قبر میں آئے ”فرشتوں“ نے کیا کیا


ابا پڑھنے نے کے لئے گھر میں مختلف کتابیں لاتے رہتے تھے۔ ان میں دو کتب ایسی بھی آئیں جو اندر سے شاید ایک جیسی ہی ہوں لیکن باہر سے مختلف رنگوں کی جلدوں میں تھیں۔ ایک نیلے اور دوسری سبز رنگ کی جس پہ سفید رنگ سے ”موت کا منظر“ لکھا تھا۔ یہ دیکھنے میں بہت پرکشش تھیں لیکن موت کا لفظ ہی ایسا ہے کہ دلیر سے دلیر انسان بھی خوف کا شکار ہو جاتا ہے۔ میں تو ویسے ہی کمزور دل ہوں۔ ٹائٹل پڑھ کر ہی کتاب سمجھ آ گئی کہ اندر کیا ہو گا۔ اس لیے انھیں کبھی نہیں پڑھا۔ جب کبھی میری ان کتابوں پہ نظر پڑتی خوف کے مارے انھیں بہت سی کتابوں کے نیچے چھپا دیتی، تاکہ ان پہ نظر نہ پڑے۔ پھر ایک دن چپکے سے یہ دونوں کتابیں مسجد میں رکھوا دیں۔

اس دنیا کو عارضی ٹھکانہ کہا جاتا ہے۔ جگہ جی لگانے کی یہ دنیا نہیں ہے پھر بھی پتہ نہیں کیوں جی اس دنیا میں ایسا لگتا ہے کہ اگلی دنیا میں جنت کی خوشخبری کے باوجود یہاں سے کہیں اور جانے کو جی نہیں چاہتا۔ لیکن نہ چاہتے ہوئے بھی جانا ہی پڑتا ہے۔ کہ اصل زندگی تو موت کے بعد ہی شروع ہوتی ہے۔

آج مجھے بھی اگلا سفر درپیش ہے۔ موت نے مجھ کو آہی لیا۔ ہوش سنبھالنے سے لے کر مرنے سے پہلے تک موت اور قبر کی سختیوں کے متعلق بہت کچھ سنتی آئی تھی۔ سنا تھا موت کا وقت کڑا ہوتا، جان نکلنی مشکل ہوتی ہے۔ جب انسان دنیا سے رخصت ہوتا ہے تو اس کی روح جسم سے یوں کھینچی جاتی ہے جیسے خاردار جھاڑیوں پر سے ململ کا کپڑا کھینچا جائے۔ جنھوں نے یہ جھاڑیوں والا تجربہ کیا ہو وہ سمجھتے ہوں گے کہ حال کیا ہونا۔

میں جھاڑیوں والا تجربہ تو نہیں کیا لیکن جب میری جان نکل رہی تھی تو پتہ نہیں کیوں مجھے ویسا کچھ بھی محسوس نہیں ہوا جیسا سنتی آئی تھی۔ میں اپنی بیٹی سے باتیں کر رہی تھی کہ مجھ پہ نیند کا غلبہ ہوا اور آنکھیں بند ہو گئیں۔

میں گہری نیند میں تھی کہ میرے کانوں میں رونے کی آوازیں آنے لگیں۔ میرا دوسرے نمبر والا بیٹا کسی کو بتا رہا تھا امی فوت ہو گئی ہیں۔ میری بیٹیاں دھاڑیں مار مار کر رونے لگ گئیں۔ میں اٹھنے کی کوشش، کہ انھیں بتاؤں میں زندہ ہوں لیکن مجھ سے اٹھا نہیں گیا۔ میرے ہاتھوں پیروں میں حرکت نہیں تھی۔ مجھے اپنی سانس بھی محسوس نہ ہو رہی تھی۔ حالانکہ میں سب دیکھ سن رہی تھی۔ بڑی بہو نے سب کو روتا چھوڑ کر چیزیں سمیٹنا شروع کیں۔

چھوٹی بہو نے میرے کانٹے اور چوڑیاں اتار کر جلدی سے بڑی بہو کو پکڑا دیں۔ بعد میں بانٹ لیں گے، یہ کہتے ہوئے اس کی آنکھیں چمکیں۔ غسل دینے کے لیے میری بیٹیوں کو بلایا گیا کہ میت کو غسل دینے سے بیٹیوں کو ثواب اور سکون دونوں ملیں گے۔ بیٹیاں روئے جاتیں اور غسل دیے جاتیں۔ میں انھیں تسلی دینا چاہتی تھی لیکن میرے حلق سے آواز نہ نکلی۔ مجھے بہت آرام سے غسل دیا گیا۔

ضبط غم کی وجہ سے بیٹوں کی آنکھیں لال انگارہ بنی تھیں۔ میرا خاوند رشتے داروں سے تسلیاں اور دلاسے وصول کر رہا تھا۔ جنازے کا وقت آن پہنچا تو بیٹیاں چارپائی سے لپٹ گئیں۔ وہ چارپائی چھوڑنے کو تیار نہ تھیں۔ مردوں کا گروہ آگے بڑھا اور کلمہ شہادت پڑھتے ہوئے مجھے میری منزل کی طرف لے جانے لگا۔ با الآخر یہ سفر بھی تمام ہوا مجھے منوں مٹی کے نیچے ڈال کر سب واپس آ گئے۔

مجھے ساری عمر اندھیرے سے ویسے ہی ڈر لگتا رہا کجا کہ اب تو تنہا بھی تھی۔ مجھے اندھیرے سے وحشت ہونے لگی۔ میری بند آنکھیں خوف کی شدت سے مزید بند ہونے لگیں۔ سنا تھا۔ قبر کی رات بہت سخت ہوتی ہے۔ قبر میں آنے والے فرشتوں کو۔ ان کو ان کی مرضی کا جواب نہ دو تو وہ اندھیری قبر میں مزید اندھیرا کر جاتے ہیں۔ اور بائیں طرف کی کھڑکی کھول جاتے ہیں جہاں سے آگ کی لپٹیں آتی ہیں۔ نہیں مجھے بائیں طرف والی کھڑکی نہیں کھلوانی، مجھے جنت میں جانا ہے۔ میں ممکنہ سوالوں کے جواب ذہن میں دہرانے لگی۔

مجھے قبر میں لیٹے کافی دیر ہو گئی تھی۔ قبر میں آنے والے فرشتوں کے انتظار میں تھی۔ کہ مجھے مکھیوں کی بھنبھناہٹ جیسی سرگوشیاں اور تھوڑی سی روشنی محسوس ہوئی۔ میں الرٹ ہو گئی۔ میرا انتظار ختم ہوا، لگتا تھا قبر کے فرشتے آن پہنچے ہیں۔ کئی بار کے دہرائے جواب پھر دہرانے لگی۔ موت کے بارے بھی تو یہی سنا تھا کہ وہ وقت بہت مشکل ہوتا ہے۔ جب وہ مرحلہ آسانی سے گزر سکتا ہے تو یہ بھی بخیریت گزر جائے گا۔ مجھے یقین تھا فرشتے میرے ساتھ کچھ برا نہیں کر کے جائیں گے، جیسا وہ چاہیں گے میں ویسے ہی جواب دوں گی۔ اور قبر کے عذاب سے بچ جاؤں گی۔

مجھے قبر کے اوپر سے کچھ اٹھانے کی آواز آئی۔ اور ساتھ ہی قبر میں چاروں طرف روشنی ہو گئی۔ یوں لگ رہا تھا قبر میں نور پھیلا ہے۔ قبر میں روشنی اور ٹھنڈی ہوائیں آ رہی تھیں۔ خوش تھی کہ حساب کتاب کی نوبت نہیں آئی اور دائیں طرف والی کھڑکی کھل گئی۔ میرا جی چاہا خوشی سے تالیاں بجاؤں۔ لیکن افسوس میرے ہاتھ بندھے تھے۔ میں ان نیکیوں پہ اترانے لگی جو انجانے میں کی تھیں اپنی نیک ہونے پہ اترا رہی تھی۔ میرے سامنے دو فرشتے کھڑے تھے۔

یہ بالکل انسانوں جیسے تھے۔ جو دائیں یا بائیں طرف سے نہیں بلکہ اوپر سے آئے تھے۔ قبر میں آئے دونوں فرشتوں نے میرا کفن اتار کر سائیڈ پہ رکھ دیا، ۔ وہ دونوں بہت دیر تک میرے ساتھ قبر میں رہے، میری آنکھوں کے آگے اندھیرا چھا گیا۔ جاتے ہوئے وہ میرا کفن بھی ساتھ لے گئے۔ لوگ سچ کہتے تھے قبر کی رات بھاری ہوتی ہے


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments