زرد پھول اور نور مقدم (1)


”بیٹی سے ڈر نہیں لگتا، بیٹیاں تو بہت پیاری ہوتی ہیں، بیٹی کے نصیب سے ڈر لگتا ہے“ میری نانی اماں جو منتوں سے ہوئی، نازوں کی پلی اکلوتی اولاد تھیں، جن کو خود بھی اکلوتے میرے پرنانا نے اس دور کے رواجوں کی قطعاً پرواہ کیے بناء پالا تھا۔ وہ اٹھتے بیٹھتے یہ کہا کرتی تھیں۔

تازہ تازہ عقل کے در ایک ایک کر کے وا ہو رہے تھے اور ابھی ایک آدھ کواڑ ہی کھلا تھا تو میرے کہانی ساز دماغ نے وسوسہ ڈالا کہ میرے نانائے بابا شاید بہت ہی جلاد صفت شوہر تھے اور یہ جو کہانیاں ہمیں سنائی جاتی ہیں کہ جب اڑتالیس سال میں رخصت ہوئے تو کسی ملاقات والے نے جنازے سے اپنی گھر لوٹ کے کہا، ”آدمی تو روز مرتے ہیں، آج ایک انسان مر گیا“ ۔ یہ سب محض مرحوم کی فیس سیونگ ہے اور ہم نواسے نواسیوں پوتے پوتیوں کی بٹالین کے سامنے کہی جاتی ہیں تاکہ ہم ان کی برسی کے موقعے پر کم ادھم مچائیں اور ٹک کر کم سے کم ایک سیپارہ تو پڑھ مر لیں۔

جیسے ہمیں ذہن نشین کرایا جاتا کہ تقسیم سے پہلے ہم سا کوئی دور دور تک نہ تھا، ملکہ وکٹوریہ نہ سہی مگر انگریز ڈپٹی کمشنر ہمارے بزرگوں کی خوشامد کو ہمہ وقت تیار رہتا تھا، نانا ابن حسن کی بہادری کے دیومالائی قصے، جن میں ”جانا نانا ابن حسن کا اماوس میں باغوں کی گشت کو۔ راہ میں ملنا نخری پچھل پیری کا“ تو ہم سب کو ازبر تھا پھر بھی ہر گرمیوں کی چھٹیوں کے محمدی بستر کی جان یہی قصہ تھا۔

مگر لوٹتے ہیں، نانائے بابا کی اصل مزاج و فطرت کی جانب تو ہوا یوں کہ ایک دوپہر جب میری نانی اماں اور امی کی پھپھی، اماں سلطان اسی سنہرے ماضی کے دالانوں، مسند چوکیوں اور گھروں کو جوڑنے والے طاقوں سے ہوتی ہوئی، کسی کم نصیب دکھیاری چچیری یا ممیری بہن کی بپتا دہرانے لگیں جو ان دونوں سے آٹھ دس سال کمسن، پانچ بھائیوں کی واحد چھوٹی بہن۔ چاند کا ٹکڑا پیدا ہوئیں اور پندرہ کا سن لگتے گویا خود چودھویں کا دمکتا چاند ہو گئی تھیں۔

کیا ماں باپ کیا بھائی، ہر ایک کی آنکھ کا تارہ تھیں مگر سفاک شوہر سے پالا پڑا جو بظاہر سامنے کا پلا لڑکا تھا مگر اس نے نہ رشتے کی لاج رکھی، نہ رشتے داری کی۔ کم سن بیوی کو بیاہ کے مہینے بعد ہی ساتھ پیلی بھیت لے گیا اور پھر پانچ ماہ نہ خط نہ پتر، سسرال سے پوچھو تو یہی جواب، خیر ہو گی، میاں بہت بڑے افسر ہیں (جو کہ تھے ) تو کھڑی ڈولی پھیرے کہاں ممکن؟

ماں نے لرزتے دل کو کڑا کیا اور بے چین باپ، بھائیوں کو چپکا کر دیا کہ وہ اب اس گھر کی دھیانی ( بیٹی) نہیں رہی گھر بار والی ہو گئی ہے، نئی دلہن کو گھر اور گھر والے کو اپنا کرنے دو۔

ایک بار بڑے بھائی بنا کسی اطلاع کے پیلی بھیت پہنچ گئے۔ اسٹیشن پر عہدہ بتایا تو دنیا جھک جھک کے خاطر میں لگ گئی اور محل نما بنگلے پر پہنچا دیا۔ پھاٹک سے اندر خبر پہنچائی گئی۔ بھیا کو امید تھی کہ کہیں لاڈلی خود ہی نہ بھاگ آئے۔ بیجا بے پردگی ہو لہذا ساتھ آئے دو چار کو آداب، شکریہ کہہ کے اب اجازت کو کہا ہی تھا کہ اندر سے ایک باوردی اردلی لینے آ گیا۔

بھائی اسٹیشن سے رعب داب کا اندازہ تو کر چکے تھے مگر پھاٹک سے رہائشی تک پہنچتے بہنوئی کی حیثیت افسرانہ اور ٹھاٹ باٹ بھی دیکھ لئے۔ کوئی آٹھ دس تو مالی ہی وسیع و عریض لان میں کام کر رہے تھے۔ موٹر۔ ٹفن اور شاندار گھوڑے پر بھی نظر پڑ گئی۔ حیرت تب ہوئی جب انہیں گھر کے بجائے صاحب کے آفس کے دیوان میں بٹھایا گیا۔ پوچھنا ہی چاہ رہے تھے کہ میاں کہاں ہیں؟ کہ میاں برجس اور لانگ بوٹ میں تیار داخل ہوئے۔ مسکراتے مگر مودب، وہی انداز جس سے ہر ایک کا دل جیت لیا تھا، روایتی سلام و معانقہ ہوا یوں اچانک آمد کو باعث مسرت قرار دیا۔

بھائی نے بہانہ کیا کہ کسی کام کے سلسلے میں قریب تک آیا تھا۔ خیال ہوا کہ جب ایک اسٹیشن دور ہوں تو جاتے جاتے ایک رات تم دونوں سے ملتا جاؤں۔ بالی کہاں ہے؟

اس پر داماد میاں کا چہرے اداس ہو گیا۔ روہانسے ہو کر بولے، اندر ہیں، سبکیاں لے لے کی رو رہی ہیں۔
بھائی گھبرا کے، کیوں آخر؟
اب کوئی پیارا بن مانگی منت سا یوں آ جائے اور اس سے مل بھی نہ سکیں تو اور کیا کریں؟

مل کیوں نہیں سکتی؟ چلئے مجھے اس کے پاس لے چلئے۔ بھیا تڑپ کے اٹھ کھڑے ہوئے۔ بہنوئی نے شانے پے ہاتھ رکھا اور ٹوٹے دل سے کہنے لگے، ضرور لے جاتا اگر ڈاکٹر نے سخت مناہی نہ کی ہوتی۔

یعنی؟ بھیا مزید گھبرا گئے۔
خدا جانے کیونکر انہیں خسرہ لگی، آج تیسرا دن ہوا دانوں سے پھلی، تیز تاپ سے تپ رہی ہیں۔

بھیا ایسے بیٹھ گئے جیسے کوئی بھٹکا ہوا پیاسا دور سے کنواں دیکھ کے بھاگا آئے اور معلوم ہو کہ کنواں تو سوکھ چکا ہے۔ سر جھکا کے رو ہی پڑے۔

میاں بہت اپنائیت سے کرسی ان کے سامنے رکھ کے بیٹھ گئے۔ پریشانی نہیں، ابھی ڈاکٹر سے بات ہوئی، انہوں نے کہا کہ مسہری کے پردے ڈال کے آپ کو کمرے کے در پے بٹھا کر ملاقات ہو سکتی ہے۔

بھیا بیکل سے اٹھ کھڑے ہوئے، تو ابھی لے چلیے ۔

دونوں گھر کے اندرونی حصے میں گئے، جہاں بھیا نے دیکھا کہ رہن سہن محاورتاً نہیں اصلاً شہانہ ہے۔ ایک شاندار کمرے پر رکتے ہیں، بھیا دیکھتے ہیں کہ پکارنے کو کمرا ہے مگر کسی نواب بیگم کی قیام گاہ کا گمان ہو رہا ہے۔ کمرا نہیں مکمل سویٹ ہے۔

میاں نہایت محبت سے پکارتے ہیں، لو میں بھائی کو یہیں لے آیا۔ کہو تو دائرہ نشست ( لاونج ایریا) تک لے آؤں۔ ڈاکٹر البرٹ نے کہا ہے، وہاں تک آ سکتے ہیں۔

بہن کی گھبرائی آواز آئی، للٰہ ہرگز نہیں۔
اتنے میں بھائی نے کہا، بھنو کیسی ہو؟ سب گھر تمہیں یاد کرتا ہے۔

بہن کی پہلے تو سسکیوں کی آواز آنے لگی پھر سنبھل کے جواب آیا ”سلام بڑے بھائی، میں اچھی ہوں۔ یوں آنے نے تو آدھی بیماری دور کر دی۔ چار چھ دن رہے تو البرٹ کے مطب پے تالا پڑ جائے گا“ ساتھ ہی ہنسنے کی آواز، بھائی بھی مسکرا پڑے اور بہنوئی کو مطمئن ہو کے دیکھا۔ دو چار باتیں جو کھڑے کھڑے ہو سکتی تھیں، ہوئیں اور البرٹ کی اینگلو انڈین نرس دوا کا آئس بکس لئے نمودار ہوئی۔ میاں اسے دیکھ کر بولے۔ آئیے بڑے بھائی، ان کی دوا کا وقت ہو گیا۔

بھائی ایک رات وہاں رہے۔ دن تو بہنوئی اپنے ساتھ قریبی گاؤں لے گئے کہ بہن کو ڈاکٹر نے زیادہ سے زیادہ آرام کہہ رکھا ہے، دوسرے دوا سے غنودگی ہے، وہ سوئیں گی آپ اکیلے کیا سوچیں گے کہ پہلی بار ہمیں عزت بخشی اور بہن کی بیماری کی آڑ میں، میں نے بھی کوتاہی کی۔ قریب ہی جانا ہے ہے سہ پہر تک لوٹ آئیں گے۔

سو دن تو بہنوئی کے ساتھ بیتا اور وقت گزرنے کا پتہ بھی نہ چلا۔ بھائی نے جتنی بات کی، جتنا بہنوئی کا لوگوں سے برتاؤ دیکھا بہن کی قسمت پے ناز کرتے محمد و آل محمد کا صدقہ مانتے ہوئے اللہ کا شکر کرتے رہے۔ سہ پہر تو نہیں بس چراغ جلنے سے ذرا پہلے واپسی ہوئی۔

آ کے گرم حمام تیار پایا۔ جس کے بعد زعفران، الائچی اور کیوڑے سے معطر بادام پستے کی ہوائیوں سے بھرا گرم شیر کا پیالہ پیش ہوا۔ آتے جاڑوں کا موسم تھا۔ یہ سوچ کے لیٹے کہ ایک جھپکی لے کے بھنو کے پاس جاتا ہوں اور آنکھ کھلی تو مرغے کی بانگ پے۔ پایا کہ صبح کے چھے بج چکے۔ دس بجے کی تو ریل تھی۔ بصد ملال خود کو کوستے جیسے تیسے ساڑھے چھے دیوان خانے میں آئے۔ ناشتے کے لئے ٹیبل لگائی جا رہی تھی۔ ایک لڑکی گلدان میں پھول لگانے آئی تو اسی سے پوچھا، اندر جاگ گئے ہیں تو بتا دو کہ مہمان دیوان خانے میں بیٹھے ہیں۔

وہ سر ہلا کے چلی گئی۔ کچھ دیر میں بہنوئی ہی ذرا تھکے تھکے وہاں آئے۔ بتایا کہ رات بخار تیز ہو گیا تھا تو وہ خود جاگ کے پٹیاں رکھتے رہے۔ اب بخار مکمل اتر گیا ہے جو اچھی علامت ہے یعنی بیماری کا زور ٹوٹ گیا سمجھئے۔ دونوں ہی مطمئن ہوئے۔ پرتکلف ناشتہ گویا ہوٹل تاج کے ڈائننگ ہال میں بیٹھے ہوں۔ وہ لوٹ گئے، جاتے ہوئے بہن سے رخصت کو گئے تو اس نے ایک رومال اندر سے بھجوایا کہ یہ اماں کو دینا اور کہنا، دیکھ لو اب میری کشیدہ کاری کیسی بے نقص ہو گئی ہے۔ اسی ٹانکے پے جھڑکتی تھیں کہ اس سے اچھا تو اناڑی موچی جوتا گانٹھ لے۔ اب کہیں زرا!

بات سن کے بھائی اور میاں دونوں ہی اس معصومیت پر مسکرائے۔ میاں نے چاندی کی طشتری پر تہہ ہوا رومال اٹھا کر معائنہ کیا، تکیہ غلاف کی طرح منہ بند چوکور گہرا نیلا مخملی رومال جس کے دونوں جانب ایسے زرد گلاب کڑھے تھے جن پر اصل کا گمان ہو رہا تھا۔

یوں بہن کے ہاتھ سے کڑھا رومال لے کر بھائی مطمئن دل سے گھر کو روانہ ہوئے۔

گھر پے کسی کو خبر نہ تھی کہ وہ اپنی لاڈلی بھنو سے مل کر آئے ہیں۔ ماں کو خوش کرنے کی خاطر پہلے اجلے ہو کے سب کے ساتھ دسترخوان پے بیٹھے پھر بچے سونے اٹھ گئے، ساری بہوئیں ساس کے ساتھ پاندان سنبھال کے چق کی آڑ کیے دالان میں آ بیٹھیں اور گھر کے سب مرد بشمول ابا میاں صحنچی آ گئے تو بھائی نے اندر سے پانوں کی تھالی لانے والی ماما کو سوتی کپڑے میں لپٹا رومال دیا کہ اماں کو دو۔

بھائی اب دل ہی دل میں مسکرا رہے تھے کہ اماں رومال دیکھ کے پہچانتی ہیں یا انجان ہو کر سوال کریں گی کہ یہ رومال کہاں سے لیا؟

مگر سب کے دل دہل گئے جب ماں کی دلدوز چیخ سنائی دی ”ہائے میری نازو پلی۔ “ اور اس کے بعد ماں کے بین اور آنسو بے قابو ہو گئے۔ بہوئیں بھی گھبرا گئیں اور ہونق سی ایک دوسرے کا منہ دیکھتے ہوئی ساس کو دیکھنے لگیں جو رومال مٹھی میں دابے اسی مٹھی کو بار بار سینے پر مارتے، بین کر رہی تھیں

”آئے میاً پیاری۔ میں واری، میں صدقے اپنی مرادوں والی کے۔ آئے نقن یہ کون لایا؟ یہ رومال نہیں یہ میری موت کا پروانہ ہے۔ “

پانچوں بھائی یہ سن کے بھاگے اور بیک آواز کہا ”پردہ“ اور بدحواس سے دالان میں در آئے۔ بہوئیں ہڑابڑی سے گھونگٹ نکال کے ایک جانب ہو ہی رہی تھیں کہ بیٹوں کو دیکھ کے ماں پچھاڑیں کھانے لگیں۔

پانچوں بھائی سنبھالنے لگے اور بڑے نے گھرک کے پوچھا، ”نقن یہ سب کیا ہے؟ اماں کیوں بے حال ہیں؟“

مجرم نقن نے سب ماجرا کہہ سنایا کہ کیسے پیلی بھیت بہن سے ملنے گئے۔ سب اعلی و عالیشان پایا۔ لاڈلی نے کیا کہہ کے یہ رومال دیا۔

ماں نے آہ و زاری کے بیچ قینچی منگوائی اور دیکھتے دیکھتے رومال ایک جانب سے کاٹ ڈالا۔ تکیہ غلاف کی طرح اسے الٹا کیا تو اندر مخمل کے دونوں حصوں کے بیچ عمدہ باریک ململ کا ایک پارچہ سلا ہوا تھا جس پر کاجل سے ایک مختصر تحریر تھی۔ سب کی آنکھیں حیرت سے پھٹ گئیں۔

جاری ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments