کئی سوالات: جواب مگر ایک ہی ہے


اس امر میں مگر کوئی دو آراء نہیں کہ حکمت اور تحمل کا راستہ ہی خان صاحب کے لئے کامرانی و کامیابی کا راستہ ہے۔ صرف خان صاحب ہی نہیں، لازم ہے کہ سب سیاستدان تدبر سے کام لیں۔ تین روز قبل جو ہوا، ضرور کچھ پرندے گھبرا جائیں گے۔ کیا بالآخر یہی مطلوب ہے؟ کہنے کو سب نے سبق سیکھا ہے۔ دکھائی تو یہی دیتا ہے کہ اب بھی نہیں سیکھا۔ افسوس کہ اپنے ہاں کے تو سرخے بھی خالص نہیں نکلے۔ سرخے جواب لبرل ہو گئے ہیں۔ سرخوں سے کہ ہمیں نا جانے کیوں خیر کی امید تھی۔ کچھ دیسی دانشور بھی حالیہ برسوں میں ’عزیمت پسند‘ ہو گئے تھے۔ ایک دانشور کہ معاصر میں جنہوں نے گزشتہ کم از کم پانچ برس جمہوریت کی عظمت، سیاسی عصبیت کی اہمیت اور باپ بیٹی کی عزیمت کی داستانیں لکھنے میں گزاریں، گزشتہ جمعرات اپنا دل انہوں نے اپنے کالم میں کھول کر رکھ دیا ہے۔ صرف انہی کی نہیں، اس پورے قبیلے کی یہی اصلیت ہے۔

اندازہ یہی ہے کہ ہر دن کے ساتھ بڑھتی مقبولیت نے ہی معاملات بگاڑے ہیں۔ ایک ہوا کے گھوڑے سے اترنے کو تیار نہیں تو دوسری طرف خدشات کا انبار ہے، اور بیچ میں عضو معطل کی طرح پڑی اقلیتی حکومت۔ میڈیا کو لگام دینا تو ہرگز مشکل نہیں، سوشل میڈیا نے اعصاب کو مگر ضرور شل کر دیا ہو گا! بار دگر ضمنی انتخابات کے حیران کن نتائج نے بھی رگوں میں سنسنی بھر دی ہو گی۔ کاش عمران خان یہیں پر تھوڑا سارک جاتے۔ جنگوں میں ’وقت‘ ہی فیصلہ کن عنصر ہے۔

بر وقت چال یا پھر کچھ پسپائی اور مناسب گھڑی کا انتظار۔ یہی کلیدی فیصلے ہوتے ہیں۔ لیکن کیا خبر وقت کی کمی کا احساس ہی خان صاحب کو بے چین رکھتا ہو۔ کیا یہ شکوہ درست ہے کہ انہیں دیوار کے ساتھ لگایا جا رہا ہے؟ ان کے مخالفین کو غیر معمولی رعایتیں جبکہ خود ان کے سر پر نا اہلی کی لٹکتی تلوار، ستائیس ایف آئی آرز، دہشت گردی کے مقدمات اور گرفتاری کی دھمکیاں۔ حامی میڈیا پر پابندیاں اور ان کے حق میں بولنے والے صحافیوں کی مار پیٹ۔

ان کی حمایت پر تلے شہریوں کے ساتھ تضحیک آمیز سختیاں تو قریبی ساتھیوں پر عقوبت خانوں میں مبینہ غیر انسانی سلوک۔ میڈیا پر ان کی تقریروں کو نشر کرنے پر تو قدغن، جبکہ اداروں کو مطلوب افراد کے لئے کھلی چھٹی۔ کونے میں گھیری جانے والی تو بلی بھی پلٹ کر نرخرے کو پڑتی ہے۔ کیا خان صاحب کو باپ بیٹی سے بھی گیا گزرا سمجھا گیا؟

’حق‘ یا کہ ’فتنہ،‘ خان کا بیانیہ دلوں میں اتر چکا ہے۔ مقابلے میں حکومت ہاتھ پاؤں مار رہی ہے۔ فرح گوگی، ہیرے جواہرات، ممنوعہ فنڈنگ، آڈیو لیکس اور اب گھڑیاں! بے چارے اداروں کی حرمت کا راگ الاپنا شروع کرتے ہیں تو لوگ پرانی ویڈیوز نکال لاتے۔ اپریل میں جو معیشت مصدقہ اور معتبر ذرائع کے مطابق چھ فیصد سے زائد شرع نمو پر کھڑی تھی، آج پڑی سسکیاں لے رہی ہے۔ عدم اعتماد کی تحریک آئی تو زر مبادلہ کے ذخائر 18 بلین پر کھڑے تھے۔

اب خطرناک ہی نہیں شرمناک سطح پر ہیں۔ افغانیوں کے ڈالرز جو مغربی بنکوں میں منجمد پڑے ہیں، ہمارے زر مبادلہ کے کل قومی ذخائر سے زیادہ ہیں۔ حالت یہ ہے کہ 1.5 بلین ڈالر کے قرض کا اعلان ہوا تو ڈھول کی تھاپ پر بھنگڑے ڈالے گئے۔ مہنگائی کا زور ناقابل بیان ہے۔ اندازہ مگر یہی ہے کہ ارشد شریف کا قتل اونٹ کی کمر پر آخری تنکا ثابت ہوا ہے۔ مقتول نے جب ملک چھوڑا تو 16 مقدمات ان پر درج تھے۔ خود اپنا ٹی وی چینل ان کا بوجھ اٹھانے کو تیار نہیں تھا۔

نتیجے میں تمام انگلیاں ایک ہی طرف اٹھنے لگیں۔ عالمی میڈیا ہی نہیں، مقامی انگریزی اخبار بھی یہی لکھنے لگا۔ ہمارے وزیر داخلہ نے مگر پوچھا کہ مقدمات تو سب پر درج ہوتے ہیں، ارشد کو کس نے کہا تھا کہ ملک چھوڑ دے! یہ محض سیاست ہے یا صریحاً سنگدلی؟ عوامی رد عمل مگر خوفناک تھا۔ شہید کے جنازے میں ہزاروں شہری آن شامل ہوئے۔ اب اس سے زیادہ غیر مقبول اور اقلیتی حکومت کا قیام کیا کسی جمہوری ریاست کے اندر ممکن ہے؟ غیر مقبولیت کا بوجھ کسی کے کاندھوں پر تو پڑھنا ہی تھا۔ صاف نظر آنے لگا کہ کاندھے چٹخنے لگے ہیں۔

’یو پٹ آن لاٹ آف براس آن یور شولڈرز‘ ۔ برسوں پہلے ازکار رفتہ سپاہی کے سامنے یہ جملہ بولا گیا تھا۔ دماغ سے چپک کر رہ گیا۔ ایک لحاظ سے یہ درست ہی تو ہے۔ کاندھوں پر ’براس‘ جس قدر زیادہ ہو طاقت ہی نہیں، ذمہ داری اس سے بڑھ کر لاتی ہے۔ دل و دماغ کو تو کہیں وسیع تر ہونا چاہیے۔ سیاسی رہنماء تو جو جی میں آئے بولتے ہیں، اگلے روز مکر جانتے ہیں۔ لاہور کے اندر کانفرنس میں ہم نے کیا کچھ نہیں سنا۔ ہر سال سنتے ہیں۔

بڑے لوگ مگر اپنے پروں کو گیلا نہیں ہونے دیتے۔ ذمہ دار ریاستی عہدیداروں کا لب و لہجہ اور الفاظ کا چناؤ مگر سیاسی لیڈروں سے مختلف ہونا چاہیے۔ کیا مارچ سے ایک رات پہلے واوڈا کا لانچ کیا جانا درست تھا؟ کیا ’غیر معمولی پریس کانفرنس‘ ہونی چاہیے تھی؟ کیا لب و لہجہ مناسب تھا؟ ان اور ان جیسے دیگر سوالوں کے جوابات افسردہ کر دینے والے ہیں۔ ’فتنہ‘ ، ’فراوانی سے جھوٹ‘ ، ’معیشت نہیں حزب اختلاف‘ وغیرہ وغیرہ، یہ الفاظ ہم ہر روز سنتے رہے، سنتے رہیں گے۔ آپ کے مگر شایان شان نہیں۔ حکومت اب خوشی کے شادیانے بجا رہی ہے۔ ہمارا تو خیال یہی ہے کہ یہ خوشی وقتی ہے۔ اتنا خوش نہیں ہو نا چاہیے کہ کل ’گیئر‘ بدلنے میں دشواری ہو۔ یہ تو ہم جانتے ہیں کہ آج نہیں تو کل، ’گیئر‘ آپ ضرور بدلیں گے۔

’غیر معمولی پریس کانفرنس‘ کے بعد اب ایک طرف قومی ادارے کی لیڈر شپ تو دوسری جانب ملک کی سب سے مقبول سیاسی جماعت کی قیادت کھڑی نظر آتی ہے۔ صورت حال بے حد تکلیف دہ ہے۔ خان صاحب نے اس پریس کانفرنس کے بعد جس طرح اب اپنے ’گھوڑوں‘ کو لگام دی ہے، کاش اس سے پہلے بھی اسی تدبر کا مظاہرہ کرتے۔ تاہم جس گڑھے میں ہم جا گرے ہیں، اس سے باہر آنے کا ایک ہی حل ہے۔ ایک دوسرے کو با عزت اور محفوظ راستہ دیا جائے۔ اسی پریس کانفرنس میں سانحہ مشرقی پاکستان کا بھی حوالہ دیا گیا جو ہر گز بر محل نہیں تھا۔

تاریخ سے واجبی واقفیت رکھنے والا شخص بھی یہ جانتا ہے۔ جو ہوا سو ہوا۔ اب جماعتوں کو توڑنے یا ان کے قائدین کو میدان سے باہر دھکیلے جانے کی روایات سے ہی نہیں، تاثر سے بھی نجات پانی ہوگی۔ تبھی کہا جا سکے گا کہ ہم نے ماضی سے سبق سیکھ لیا ہے۔ خان صاحب اگر مخالفین سے براہ راست گفتگو پر آمادہ نہیں توبھی ابتدائی طور پر طاقتور مذاکراتی ٹیمیں تشکیل دی جائیں۔ مذاکرات دن کی روشنی میں کیے جائیں۔ کڑا وقت ہے۔ الیکشن کمیشن کی تشکیل نو سمیت آزادانہ اور منصفانہ انتخابات کی تاریخ کے اعلان کے سوا اب دوسرا کوئی حل موجود نہیں۔ یہ ’سازشی‘ نہیں، ایک جمہوری مطالبہ ہے۔ لانگ مارچ شروع ہو چکا۔ اندریں حالات اسے روکنا کیا اب خود اکیلے عمران خان کے بس میں ہے بھی یا کہ نہیں؟ خدا کے لئے لانگ مارچ کو ’گوجرانوالہ‘ میں ہی روک لیجیے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments