ نئی کرسی مستقل ”ہل من مزید“ کا تقاضا کر رہی ہے۔ ساقی ابھی جام بھرتا نہیں ہے کہ مے نوش پیمانہ خالی کر دیتے ہیں۔ خدا جانے یہ سلسلہ کب تک جاری رہے گا۔

یہی سبب ہے کہ آپ کی کتابوں کی ابھی شب زفاف نہیں آئی ہے۔ طرفہ یہ کہ اچانک حکم حاکم ہوا کہ اس شہر کا کوچ کرو جہاں فضا مسخر کرنے کے تخیل کو عکس کیا جاتا ہے۔ سیاٹل پہنچے تو شہر میں ہر سمت ”کٹی پہاڑیاں“ نظر آئیں۔ ہم جو اپنی زندگی کو نشیب و فراز سے تعبیر کرتے رہے ہیں ہمیں یہ شہر کچھ یوں ہی لگا۔

ہم سمجھتے تھے کہ کیا ہی لمحہ ہو گا جب ہم کسی مصور کو کینوس پر رنگ بکھیرتے ہوئے دیکھیں گے، کمہار کے ہاتھوں میں گیلی مٹی کو گھومتے ہوئی چاک پر شاہکار بنتا دیکھیں گے، کسی کو شعر کہتی ہوئی کیفیت میں دیکھیں گے۔ بوئینگ کمپنی کے نئے آزمائشی طیارے کے ڈیزائن انجینئرز سے میٹنگز ہوئیں تو اندازہ ہوا کہ ان سارے مرحلے سے گزرتے ہوئے لوگوں کو دیکھنا بلاشبہ دلچسپ ہو گا لیکن اصل مرحلہ تو کہیں اور ہے۔ تخلیق، گر حسین ہے تو تخلیق کے عقب میں اوجھل وہ سوچ جو خیال کو وجود میں بدلتی ہے، حسین تر ہے۔ جون بھائی نے کہیں کہا تھا کہ ”میاں! وجود خیال کا زوال ہے“ ۔ تو بھئی جس خیال کا زوال فضا میں پرندوں کی مانند اڑتے، ”طئی الارض“ کی کرامت دکھاتے انسانی معجزے ہیں، ان کی اوج بھلا کیا ہو گی۔

ابھی دو دن نہ گزرے تھے کہ آپ کی بہن بھی حیدر میاں کے ساتھ دھمک پڑیں۔ بھلا سایہ زیادہ دیر کیونکر دور رہ سکتا ہے۔ یہاں شہر کے عین وسط میں ہمارا سرائے خانہ تھا۔ چار سو سڑکیں مکڑی کے جال کی طرح پھیلی ہوئیں تھیں۔ البتہ بنت سمجھ میں نہ آتی تھی۔ گاڑی چلاتے چلاتے سڑک اچانک یک رویہ ہو جاتی تھی تو کبھی سامنے سے آنے والی گاڑی ہماری جانب آنے لگتی۔ جب تک اس گتھی کو سلجھایا، سفر آخری سانسوں کا مہمان تھا۔

ہمیں اچھی طرح یاد ہے کہ بچپنے میں ہم بھول بھلیوں میں گئے تھے۔ وقت۔ معین میں ہمیں باہر نکلنا تھا۔ گو کہ وقت کافی تھا مگر شروع شروع میں کچھ سجھائی نہیں دیتا تھا۔ ایک گلی سے نکلتے تو گھومتے گھومتے کچھ دیر بعد پھر اسی پر موجود ہوتے۔ ”کھلتے ہیں اس کی ذات کے سب در مری طرف“ ۔ خوب پریشان ہوئے تھے ہم۔ جب معمہ حل ہونے لگا تو اختتامی گھنٹہ بج اٹھا۔

جاوید بھائی! کیا حیران کن مماثلت ہے نا اس کی اس زندگی کے ساتھ۔

جب ہم جیسوں کو شعور نصیب ہوتا ہے تو لمحوں کی تہی دامنی مذاق اڑا رہی ہوتی ہے۔ کبھی خود کو دیکھتے ہیں اور کبھی عمر کی بچی کچھی پونجی کو۔ سوچتے ہیں اور کف افسوس ملتے ہیں کہ کیا دولت گنوا بیٹھے۔ ! اب نوحہ کریں یا ماتم۔ واپس تو آنے سے رہی۔

آپ کی بہن بھی عالیہ خالہ کی طرح ہیں۔ جہاں جاتی ہیں، کوئی نہ کوئی رشتہ دار ڈھونڈ لیتی ہیں۔ اس دن عالیہ خالہ کمالا حیرث سے شجرہ ملا رہیں تھیں۔ یہاں سیاٹل میں بھی آپ کی بہن ہمیں عرفان کے پاس لے گئیں۔ دو شہزادیوں اور ایک شہزادے سے محبت کرنے والا شفیق باپ۔ کراچی سے تعلق رکھنے اور محبت کرنے والے ہر شخص کی طرح کراچی کی زبوں حالی سے پریشان اور نالاں عرفان۔ سیاٹل میں اچھی ملازمت، کشادہ حالی کے باوجود یہاں کے بالکل مختلف اور نسلوں کے لئے خطرناک چیلنجز کی فکر میں غلطاں عرفان۔ اچھی گفتگو رہی۔ ان کی اہلیہ نے خوب کھانے کا انتظام کیا تھا۔ آپ کی بہن نے تو سسرال کا نمک کھلا کھلا کر احسان کے دلدل میں دھنسا سا دیا ہے۔

اس وقت ہم ائرپورٹ پر بیٹھے ہیں۔ حیدر میاں، اماں کے ساتھ ہیوسٹن جا رہے ہیں اور ہم دو ساعت بعد دوبئی۔ گھر جائیں گے تو اس خزانے کو ٹٹولیں گے جو آپ نے ہمیں بھیجا ہے۔ پاکستان میں طلباء سیاست کی تاریخ پر ”سورج پہ کمند“ جیسی جامع کتاب بھلا کہاں ملے گی۔ آپ نے ایک تاریخ ساز کام کیا ہے۔ آنے والی نسلوں کے لئے اس کی تینوں جلدیں ایک مستند تحقیقی حوالہ ثابت ہوں گی۔

پاکستان کے موجودہ حالات جب دیکھتے ہیں خاص طور سے کالجز اور جامعات میں تدریسی، تخلیقی اور سیاسی شعور کی گراوٹ کو، تو دل کڑھتا ہے۔ مایوسی ہونے لگتی ہے۔ عین اسی لمحے جب آپ کی کتابوں پر نظر جاتی ہے تو پھر ایک گونہ اطمینان آتا ہے کہ ہر دور میں نتائج سے بے خوف چند سر پھرے پوری قوم کی بے حسی کا خراج دے کر ملک کا وجود بچا لیتے ہیں۔ آپ کی یہ کتابیں ان سرپھروں کے جذبات مہمیز کرے گی۔ ”سورج پہ کمند“ ڈالنے کے لئے پہاڑ جتنا حوصلہ تو چاہیے ہوتا ہے۔ آپ نے کمند ڈال کر سورج سے محض اپنے حصے کا اجالا نہیں سمیٹا ہے بلکہ اس کی روشن کرنوں کو ان کتابوں میں لا کے رکھ دیا ہے کہ جو جتنا چاہے کسب کر لے۔ دعا ہے کہ آپ یونہی روشنی پھیلاتے رہیے۔

سراپا ندامت
عباس


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments