بے وفائی


تحریر: او سنگ ون/مترجم راجہ عبدالقیوم

اگلے دن وہ گھر پر ہی رہا اور ملنے کی مقررہ جگہ نہیں گیا۔ تقریباً دوپہر کا وقت تھا۔ ایک کار کی چیختی ہوئی بریکوں کے ساتھ گھر کے باہر رکنے کی آواز آئی۔

”من، کیا بات ہے؟“ انجمن کے ایک ساتھی کی احتجاج بھری آواز آئی۔ من، نوجوان شخص نے اپنے ساتھی کو خاموش رہنے کا اشارہ کیا اور اسے باہر لے آیا۔

جب وہ صورت حال کی مکمل وضاحت کر چکا تو اس کے دوست کی پریشانی صاف نظر آ رہی تھی۔

” ٹھیک ہے میں یہاں صورت حال کو سنبھالتا ہوں لیکن تمہیں ابھی اور اسی وقت ملنے کی جگہ جانا ہو گا۔ ہر ایک وہاں تمہارا انتظار کر رہا ہے“ اس نے کہا ”انہیں جا کر بتا دو کہ میں ان سے ملنے کے بجائے براہ راست اصل جگہ پہنچ جاؤں گا“

اس جواب پر اس کے دوست کا چہرہ پھر سیاہ پڑ گیا۔

”کیوں؟“ اس نے سوال کیا۔ لگتا تھا کہ اسے پریشانی تھی کہ عین آخری لمحے میں من اپنا ذہن تبدیل نہ کر دے اور اس نے من کے چہرے پر ایک گہری متلاشی نظر ڈالی۔

” میں صرف چاہتا ہوں۔“
” تم صرف کیا چاہتے ہو؟“
” میں صرف جتنا ہو سکے اپنی ماں کے پاس رہنا چاہتا ہوں“
اس نے دبی دبی آواز میں کہا۔
”لیکن“
” مجھے معلوم ہے مجھ سے توقع کی جاتی ہے کہ میں اپنے نصب العین پر ہر چیز قربان کر دوں“

اس نے اپنی ماں کا بستر نہ چھوڑا۔ شام کے دوران ڈاکٹر نے دو تین دورے کیے ۔ جب ساتھ کے گھر کی اونچی دیوار پر سورج ڈوبا تو اس کا چھوٹا سا گھر فوراً سرمئی سایوں میں ڈوب گیا۔ جب بیمار کے کمرے میں کھڑکیوں کے راستے رات کی تاریکی نے حملہ کیا تو لگتا تھا کہ ماں بے ہوشی میں چلی گئی ہے۔ ڈاکٹر، جس کا سیاہ بیگ جو اس کے گاؤن سے بالکل ہی مختلف رنگ کا تھا، بوڑھی خاتون کے پاس خاموشی اور گہری سنجیدگی کے ساتھ بیٹھا اس کی لمحہ بہ لمحہ کمزور ہوتی ہوئی نبض محسوس کر رہا تھا۔ باہر ایک کار کا ہارن بجا۔ لیکن وہ ذرا نہ ہلا۔ اس کی ماں کی آنکھوں کے پپوٹوں کے گرد موت کا سایہ گردش کر رہا تھا۔ ہارن کے ایک بار پھر تیز اور مسلسل بجنے سے باہر خاموشی بکھر گئی۔ اسے جانا ہی تھا، اپنی دم توڑتی ماں کو اپنے دوست کے سپرد کر کے، اسے جانا پڑا۔

اسی رات بعد میں اس کی ماں کا انتقال ہو گیا۔ اس کا ذہن اب اس کا نام پکارتے ہوئے مری ہوئی ماں کی تصویر بنا سکتا تھا۔ آخری لمحات کی تفصیل جو اس کے دوست نے بعد ازاں اسے بتائی، وہ کبھی بھی بھول نہیں سکتا تھا۔ سسکیاں بھرتے، لٹے پٹے بیٹے کے کاندھوں پر ہاتھ رکھ کے اس کے دوست نے بتایا تھا۔

” مجھے افسوس ہے۔ مگر اتنا غم نہ کرو۔ مرتے وقت تمہاری ماں مطمئن نظر آتی تھی۔ آخری وقت میں وہ تمہارا نام پکارتی رہی چنانچہ میں نے تمہارا کردار ادا کیا۔ جب وہ کسی چیز کو پکڑنا چاہتی تھی تو میں نے اس کے ہاتھ کو اپنی گرفت میں لے لیا اور میرے ہاتھ کو اپنے ہونٹوں سے لگا کر وہ دیر تک اسے چومتی رہی۔ پھر وہ فوت ہو گئی۔ اگرچہ تم وہاں نہیں تھے مگر وہ اس یقین کے ساتھ فوت ہوئی کہ تم وہیں ہو۔ ٹھیک ہے کہ تم وہاں نہیں تھے مگر اس کے لئے (ماں ) اس سے کوئی فرق نہیں پڑا۔ میرا خیال ہے اس سے تمہارے ضمیر پر پڑے بوجھ میں کمی ہو جانی چاہیے۔ اب بس بھی۔“

اب سرد رات میں ٹمٹماتے ستاروں تلے وہ یہ سب کچھ یاد کر رہا تھا۔ اپنی جیب میں پڑے مڑے تڑے اخبار کو محسوس کرتے ہوئے اس نے جلتے ہوئے سگریٹ کے نیچے زمین پر پڑے ٹکڑے کو دیکھا۔ اس نے اپنے آپ کو ایک ایسے آدمی کے طور پر تصور کیا جو ان دلوں کو پارہ پارہ کر دینے والے مناظر کی یاد کے جالے سے اپنا پیچھا چھڑانے کی کوشش کر رہا ہو۔ ”امی“ وہ جیسے اپنے آپ میں کر اہا۔ اخبار میں چھپی بوڑھی عورت کی تصویر نے جو اپنے بیٹے کی گرفتاری کی خبر سن کر بے ہوش ہو گئی تھی، ایک بار پھر جیسے اس کی اپنی ماں کے چہرے کی جگہ لے لی تھی۔

یہ ایک بار پھر اس کی آنکھوں کے سامنے جیسے کوند گئی۔ اسی لمحے اس نے تقریباً لا شعوری طور پر اپنی جیب سے اخبار نکالا۔ قریب ہی ایک گلی کا بلب دیکھ کر وہ اس کے نیچے چلا گیا۔ روشنی میں اس نے اخبار کا مقامی خبروں کا صفحہ کھولا اور تیزی سے خبر پر نظر دوڑاتے ہوئے اس نے اپنی دلچسپی کے ایک نکتے کو نوٹ کیا۔

”ٹیکسی“ اس نے آواز دی۔ ٹیکسی میں داخل ہونے کے بعد اس نے پر سکون طور پر ٹیکسی کے ڈرائیور کو ”ہن دریا بلیورڈ“ جانے کو کہا۔ جب ٹیکسی نے ایک یو ٹرن لیا اور رفتار پکڑ لی تو ایک بار پھر وہ بوجھل یاد میں کھو گیا۔

اپنی ماں کی وفات کے وقت سے لے کر اس کے ذہن میں آہستگی سے ایک شک در آیا تھا۔ اسے سمجھ آنے لگی تھی (اسے نظر آنے لگا تھا) کہ اس کے اعمال سے جہاں ایک نصب العین کی تکمیل ہوتی تھی وہیں ایک دوسرے نصب العین کی نفی بھی ہوتی تھی۔

ملک کی سیاسی صورت حال دن بدن بے یقینی اور بد نظمی کے دلدل میں مزید دھنستی چلی جا رہی تھی۔ سیاسی رہنماؤں میں رقابت اور منافرت، سیاسی جلسوں میں کھلے اور واضح الفاظ میں ایک دوسرے کی مذمت اور جسمانی تشدد اور پیچیدہ قسم کی سازشوں اور بغاوتوں کی بھر مار جس نے انہیں اپنی لپیٹ میں لے لیا تھا اور جس کی کہیں کوئی انتہا نہیں تھی۔

اس کی ماں کے انتقال کے کم و بیش ایک ماہ بعد یہ ایک برساتی شام تھی۔ من دفتر میں داخل ہوا اور اسے فوراً ہی کمرے کی فضا پر چھائی ہوئی شدید کشیدگی کا احساس ہوا۔ لمبوترے چہرے والے کی آنکھیں زہر آلود تھیں مگر اس کی ہمیشہ رہنے والی عجیب سی مسکراہٹ اس کے ہونٹوں پر پھیلی ہوئی تھی۔

سیلر کی جانب کھلنے والے تنگ دروازے میں سے ایک شخص اپنے ہاتھوں کو کپڑے کے ایک ٹکڑے سے صاف کرتا ہوا نمودار ہوا۔ اس کی انگلیوں پر خون کے دھبے تھے۔

”کوئی تبدیلی؟“ لمبوترے چہرے والے نے سوال کیا۔ جو شخص ابھی ابھی آیا تھا اس نے جواب میں صرف منہ بنایا۔

من احتیاط کے ساتھ سیلر کی جانب اترتی ہوئی تنگ سیڑھی سے اپنا سر جھکا کر نیچے اترتا گیا۔

زمین کی سطح پر ایک آہنی مستطیل کھڑکی کھلتی تھی اور اس کھڑکی سے آتی ہوئی مدہم روشنی میں من فرش پر پڑے ہوئے ایک نوجوان کو دیکھ سکتا تھا (لگتا تھا) جیسے وہ مر چکا ہو۔

ایک لمحے کی ہچکچاہٹ کے بعد من نوجوان کے پاس پہنچ گیا۔ قدموں کی چاپ سن کر نوجوان نے باغیانہ انداز میں اپنا سر اٹھایا۔ نوجوان کے لبوں میں ارتعاش پیدا ہوا اور اس کے لبوں کے درمیان سے خون کی ایک دھار نیچے گرنے لگی۔ اس کی آنکھیں لعنت و ملامت اور مزاحمت سے جل رہی تھیں۔ من نے خاموشی سے اس پر نظر ڈالی۔ اس کے بائیں کان کے نیچے بالوں کی لٹیں خون سے چپک گئی تھیں اور اس کی گردن پر بھی خون کے دھبے تھے۔

”تم بھی مجھ سے پوچھ گچھ کرنا چاہتے ہو؟“

” تم لوگ سیدھا مجھے قتل کر کے اس قصے کو ختم کیوں نہیں کر دیتے؟“ نوجوان نے ہانپتے ہوئے کہا۔ جب اس نے یہ کہا تو اور زیادہ خون اس کے منہ سے نیچے گرا۔ من کچھ دیر تک خاموشی سے نوجوان کو دیکھتا رہا اور پھر اپنے خالی ہاتھ اس کے سامنے کر دیے۔

” پھر تم کیا چاہتے ہو؟“

من نے کچھ دیر اپنا سانس روکے رکھا۔ من کے لئے اس خون میں لت پت نوجوان، جس نے کچھ دیر میں، باہر کی دنیا کی روشنی دوبارہ دیکھے بغیر مر جانا تھا، کو دیکھنا نا قابل برداشت تھا۔ وہ واپس مڑا اور سیڑھیوں کی جانب قدم بڑھایا۔ سیڑھی پر پہلا قدم رکھتے ہی وہ رک گیا۔ جب ان کی آنکھیں چار ہوئیں تو فرش پر پڑا نوجوان کچھ بڑبڑایا، اس کے منہ سے اب بھی خون جاری تھا۔

” تم۔ تم بھی یہ سوچتے ہو کہ میں نے وفاداریاں بدل لی ہیں؟“ نوجوان نے فرش پر بیٹھتے ہوئے کہا۔ من نے اس سوال کا کوئی جواب نہ دیا۔

فرش پر بیٹھے نوجوان کی پریشان اور چبھتی ہوئی تیز آنکھوں پر ایک بار پھر گہرا اندھیرا سا چھا گیا۔

”یہ صحیح ہے کہ میں کئی مخالف جماعتوں کے آدمیوں سے ملا اور ان سے بات چیت کی“ فرش پر بیٹھے نوجوان نے کہا، ”لیکن اس کا مقصد صرف اپنے آپ کو بہت بہتر طور پر سمجھنا اور جاننا تھا۔ یہ اپنی از سر نو شناخت کا ایک طریقہ تھا۔ لیکن اب تم لوگ مجھ پر اپنی جماعت کے رازوں کو افشا کرنے کا الزام عائد کرتے ہو، لعنت ہے!“ اس کی آنکھوں سے لعنت و ملامت اور شدید غصے کی ملی جلی کیفیت جھلکنے لگی۔ اپنے خون رستے ہوئے ہونٹوں کو کاٹتے ہوئے اس نے اپنی بات جاری رکھی۔

”ہماری تنظیم کا سیاسی پلیٹ فارم اول درجے کا نظر آتا تھا اسی لئے میں نے اس میں شمولیت اختیار کی۔ ہو سکتا ہے صرف میں نے تنہا ہی ایسا نہ کیا ہو۔ ہو سکتا ہے کہ دوسرے سارے نوجوانوں نے بھی اسی وجہ سے اس میں شمولیت اختیار کی ہو اور اس سے صرف یہی ثابت ہوتا ہے کہ سیاسی اعتبار سے ہم سب کتنے سادہ لوح تھے۔ ہمارے پاس کوئی قابل ذکر سیاسی تجربہ یا تربیت نہیں تھی۔ ہمارے لبوں کو سب سے مرغوب لفظ مادر وطن تھا لیکن حقیقت میں ہمارا اس کے بارے میں کوئی واضح تصور نہیں تھا (کہ یہ کیا ہے ) صرف ایک اندھا اور نا پختہ جذبہ۔ اور اسی کا سیاست دانوں نے فائدہ اٹھایا۔ شروع میں مجھے اس کا احساس نہیں ہوا۔ لیکن جلد ہی میں تذبذب کا شکار ہو گیا۔ کیونکہ مجھے پتہ چلا کہ ہر ایک سیاسی جماعت کا پلیٹ فارم بھی اتنا ہی اول درجہ کا ہے۔ کیا تمہیں معلوم ہے کہ میں مخالف جماعتوں کے اشخاص سے زیادہ تر کس موضوع پر بات کرتا تھا؟“

یہاں اس نے بڑے بڑے ناموں کی ایک فہرست گنوا دی، اور اپنی بات جاری رکھی۔ ”ہاں تو یہ سارے کے سارے ماضی میں“ محب وطن ”تھے۔ لیکن ہم نہیں جانتے کہ ان میں سے کون کون آنے والے سالوں میں بھی سچے محب وطن ہوں گے۔ کیا تم ان سب کو علیحدہ علیحدہ بتا سکتے ہو؟“

اپنے لوگ جن کے نقش قدم پر ہم چلیں، اگر ضرورت پڑے تو زندگی کی قیمت پر بھی؟ ”

” یہ سیاست دان، یہ صحیح ہے کہ یہ جاپانی سامراج کے خلاف لڑے، لیکن یہ سب اب اس واحد سیاسی اثاثے کا فائدہ اٹھانا چاہتے

ہیں اور ان میں سے ہر ایک اپنی جماعت کے ممبران کی تعداد میں اضافہ کر کے اقتدار پر قابض ہونا چاہتا ہے لیکن ہم نوجوانوں نے سیاست کے میدان میں اس لئے قدم نہیں رکھا تھا۔ شاید ہم سادہ لوح تھے۔ لیکن اس کے ساتھ ساتھ ہمارا اپنے مادر وطن جسے ایک طویل غلامی کے بعد دوبارہ حاصل کیا گیا تھا، کی تعمیر نو کے لئے جذبہ بالکل خالص تھا۔ لیکن سیاسی رہنماؤں کی لالچ /ہوس کی کوئی حد نہیں ہے۔

ذرا سیاسی جماعتوں کے بے ترتیب اور جھاڑ جھنکار کی طرح پھیلنے پر نظر ڈالیں یا ان کے طرز عمل کو دیکھیں ہم اس میں پھنس کر رہ گئے ہیں اور ان (سیاسی لیڈروں اور جماعتوں ) کی جانب سے ہمارا استحصال کیا جا رہا ہے۔ مادر وطن کے لئے ہمارا خالص پیار ان کی ہوس کی وجہ سے داغدار ہو رہا ہے۔ نوجوانوں کی تنظیموں کے مابین ہنگامہ آرائی پر ایک نظر ڈالو۔ اس سے بہتر کیا دلیل پیش کی جا سکتی ہے؟ ”اس ہنگامہ آرائی کے پس پشت کار فرما مکار اور پیچیدہ قوتوں کے بارے میں غور کرو۔“ اس نے جما ہوا خون فرش پر تھوکا اور اپنی بات جاری رکھی۔

” آپ لوگ آج صبح انتہائی ہوشیاری سے مجھے بہلا پھسلا کر یہاں لے آئے لیکن جب میں سب کچھ، بشمول سیاست، ترک کر کے /چھوڑ چھاڑ کر گھر جانا چاہتا تھا تو آپ نے مجھے اس کی اجازت نہ دی۔ ایسا کرنے کی میری واحد وجہ یہ تھی کہ میں اس غلیظ کھیل میں مزید اپنے جذبات کا زیاں نہیں کرنا چاہتا تھا۔ میں چاہتا تھا، اور مجھے اس کا حق بھی حاصل ہے، کہ میں اپنی نسل کے کسی نوجوان سے بات کروں، بس اتنی سی بات ہے، لیکن آپ لوگوں کی نظر میں یہ بے وفائی (غداری) ہے“ نوجوان نے توقف کیا اور اچانک کھانس کر خون کی حیران کن حد تک زیادہ مقدار تھوک دی۔ پھر اپنی جلتی ہوئی آنکھوں اور زرد چہرے پر شدید نفرت لیے ہوئے وہ فرش پر گر پڑا اور بے حس و حرکت وہاں پڑا رہا۔

من کو اس خوفناک منظر سے اپنی نظریں ہٹانا پڑیں۔

سیاسی فساد کی شدت میں روز افزوں اضافہ ہوتا گیا اور یہ دن بدن زیادہ متشدد اور طوفانی ہوتے گئے۔ تمام سیاسی تقسیم اور ٹکراؤ اور مناقشات کے پیچھے ہمیشہ بے وفائیاں /غداریاں کار فرما ہوتی تھیں۔

جلد ہی اس کی تنظیم کے لوگوں نے کسی ایک یا دوسرے سیاسی رہنما کو راستے سے ہٹا دینے کی ضرورت کے بارے میں بات شروع کر دی۔ ان کی دلیل یہ تھی کہ گو ”الف“ بظاہر ان کے ساتھ تھا، مگر وہ خفیہ طور پر مخالف جماعت کے رہنما ”ب“ کے ساتھ ساز باز میں مصروف تھا۔ جب اس طرح کی بات بڑھتے بڑھتے ابل پڑنے کے مقام پر پہنچ جاتی تو تنظیم ”الف“ کو راستے سے ہٹانے کا فیصلہ کر لیتی اور اس سلسلے میں ایک منصوبہ تیار کر لیا جاتا۔ لیکن اس بار من کو چھوڑ دیا گیا تھا کیونکہ تنظیم کے رہنماؤں نے اس کے حالیہ کام کی وجہ سے اسے آرام کا موقع دینے کا فیصلہ کیا تھا۔ اس کی بجائے نشانہ باز کی حیثیت سے ایک اور نوجوان کو منتخب کر لیا گیا تھا۔ لیکن اقدام قتل ناکام ہو گیا کیونکہ نا تجربہ کار بندوق بردار اہم ترین لمحے پر بد حواس ہو گیا تھا۔

ایک نیا منصوبہ تیار کیا گیا اور اس بار من کو بندوق بردار کے طور پر منتخب کر لیا گیا

” تم دوبارہ یہ کام کرو گے۔ میرا مطلب ہے تم اسے آسانی سے کر سکتے ہو، جیسا کہ تم نے پچھلی بار کیا تھا“ لمبوترے چہرے والے

نے اس سے کہا۔
من کے چہرے پر ہچکچاہٹ نمو دار ہوئی۔
”کیا بات ہے؟“
میں (اس کام کی ) ضرورت /اہمیت کا قائل نہیں ہوں ”

شک اور غصے سے بھری آنکھیں فوراً اس پر ڈالی گئیں لیکن اس نے اپنی شخصیت کا رکھ رکھاؤ بر قرار رکھا اور جلد ہی اس کے دوست کی آنکھوں میں نرمی در آئی۔

” مجھے معلوم ہے تم ابھی تک اپنی والدہ کے بارے میں سوچ رہے ہو لیکن تمہیں یہ بھولنا نہیں چاہیے کہ ہمارے لئے ہمارا نصب العین ہر شے سے اولین اور اہم ہے“

” بہت ہو گیا“ من نے اس کی بات کاٹتے ہوئے کہا، ”تم مجھے صرف گولی مارنے کے لئے کہو اور میں گولی مار دوں گا۔ برائے مہربانی مزید تبلیغ سے پرہیز کرو۔“

لیکن منصوبے پر عمل در آمد انتہائی مشکل تھا۔ اس کی ایک وجہ یہ تھی کہ مقررہ وقت دن دیہاڑے، دوپہر کے چار بجے تھا۔ گولی چلانے کا عمل آسان تھا لیکن اصل مسئلہ وہاں سے بھاگ نکلنا تھا۔ صرف ایک اچھی بات تھی کہ وہاں صرف چند یا کوئی بھی راہگیر نہیں ہوتا تھا چنانچہ ایک محتاط اور ذہانت پر مبنی منصوبہ تیار کیا گیا۔ من اور ایک اور شخص نے اس گھر کے سامنے دوسری طرف تمباکو کی دکان کے سامنے تقریباً بیس منٹ تک مٹرگشت کرنی تھی جس گھر سے مسٹر ”الف“ نے باہر آنا تھا۔ من نے اس گھر کی جانب پشت کرنی تھی جب کہ اس کے ساتھی نے گھر کے داخلہ گیٹ پر نظر رکھنی تھی۔ اگر اسے ”الف“ نظر آ گیا تو من کو اشارہ دینے کے بعد اس نے گلی عبور کرنی تھی۔ پھر من نے اس کے پیچھے پیچھے گلی عبور کرنے کے بعد اس کے پیچھے چھپتے ہوئے مسٹر ”الف“ پر گولی چلانی تھی۔

جب من نے ایک عقبی گلی کے ذریعے وہاں سے بھاگنا تھا تو پہلے سے موجود اس کے بہت سے ساتھیوں نے مجرم کے تعاقب کے بہانے اس کے پیچھے بھاگنا تھا۔ اگر خوش قسمتی سے اس تعاقب کے دوران اس جعلی تعاقب کرنے والی جماعت کو راستے میں کوئی نوجوان ہاتھ لگ گیا تو وہ اسے پکڑ کر مارنا شروع کر دیں جیسے کہ انہوں نے اصل مجرم پکڑ لیا ہو۔ انہیں پولیس کی تفتیش میں تاخیر پیدا کرنے کے لئے اس بات کو یقینی بنانا تھا کہ وہ شخص تشدد سے بے ہوش ہو جائے۔ اگر بد قسمتی سے کوئی راہگیر ہاتھ نہ لگا تو پھر انہیں کوئی نیا طریقہ اختیار کرنا پڑے گا تا کہ من نکل بھاگ سکے جب کہ ایسا لگے کہ وہ سارے تعاقب میں مدد دے رہے ہیں۔

اسی منصوبے پر عمل کیا گیا اور یہ کامیاب ہو گیا۔ خوش قسمتی سے عین اسی وقت ایک نوجوان راہگیر وہاں سے گزر رہا تھا جسے بندوق بردار کی حیثیت سے پکڑ لیا گیا۔ اخبارات نے یہی اطلاع دی تھی۔ وہاں سے نکل بھاگنے کے بعد من ایک ساتھی کے گھر چھپ گیا جہاں اس نے اپنے کپڑے تبدیل کیے۔ کچھ دیر بعد ذہنی دباؤ کو کم کرنے کے لئے وہ عقبی گلی میں ایک پینے کی جگہ گیا اور وہاں تنہا بیٹھ کر شراب پی۔ وہاں سے نکل کر اس نے ایک اخبار خریدا۔

ٹیکسی چیختی بریکوں کے ساتھ رک گئی۔ من اپنی سوچوں میں اتنا گم تھا کہ اسے ٹیکسی کے رکنے کا احساس تک نہ ہوا۔ ”یہ ہن دریا بلیوارڈ ہے۔“ ڈرائیور کو اسے یاد دلانا پڑا۔

وہ ٹیکسی سے باہر آ گیا اور دیر تک گلی میں خالی الذہن کھڑا رہا جیسے وہ گم ہو گیا ہو۔ پھر اس نے اخبار میں دیے گئے ایک پتے کی دوبارہ تصدیق کی اور ایک چھوٹے سے اسٹور سے اس پتے کے بارے میں معلومات حاصل کیں لیکن اس علاقے میں اس پتے کو ڈھونڈھ لینا کوئی آسان کام نہیں تھا۔ تقریباً ایک گھنٹے کی تلاش کے بعد وہ آخر کار ریل کی پٹڑی کے پاس ایک ٹوٹے پھوٹے کچے مکان تک پہنچا جس کے دروازوں پر پرانے اخبار لگائے گئے تھے۔ جس لڑکی نے دروازہ کھولا وہ یقیناً اس گرفتار شدہ ملزم کی بہن تھی جس کی تصویر اخبارات میں چھپی تھی۔

”کیا تمہارا تعلق پولیس سے ہے؟“ ڈری سہمی ہوئی لڑکی نے پوچھا۔
”۔“ اس نے کچھ نہ کہا۔ اس نے بس اپنا سر جھکا دیا۔

”میرا بھائی۔“ اس نے کہنا شروع کیا لیکن سسکی کی وجہ سے اس کی آواز بھرا گئی۔ میرا بھائی جرائم پیشہ نہیں ہے۔ وہ اس طرح کا شخص نہیں ہے۔ کیا آپ برائے مہربانی اسے چھوڑ نہیں سکتے۔ ”

”مجھے افسوس ہے لیکن میرا تعلق پولیس سے نہیں ہے۔“ من نے کہا۔

”پھر تم یہاں کس لیے آئے ہو؟ ہوں، ہوں، تم یقیناً کسی اخبار سے تعلق رکھتے ہو۔“ وہ کراہ اٹھی اور آنسو اس کے گالوں پر بہنے لگے۔

”مہربانی کر کے لکھو کہ میرا بھائی مجرم نہیں ہے۔ کچھ وقت گزرنے پر آپ کو معلوم ہو جائے گا کہ وہ نہیں ہے۔ آپ کی صرف ایک سطر ہی کافی ہو گی۔ میری بد قسمت ماں۔ میرا بھائی بیمار ماں کے لئے دوائی خریدنے کی خاطر ادھار لینے باہر نکلا تھا۔ وہ جلد ہی مر جائے گی اور میں اس خیال کو ہی برداشت نہیں کر سکتی کہ وہ اس وقت فوت ہو جائے جب اس کے بیٹے پر ایک جھوٹا اور غیر منصفانہ الزام ہو“

وہ سسکیاں بھرنے لگی لیکن جب اس نے نظر اٹھا کر دیکھا تو وہ یہ دیکھ کر حیران رہ گئی کہ اجنبی کی آنکھوں میں بھی آنسو تھے۔

من نے اپنی آنکھیں دوسری طرف پھیر لیں تا کہ لڑکی اس کی آنکھوں میں آئے آنسو نہ دیکھ سکے۔
”کیا تمہاری ماں کو دیکھنے ڈاکٹر آتا ہے؟“

لڑکی نے صرف غور سے من کو دیکھا۔ واقعات کی اس تبدیلی کو ذہنی گرفت میں لانے سے قاصر من نے بینک نوٹوں کا ایک بنڈل اس کے ہاتھوں پر رکھا اور وہ وہاں حیران و ششدر چپ چاپ کھڑی رہی اور کچھ کہنے کے لئے الفاظ نہ پاتے ہوئے وہ مڑا۔

”مجھے کم از کم یہ پتہ تو چلے کہ آپ۔“ لڑکی بڑبڑائی۔
من ایک ساعت کے لئے لڑکی کی طرف مڑا۔

”تمہارا بھائی جلد گھر آ جائے گا۔ اس کے بارے میں فکر مت کرو۔ صرف اپنی ماں کی دیکھ بھال کرو۔ ٹھیک ہے ناں؟“ اور ہلکی سی سرکی جنبش سے وہ مڑا اور چلا گیا۔ لڑکی نے پھر رونا شروع کر دیا۔
اگلے دن من تنظیم کے دفتر میں اپنے ساتھیوں کے ساتھ بیٹھا تھا۔ ماحول خاصا کشیدہ تھا۔
”پھر؟“ لمبوترے چہرے والے شخص نے کہا۔

”آئیں، ایک چیز یہاں واضح کر لیں“ من نے دوسرے شخص کی آنکھوں میں اطمینان سے دیکھتے ہوئے کہا (کہ) میں یہاں کسی تفتیش سے گزرنے کے لئے نہیں آیا۔ ”لمبوترے چہرے والے کے لبوں پر معمول کی عجیب مسکراہٹ کھیلنے لگی۔ مجھے لگ رہا ہے کہ تم نے خود کو بہت تھکا لیا ہے۔ لیکن تم ایسے بے وقوف نہیں ہو کہ آخری لمحے میں ہر چیز کو آپس میں گڈ مڈ کر لو“

لیکن من نے یوں اپنی بات جاری رکھی جیسے اس نے اس کی بات سنی ہی نہ ہو

”میری بات سنو، میرا سادہ سا نکتہ نظر یہ ہے۔ میں اب جتنا بھی ممکن ہو، زیادہ سے زیادہ عام، سادہ لوگوں سے محبت کرنا چاہتا ہوں۔ میں اب عام لوگوں کی سیدھی سادی زندگی کو ان بڑی بڑی کامیابیوں پر ترجیح دیتا ہوں جن کے ہم خواب دیکھتے ہیں۔“

” تم ابھی تک نہیں سمجھتے کہ تاریخ کیا ہے“
”مجھے تمہاری قسم کی تاریخ کی ضرورت نہیں ہے۔ ایسی قسم (کی تاریخ) جو قربانیوں کا تقاضا کرتی ہے“
”تو کیا تم اب ہمارے نصب العین کے بھی منکر ہو“ ؟

” میں اب ایسی زندگی کو ترجیح دیتا ہوں جس میں نصب العین (مقاصد حیات) وغیرہ پر بحث و تمحیص کی ضرورت ہی نہیں ہے“

”کیا اس کا مطلب بے وفائی (غداری) ہے؟“
”تمہاری جو مرضی ہے وہی سمجھ لو، بہر حال میں جا رہا ہوں“
”کہاں“
”گھر“
”گھر؟“ لمبوترے چہرے پر ایک حقارت آمیز گہری مسکراہٹ پھیل گئی
” کیا تم اپنے آپ کو پولیس کے حوالے کرنے کے بارے میں سوچ رہے ہو؟“
”میں اتنا احمق نہیں ہوں“ من نے کھڑے ہوتے ہوئے کہا۔ لیکن اس کے دوست نے اسی وقت پستول نکال لی۔

فضا میں ایک کشیدہ سنسنی پھیل گئی۔ لیکن من مڑا اور بغیر کسی پریشانی کے (بغیر کوئی تاثر دیے ) دروازے کی جانب چلنا شروع کر دیا۔ اس نے جیسے ہی گزرنا شروع کیا گولی چلنے کا دھماکہ ہوا۔ من جم گیا، اسے ایسا لگا جیسے اس کا سر ٹکڑے ٹکڑے ہو کر بکھر گیا ہے اور اس کی جگہ ایک سفید، کاغذ جیسی خالی جگہ نے لے لی ہے۔ ایک ہی لمحہ بعد تا ہم اسے یوں لگا کہ بکھرے ہوئے ٹکڑے، گولی کی آواز کی دور سے دور ہوتی ہوئی تہہ در تہہ باز گشت کے ساتھ ہی دوبارہ اپنی اپنی جگہ پر آ گئے ہیں۔

وہ دروازے سے یوں باہر نکل گیا جیسے کچھ ہوا ہی نہ ہو۔ دوسرے ساتھی من کی جانب اور پھر فرش پر گولی کے بنائے ہوئے سوراخ کو گھورتے رہے۔ ”میرا نہیں خیال کہ اس طرح کا خطرہ یا دھمکی اسے روک سکتی تھی“ لمبوترے چہرے والے نے جیسے اپنے آپ سے کہا۔ من جچے تلے قدموں سے آہستہ آہستہ گلی میں چلتا گیا۔ اس کے دماغ کی آنکھ میں لڑکی، اس کی دم توڑتی ہوئی ماں اور اس کی اپنی مری ہوئی ماں کے چہرے آپس میں گڈ مڈ اور ایک دوسرے میں پیوست ہو گئے تھے۔ اسے اب محسوس ہوا کہ وہ ایک بہت ہی طویل مدت بعد واقعی پہلی بار اپنے گھر واپس جا رہا تھا۔

————————————


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments