تم چلے آؤ پہاڑوں کی قسم (حصہ اول)۔


حرکت انسانی فطرت اور زندگی کا استعارہ ہے جبکہ جمود تعفن پیدا کرتا ہے۔ حرکت انسانی نشوونما کا اہم ترین جزو ہے جبکہ جمود بڑھوتری رک جانے کا نام ہے۔ حرکت کا ایک بہترین ذریعہ سفر ہے۔ قدرت کے بچھائے خوبصورت کینوس پر دل نشیں رنگوں سے تصویر بنانے کے لیے جو مہارت درکار ہے وہ سفر کے ذریعے حاصل ہوتی ہے۔

خوبصورتی کا حق ہے کہ اسے سراہا جائے۔ سیر و سیاحت مناظر فطرت کے حسن کو داد تحسین پیش کرنے کا ایک ذریعہ ہونے کے ساتھ ساتھ نئی دنیاؤں کی کھوج کا وسیلہ بھی ہے۔ پاکستان ان ممالک میں شامل ہے جو قدرتی حسن سے مالامال ہیں۔ برف پوش پہاڑوں سے لے کر دلفریب ریگزاروں تک، سرسبز کھلیانوں سے لے کر وسیع و عریض جنگلات تک اور شوریدہ دریاؤں سے لے کر خاموش تاریخی مقامات تک قدرتی حسن جلوہ افروز ہے۔

پہاڑوں سے عشق عموماً انسان کی فطرت میں شامل ہوتا ہے۔ برف کی سفید چادر میں ملبوس چوٹیاں، گنگناتے ہوئے جھرنے، خوبصورت جھیلیں، آسمان سے باتیں کرتے درخت، اٹکھیلیاں کرتے پتھر، پہاڑوں کی ہتھیلیوں پر سجے چھوٹے بڑے گھر اور دامن میں پھیلے وسیع و عریض میدان کسی ساحرہ کی طرح انسان کو اپنی طرف کھینچتے ہیں۔ یہ کشش دوطرفہ ہونے کی وجہ سے ہجر کا موسم زیادہ طویل نہیں ہوتا اور وصال کی راتوں کے رنگین لمحات غم دنیا اور فکر فردا سے بے نیاز کر دیتے ہیں۔ ہجر کے دن طویل ہونے لگے تو فطری بے چینی نے گھیر لیا اور وصل کی خواہش شدید تر ہونے سے پہلے ہم نے رخت سفر باندھنا شروع کر دیا جو سفر کے لے شرط اول ہے۔ بقول احمد ندیم قاسمی

باندھ رکھا ہے میں نے ازل سے رخت سفر
کھول کے شہ پر فکر ابد تک اڑتا ہوں

لاہور سے اسلام آباد کا سفر غروب آفتاب کے وقت شروع ہوا اور نصف شب سے پہلے ہم شہر اقتدار میں پہنچ گئے جہاں رات گزارنے کے لیے ایک ہوٹل کا انتخاب کیا اور دنیا و مافیا اسے بے نیاز ہو کر سو گئے۔ علی الصبح سفر کا آغاز کیا تو سورج ابھی آغوش مشرق میں کسمساتا ہوا آنکھیں کھول رہا تھا۔ رات کے کسی پہر ہوئی ہلکی بارش کے نشان ابھی تک سڑکوں پر نظر آ رہے تھے۔ سرمئی بادلوں اور نیلگوں آسمان نے مل کر شہر کو دو رنگی چادر اوڑھا دی تھی جس سے سارا ماحول ایک خوابناک سی کیفیت میں دکھائی دے رہا تھا۔

اسلام آباد پشاور موٹروے ( ایم۔ ون) پر براہمہ باہتر، برہان سے ہوتے ہوئے دریائے سندھ عبور کیا تو سورج کسی حد تک بادلوں کو مات دینے میں کامیاب ہو چکا تھا۔ موٹروے کے ساتھ ساتھ سرسبز کھیتوں کا وسیع سلسلہ آنکھوں کو تازگی کا احساس دلاتا ہے۔ ہمیں البتہ نیند کے خمار اور بھوک کے احساس نے تقریباً نڈھال کیا ہوا تھا اس کے باوجود ڈرائیونگ سیٹ پر نعمان بالکل چوکنے انداز میں اپنے فرائض ادا کر رہے تھے۔ ڈاکٹر مبشر اپنی بڑھتی ہوئی شیو میں انگلیاں پھیرتے ہوئے کسی گہری سوچ میں گم تھے۔ وہ پی ایچ ڈی ڈاکٹر ہیں اور تحقیقی کام زیادہ کرنے کی وجہ سے اکثر و بیشتر کچھ مسائل کی گتھیاں سلجھانے میں مصروف نظر آتے ہیں۔ دوران سفر مالی معاملات کو دیکھنا علی شاہ کی ذمہ داری ہوتی ہے جسے وہ بخوبی سرانجام دیتے ہیں۔ راقم کے ذمہ جو کام ہوتا ہے اسے آپ اس تحریر کی صورت میں پڑھ رہے ہیں۔

گاڑی موٹروے پر مقرر کی گئی حد رفتار پر رواں دواں کرنل شیر خاں انٹرچینج پر پہنچی۔ یہاں سے ہمیں اسلام آباد پشاور موٹروے (ایم۔ ون) کو خداحافظ کہہ کر سوات ایکسپریس کا رخ کرنا تھا۔ نئے راستے پر عازم سفر ہونے سے پہلے تازہ دم ہونے اور ناشتہ کرنے کی نیت سے نمکین شنواری فیملی ریسٹورنٹ پر رک گئے۔ ریسٹورنٹ ایک وسیع و عریض صحن اور اس کے تین اطراف بنے درجنوں کمروں پر مشتمل تھا۔ سامنے سڑک کے کنارے کرسیاں میز اور صحن میں چارپائیوں کی طویل قطاریں جن پر گاؤ تکیے بچھائے گئے تھے جو مسافروں کی تھکاوٹ دور کرنے میں مدد فراہم کرتے ہیں۔

سڑک کے ساتھ لگی کرسیوں پر کچھ لوگ پہلے سے براجمان ناشتے سے لطف اندوز ہو رہے تھے۔ ہم چارپائیوں پر نیم دراز ہو کر ویٹر کا انتظار کرنے لگے جو نہایت سرعت سے ہمارے پاس آ کھڑا ہوا۔ ناشتے کا آرڈر دینے کے بعد خوبصورت ماحول سے آنکھوں کو سیراب کرنے کے ساتھ ساتھ کیمروں میں بھی محفوظ کرتے رہے۔ اس دوران ناشتہ آ گیا اور ہم سب کچھ بھول کر ناشتے میں مصروف ہو گئے۔

(جاری ہے )


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments