ظفر علی خان اور ان کا عہد: بابائے صحافت پر ایک وقیع دستاویز


بابائے صحافت مولانا ظفر علی خان اسلامیان برصغیر کے ان عظیم المربیت راہنماؤں میں سے ہیں جن کی زندگی کا عنوان اسلام کی سربلندی بلندی اور فرنگی سامراج سے آزادی رہا وہ ہماری ملی تاریخ کی ہمہ صفت ہمہ جہد اور نابغہ روز گار شخصیت ہیں جنہیں قدرت نے گوناں گوں خوبیوں سے نوازا تھا تاریخ میں بہت کم لوگ ہوں گے جن کا نصیب اس قدر اوصاف سے بہرہ ور ہوا وہ کہ ایک شعلہ بیاں خطیب، نعز گو شاعر، قادر الکلام شاعر، بے بدل ادیب، بے خوف صحافی، بلند پایہ مترجم، عوامی اور باکردار سیاستدان، عاشق رسول، جرات و شجاعت سے مالامال اور اسلامی اقدار و شعائر کے سرفروش و پاسبان تھے، جن لوگوں نے ہماری ملی تاریخ کے اہم دور بیسویں صدی کے نصف اول کی تاریخ کا مطالعہ کیا ہے وہ ان کی خدمات اور جد و جہد سے اچھی طرح آگاہ ہیں اور بقول مولانا صلاح الدین احمد کوئی مورخ اس عہد کی تاریخ لکھتے ہوئے ان کے ذکر کے بغیر آگے نہیں بڑھ سکتا اور علامہ اقبال نے ان کے قلم کی کاٹ کو مصطفی کمال کی تلوار قرار دیا سے۔ فرنگی سامراج سے نجات آزادی وطن اور اسلام کی سربلندی ان کا مقصد حیات رہا اور وہ ان خوش قسمت افراد ملت میں سے تھے جہنوں نے 1906 میں ال انڈیا مسلم لیگ کے تاسیسی اجلاس ڈھاکہ میں ایک پرجوش نوجوان کی حیثیت سے پنجاب کی نمائندگی کی اور 1947 میں آزاد وطن کا سورج طلوع ہوتے اپنی زندگی میں دیکھا

ظفر علی خان اور ان کا عہد اسی عظیم شخصیت کی حیات اور عہد کی داستان ہے جسے ان کے رفیق اور پیروکار حکیم عنایت اللہ نسیم سوہدروی جو قرب مکانی و زمانی اور نظریات و جذبات کے حوالے سے بھی ان کے قریب رہے یہ کتاب اس تعلق کا شاندار مظہر ہے جو حکیم صاحب اور مولانا کے درمیان تھا مولانا کے انتقال کے بعد ان کے نام کام اور افکار کو عام کرنے میں جب ان کے خانوادہ کے افراد اس صلاحیت کے حامل نہ رہے تو حکیم صاحب مولانا کے نام اور کام کو پیش کرنے فعال رہے اور ان کی یاد میں تقریبات کا اہتمام کرتے رہے۔

انہوں نے مولانا کو بہت قریب سے دیکھا اور ان کی ہمہ جہت خدمات کا مطالعہ اور مشاہدہ کیا اس طرح یہ کتاب مولانا ظفر علی کی حیات و خدمات کے ساتھ ساتھ اس عہد کی تاریخ بھی ہے اور اس کا جیتا جاگتا مرقع بھی ہے جس میں اس عہد کی لٹک کھٹک بھی ہے اور سیاسی اویزوشوں کی کہانی بھی سیاسی و ملی تحریکوں کے ساتھ خطابت و صحافت کی معرکہ آرائیوں اور ادب و شاعری کی بزم آرائیوں کا ذکر بھی ہے اس کتاب کے 75 عنوانات یعنی ابواب ہیں شروع کے ابواب میں خاندانی پس منظر پیدائش، پیدائش، بچپن کے حالات اور تعلیم کا اور والد کی رحلت کا ذکر ہے اس کے بعد ان کے والد مولانا سراج الدین کے انتقال اور ظفر علی خان کے زمیندار کی ادارت سنبھالنے کا ذکر ہے یہی وہ فیصلہ ہے جس نے ظفر علی کو صحافت کے مجاہد کی حیثیت سے متعارف کرایا اور اس کے ساتھ ہی سیاسی سرگرمیوں میں حصہ لینا شروع کیا اور خطابت کے جوہر دکھائے اسی دور میں شاہ ہفتم ایڈورڈ کی رسم تاجپوشی، جنگ بلقان، سر مائیکل اڈوائر گورنر پنجاب سے معاملات، مسجد کانپور اور عدم تعاون و خلافت کی تحریک اور مقدمہ خضرو کا تفصیل سے ذکر ہے دو ابواب ان کی زندانی زندگی بارے ہیں ان کی زندگی کا ہر تیسرا دن جیل میں گزرا جو ایمان افروز بھی ہے اور نسل نو کے لئے بصیرت افروز بھی اور درس عبرت بھی ہے پھر انگریز سے نبرد آزمائی بھی ہے اور ہندو کی شرارتوں فتنہ انگیزیوں اور قادیانیت کی سرکوبی بھی، ٹوڈیان سرکار کی بھی بخیہ دری تو احرار کی آستین مار پالیسی کی نقاب کشائی بھی۔

الغرض یہ کتاب اس عہد کا بے لاگ تذکرہ ہے خوبی یہ ہے کہ قاری خود کو اس عہد سے گزرتا ہوا محسوس کرتا ہے کتاب میں مولانا کی زندگی کو مختلف زاویوں سے پیش کرنے اور ان کا تجزیہ کیا گیا ہے پھر زمیندار اور صاحب زمیندار نے جس طرح اسلام دشمن تحریکوں سے ٹکر لی قاری اس کو پڑھ کر عش عش کر اٹھتا ہے آگے چل کر مولانا کی دیہاتی زندگی، طرز نگارش، نعت گوئی، بدیہہ گوئی، اور شاعری پر تفصیلی لکھا گیا ہے اور ان کی ادبی حیثیت، شاعری کے علاوہ مسئلہ حجاز، قادیانیت کے خلاف جد و جہد، تحریک پاکستان میں کردار، قائد اعظم اور علامہ اقبال اور دوسرے اکابرین سے تعلقات بارے لکھا گیا ہے اور جن معاصرین نے انہیں خراج تحسین پیش کیا ان سب کو ایک باب میں پیش کیا گیا ہے اس طرح ایک باب میں ان کی تصانیف تراجم اور شعری مجموعوں کا ذکر ہے کتاب کی ایک خوبی یہ بھی ہے کہ مولانا کے کلام ایک بڑا حصہ تاریخ کے تناظر میں پیش کیا ہے اس طرح مولانا کی شاعری کو شان نزول سے سمجھا جاسکتا ہے اور ان کی شاعری مقصدیت اور اہمیت کے ساتھ سامنے آتی ہے حکیم صاحب نے اس حوالے سے بڑی عرق ریزی سے کام لیا اس کا اندازہ اس امر سے ہوتا ہے اس کتاب میں کئی نظمیں ایسی بھی ہیں جو مطبوعہ تو ہوئیں مگر خود ان کے کسی مجموعہ کلام میں نہیں ہیں

ظفر علی خان اور ان عہد مولانا کی زندگی کا احاطہ ہی نہیں کرتی بلکہ اس عہد کی مکمل تصویر ہے ڈاکٹر سید عبداللہ نے اس کتاب بارے لکھا ہے کہ حکیم صاحب نے اس کتاب کو نہ صرف اپنی معلومات تک محدود رکھا بلکہ جہاں سے قابل اعتماد مواد ملا اس کو بڑی سعی و کاوش سے جمع کر کے اسے شامل کر دیا ورنہ اس بکھرے مواد کے ضائع ہو جائے خدشہ تھا کتاب ظفریات کے موضوع پر آئندہ محققین کے لئے ماخذ کا درجہ رکھے گی اس کتاب کے مصنف نے آئند آنے والے تحقیق کے طالب علموں کو محنت سے بچا لیا ہے کتاب کا پیش لفظ نواب زادہ نصر اللہ خان نے لکھا ہے اور خوب لکھا کہ حکیم صاحب نے یہ کتاب لکھ نہ صرف حق رفاقت ادا کیا بلکہ ہمیں اپنے تابناک ماضی سے بھی روشناس کرایا ہے اور خطہ پنجاب کے رہنے والوں کو احسان فراموشی اور تحسین نا شناسی کے الزام سے بچا لیا ہے حکیم صاحب کے علی گڑھ کے رفیق محمد شریف چشتی نے ان کا خوب تعارف کرایا ہے نامور صحافی مجیب الرحمن شامی نے بجا لکھا ہے کہ یہ کتاب پاکستانی تاریخ سیاست اور صحافت کے طلبہ کے لئے ایک تحفہ ہے مولانا ظفر علی اور ان کے عہد کی جو تصویر حکیم صاحب نے کھنچی ہے وہ کوئی دوسرا کبھی نہیں کھنچ سکتا تھا کہ ان کا علم کتابی نہیں تھا ان کے ذریعے ہم مولانا اور ان کے عہد میں سانس لے سکتے اور اسے ان لفظوں میں جیتا جاگتا دیکھ سکتے ہیں جب کہ ناشر کتاب خالد محمود کا کہنا ہے کہ یہ مولانا کے بارے قیمتی خزانہ ہے اور اسے تمام لائبریریز میں ہونا چاہیے تا کہ نئی نسل اپنے اکابر سے راہنمائی لے سکے۔

یہ کتاب جو 1985 میں شائع ہوئی تھی اور عرصہ سے نایاب تھی اب اسے مولانا ظفر علی ٹرسٹ نے دوبارہ خوبصورت طباعت سے مزین کر کے شائع کیا ہے بڑی تقطیع کے 516 صفحات پر مشتمل ظفر علی ٹرسٹ 21 نون ایونیو نیو مسلم ٹاؤن لاہور فون نمب 6676584۔ 0423 سے دستیاب ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments