جمشید ایک نالائق استاد کیسے بنا؟


جمشید نے نئی نئی یونیورسٹی میں نوکری شروع کی تھی اس کے عزائم بہت بلند تھے وہ باہر سے پی ایچ ڈی کر کے آیا تھا اور اس کی خواہش تھی کہ وہ اپنے علم کے ذریعے اپنے طالب علموں میں تنقیدی سوچ، سوال کرنے کی جرات اور سوچنا کیسے ہے سکھائے۔ اس نے اپنے کورس کے ذریعے یہ باتیں سکھانے کا کام شروع کیا تو اس کو اندازہ ہوا یہ کام اتنا آسان نہیں کیونکہ ہر دوسرا طالب علم اس کے لیکچر کو سننے اور سمجھنے کی بجائے اس سے نوٹس کا تقاضا کرتا دکھائی دیتا تھا۔

جبکہ اس کا جواب یہی ہوتا بیٹا نوٹس تو آپ نے خود بنانے ہیں میرا کام آپ کو کتابوں کے بارے اور مختلف ویب سائٹس کے بارے میں بتانا ہے اور موضوع کے بارے میں سمجھانا ہے جو میں نے اچھے طریقے سے کرا دیا ہے۔ اب آپ خود بھی محنت کریں۔ جمشید کے اس طریقہ سے پڑھانے کی وجہ سے اس کی شکایتیں چیئرمین شعبہ تک پہنچ رہیں تھیں اور جمشید پر یہ بھی الزام لگ رہا تھا کہ وہ طالب علموں کو پڑھاتا نہیں ہے بلکہ ریاست کے خلاف اکساتا ہے اور بچوں کو خراب کر رہا ہے۔

جمشید نے اپنے کورس میں آدھی کلاس کو فیل بھی کر دیا تھا جس پر چیئرمین صاحب اور دوسرے اساتذہ بڑے پریشان تھے اور وی سی صاحب نے اس امر کی تحقیق کرانے کا بھی کہا تھا۔ چیئرمین صاحب نے جمشید کے دوست شاہین جو کہ اس کے ساتھ ہی باہر سے پی ایچ ڈی کر کے آیا تھا کہ ذمہ یہ کام لگایا کہ وہ جمشید کو سمجھائے اور اپنی مثال دے کہ کیسے وہ آتے ہی بچوں کا مثالی استاد بن گیا ہے۔ ہر طالب علم اس سے خوش ہے اور یہی نہیں تمام استاد اور چیئرمین بھی اس کی تعریف کرتے نہیں تھکتے بلکہ چیئرمین صاحب نے وی سی صاحب کے ذریعے اس کا نام بہترین استاد کے لیے ایچ ای سی کو بھیج رکھا ہے۔

شاہین جو کہ جمشید کا دوست تو تھا لیکن وہ جانتا تھا کہ جمشید کو سمجھانا آسان نہیں کیونکہ وہ آئیڈیل بندہ ہے اور حقیقت سے دور ہے لیکن اس نے یہ سوچ کر کہ چیئرمین صاحب نے کہا ہے جمشید کو سمجھانے کا فیصلہ کیا اور اس نے سوچا کہ وہ جمشید کو وضاحت سے بتائے گا کہ ایک مثالی استاد کی کیا خوبیاں ہوتی ہیں۔ کچھ خوبیاں جو اس نے جمشید کو بتائیں آپ بھی سنیں اور ان پر عمل کر کے بہترین استاد بن جائیں۔

1۔ ہمیشہ نظام کو برا کہو لیکن یہ نہ بتاؤ کہ اس کو کیسے ٹھیک کرنا ہے۔ کیونکہ جب آپ ٹھیک کرنے کی بات کرتے ہیں تو نظام آپ کے خلاف ہو جاتا ہے اور چونکہ آپ اس نظام کا حصہ ہیں اس لیے نظام کے تابع ہیں اور نظام آپ سے طاقتور ہے اگر آپ یہ کریں گے تو نظام آپ کو باہر نکال پھینکے گا۔ آپ کو سیاستدان کی طرح سوچنا چاہیے جو نظام کو برا بھلا تو کہتے ہیں لیکن اس کو تبدیل بھی نہیں کرتے اور اس سے تمام فائدے اٹھاتے ہیں۔ جمشید مجھے دیکھو میں نے کبھی اس نظام کو ٹھیک نہیں کہا لیکن یہ نظام مجھے بہترین استاد کا خطاب دینے جا رہا ہے، یار کچھ مجھ سے سیکھو۔

2۔ میں نے سنا ہے کہ تم طالب علموں کو کمرہ جماعت میں کچھ نہیں لکھواتے بلکہ کہتے ہو کہ کاپیاں بند کر دیں اور میری باتیں اور موضوع کو سمجھنے کی کوشش کرو۔ جمشید تم امریکہ میں نہیں ہو پاکستان میں ہو یہاں کے مطابق کام کرنا سیکھو۔ تم ایسا کرو سب سے پہلے اپنے نوٹس تیار کرو تاکہ وہ نوٹس تادم مرگ تمہارے کام آئیں۔ تم چیئرمین صاحب کو ہی دیکھ لو پچھلے تیس سال سے وہی نوٹس پڑھا رہے ہیں اور کامیاب ترین استاد ہیں ماشاءاللہ۔

میں نے امریکہ سے آتے ہی پہلا کام اپنے نوٹس بنانے کا کیا تاکہ کسی کو میرے سے شکایت نہ ہو۔ اب میں اپنی ہر کلاس میں طالب علموں کو نوٹس لکھواتا رہتا ہوں۔ نوٹس لکھوانے کا فائدہ یہ ہے کہ بچوں کو لگتا ہے کہ میں بہت قابل ہوں (میری ریٹنگ چیک کرو اور اپنی دیکھو) ۔ لکھنے کا فائدہ یہ ہے کہ لکھتے ہوئے آپ کی ساری توجہ لکھنے پر ہوتی ہے سوچنے پر نہیں اس لیے سوچنے کا موقع مت دو۔ اب تم کہو گے کہ میں نے بچوں کو سوچنا سکھانا ہے، جمشید اگر ایسی بات ہے تو بیٹا امریکہ دوبارہ چلے جاؤ جہاں سوچنے والوں کی قدر ہے، یہاں ایسا نہیں ہے۔

یہاں تو جو سوچتا ہے لوگ کہتے ہیں خراب ہو گیا ہے اس لیے تمہارے متعلق والدین نے شکایت کی ہے کہ تم بچوں کو خراب کر رہے ہو۔ دیکھو میری کلاس میں اگر کوئی لکھنے سے انکار کرتا ہے تو میں اس کو فوراً دھمکی دیتا ہوں کہ نمبر میں نے دینے ہیں جو میں لکھوا رہا ہوں وہی لکھو گے تو نمبر ملیں گے ورنہ دیکھ لو۔ شاہین نے وضاحت کی اس طرح بچے نوٹس بناتے رہتے ہیں اور ان کو رٹ جاتے ہیں اس طرح وہ بہترین نمبر لے کر آتے ہیں اس میں طالب علم اور استاد دونوں کا فائدہ ہے طالب علم اچھے نمبر لیتے ہیں اور استاد بہترین کہلاتا ہے۔

اب تم دیکھو تم نے آدھی کلاس کو فیل کر دی ہے اور انکوائری کھل گئی اور میری کلاس میں کسی بچے کی جی پی اے چار سے کم نہیں اور مجھے بہترین استاد کے لیے چنا گیا ہے۔ سوچو غور کرو۔ یہاں ایک بات کا تم نے خیال رکھنا ہے کہ نوٹس کلاس کے شروع میں بچوں کو نہ دے دینا وہ فوٹو کاپی کرالیں گے پھر کلاس نہیں چل پائے گی لیکن کلاس کے اختتام پر تم ان کو کاپی کرانے کی اجازت دے سکتے ہو۔

3۔ تم کہتے ہو کلاس میں سوال جواب ہونے چاہیے اس سے طالب علم زیادہ سیکھتے ہیں بالکل درست بات ہے سوال جواب ہونے چاہیے لیکن شرط یہ ہے کہ سوال استاد کرے اور جواب طالب علم دیں۔ آخر امتحان ہم نے نہیں طالب علموں نے دینا ہے اور ایک بات ذہن میں رکھو تم وہ سوال پوچھو جس کا جواب تمہارے سامنے موجود ہو تاکہ تمہاری قابلیت کی دھاک کلاس پر بیٹھ سکے۔ میں نے سنا ہے کہ تم طالب علموں کو سوال کرنے پر اکساتے ہو بھائی یہ بات درست نہیں اور اگر تم ان کے سوالوں کے جواب دیتے رہو گے تو کورس کیسے ختم ہو گا، اس لیے سوال پوچھنا صرف اور صرف استاد کا کام ہے نہ کہ طالب علم کا۔

4۔ آخری بات یہ کہ اگر تم سے کبھی غلطی ہو جاتی ہے تو کبھی اپنی غلطی تسلیم نہ کرو اور اس کا رخ ہمیشہ طالب علم کی طرف موڑ دو اور بات اس طرح ٹال دو کہ طالب علم کو لگے یہ بات تو وہ کر رہے تھے نہ کہ تم۔ طالب علموں کو خوب نمبر دو۔ یہ نمبر کون سے ہم نے گھر لے کے جانے ہیں ان کو دے دو وہ تم سے بہت خوش رہیں گے اور دیکھنا تمہارا طوطی پوری یونیورسٹی میں بولے گا اور ہاں اگر تم ان باتوں پر عمل نہیں کر سکتے تو اپنا بندوبست کر لو کیونکہ ہمارا نظام ایسا ہی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments