غازی علم الدین شہید کا مقدمہ اور قائد اعظم کے بارے غلط فہمی


علم الدین شہید کے بارے منعقد ہونے والی ہر تقریب میں مقررین حضرات اور اس واقعہ کو احاطہ تحریر میں لانے والے لکھاری ایک واقعہ لازمی بیان یا تحریر کرتے ہیں۔ جس سے مقصود غازی علم الدین کی جرات اور عشق رسول کو اجاگر کرنا ہوتا ہے۔ اس بات سے ہرگز کسی کو انکار نہیں لیکن اس سلسلے میں جو بات بیان کی جاتی ہے اس سے جڑی دوسری شخصیت کے بے داغ دامن پہ پروفیشنل ہیرا پھیری جھوٹ اور بازاری پن کے دھبے ضرور لگ جاتے ہیں۔

بات یہ بیان کی جاتی ہے کہ قائد اعظم جو کہ اس مقدمہ میں ایک مرحلے پہ علم الدین شہید کے وکیل رہے ہیں انہوں نے علم الدین کو یہ ہدایت کی یا یہ آفر دی کہ اگر وہ اپنے اس اقدام یا اقبال جرم سے منحرف ہو جائیں تو وہ اس کی جان بچا سکتے جس کے جواب میں علم الدین نے اس عمل کو اپنے لیے سعادت تصور کرتے ہوئے قبول نہ کیا اور اپنے اقبال جرم پہ قائم رہے اور پھانسی کے پھندے پہ جھول گئے لیکن گستاخ رسول کے قتل سے انکار نہ کیا۔

اس لیے یہ ضروری ہے کہ اس جملے کی زد میں آنے والے جناح صاحب کے اس مقدمے میں پیش ہونے کی حیثیت اور ان کے عدالتی کارروائی میں دیے جانے والے دلائل کا جائزہ لیا جائے تاکہ ان کی اصول پسندی اور دیانتداری پہ آنے والے حرف کو دور کیا جا سکے۔ علم الدین شہید پنجاب کے سب سے زیادہ جانی جانے والی شخصیات میں سے ہیں جن سے لوگوں کی عقیدت جڑی ہوئی ہے۔ اس تحریر کا مقصد ان کے اس عمل کی جائزیت کا تجزیہ کرنا ہرگز نہیں بلکہ صرف اور صرف قائد اعظم کے کردار کی حد تک ہے۔

اس مقدمے کے بارے میں تحقیقات کی حد تک اتنا کام نہیں ہوسکا جس کی وجہ سے منبر پہ جذبات سے مغلوب صاحبان علم کی تقریروں کو رفتہ رفتہ تاریخ کی حیثیت حاصل ہونا شروع ہو گئی۔ حالانکہ اس مقدمے کا مکمل ریکارڈ لاہور ضلع کچہری کے ریکارڈ میں دستیاب ہے جسے کتابی صورت میں شائع کیا جانا چاہیے۔ اس کے ساتھ ساتھ اس وقت کے اخبارات میں جن میں مولانا ظفر علی خان کا زمیندار اور مولانا محمد علی جوہر کا ہمدرد خاصے فعال تھے ان کے اداریے اور اس مقدمے کے سلسلے میں کی جانے والی رپورٹس کو بھی کتاب میں شامل کر کے محفوظ کرلینا چاہیے۔

قائد اعظم نے غازی علم الدین کی طرف سے اس کی اپیل جو لاہور ہائیکورٹ میں دائر کی گئی تھی صرف اس پر بحث کی تھی۔ اور یک بات ذہن نشین رہے کہ ہائی کورٹ کے لیول پر ملزم کو اپنا بیان تبدیل کرنے یا اس پہ نظر ثانی کا حق حاصل نہیں ہوتا۔ بلکہ وکلا حضرات مقدمے میں قانونی یا حقائق کے بارے کوئی سقم ماتحت عدالت کے فیصلے میں رہ جائے تو اس فیصلے کے اتنے حصے پہ بحث کرتے ہیں۔ اس اپیل پر قائد اعظم نے لاہور ہائیکورٹ میں جن نقاط پر بحث کی اس کی بابت آج کے کالم میں تفصیلات شیئر کی گئی ہیں۔

ہندوستان کی تاریخ پر تحریک خلافت نے گہرے اثرات مرتب کیے ۔ تحریک کے دوران وہ مذہبی طبقہ جو سر سید کی تحریک کی جدت پسند تحریک کے باعث بے اثر ہو گیا تھا اسے سٹریٹ پاور کے اظہار کا موقعہ ملا تو عام سادہ لوح لوگوں کے مذہبی جذبات سے کھیلا گیا اسی دوران کانگریس بھی اس عوامی طاقت کے ساتھ اپنا کندھا پیش کرنے پہ راضی ہوئی تو تحریک موثر ترین قوت کی شکل اختیار کر گئی۔ ہندو مسلم اتحاد کے بے نظیر مظاہرے دیکھنے میں آئے لیکن ہندو مسلم اتحاد کا یہ مصنوعی باب جلد ہی اپنے انجام کو پہنچ گیا۔

ہندو مہا سبھا اور آریہ سماجیوں نے مسلمانوں کے مذہب، تمدن اور سیاسی تاریخ کو مسخ کرنے میں کوئی دقیقہ فروگزاشت نہ کیا۔ آریہ سماجیوں کی سر گرمیوں کے مراکز تمام ہندوستان میں موجود تھے لیکن لاہور ان کا خاص مرکز تھا۔ 1923 ء میں لاہور کے ایک پبلشر راج پال نے پروفیسر چیمابتی کی کتاب شائع کی۔ جس میں حضور اکرم ﷺ کی ذات اقدس پر ناروا حملے کیے گئے تھے۔ اس کتاب کے چھپتے ہی مسلمانوں میں غم و غصے کی لہر دوڑ گئی۔

مسلمانوں کی طرف سے کتاب کے پبلشر راج پال پر فرقہ وارانہ منافرت پھیلانے کے الزام میں مقدمہ چلا دیا گیا۔ ما تحت عدالت مجسٹریٹ نے مقدمہ کی سماعت کے بعد ملازم کو دو سال قید سخت اور ایک ہزار روپیہ جرمانہ کی سزا سنائی جسے سیشن عدالت نے چھ ماہ میں تبدیل کر دیا لیکن عدالت عالیہ لاہور کے جج کنور دلیپ سنگھ نے راج پال کو بری کر دیا۔ اس سے مسلمانوں میں مزید اشتعال پیدا ہوا۔ 27 ستمبر 1927 ء کو ایک مسلمان خدا بخش نے راج پال پر حملہ کیا لیکن وہ بچ گیا۔

9 اکتوبر 1927 کو ایک اور نوجوان عبدالعزیز نے دوبارہ راج پال پر حملہ کیا لیکن اس بار بھی وہ موت کے منہ میں جانے سے بچ گیا۔ ان دونوں کو سات سات سال کی کی قید اور جرمانے کی سزا دی گئیں۔ ان دونوں کی طرف سے عدالت میں نہ کوئی وکیل پیش ہوا اور نہ ہی کوئی گواہ۔ اس کے بعد اب علم دین پہ اس کی موت کا مقدمہ چلایا گیا جس میں سیشن عدالت نے علم دین کو سزائے موت سنائی جس کی اپیل لاہور ہائی کورٹ میں دائر ہوئی۔

علم الدین کے مقدمے کی پیروی کے لئے محمد علی جناح کو بمبئی سے لاہور بلوایا گیا۔ بیرسٹر فرخ حسین مقدمے کی تفصیلات سے آگاہ کرنے کے لیے بمبئی گئے۔ اس سلسلے میں قائد اعظم نے لاہور ہائی کورٹ کو تار دیا کہ 15 جولائی کو مقدمہ کو سماعت کے لئے تاریخ مقرر کی جائے۔ سیشن کی عدالت میں بیرسٹر فرخ حسین، خواجہ فیروز الدین اور ان کی معاونت کے ڈاکٹر اے آر خالد بطور وکیل پیش ہوئے۔ بیرسٹر فرخ حسین کے بیٹے جسٹس (ر) آفتاب فرخ (اللہ انہیں کروٹ کروٹ جنت عطا کرے ) جو کہ میرے استاد بھی ہیں اور بہت اصول پسند جج اور نہایت قابل فوجداری کے وکیل بھی تھے ان سے 2012 میں ملاقات ہوئی تو اس مقدمے کے اصل کاغذات کی نقلیں حاصل کی تھیں۔

جناح صاحب سے قبل پنجاب کے مشہور سیاسی راہنما اور وکیل سر محمد شفیق سے مقدمہ ہائی کورٹ میں پیش ہونے کی استدعا کی تھی انہوں اس وجہ سے انکار کر دیا تھا کہ ہندو جن کے ساتھ ان کے کاروباری مراسم تھے اسے برا سمجھیں گے۔ اس وقت ایک ہائی کورٹ کا وکیل دوسرے ہائی کورٹ میں پریکٹس نہیں کر سکتا تھا۔ اس لئے بمبئی ہائی کورٹ کے مسٹر جناح کو پنجاب ہائیکورٹ کے جج مسٹر جسٹس براڈوے جن کی عدالت میں اپیل لگی تھی نے اجازت دینے کی مخالفت کی لیکن چیف جسٹس سر شادی لعل نے قائد اعظم کو پیش ہونے کی خصوصی اجازت دی۔ جسٹس شادی لعل پہلے ہندوستانی جج تھے جنہیں لاہور ہائی کورٹ میں چیف جسٹس مقرر کیا گیا تھا۔

15 جولائی 1929 ء کو جسٹس براڈ وے اور جسٹس جانسن کے رو برو مقدمہ کی سماعت شروع ہوئی۔ قائد اعظم محمد علی جناح نے مقدمہ کے واقعات کو سامنے رکھ کر انتہائی قابلیت کے ساتھ غازی علم الدین کے بے گناہی ثابت کی۔

سب سے پہلے قائد اعظم نے عینی گواہوں کے بیانات پر جرح کی۔ قائد اعظم نے عدالت کو بتلایا کہ عینی گواہ کدار ناتھ مقتول کا ملازم ہے اس کے بیان کو ہی ایف آئی آر کا درجہ دیا گیا تھا۔ ذاتی ملازم ہونے کی وجہ سے اس کی گواہی تامل اور غور کے بعد قبول کرنی چاہیے۔ دوسرا یہ کدار تاتھ نے اپنے ابتدائی بیان میں بیان کیا کہ قاتل علم الدین پر کتابیں پھینکیں اور اس کا تعاقب کیا۔ کدار ناتھ نے ابتدائی بیان میں ملزم کے متعلق یہ نہیں کہا کہ اس نے گرفتاری کے بعد اقبال جرم کیا۔ جبکہ عدالت سیشن جج میں وہ بیان دیتا ہے کہ ملزم نے کہا ہے کہ میں رسول کی عزت کا بدلہ لیا ہے۔ ان حقائق سے قائد اعظم نے یہ ثابت کیا کہ عینی گواہ نمبر 2 کدار ناتھ جھوٹا ہے۔

اسی طرح قائد اعظم نے دوسرے عینی گواہ یعنی بھگت رام کی شہادت کی کمزوریاں واضح کیں۔ اس کے بعد انہوں نے وزیر چند نائک چند اور پر مانند وغیرہ کے بیانات پر نقادانہ بحث کر کے ثابت کیا کہ کوئی بیان اصلاً قابل اعتماد نہیں بلکہ ایسا معلوم ہو تا ہے کہ ایک خاص بیان وضع کر کے مختلف آدمیوں کو طوطے کی رٹا دیا گیا ہے۔

قائداعظم نے اپنی بحث میں سب سے اہم نکتہ یہ نکالا کہ عام بیانات کے مطابق واقعہ کے وقت مقتول کی دکان پر ایک مقتول اور اس کے دو ملازم تھے۔ ڈاکٹر کی شہادت سے ثابت ہوتا ہے کہ مقتول کو آٹھ زخم لگے یعنی اٹھارہ انیس سال کے ایک معمولی نوجوان نے دن دیہاڑے تین مردوں میں گھس کر ایک کے جسم میں آٹھ دفعہ چھری گھونپی اور نکالی اور تین آدمی اس کا کچھ نہ بگاڑ سکے، اس کو عقل انسانی صحیح تسلیم نہیں کر سکتی۔ اس کے بعد مسٹر جناح نے آتمارام کباڑی جس سے قتل میں استعمال ہونے والی چھری کی خریداری بیان کی گئی تھی اس کی شہادت پر جرح کی اور اس کی شہادت کا تجزیہ کیا اور اس کے خلاف کئی دلائل قائم کیے ۔ مثلاً

1۔ پہلی بات قائد اعظم نے ثابت کی کوئی دکاندار اتنا باریک بین نہیں ہو سکتا کہ اپنے ہر گاہک کو یاد رکھے جو کہ اس کی دکان پر صرف ایک مرتبہ آیا ہو۔ اس کباڑی نے ملزم کو شناخت پریڈ کے دوران ملزم کے چہرے کو ایک نشان اور کانوں میں سوراخ کر کے ڈالے گئے دھاگوں کو دیکھ کر پہچانا ہے۔ ظاہر ہے کہ پولیس نے اسے یہ نشان بتلا دیا ہو گا کہ جس کی بناء پر اس نے ملزم کو شناخت کر لیا۔

2۔ گواہ آتما رام کا دعویٰ تھا کہ وہ چاقوؤں کو پہچان سکتا ہے لیکن جب چاقو اس کے رو برو پیش کیے گئے تو وہ پہچان نہ سکا۔ گواہ آتما رام کباڑی اس بات کا اعتراف کرتا ہے کہ اس کی نظر کمزور ہے لہذا ان حقائق سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ آتمارام سکھایا پڑھا یا ہوا گواہ ہے۔ اس کے بعد قائد اعظم محمد علی جناح نے اس سوال پر سیر حاصل بحث کی کہ اگر علم الدین قاتل نہیں تھا تو اس کے کپڑوں پر انسانی خون کے دھبے کس طرح لگے تھے؟

انہوں نے ڈاکٹر کا یہ بیان پیش کیا کہ مقتول کا خون فوارے کی طرح نہیں اچھلا اور جب حالت یہ ہے تو بیان کردہ قاتل کے جسم پر دھبے نہیں پڑ سکتے لیکن ڈاکٹر نے کہا کہ اس کی شہادت کا یہ حصہ بالکل لغو ہے۔ اسے رائے دینے کا کوئی حق نہیں تھا۔ سیشن جج اس بات کو تسلیم کرتا ہے مقتول کا خون فوارے کی طرح نہیں اچھلا اور اس بات کو بھی تسلیم کرتا ہے کہ ملزم کے کپڑے مقتول کی لاش سے چھوئے نہیں لیکن لکھتا ہے کہ ڈاکٹر کی رائے کے مطابق یہ خون انسانی ہے۔

اس لئے مقتول کا خون اور چھری سے ٹپک کر ملزم کے کپڑوں پر گرا ہے۔ مسٹر جناح نے کہا کہ اس بات کا کوئی ثبوت نہیں ہے کہ جس خون کے دھبے ملزم کے کپڑوں پر ہیں وہ واقعی مقتول کا ہے۔ مسٹر جناح نے کہا کہ میرا یہ دعویٰ ہے کہ یہ خود ملزم کا خون ہے۔ ملزم کا بیان ہے کہ اسے گرفتار کرنے کے بعد ہندوؤں نے اسے مارا پیٹا اور اس مار پیٹ سے اس کی انگلی اور ران پر زخم آئے۔

انہوں نے ملزم کا بیان بھی پڑھ کر سنایا جس میں ملزم نے سیشن جج کے رو برو آلہ قتل کی خریداری اور مقتول کے قتل سے انکار کے بعد کہا کہ جب مجھے پکڑا گیا تو مجھے بہت مارا گیا۔ اور پولیس لائن بھی جب مجھے لے جایا گیا تو مجھے خوب مارا گیا۔ جو کچھ میں نے کہا کسی نے سنا نہیں۔ ، شناخت پریڈ میں مجھے ایک پگڑی اور جوتے کا جوڑا دیا گیا، میں نے ان کو پہن لیا لیکن انسپیکٹر جواہر لعل نے مجھے ان کو اتارنے کو کہا اور میں نے ایسا ہی کیا۔

جب مجسٹریٹ آیا تو مجھے دوسرے لوگوں کے ساتھ پریڈ کروائی گئی۔ میرا دوسرا نمبر تھا اور میرے ساتھ بوڑھا آدمی تھا۔ گواہ آتمارام آیا اور اس نے ہاتھ مجھ پہ رکھ دیا۔ اسی صبح تقریباً نو بجے جب میں حوالات آیا تو انسپیکٹر نے مجھے سگریٹ آفر کی جو میں نے پیا۔ شناخت کے وقت صرف میں نے پگڑی پہنی ہوئی تھی کسی اور نے نہیں۔ اور شناخت میں شامل دوسرے لوگوں نے جوتے پہن رکھے جبکہ میں نے نہیں۔ جب پولیس لائن میں ڈاکٹر میرا معائنہ کر رہا تھا تو انسپیکٹر نے مجھے ہاتھ اور کہنہ کا زخم دکھانے سے منع کیا اور ایسا کرنے پر پر اور مار پڑنے کی دھمکی دی۔

جب مجھے پکڑا گیا تھا تو ترازو کے کیل لگنے سے میرے گھٹنے اور کہنی پہ زخم آئے تھے۔ پولیس نے بھی میرے ساتھ بے حد تشدد کیا۔ اس کے علاوہ مجھے اور کچھ نہیں کہنا۔ عدالت کی طرف سے سوال پوچھنے پر کہ زخم آنے پر کیا خون بہا تھا تو علم الدین نے کہا جی ہاں۔ سیشن کی عدالت میں پھر سوال کیا گیا کہ کیا تم نے یہی شلوار قمیض پہنی ہوئی تھی تو علم الدین نے جواب دیا کہ میں نے قمیض صرف یہی پہن رکھی تھی شلوار دوسری تھی جو مار پیٹ کے دوران پھٹ گئی تھی۔ جب مجسٹریٹ شناخت کے لیے آیا اس نے میری کوئی بات نہیں سنی۔

اس کے بعد مسٹر جناح نے ملزم کے طرف سے جرم کی صحت کے انکار کے ساتھ ساتھ یہ بھی بتایا کہ ملزم سبز منڈی کی طرف سے آ رہا تھا جسے ہجوم نے قتل کے شبہ میں پکڑ کر تشدد کا نشانہ بنایا اور پولیس کے حوالے کر دیا۔

مسٹر جناح نے ایک اہم بات یہ کہی کہ سیشن جج نے مسلمان اسیسروں کی رائے کے سلسلے میں خواہ مخواہ ہندو مسلم مخاصمت کا سوال پیدا کیا۔ اس مقدمے میں چار اسیسر تھے۔ دو مسلمان فیروز الدین اور محمد سلیم اور دو غیر مسلم بھلا مل اور جہامت سنگھ، مسلمان اسیسروں نے ملزم کو بے گناہ بتلایا۔ غیر مسلم اسیسروں نے جرم کا اثبات کیا۔ سیشن جج نے لکھا ہے کہ مسلم اسیسروں کے فیصلے پر یقین نہیں کیا جاسکتا اس لئے کہ ہو سکتا ہے کہ ان کے دل میں فرقہ وارانہ تعصب موجود ہو۔

مسٹر جناح نے عدالت میں یہ نقطہ بھی پوائنٹ آؤٹ کیا کہ مسلمان اسیسروں کے فیصلے پر یقین نہیں کیا جاسکتا کہ ان کے دل میں فرقہ وارانہ تعصب موجود ہو گا تو یہ رائے غیر مسلمان اسیسروں کے بارے میں یہ رائے قائم کیوں نہیں کی؟ ہو سکتا ہے دونوں مسلمان اسیسروں کے فیصلے بالکل ایماندارانہ ہوں۔ ان کے لئے یہ ضروری نہیں کہ وہ وجہ بتلائیں کہ وہ فلاں فیصلے پر کیوں پہنچے۔ یہ امر افسوسناک ہے کہ جج نے مسلمان اسیروں کے متعلق تعصب کا اظہار کیا۔ ملزم کے حق میں جو شہادت تھی سیشن جج نے اسے نا قابل قرار دیا۔ اور ملزم کے خلاف جو شہادت تھی اسے درست سمجھا۔ اس پر جسٹس براڈ وے نے کہا کہ جج کو اختیار ہے کہ وہ جس شہادت کو چاہے قبول کرے جس کو چاہے مسترد کرے۔ مسٹر جناح نے جواب دیا کہ یہ صحیح ہے مگر قبول و عدم قبول کے لئے دلیل بھی ہونی چاہیے۔

علم دین کو بے گناہ ثابت کرنے کے بعد مسٹر جناح نے مقدمہ کے دوسرے پہلو پر نظر ڈالی اور بحث جاری رکھتے ہوئے کہا اگر یہ مان بھی لیا جائے کہ ملزم واقعی قاتل ہے تو بھی اس کی سزا پھانسی نہیں بلکہ عمر قید ہونی چاہیے۔ اس کے لئے مندرجہ ذیل دلائل پیش کیے ۔

1۔ ملزم کی عمر اٹھارہ انیس سال کی ہے اور اس کا کوئی کریمنل ریکارڈ نہیں ہے۔
2۔ راج پال نے ایسی کتاب چھاپی جسے عدالت عالیہ نے بھی نفاق انگیز اور شر انگیز قرار دیا۔

3۔ ملزم نے کسی لغو اور ذلیل خواہش سے یہ ارتکاب نہیں کیا بلکہ ایک کتاب سے غیرت کھا کر ایسا کیا ایسا کرتے وقت وہ جذبات سے مغلوب تھا اور ایسی حالت میں وہ اپنے ہوش و حواس میں قرار نہیں دیا جا سکتا۔

بیرسٹر جناح نے عدالت عالیہ کے سامنے تقریر میں عدالت عالیہ سے درخواست کی کہ وہ ملزم کو اس الزام سے بری کر دے۔ اور کہا سب سے پہلے میں اس پولیس افسر کو شہادت کی طرف عدالت عالیہ کی توجہ مبذول کراتا ہوں جس نے بیان کیا کہ ہم ملزم سے یہ اطلاع پاتے ہیں کہ میں نے آتما رام کباڑی سے یہ چھری خریدی ہے۔ فوراً اس کی دکان پر پہنچے، پولیس نے بذات خود کوئی تفتیش نہیں کی اور صرف ملزم کے بیان پر اکتفا کیا لیکن دفعہ 27 قانون شہادت کی رو سے ملزم کا بیان بطور شہادت پیش نہیں ہو سکتا۔ میں چاہتا ہوں کہ جج صاحبان اس کا فیصلہ صادر کریں۔ مسٹر جسٹس براڈ وے نے کہا کہ شہادت کے قابل قبول یا نا قابل قبول ہونے کے سوال کا فیصلہ کرنا عدالت ماتحت کا کام ہے۔ مسٹر جناح نے کہا کہ آپ اس نقطہ پر اب نہیں تو آخر میں فیصلہ کر سکتے ہیں۔

سلسلہ بحث جاری رکھتے ہوئے مسٹر جناح نے کہا کہ اب غور طلب امر یہ ہے کہ ملزم کو اس مقدمہ میں ماخوذ کرنے کی کافی وجوہ موجود ہیں یا نہیں۔ 6۔ اپریل کو راج پال قتل کیا گیا لیکن سوال یہ ہے کہ جس نے راج پال کو قتل کیا وہ کون تھا۔ استغاثہ کی شہادتوں میں دو عینی گواہوں کے بیانات ہیں۔ یہ دونوں گواہ کدار ناتھ اور بھگت رام ہیں۔ ان عینی گواہوں کے قابل اعتماد ہونے کو پرکھنے کے لئے میں فاضل ججوں کی توجہ اس امر کی طرف مبذول کرانا چاہتا ہوں کہ یہ دونوں گواہ راج پال کے ملازم تھے۔ ان شہادتوں کے پرکھنے کا صرف یہی طریقہ ہے کہ ان کے بیانات کے اختلاف کو دیکھا جائے۔

قائد اعظم محمد علی جناح کی اس بحث کے بعد عدالت نے سرکاری وکیل کا جواب سنے بغیر حاضرین کو باہر نکال دیا اور فیصلہ محفوظ رکھا۔ چار بجے شام کے قریب عدالت نے فیصلہ سنایا اور اپیل نا منظور کر دی۔

اب اس ساری کارروائی سے ایک بات روز روشن کی طرح عیاں ہو جاتی ہے کہ قائد اعظم نے علم الدین شہید کے مقدمے کو انتہائی پروفیشنل انداز میں لڑا اور مقدمے کی کسی سٹیج پر بھی انہوں نے ملزم کو غلط بیانی کا مشورہ نہیں دیا۔ کیونکہ ان کا پروفیشنل کیرئیر دیانتداری سے لبریز تھا اس لیے ہمیں اپنی تقریروں میں علم الدین شہید کی ایمانی حالت کے اظہار کے لیے قائد اعظم کے بارے ایسی رائے قائم کرنے سے گریز کرنا چاہیے جس سے ان کی ذاتی زندگی پہ ایسا حرف آئے جس سے ان کی کریڈیبلٹی پہ آنچ آئے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments