مسیحاؤں کی اذیت


آج کا دن صبح ہی سے نحوست پھیلا چکا تھا۔ کل جس مریضہ کو ٹسٹ لکھے تھے، ان سب کے نتائج زرسانگہ کے لئے پھانسی کے احکامات سے کم نہیں تھے۔ اس کی عمر اٹھائیس سال تھی۔ تین سال کی ایک تتلی جیسی اڑنے والی بیٹی تھی اور ایک نوجوان وفادار شوہر جو میرے سامنے کرسی پر بیٹھا ہوا تھا۔ زرسانگہ کو میں نے کلینک سے باہر نشست پر بٹھایا ہوا تھا۔ اس کی چھاتی کا کینسر آدھی چھاتی تو کھا چکا تھا۔ ہاتھ شانے تک ایسا سوجا ہوا تھا کہ صرف اس کا درد ہی مارے ڈال رہا تھا۔

اس سے قبل میں نے زرسانگہ کو کینسر سپیشلسٹ کے پاس بھیجا تھا جنہوں نے اس شرط پر مزید کیمو تھراپی کی حامی بھری تھی کہ میں آپریشن کے ذریعے اس ہٹ دھرم ناسور کو اکھاڑ پھینکوں۔ یہ رپورٹ پڑھ کر میں مخمصے میں پڑ گیا۔ کینسر نے اس طرف کی ساری پسلیاں جکڑ رکھی تھیں۔ یعنی اس کا پورا کاٹنا ناممکن تھا۔ میں نے فون اٹھایا اور کینسر سپیشلسٹ سے پوچھا کہ اگر میں ساری پسلیاں بھی نکال دوں اور آپ کا کورس بھی ہو جائے تو ان کی زندگی کتنی بڑھ سکتی ہے۔ ”چھ سے نو ماہ تک“ ۔ میں خاموش ہو گیا۔

اگر میں آپریشن کر بھی دوں تو ایک دو ماہ کے اندر اندر اس نے دوبارہ عود کر آنا تھا اور ساتھ ساتھ بازو کی سوجن اور شدید ترین درد نے بھی بڑھنا تھا۔ اوپر سے کیموتھراپی کو بھی کوئی خوشگوار اثر نہیں چھوڑنا تھا۔ ہر وقت متلی اور الٹیاں، خون آمیز دست اور تمام بالوں کا جھڑ جانا بھی عام تھا۔ میرے حلق میں گولا سا پھنس گیا۔ اس دوران ان کی تین سالہ بیٹی اس قیامت سے بے خبر کلینک میں ادھر سے ادھر بھاگی پھر رہی تھی۔ میں نے لالی پاپس سے مٹھی بھری اور اسے گود میں کھینچ کر پکڑا دیں۔

ایک دو گھونٹ پانی پی کر گلہ صاف کیا۔ چونکہ شوہر کو صرف فارسی آتی تھی تو میں نے سیکریٹری کے ذریعے سے آہستہ آہستہ معاملے کی شدت سے آگاہ کرنا شروع کر دیا۔ میرے اندازے کے مطابق اگر ہم علاج چھوڑ کر صرف درد کشا ادویات سے اس کی تکلیف کم کر دیں تو شاید وہ تین ماہ نکال لے۔ لیکن مذکورہ علاج سے ان کی زندگی صرف چند ماہ تک طول کھینچ لے گی اور وہ بھی سخت تکلیف میں۔ میں ٹھہر ٹھہر کے بتا رہا تھا جبکہ شوہر کی آنکھیں بھیگ رہی تھیں۔ میں نے ٹشو پیپر بڑھا دیا تو سیکریٹری نے بھی ایک لے لیا کہ اس کی آنکھیں بھی بھر آئی تھیں۔ میری ایک ڈاکٹر کی آنکھیں بھی سرخ ہو گئیں۔

کچھ وقت کے بعد جب سب نے جذبات پر قابو پایا تو میں نے سمجھایا کہ کوئی شخص بھی نہ عمر خضر لے کے آتا ہے اور نہ کوئی ڈاکٹر کسی کی عمر بڑھا سکتا ہے۔ ہم صرف زندگی کے معیار کو اچھا کرنے میں مدد دے سکتے ہیں۔ وہ جب کلینک سے نکلے تو میں نے بھی لاؤنج میں جا کر منہ دھویا اور کچھ وقت کے لئے گم سم بیٹھ گیا۔

دو تین مریض دیکھنے کے بعد ایک داخل بچی کا والد آیا۔ یہ بچی گھر میں گیس سلنڈر پھٹ جانے سے کافی جل چکی تھی۔ اب تک باقی جسم تو مندمل ہو رہا تھا لیکن اس کی بائیں کلائی کو اتنا نقصان پہنچ چکا تھا کہ اب وہ بچانے کے قابل نہیں رہا تھا۔ بچی کے مفاد میں تھا کہ یہ ہاتھ کاٹ کے جلدی سے باقی زخموں پر سکن گرافٹ لگا لیا جائے۔ لیکن والد زاری منت کرنے لگا۔ میں نے اپنی بے بسی دکھائی لیکن اس کے دل کا غبار آنکھوں کے ذریعے نکلنے لگا اور ظاہر ہے ہم بھی دل رکھتے ہیں، ہمارے بھی بچے ہیں، ہماری آواز بھی رندھ جاتی ہے۔ میں نے تسلی کے لئے انہیں مصنوعی الیکٹرانک ہاتھوں کی ویڈیو دکھائی جو عام ہاتھوں کی طرح روزمرہ کے کام کر سکتے ہیں۔

ان دو واقعات کے علاوہ ہماری پیشہ ورانہ زندگی میں اور بھی ڈپریس کرنے والے واقعات آتے ہیں۔ کہیں بچے ناراض کہ ان کی سالگرہ میں ایمرجنسی کی وجہ سے نہ پہنچ سکے اور کبھی کسی قریبی عزیز کے جنازے میں شرکت نہ کرسکے۔ جب میرے والد آئی سی یو میں جان دے رہے تھے تو میں ایک نازک آپریشن کر رہا تھا۔ فون پر جب اطلاع ملی تب بھی خاموشی سے کہنی سے آنکھیں پونچھیں اور آپریشن مکمل کیا۔

یہ واقعات مشتے نمونہ از خروارے کی مانند ہیں۔ میڈیکل کالج میں داخل ہوتے ہی گویا بلیک ہول کے پار جانا ہے جو ایک دوسری کائنات ہے۔ تعلیم کا سلسلہ ختم ہوتا ہی نہیں۔ کتابیں ہیں کہ ان کی جلدیں تعداد اور ضخامت میں بھاری ہوتی جاتی ہیں۔ کتابوں سے نکل کر میڈیکل انٹرنیٹ پر کچھ اور ہی تیزی سے منظر بدلتا جاتا ہے۔ جب تیسرے سال میں مریضوں سے واسطہ پڑتا ہے تو زندگی کی ان تلخیوں سے آشنائی ہوجاتی ہے کہ المیہ شاعری ہی کی طرف میلان ہوجاتا ہے۔

اس دوران پروفیسروں سے لے کر زیر تربیت سپیشلسٹوں کی گھرکیاں الگ سے سننے کو ملتی ہیں۔ دراصل وہ اساتذہ اپنی بے بسی کا ملبہ ان بیچاروں پر ڈالتے ہیں۔ اور یہ سلسلہ شدت میں ایم بی بی ایس کرنے کے بعد مزید بڑھ جاتا ہے۔ آج میں اس صوبے کا سب سے سینئر پلاسٹک سرجن ہوں لیکن ہر ہفتے ایک دو کیسوں میں میری نیند، میرا آرام و سکون غارت ہوجاتا ہے۔

میں نے جو ابتدا میں اس ہفتے کی نحوست کا ذکر کیا تھا اس کا منبع میرے بیٹے کا فون تھا۔ وہ امریکہ میں سرجری کی تربیت لے رہا ہے۔ بتایا کہ ان کے میڈیکل سکول کے چوتھے سال کے طالبعلم نے چوتھی منزل سے چھلانگ لگا کر اپنی زندگی کا چراغ گل کر دیا تھا۔ عمر تو ہے ہی حساس اس معاملے میں۔ وہ مرحوم کے بارے معلومات لے رہا تھا کہ کہیں اپنے وارڈ میں تو کسی نے جھڑکا نہیں۔ میں نے انٹرنیٹ پر سرچ کیا تو بھارت اور پاکستان سے لے کر مغربی ممالک تک، میڈیکل سٹوڈنٹس اور ڈاکٹروں میں خودکشی، نشہ آور ادویات کا استعمال اور ڈپریشن بہت عام ہے۔ صرف امریکہ میں ہر سال چارسو ڈاکٹر خودکشی کر بیٹھتے ہیں۔ یوں سمجھئے کہ ان کی جگہ پر کرنے کے لئے کم از کم چار میڈیکل کالجوں کی ضرورت ہے۔

میرے پاس جب میڈیکل کے طلباء وارڈ میں آتے ہیں تو ان سے ضرور پوچھتا ہوں کہ وہ اپنی مرضی سے آئے ہیں کہ والدین کی خواہش پر ۔ آدھے سے زائد طلبہ والدین کے مجبور کرنے پر میڈیکل کالج میں داخل ہوئے ہیں۔ فسٹ ائر کے کھلتے چہرے فائنل ائر تک مرجھا جاتے ہیں۔ اور یہ بھی یاد رکھئے کہ یہ چار پانچ برس کا کھیل نہیں۔ میڈیکل کالج سے فراغت کے پینتیس سال بعد بھی مجھے پڑھنا پڑتا ہے۔ اس لئے والدین کو وارننگ بہت ضروری ہے کہ صرف پیسے کے بل بوتے پر آپ کہیں اپنے بچے کو موت کے کنویں میں تو نہیں دھکیل رہے۔

(تصویر امریکہ ہی کے ایک اور میڈیکل سکول کے طالب علم کی ہے جس نے مسیحائی کی اذیت سے موت کے دامن میں پناہ لی)


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments