خیبرپختونخوا میں ضمنی انتخابات اور اس کے نتائج


دس اپریل 2022 کو عمران خان کے خلاف پارلیمنٹ میں عدم اعتماد کے ووٹ ڈالنے کے دوران پاکستان تحریک انصاف کے زیادہ تر امیدواروں نے استعفے دیے جس کی وجہ سے الیکشن کمیشن نے پہلے مرحلے میں سات امیدواروں کے استعفے قبول کر لیے۔ اور 16 اکتوبر 2022 کو قومی اسمبلی کے آٹھ حلقوں پر ضمنی انتخابات ہوئے جس میں تین نشستیں ( پشاور، چارسدہ اور مردان) خیبرپختونخوا میں تھے۔ جو کہ 2018 کے انتخابات سے پہلے عوامی نیشنل پارٹی اور جمیعت علما السلام کے نمائندوں نے اکثریت سے جیتے تھے۔

اس ضمنی الیکشن کی خاص بات یہ تھی جس میں پی ٹی آئی کے چیئرمین عمران خان اور دوسرے طرف پی ڈی ایم ( گیارہ سیاسی جماعتوں کا الائنس) جماعتوں کا نمائندہ۔ الیکشن کا تاریخ مقرر ہونے کے بعد چارسدہ، پشاور اور مردان پی ٹی آئی کے خلاف پی ڈی ایم نے اپنے نمائندے کھڑے کر دیے۔ پی ڈی ایم کے طرف سے عوامی نیشنل پارٹی کے غلام احمد بلور پشاور سے اور ایمل ولی خان چارسدہ سے اور جمیعت کے مولانا قاسم مردان سے مقابلے کے لئے میدان میں اترے۔

دوسرے طرف عمران خان پی ٹی آئی کا واحد امیدوار تینوں حلقوں سے لڑ رہا تھا۔ بہت سے تجزیہ کار یہ تبصرے دے رہے تھے کہ پی ٹی آئی کے کمزور کارکردگی کی وجہ سے عوامی سپورٹ کم ہو گئی ہے اور ضمنی الیکشن میں کامیاب نہیں ہو گا۔ لیکن الیکشن کے نتائج بالکل الٹ تھے۔ پی ٹی آئی کے چیئرمین عمران خان نے خیبرپختونخوا کے قومی اسمبلی کے تینوں نشستیں واضح اکثریت سے جیت لیں۔ جو کہ پی ڈی ایم کے سیاسی جماعتوں کے لئے باعث تشویش ہے۔ اصل میں یہ صرف ایک سیاسی جماعت کی ناکامی نہیں تھی بلکہ گیارہ سیاسی جماعتوں کی ناکامی تھی۔

میرے تجزیے کے مطابق پی ڈی ایم کے مقابلے پی ٹی آئی کا ورکر جس میں ایک بڑی تعداد نوجوانوں کی ہے جو دوسرے سیاسی جماعتوں کے مقابلے میں زیادہ فعال اور باخبر ہے۔ 2018 کے الیکشن کے بعد پی ٹی آئی نے قومی اسمبلی میں اکثریت حاصل کی۔ لیکن پارٹی ورکر نے سیاسی مہم جاری رکھی۔ جبکہ دوسرے سیاسی جماعتوں کے ورکر آرام سے بیٹھ گئے۔ دوسرے طرف ان سیاسی جماعتوں کے سربراہان نے بھی سیاسی مہم جوئی کا کوئی پلان تیاری نہیں کیا۔

اس قسم کے کمزور سیاسی پلان کی وجہ سے ان تینوں حلقوں میں ان سیاسی جماعتوں کے بہت کم ووٹرز اپنے رائے دہی کے لئے پولنگ سٹیشن گئے۔ اس کا اندازہ ہمیں ووٹ ڈالنے کے شرح سے ہوتا ہے جو مشکل سے تیس فیصد ہے۔ اس تیس فیصد ووٹرز میں اکثریت پی ٹی آئی کے سپورٹرز کی تھی۔ باقی جماعتوں کے ووٹرز بہت کم تعداد میں ووٹ ڈالنے کے لئے گھروں سے نکلے۔ اپنے ووٹرز کو الیکشن کے دن باہر نکالنے کے لئے دوسرے سیاسی جماعتوں کو ایک سٹریٹجک پلان بنانا چاہیے جو موقع کے مطابق اپنے ورکر کی راہنمائی کرے۔

سب سے پہلے تو ہر ایک سیاسی جماعت کو اپنا ایک ریسرچ ونگ بنانا چاہیے جس میں سیاسیات کے طالبعلم ایک اہم کردار ادا کر سکتے ہیں۔ وہ اس سیاسی جماعت کو وقت اور ضرورت کے مطابق سیاسی حالات کی رہنمائی کر سکتے ہیں۔ اس کے علاوہ ورکر کو سوشل میڈیا کے اہمیت اور اس کے استعمال کے بارے میں ٹرینگ دینی چاہیے۔ کیونکہ آج کل سوشل میڈیا کا استعمال ہمارے معاشرے کے اکثریت کرتی ہے۔ الیکشن کمپین کے لیے ایک نیا اور ہر دلعزیز بیانیہ تیار کرنا چاہیے جو کہ معاشرے کے ہر طبقے کے لوگوں کی آواز بن سکے۔ اس کے علاوہ الیکشن کمیشن کو ووٹ ڈالنے کے شرح میں اضافہ کرنے کے لیے قانون سازی کرنی چاہیے تاکہ اقلیت کے بجائے اکثریت کی حکمرانی قائم ہو جائے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).