معصوم چہرہ، شہید صحافت


ارشد شریف کو دیار غیر میں شہید کر دیا گیا، شہادت کی خبر پہلے پہل ان کی زوجہ محترمہ کے ٹویٹ کے ذریعے سامنے آئی اور پھر جنگل کی آگ کی طرح ملک کے طول و عرض میں پھیل گئی۔ ہر کوئی اپنی سیاسی و جذباتی وابستگی کی بنا پر اس خبر کو اپنے رنگوں میں رنگنے لگا۔ شام تک عقدہ کھلا کہ کینیا کے ایک ہائی وے پر پولیس ناکے پر نہ رکنے کی وجہ سے ان کی کار پر پولیس کی جانب سے گولیوں کی بوچھاڑ کی گئی جن میں ایک گولی ارشد شریف کے سر میں لگی اور وہ موقع پر ہی شہید ہو گئے۔

کینیا کی حکومت یقیناً حکومت پاکستان کی ایما پر اس واقعہ کی تحقیقات کرے گی اور اس کے نتائج سے شہید کے لواحقین اور حکومت وقت کو آگاہ بھی کرے گی مگر مجھ سمیت بہت سے احباب کو کینیا کی پولیس گردی کی اس خوفناک کہانی پہ یقین نہیں آ رہا کیونکہ پہلی بات جو کہی جا رہی ہے کہ گاڑی پولیس کے روکنے پر نہیں رکی۔ بیرون ملک کوئی پاکستانی پولیس کے روکنے پر نہ رکے ایسا ممکن نظر نہیں آتا اور پھر ارشد شریف جیسے تعلیم یافتہ اور مہذب آدمی سے اتنے غیر ذمہ دارانہ رویے کی توقع عبث ہے۔

اگر گاڑی کا نہ رکنا مان بھی لیا جائے تو دنیا بھر میں پولیس تعاقب کرتے ہوئے اگلی گاڑی کے ٹائروں کو نشانہ بناتی ہے اور ناگزیر حالات میں ڈرائیور کو نشانہ بنایا جاتا ہے مگر اس واقعہ میں عقل، دلیل اور منطق کا سردست کوئی سر پیر نظر نہیں آ رہا۔ پھر کینیا کی پولیس ٹارگٹ کلنگ میں انتہائی بدنام بھی ہے بہرحال اس واقعہ کی غیر جانبدارانہ تحقیقات کے لئے وزارت خارجہ کو تمام دستیاب وسائل کو بروئے کار لاتے ہوئے درست نتیجہ پر پہنچنا چاہیے تاکہ ملک عزیز میں جو گنتی کے چند تحقیقاتی صحافی کام کر رہے ہیں وہ یکسو ہو کر آزادانہ حیثیت سے کام کو جاری رکھ سکیں۔ اور ارشد شریف جیسے بے خوف صحافی کے مشن کو جاری و ساری رکھ سکیں۔

ارشد شریف شہید ایک نامور تحقیقاتی صحافی تھے۔ پاکستان میں وہ مختلف میڈیا ہاؤسز کے ساتھ وابستہ رہے۔ ہر میڈیا ہاؤس میں ان کی اپنی ایک مخصوص پہچان تھی۔ معصوم چہرے کے مالک ارشد شریف خاموشی میں انتہائی بے ضرر انسان محسوس ہوتے۔ ہلکی سی مسکراہٹ ان کے چہرے کا مستقبل حصہ معلوم ہوتی مگر جب بولنے پہ آتے تو بے تکان بولتے چلے جاتے۔ سوال کرنے پہ آتے تو ان کے لہجے کی کاٹ سے بڑے بڑوں کا پتہ پانی ہوجاتا۔ ان کی منطق، دلیل اور سوال کا جواب کسی کے پاس نہ ہوتا، واقعات سنانے پہ آتے تو کشتوں کے پشتے لگا دیتے۔ ماضی کو کنگھالتے تو اس کی ایک ایک پرت یوں سامنے لا کھڑا کرتے جیسے یہ ابھی کا کوئی قصہ ہو۔ ان کے ایک ایک سوال کے پیچھے ایک زمانے کا مطالعہ ہوتا۔ مخالف کے دل کی بات کو زبان پر لانے میں ان کا کوئی ثانی نہ تھا۔ ٹی وی سکرین پر بیٹھ کر اتنی دیدہ دلیری اور بہادری سے گفتگو کرتے کہ سننے اور دیکھنے والے بھی ہکا بکا رہ جاتے۔

ارشد شریف صرف ایک صحافی نہیں بلکہ اپنی ذات میں صحافت کی ایک پوری فوج تھا۔ اس نے جن موضوعات کو چنا وہ اس کے قبیل کے کئی افراد کے لئے شجرہ ممنوعہ ٹھہرتے تھے۔ بعض اوقات جو سوال وہ اٹھاتا تھا ان کا جواب صرف اور صرف سوال کرنے والے کی ابدی خاموشی کے مترادف ہوتا تھا۔

دنیا میں ہر شخص کسی کی رائے، نظریہ اور سوچ کی مخالفت یا حمایت کا حق رکھتا ہے۔ شہید ارشد شریف کی سوچ اور انداز فکر سے اختلاف رکھنے والے بھی کئی صاحب الرائے تھے مگر ان کی دلیری، بے خوفی اور اپنے موقف پر ڈٹ جانے کی صلاحیت سے بدترین مخالف بھی ان کے گرویدہ تھے۔

ارشد شریف جس موقف اور نظریہ کے حق میں کھڑے ہوئے موت کی آغوش تک اس موقف کو سینے کے ساتھ لگائے رکھا۔ اس کی آبیاری کے لئے خود ساختہ جلا وطنی تک قبول کر لی اور غریب الدیاری میں موت کو گلے لگا لیا مگر اپنے نظریات کو کھوکھلا نہیں ہونے دیا۔

اللہ پاک شہید کی والدہ پر رحم فرمائے جس نے بیوگی کے زخم کے ساتھ ایک بیٹے کو ملک کی کی سرحدوں پر قربان کر دیا اور دوسرا معصوم چہرے والا میدان صحافت کا شہید ٹھہرا۔

کیا کہنے تیرے نصیبے کے کہ ایک بیٹا تلوار کا دھنی تھا اور حیات جاوداں پا گیا اور دوسرا قلم کا شہسوار جو امر ہو گیا

 


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments