عمران خان اور جماعت اسلامی


عمران خان کے سیاسی محرکات کو سمجھنا اتنا آسان بھی نہیں جیسا کہ سمجھا جاتا ہے۔ ہمارے بہت سے سیاسی مفکرین ابھی تک یہ فیصلہ نہیں کر پائے کہ عمران کی سیاست کو پاپولزم کے پیمانے پہ پرکھا جائے؟ اسے ایک انقلابی کے طور جانا جائے؟ عمران خان کی سیاسی جدوجہد کو سمجھنے کے لئے، میرے خیال میں، ملک کی نظریاتی ساخت کو سمجھنا ضروری ہو گا جس کی بنیاد گزشتہ 75 سالوں میں رکھی گئی اور ہر آنے والے حکمران نے اس ساخت کو مضبوط بنایا۔

ملک کی نظریاتی ساخت کو سمجھنے کے لئے دو اداروں کی سیاسی بنت کو سمجھنا ضروری ہے۔ جماعت اسلامی جو کہ ہمارے ملک کی دائیں بازو کی مذہبی جماعت ہے۔ جماعت کا سیاسی اثر رسوخ شہری متوسط طبقے میں کافی عرصے رہا۔ اسلامی جمیعت طلباء جماعت اسلامی کا طلباء ورژن ہے۔ اسلامی جمعیت طلباء کا پچھلی چھ دہائیوں سے ہمارے ملک کے پبلک سیکٹر کے تعلیمی اداروں میں توانا تسلط رہا۔ پنجاب یونیورسٹی لاہور جو اسلامی جمعیت طلباء کا قلعہ سمجھا جاتا ہے میں ابھی تک اس کا سکہ چلتا ہے۔

دوسرا ادارہ نوائے وقت اخبار ہے۔ جواد سید، کینٹ یونیورسٹی یو کے، نے اپنے 2008 کے تحقیقی مقالے میں پاکستان کے دو اخبارات جنگ اور نوائے وقت کا تقابلی جائزہ لیا۔ جواد سید کے مطابق ”اعداد و شمار سے پتہ چلتا ہے کہ پاکستانی معاشرے میں ذیلی ثقافتوں سے متعلق مسائل کو عام طور پر نظر انداز یا کم کیا جاتا ہے۔ پاکستان کے اسلامی تشخص پر بہت زیادہ زور دیا جاتا ہے، جو مجموعی طور پر پگھلنے والے برتن کے طور پر کام کرتا ہے جس کے اندر شناخت کی دیگر شکلیں جیسا کہ نسل، نسل اور مذہبی فرقہ پوشیدہ رہتا ہے۔“

ایس ہال کا ماننا ہے کہ میڈیا کے نظریات عام طور پر معاشرتی اصولوں کو متعین کرتے ہیں میڈیا ایسا بیانیہ تشکیل دیتا ہے۔ کہ لوگ اجتماعی طور پر اس کے ”سچ“ یا ”جھوٹ“ سے آزاد ہو کر اس پہ یقین رکھتے ہیں۔ نوائے وقت کا اجرا 23 مارچ 1940 کو ہوا جس دن لاہور میں آل انڈیا مسلم لیگ کے سالانہ اجلاس میں ’قرارداد پاکستان‘ پیش کی گئی تھی۔ نوائے وقت کے سرکولیشن کے صحیح اعداد و شمار تو معلوم نہیں لیکن جواد سید کے مطابق 2008 تک خیال کیا جاتا ہے کہ اس کی روزانہ 400,000 سے زیادہ کاپیاں فروخت ہوتی تھیں۔

25 فروری 2006 میں نوائے وقت میں اداریہ چھپا جس میں برملا اظہار کیا گیا کہ مغربی سامراج نے ہمیشہ مسلمانوں کو تقسیم کرنے کی کوشش کی۔ مسلمانوں کی طاقت کو کمزور کرنے کے لئے امریکہ اور اسرائیل مذہبی، نسلی اور لسانی تقسیم کرنے جیسی سازشوں میں مصروف رہتے ہیں۔ اگر نوائے وقت کے اداریوں اور اس میں چھپنے والے مضامین کا مطالعہ کیا جائے تو پاکستان اوائل کے سالوں سے عالمی سازشوں کا شکار نظر آتا ہے۔ نوائے وقت کے مطابق پاکستان کی جغرافیائی اور نظریاتی سرحدیں خطرات میں گھری ہیں۔

ان سازشوں کو ہوا دینے والے ملک کے اندر موجود ترقی پسند طبقہ ہے۔ نوائے وقت نے ”ہم“ اور ”وہ“ میں واضح تقسیم کی۔ ذیلی ثقافتوں کو یا تو نظر انداز کیا گیا یا انہیں ملک دشمن کہا گیا۔ جماعت اسلامی جس کی بنیاد مولانا مودودی نے 1940 میں رکھی، ابتدا میں قیام پاکستان کے خلاف تھی، وقت گزرنے کے ساتھ جماعت اسلامی اپنی سیاسی حکمت عملی بدلتی گئی۔ پاکستان کے 1956 کے آئین کے مرتب کرنے میں جماعت کی بہت سی سفارشات کو تسلیم کیا گیا کیونکہ جماعت اسلامی اب طاقتور پریشر گروپ بن چکی تھی۔

جماعت اسلامی اسلام کے احیاء کی متمنی رہی اور صحیح اسلام، جیسا وہ سمجھتی تھی، کی ترویج کرنے لگی۔ ضیا الحق کے دور میں تو جماعت اسلامی نے اسلامی تشخص کی حفاظت کے لئے تعلیمی نصاب کی تدوین میں عملی حصہ لیا۔ حدود آرڈیننس کا اجراء بھی جماعت کی کوششوں سے ممکن ہوا۔ جنرل یحییٰ خان کو جماعت اسلامی کے اس وقت کے امیر جماعت میاں طفیل نے امیرالمومنین کے خطاب سے نوازا۔ مشرقی پاکستان میں جماعت اسلامی نے فوجی جنتا کا ساتھ دیا۔

جماعت اسلامی نے اپنا اثر رسوخ پاکستان کے تعلیمی اداروں کے ذریعہ ملک میں بڑھایا۔ فرنٹ لائن کے ڈیوڈ منٹرو کو انٹرویو دیتے ہوئے جماعت اسلامی کے رہنما فرید پراچہ نے کہا، ”ہمارے خیال میں تعلیم کو آئیڈیالوجی، معاشرتی اور ثقافتی اقدار سے الگ نہیں کیا جاسکتا۔ ہم سمجھتے ہیں کہ ہمارا آئین ریاست کی اس ذمہ داری کا تعین کرتا ہے کہ ریاست اسلامی نظام تعلیم کی ترویج کرے“ شباب ملی پاکستان (اردو: شباب ملی پاکستان جماعت اسلامی پاکستان کی سیاسی جماعت کا یوتھ ونگ ہے کا قیام 1994 میں ہوا یہ جماعت اسلامی نے اپنے سابقہ ​​نوجوان گروپ پاسبان سے دستبردار ہونے کے لیے تشکیل دی تھی۔ پاسبان اور پھر شباب ملی کے ذمے تھا کہ ملک میں امربالمعروف ونہی عن المنکر کو ممکن بنائے اور بے راہرو نوجوانوں کو، وہ نوجوان جو ترقی پسند خیالات رکھتے تھے، راہ راست پہ لائے۔ غرض نسیم حجازی کے ناولوں کا نوجوان ہیرو ان کا مطمح نظر تھا۔

اگر اوپر دی گئی بحث کو مد نظر رکھا جائے تو عمران خان کا سیاسی وژن شاید آپ کو مختلف نظر نہ آئے۔ عمران خان کے دور حکومت میں جو تعلیمی نصاب تشکیل دیا گیا وہ آپ کو کسی بھی صورت فرید پراچہ کے نظریہ تعلیم سے انحراف نہیں کرے گا۔ عمران خان کا ریاست مدینہ کا تصور بھی اسلام کے سنہری دور کے دنوں کا احیاء ہے۔ تحریک انصاف کا نیکی کو پھیلانا اور بدی کو روکنا جماعت اسلامی کے ”ھم“ اور وہ ”کے تصور کو مضبوط کرتا ہے۔

تحریک انصاف کی نیکی پھیلانے کا مقصد“ اصل لوگوں ”کے پیغام کو آگے بڑھانا ہے۔ تحریک انصاف سے وابستہ اصل لوگ ہیں اور جو اس سے متفق نہیں وہ بدی کا شکار ہیں۔ جماعت اسلامی کی سیاست کا تو جوہر ہی اصل لوگ رہا ہے۔ وقت پڑے تو اسٹیبلشمنٹ کے خلاف ہو جاؤ جیسا جماعت اسلامی نے ایوب خان کے خلاف تحریک چلا کے کیا اور ضرورت پڑے تو جنرل کو امیرالمومنین بنا دو جیسا جماعت نے یحییٰ خان کے دور میں کیا۔ عمران خان اس ساخت کا نمائندہ ہوتے ہوئے انقلابی بھلا کیسے ہوا؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments