مکافات عمل سے بچنا ناممکن


دنیا میں کیے جانے والے ہر عمل کا بدلہ ضرور ملتا ہے، اس کو ہم مکافات عمل کہتے ہیں۔ آپ نیکی اور اچھائی کریں گے تو بدلے میں اللہ کی طرف سے بھلائی یا اجر پا لیں گے، کسی کے ساتھ ظلم یا زیادتی کریں گے تو سزا بھی یقینی ہے۔ گناہ کی سزا اور نیکی کا بدلہ اس دنیا میں تو ملتے ہی ہیں، آخرت کے لئے بھی محفوظ رہتے ہیں۔

قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا:

تو جس نے ذرہ بھر نیکی کی ہوگی وہ اسے دیکھ لے گا۔ اور جس نے ذرہ بھر برائی کی ہوگی وہ اسے (بھی) دیکھ لے گا۔ (سورۃ الزلزال : 7,8 )

دل دکھانا، حق مارنا، دھوکہ دینا، ظلم کرنا اور بہت سارے برے کام ہم کرتے جاتے ہیں، جانتے ہوئے بھی کہ یہ دنیا دارالعمل ہے اور کوئی عمل ایسا نہیں جس کی جزا یا سزا نہ رکھی گئی ہو۔ بقول شاعر

ایک قانون مکافات عمل ہے ظالم
آج جو کرتا ہے تو سامنے کل آئے گا

بچپن میں ہم سب نے بہت ساری سبق آموز کہانیاں پڑھی بھی تھیں اور سنی بھی، جیسا کرو گے ویسا بھرو گے، جو بو گے وہی کاٹو گے، جیسی کرنی ویسی بھرنی، وغیرہ وغیرہ۔ آئیے ماضی کی ان یادوں کو تازہ کریں اور کچھ سیکھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ کہتے ہیں ایک عورت نے کسی سے انتقام لینے کے لیے اسے کھانا بھیجا جس میں زہر ملا ہوا تھا، اس شخص نے سفر پر جانا تھا اور کھانا ساتھ رکھ لیا۔ سفر میں جب بھوک لگی اور وہ کھانا کھانے بیٹھا تو اسے ایک بھوکا آدمی نظر آیا۔

اس نے وہ کھانا اسے دے دیا، بھوکے نے کھانا کھایا اور زہر کی وجہ سے مر گیا۔ بعد میں پتا چلا کہ وہ اسی عورت کا بیٹا تھا جس نے کھانا دیا تھا اور سفر کے بعد اپنی ماں کے پاس جا رہا تھا۔ اس کہانی میں دو نصیحتیں بیک وقت موجود ہیں، برائی کی سزا اور نیکی کا اجر، جس عورت نے کسی کے ساتھ برا کیا تو نقصان اس کا اپنا ہو گیا اور مسافر نے نیکی کرتے ہوئے بھوکے کا پیٹ بھرنے کا سوچا تو اس کی اپنی جان بچ گئی۔

ایک اور سبق آموز کہانی جو ہم نے سن رکھی ہے، اس کا خلاصہ پیش خدمت ہے۔ ایک بچہ پھٹے پرانے کمبل کو سردی جانے پر سنبھال رہا تھا جو اس کا والد اس کے دادا کو سردیاں آنے پر دیتا تھا۔ باپ نے وجہ پوچھی تو بیٹے نے معصومیت سے بتایا، ”ابو، جب آپ نے بوڑھا ہونا ہے، تو آپ کو دوں گا“ ۔

اب ایک سچا واقعہ سناتا ہوں۔ ایک محکمے میں ملازمت کرنے والا ساٹھ سال کے لگ بھگ شخص جو نماز کا بھی پابند تھا، اپنے دفتر کی ایک نوجوان اور غیر شادی شدہ خاتون میں بہت دلچسپی لینے لگ گیا تھا، ساتھیوں نے سمجھانے کی کوشش کی، لیکن نہیں مانا، ایک دوست کے استفسار پر عجیب وجہ بتائی، کہنے لگا بیوی کا مکافات عمل ہے، دوست نے کہا بھابھی تو بہت شریف خاتون ہیں پھر مکافات عمل کیسا، کچھ توقف کے بعد بولا کہ شادی شدہ ہو کر بھی زندگی ویران ہے اور ہر وقت ان چاہا احساس رہتا ہے، بیوی گھر کے کام، بچوں کی مصروفیات اور میکے سے رابطوں سے فراغت کے بعد بھی نظر انداز کرتی ہے اور موبائل فون کے ساتھ وقت گزارتی ہے۔ اس لئے چاہے جانے اور قربت کی نا آسودہ خواہش لئے وہ شخص دائیں بائیں منہ مارنے میں مصروف تھا۔

حقوق کی بہت ساری اقسام ہیں اور کسی کا کوئی بھی حق مارنا مکافات عمل کو دعوت دینا ہے۔ اس گناہ میں بیوی بھی حصہ دار تھی۔ میں نے کچھ عرصہ پہلے ایک مضمون شادی شدہ کنواروں کے متعلق لکھا تھا اور خواتین سے اظہار ہمدردی کیا تھا۔ یہ کہانی تصویر کا دوسرا رخ ہے۔

موضوع کی مناسبت سے مجھے نظیر اکبر آبادی کی نظم یاد آ رہی ہے جس کے کچھ اشعار پیش خدمت ہیں
نقصان کرے نقصان ملے احسان کرے احسان ملے
جو جیسا جس کے ساتھ کرے پھر ویسا اس کو آن ملے
کچھ دیر نہیں اندھیر نہیں انصاف اور عدل پرستی ہے
اس ہاتھ کرو اس ہاتھ ملے یاں سودا دست بہ دستی ہے

ایک واقعہ پچیس جون دو ہزار سترہ کو اتوار کی صبح بہاولپور کے ضلع میں احمد پور شرقیہ کے قریب پیش آیا تھا جب کراچی سے لاہور جانے والا آئل ٹینکر اچانک الٹ گیا تھا، اس میں سے تیل بہنے لگا جسے جمع کرنے کے لیے قریبی آبادی کے لوگ بڑی تعداد میں پہنچے، اسی دوران ٹینکر میں زوردار دھماکا ہوا اور آگ بھڑک اٹھی۔ تمام اخبارات نے یہ خبر شائع کی تھی اور اس حادثہ میں تقریباً ڈیڑھ سو جانیں گئیں اور زخمیوں کی تعداد اس سے بھی زیادہ تھی۔ ہم سب کو اس حادثہ پر رنج ہوا اور متاثرین کے ساتھ ہمدردی بھی ہے۔ لیکن ایک سوال ہے، کتنے لوگوں کو اس واقعے سے سبق حاصل ہوا یا یہ یقین ہوا کہ کوئی برا عمل ایسا نہیں جس کی سزا نہ ہو اور کبھی کبھی برائی اور سزا کے وقت میں فاصلہ زیادہ نہیں ہوتا ہے۔ حلال اور حرام میں تمیز کرنا سیکھیں۔

جزا اور سزا کے علاوہ اللہ کی طرف سے امتحان بھی ایک حقیقت ہے، یہ الگ بات ہے ہم گناہ گار اپنے مکافات عمل اور سزاؤں کو قفل لگے دل اور دماغ کی وجہ سے آزمائش کہہ کر جان چھڑا لیتے ہیں۔ بہت دفعہ ہم نے ظالموں کو بہترین زندگی گزارتے دیکھا ہے اور مظلوم کی زندگی ظلم سہتے ہوئے گزر رہی ہوتی ہے۔

کچھ سمجھ میں نہیں آتا یہ مکافات عمل
کاٹتے کیوں نہیں جو آپ نے بوئے ہوئے ہیں

یہ ظالم کے لئے وہ عارضی عیش ہے جو اس کی رسی دراز کر کے اللہ توبہ اور تلافی کا موقع دے رہا ہوتا ہے اور مظلوم کی مظلومیت آئندہ کی بہترین زندگی کی بشارت ہوتی ہے۔ اس لئے یہ سمجھنا ضروری ہے کہ دیر یا جلد، سزا اور جزا یقینی ہیں۔

حاصل کو رلانا اور لا حاصل کو رونا ہمارے معاشرے میں بہت عام سی بات ہے۔ دل دکھانا گناہ کبیرہ ہے، آج کوئی کسی کا دل دکھائے اور اس کا اپنا دل نہ دکھے یہ ممکن نہیں، بعض دفعہ سزا خود کو براہ راست نہ بھی ملے تو اولاد کی تکلیف کی صورت میں مل جاتی ہے اور اولاد کی تکلیف سے بڑی سزا کیا ہو سکتی ہے۔ میں اکثر کہتا ہوں کہ ایک بیٹی کو جب اس کے سسرال میں تکلیف دی جاتی ہے تو اس کی سزا ظالم کے آگے اس کی اپنی بیٹی کی مشکلات کی شکل میں یا کسی اور قریبی رشتے کی تکلیف کی صورت میں سامنے ضرور آتی ہے، اب اس کو آزمائش کہہ کر خود کو دھوکا دے لیں یا سزا کو جان کر توبہ کر لیں، فیصلہ آپ کا ہے۔

عمل کا رد عمل وقت کا جواب ہوں میں
قبول کیجئے قدرت کا انتخاب ہوں میں


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments