درد کی کوکھ سے


(1)
خضر ایک نہایت ہی خوش مزاج انسان تھا۔
جو بھی اس سے ملتا وہ اسے ہنستا ’کھیلتا‘ مسکراتا ’گاتا‘ زندگی سے اٹکھیلیاں کرتے پاتا۔
اس کا فلسفہ تھا کہ ہمیں زندگی صرف ایک دفعہ ملتی ہے ہمیں اس سے پوری طرح محظوظ ہونا چاہیے۔
دوست اسے اپنی محفلوں میں بلاتے تو اس کی بزلہ سنجی اور رگ ظرافت محفل کو گلزار بنا دیتی۔

ایک محفل میں ایک عیسائی نے اس سے پوچھا
ARE YOU A MUSLIM?
تو خضر نے جواب دیا
I AM AN OUTSTANDING MUSLIM
WHEN OTHERS GO INSIDE THE MOSQUE I STAND OUTSIDE
SO I AM AN OUTSTANDING MUSLIM
اگر اسے کسی مشاعرے میں بلایا جاتا تو وہ کوئی مزاحیہ غزل لے کے پہنچ جاتا۔
۔ ۔ ۔ ۔

(2)
اور پھر اس نے محفلوں میں جانا بند کر دیا۔
وہ اپنے ہی گھر میں نظر بند ہو گیا۔

دوستوں نے تحقیق کی تو پتہ چلا کہ اس کے جوان بیٹے کا ہائے وے پر ایکسیڈنٹ ہوا تھا اور اس کا موٹر سائیکل کسی ٹرک سے ٹکرا گیا تھا۔

خضر ہسپتال پہنچا تو اس کا جوان بیٹا جمال بستر پر بیہوش پڑا تھا۔
خضر کئی دن اور کئی راتیں بیٹے کے سرہانے بیٹھا رہا۔

اس نے کتنا انتظار کیا تو بیٹا آنکھیں کھولے اور وہ اسے بتا سکے کہ وہ اس سے کتنا پیار کرتا ہے کتنی محبت کرتا ہے۔
لیکن بیٹے نے آنکھیں نہ کھولیں بلکہ ہمیشہ کے لیے آنکھیں بند کر لیں۔
۔ ۔

(3)
اس واقعے ’اس حادثے‘ اس سانحے کے بعد خضر کو چپ لگ گئی۔
دوستوں نے بہت کوشش کی کہ وہ مسکرائے ’ہنسے‘ قہقہے لگائے لیکن انہیں کامیابی نہ ہوئی۔ انہیں یوں محسوس ہوا جیسے وہ کسی چپ کے جنگل میں کھو گیا ہو۔

اسی طرح تین سال گزر گئے۔
۔ ۔

(4)
آخر ایک رات اسے ایک خواب نظر آیا
وہ خواب میں کسی ویران اور سنسان راستے پر اکیلے چلے جا رہا تھا
وہ راستہ جہاں ختم ہوا وہاں ایک جنگل تھا پراسرار جنگل
اس جنگل میں خاموشی بھی تھی تنہائی بھی
خضر نے سن رکھا تھا کہ خاموشی تنہائی اور دانائی پرانی سہیلیاں ہیں

وہ دانائی کی تلاش میں تھا
جنگل میں اسے ایک بابا جی ملے
خضر نے بابا جی سے مدد چاہی تو
وہ بڑی شفقت سے مسکرائے اور اسے ایک مصرعہ سنایا
۔ جہاں سے شاخ ٹوٹی ہے وہیں سے شاخ پھوٹی ہے
اس کے بعد بابا جی غائب ہو گئے اور وہ جاگ گیا

خضر اس مصرعے کو کئی دن تک گنگناتا رہا اور پھر اس کے جی میں نجانے کیا آئی کہ وہ اسی ہسپتال چلا گیا جہاں اس کا بیٹا فوت ہوا تھا اور اس نے اسی ہسپتال میں ایک والنٹیر کی خدمات پیش کرنی شروع کر دیں۔

اگر کسی مریض کے پاس کوئی رشتہ دار نہ ہوتا تو وہ اس کا تیماردار بن جاتا اور رات بھر اس کا خیال رکھتا۔

چند ہفتوں کی خدمت کے بعد ایک شام ایک نوجوان کمال آیا جس کا ایکسیڈنٹ ہوا تھا اور وہ بے ہوش تھا۔
خضر ساری رات اس کے سرہانے بیٹھا رہا۔

صبح جب کمال نے آنکھ کھولی تو اسے نرس نے بتایا کہ ایک اجنبی بابا ساری رات اس کے سرہانے بیٹھا رہا۔ اسے پنکھا جھلتا رہا۔

کمال نے بابا جی کو بتایا کہ اس کا باپ فوت ہو چکا ہے
اور بابا جی نے اسے بتایا کہ میرا بیٹا جمال بھی فوت ہو چکا ہے۔
بابا جی ہر روز ہسپتال جاتے اور کمال کی بڑی اپنائیت اور محبت سے خدمت کرتے۔

جس دن کمال صحتمند ہو کر گھر جا رہا تھا اس دن اس نے خضر کو گلے لگا کر کہا ’بابا جی اب آپ ہی میرے والد ہیں‘

’اور تم ہی اب میرے بیٹے ہو‘ ۔ بابا جی نے جواب دیا
۔ ۔

(5)
اس واقعے کے بعد خضر کے دوستوں کو خوش گوار حیرت ہوئی کہ خضر نے دوبارہ لکھنا شروع کر دیا۔
لیکن اس مرتبہ اس نے شعر نہیں لکھے نثر لکھی
اور اس نثر میں
گہرائی بھی تھی گیرائی بھی
سادگی بھی تھی دانائی بھی

ایک سال بعد خضر نے ایک ناول مکمل کیا جسے اس سال کے بہترین ناول کا انعام ملا۔
اس کے مداحین اور ناقدین متفق تھے کہ وہ ناول ادب عالیہ کا حصہ ہے۔

خضر ناول کا انعام لینے تو نہ جا سکا لیکن اس نے اپنی ڈائری کا ایک ورق تقریب کا انعقاد کرنے والوں کے لیے بھیج دیا جس کا عنوان تھا

درد کی کوکھ سے
جب کوئی درد ’کوئی کرب ایک حد سے تجاوز کر جائے تو وہ انسانی شخصیت کو متاثر کرنے لگتا ہے۔
اگر شخصیت کمزور ہو تو اس میں شکست و ریخت پیدا ہوتی ہے اور انسان ٹوٹ کر بکھر جاتا ہے۔

اگر شخصیت مضبوط ہو تو وہ اس درد اس کرب کو جذب کرتی ہے ’اسے سہتی ہے‘ اسے برداشت کرتی ہے اور جب اس بحران سے نکلتی ہے تو اس میں مزید توانائی اور دانائی پیدا ہوتی ہے اور وہ آئندہ کی آزمائشوں کے لیے تیار ہو جاتی ہے۔

اگر وہ انسان ایک ادیب یا شاعر ’فنکار یا دانشور ہے تو اس درد اس کرب کا ایک فائدہ یہ بھی ہوتا کہ اس فنکار کے فن میں ایک سوز اور ایک گداز کا اضافہ ہوتا ہے جو اس بحران سے پہلے موجود نہ تھا۔ وہ اس بحران کا تحفہ ہوتا ہے جو وہ جاتے ہوئے فنکار کو دے جاتا ہے۔

وہ سوز ’وہ گداز درد کی کوکھ سے جنم لیتا ہے اور فنکار کی شخصیت اور اس کے فن میں چاروں طرف پھیل جاتا ہے۔
یہی تجربہ ’یہی بحران اور یہی سوز و گداز لکھاری سے ادب عالیہ اور فنکار سے فن کے شہ پارے تخلیق کرواتا ہے۔

۔ ۔

ڈاکٹر خالد سہیل

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

ڈاکٹر خالد سہیل

ڈاکٹر خالد سہیل ایک ماہر نفسیات ہیں۔ وہ کینیڈا میں مقیم ہیں۔ ان کے مضمون میں کسی مریض کا کیس بیان کرنے سے پہلے نام تبدیل کیا جاتا ہے، اور مریض سے تحریری اجازت لی جاتی ہے۔

dr-khalid-sohail has 683 posts and counting.See all posts by dr-khalid-sohail

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments