جی ہم تو غیر سیاسی ہو چکے


<

p dir=”rtl”>

غیر سیاسی ہونے کا بٹن سات مہینے قبل دبایا جا چکا ہے۔ پچھلے چھ مہینوں میں ہونے والے ضمنی انتخابات میں دھاندلی ثابت کرنے والے کو ایک ہزار روپے نقد انعام دیا جائے گا۔ مزید ثبوت درکار ہیں تو لیجیے عدالتوں کے اندر اور باہر ہونے والے فیصلوں میں اب ہمارا کوئی ہاتھ نہیں اس لیے وہ سب کے سب انصاف پر مبنی ہیں، وزیر دفاع با اختیار ہے اور شیخ رشید کے پاس کوئی وزارت نہیں ہے۔ میرے عزیز ہم وطنو اب آپ یہ حساب کتاب لگانا نہ شروع کر دیجیے گا کہ پاکستان میں بے انصاف عدالتیں، بے اختیار وزیر دفاع اور شیخ رشید کی دھڑلے والی وزارتیں ہمارے غیر سیاسی نہ ہونے کا نتیجہ ہیں۔ ایسا سوچنا بہرحال ملک دشمنی کے زمرے میں آئے گا۔

جہاں تک بات ہے ہمارے غیر سیاسی ہونے سیاسی جماعتوں کے خوش یا غمگین ہونے کی تو وہ صورت حال پہلے جیسی ہی ہے۔ یعنی جب دور جہالت میں ہم غیر سیاسی نہیں ہوتے تھے تو بھی ایک وقت میں ایک ہی جماعت ہم سے خوش ہوتی تھی اور دوسری ہمیں خوش کرنے کی کوشش کر رہی ہوتی تھی۔ ہم بھی دونوں کے لیے دروازے کھلے رکھتے تھے اور انصاف سے انہیں مواقع مہیا کرتے تھے۔ اب بھی ایک سیاسی اتحاد ہم سے خوش ہے اور دوسرا ہمیں خوش کرنے کی کوشش میں لگا ہے۔ ہمارے دروازے اب بھی دونوں کے لیے کھلے ہیں۔

فرق یہ ہے کہ پہلے دروازے سیاسی طور پر کھلے ہوتے تھے لیکن اب صرف غیر سیاسی طور پر کھلے ہوتے ہیں۔ سیاسی اور غیر سیاسی دروازے میں وہی فرق ہے جو ایک چور وزیراعلی، ڈاکو وزیراعلی یا ایک خادم (ہمارا) وزیراعلی میں ہوتا ہے۔ ایک کے گھر میں بجلی فراہم کر دی جاتی ہے۔ دوسرے کو پھر سے وزیراعلی بنا دیا جاتا ہے اور تیسرے کو وزیراعظم بنا دیا جاتا ہے۔ نتیجہ بہرحال ایک جیسا ہی ہوتا ہے۔ ہمارے راوی کی گنگا کچھ اور میلی ہو جاتی ہے۔

کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ ہم غیر سیاسی ہو گئے ہیں اس لیے موجودہ حکومت کو گائیڈ نہیں کر سکیں گے یا ان کی نیپیاں نہیں بدلیں گے تو یہ بات درست نہیں ہے۔ ہم ففتھ جنریشن وار لڑ رہے ہیں۔ یہ ہماری پسندیدہ جنگ ہے اور ہم کئی نسلوں تک لڑنا چاہتے ہیں اس لیے جب ہم خود غیر سیاسی ہوئے تو ہم نے کچھ ضروری کاموں کو بھی غیر سیاسی قرار دے دیا ہے۔ وہ کام اب بھی ہم خود ہی انجام دیتے رہیں گے۔

مثال کے طور پر پاکستان کی خارجہ پالیسی بنانا اور چلانا ایک غیر سیاسی عمل تصور ہو گا اس لیے وہ ہماری عمل داری میں ہی رہے گا۔ انڈیا، افغانستان اور ایران کے ساتھ ساتھ امریکہ اور روس کے ساتھ تعلقات کا معاملہ خاص طور پر غیر سیاسی ہو گا اور اس سلسلے میں فیصلوں کا اختیار بھی ہمیں ہی ہو گا۔

سیاست دانوں سے ملاقاتیں کرنا اور انہیں مختلف سیاسی پارٹیوں میں برابر تعداد میں فٹ کرنا بھی غیر سیاسی عمل تصور ہو گا اس لیے ہم اسے پہلے کی طرح بخوبی انجام دیتے رہیں گے۔

ہاؤسنگ سوسائٹی بنانا اور چلانا ایک غیر سیاسی عمل اس لیے وہ جاری رہے گا۔ سڑکیں بنانا اور سامان کی ترسیل کا کام ہم جاری رکھیں گے۔ ایک تو یہ کام بالکل غیر سیاسی ہے اور دوسرا این ایل سی کے ہزاروں ٹرک فارغ کھڑے رکھنا مناسب نہیں ہو گا۔

کاروبار کرنا بہرحال ایک غیر سیاسی کام ہے اور وہ ہم اسی طرح سے نہ صرف جاری رکھیں گے بلکہ بڑھاتے بھی رہیں گے۔ جیسا کہ گاڑیوں میں پٹرول بھرنا یا ناشتے کے لیے صحت کے اصولوں کے عین مطابق سیریل بنانا کوئی سیاسی کام تو نہیں۔

سرکاری سطح پر جتنی کمپنیاں اور کارپوریشنیں ہیں وہ تو مکمل طور پر غیر سیاسی ہیں اس لیے جہاں تک ہو سکا ان کے چیف ایگزیکٹیو تو ہم ہی ہوں گے۔

نیب چیئرپرسن، ہائی کورٹس اور سپریم کورٹ کے ججز، سٹیٹ بنک کا گورنر اور الیکشن کمشنر چھان پھٹک کر لگانا ہماری ہی ذمہ داری رہے گی۔ اس لیے یہ تمام کام مکمل طور پر غیر سیاسی قرار دیے جاتے ہیں۔

ملک کے اندر امن اور تحفظ کی صورت حال کو قائم رکھنا جیسے کہ بلوچوں سے جنگ اور طالبان سے امن مذاکرات کے فیصلے بالکل غیر سیاسی ہیں اور ہم کرتے رہیں گے۔

سابقہ قبائلی علاقوں کے نوجوانوں کی جدوجہد، ملک میں اعلی تعلیم کا معیار اور علامہ اقبال کے افکار غیر سیاسی عوامل ہیں اس لیے ہمارے ماتحت ہی رہیں گے کیونکہ ہم غیر سیاسی ہو چکے ہیں۔

سلیم ملک

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سلیم ملک

سلیم ملک پاکستان میں شخصی آزادی کے راج کا خواب دیکھتا ہے۔ انوکھا لاڈلا کھیلن کو مانگے چاند۔

salim-malik has 355 posts and counting.See all posts by salim-malik

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments