جنرل ایوب خان نے شیخ رشید کو ایوان صدر سے نہیں نکالا


ہم سب میں بصیر نوید صاحب کا ایک کالم شائع ہوا ہے جس کا عنوان ہے ”جنرل ایوب خان نے شیخ رشید کو ایوان صدر سے کیوں نکالا؟ چونکہ یہ واقعہ سرے سے ہوا ہی نہیں اس لئے مجھے اس کی وضاحت کرنا پڑی۔ میں بھی ان طالبعلم رہنماؤں میں شامل تھا جن پر مشتمل ایکشن کمیٹی نے جنرل ایوب خان کے خلاف تحریک کی قیادت کی تھی۔ میں گورنمنٹ پوسٹ گریجویٹ کالج اصغر مال راولپنڈی کی سٹوڈنٹس یونین کا جنرل سیکریٹری تھا جب کہ عبد الرشید شیخ جن کو بصیر نوید صاحب“ اصلی شیخ رشید ”کا خطاب دے رکھا ہے، ہم دونوں اس ایکشن کمیٹی کے رکن تھے جس میں ہر کالج سے صدر اور سیکریٹری رکن کے طور پر شامل تھا۔

راجہ محمد انور، عبد الرشید شیخ اور حسام الحق ماشا اللہ بقید حیات ہیں ان سے اکثر و بیشتر ٹیلی فون پر رابطہ رہتا ہے۔ 70 پلس عمر ہو گئی ہے اللہ تعالی کے فضل و کرم سے میری یادداشت مضبوط ہے تاہم میں نے بصیر نوید کے کالم کے مندرجات پر ان سے تفصیل سے گفتگو کی ہے۔ کسی نے بھی شیخ رشید احمد کے دعوے کی تصدیق نہیں کی۔

میرا مقصد بصیر نوید صالح کو جھوٹا ثابت کرنا نہیں ان کے کالم کے کچھ مندرجات درست ہیں لیکن جس واقعہ کو بنیاد بنا کر “اصلی اور نقلی” شیخ رشید کی تفریق کی گئی ہے، حفیظ جالندھری مرحوم نے کیا خوب کہا ہے ؂یہ نصف صدی کا قصہ دوچار برس کی بات نہیں، میں اس بات کی وضاحت کر دوں میری شیخ رشید احمد سے نصف صدی سے زائد عرصہ پر مشتمل دوستی ہے او ر شیخ رشید احمد کی طرح دائیں بازو سے تعلق ہے

ہم دونوں کے درمیان 2003 ء سے ان کے طرز عمل کی وجہ ناراضی ہے لہذا میں ان کے بارے میں کسی تحریر میں بلاوجہ ان کی طرف داری کروں گا اور نہ ہی کسی ناراضی یا مصلحت کو پیش نظر رکھوں گا۔ زمانہ طالبعلمی میں اتفاق سے جنرل ایوب خان کے خلاف تحریک 7 نومبر 1968 کو چلی۔ آج 7 نومبر 2022 ء کو 54 سال بعد اس تحریک کے حوالے سے وضاحت کرنا پڑی

اس میں کوئی شک نہیں کہ جنرل ایوب خان کے خلاف تحریک میں عبد الرشید شیخ کا طوطی بولتا تھا لیکن دوسرے شیخ رشید احمد سمیت دوسرے طالبعلم لیڈر بھی کم نہیں تھے۔ چونکہ عبد الرشید شیخ کا تعلق گورنمنٹ پوسٹ گریجویٹ کالج اصغر مال راولپنڈی سے تھا اور یہی کالج تحریک کا مرکز بن گیا تھا کم و بیش ہر روز اسی کالج سے جلوس نکلتے تھے لہذا اس کالج کی سٹوڈنٹس یونین کے صدر کو سب پر نمایاں پوزیشن حاصل ہو گئی تھی۔

اگر جنرل ایوب خان ایوان صدر میں کسی طالبعلم کو بلاتے تو پھر عبدالرشید شیخ کو بلاتے جو اس وقت سینئر لیڈر تھے۔ ان کو تو کسی نے نہیں بلایا بلکہ ان کو ریکس ہوٹل صدر میں بلا کر کنونشن مسلم لیگ کے غنڈوں کے ہاتھوں پٹائی کرا دی گئی۔ ویسے بھی یہ تحریک کسی ایک لیڈر کے کنٹرول میں نہیں تھی۔ کوئی ایک لیڈر اپنے آپ کو حکومت کے ہاتھوں فروخت کرتا تو طالبعلم برادری اس کی تکہ بوٹی کر دیتی۔ نہ ہی جنرل ایوب خان اتنے گر گئے تھے کہ تحریک کو دبانے کے لئے طالبعلم لیڈروں کو بلواتے۔ اس وقت تحریک ان کے ہاتھ سے نکل کر ڈیمو کریٹک ایکشن کمیٹی اور عوامی لیگ کے ہاتھوں میں جا چکی تھی۔

جنرل ایوب خان ان سے مذاکرات کرنے کے لئے راولپنڈی میں“ گول میز ”سجائی جسے گول میز کانفرنس کا نام دیا گیا۔ میں شیخ رشید احمد کو پچھلے 54 سال سے جانتا ہوں۔ ہمارے درمیان بڑی گہری دوستی رہی اور پچھلے 20، 21 سال سے تعلقات کشیدہ ہیں اور ہمارے درمیان بات چیت ختم ہو گئی تاہم ان کے خاندان کے دیگر افراد کے ساتھ میرا تعلق قائم ہے میں ان کی خوشی غمی میں شریک ہوتا ہوں

میں نے شیخ رشید احمد کی پہلی کتاب“ فرزند پاکستان ”پڑھی ہے بعد ازاں انہوں نے اس کتاب کو حالات کے مطابق اپ ڈیٹ کر دیا اور اس کا نام“ لال حویلی سے اقوام متحدہ تک ”رکھ دیا۔ اگرچہ اس کتاب میں کچھ واقعات حقائق پر مبنی ہیں لیکن انہوں نے زیب داستاں کے لئے مبالغہ آرائی سے کام لیا ہے 352 صفحات پر مشتمل یہ کتاب میرے سامنے ہے۔

شیخ رشید احمد نے اپنے آپ کو“ دیو مالائی ”کردار ثابت کرنے کے لئے جی بھر کر جھوٹ لکھا ہے لیکن اس جھوٹ میں انہوں نے کہیں بھی ایوان صدر سے جنرل ایوب خان کے حکم پر نکالے جانے دعوی نہیں کیا۔ بعد ازاں انہوں نے ٹی وی انٹرویوز میں یہ دعویٰ کرنا شروع کر دیا کہ وہ اتنے بڑے لیڈر تھے کہ انہیں جنرل ایوب خان نے ایوان صدر بلوایا اور پھر نکال دیا۔ البتہ یہ بات درست ہے اس وقت سردار وکیل ایس ایس پی اور انسپکٹر زمان سے کچھ طالبعلم رہنماؤں کے روابط تھے۔ کمشنر اور ڈپٹی کمشنر کی سطح پر سٹوڈنٹس ایکشن کمیٹی کی میٹنگز ہوتی رہتی تھی۔ ایک دو بار اس وقت کے وفاقی وزیر قانون ایس ایم ظفر بھی میٹنگز اور معاہدے میں شریک ہوئے

شیخ رشید احمد نے کتاب میں حالات کے مطابق ترامیم کر لیں اس طرح جوں ہی نواز شریف کا اقتدار ختم ہوا انہوں نے اس کتاب سے نواز شریف کی تصاویر نکال دیں ان کی جگہ پرویز مشرف اور بعد ازاں عمران خان کی تصاویر نے لی۔

جہاں تک شیخ رشید احمد اور عبد الشید شیخ کا تعلق دونوں الگ الگ لیڈر تھے شیخ رشید احمد نے زوردار تقاریر کرا کے اپنا حلقہ بنا لیا تھا۔ شیخ رشید احمد نے کبھی رشید بٹ نہیں لکھا۔ چونکہ ان کے والد کا نام شیخ احمد ہے وہ لاہور کے قریب چونیاں میں ریشم کا کاروبار کرتے تھے۔ بعد ازاں شیخ رشید احمد نے بھی اس پیشے کو اپنایا اور اپنی محنت اور ذہانت سے خوب پیسہ کمایا۔ وہ آج بھی ریشم، ہلدی اور مرچ کا کاروبار کر رہے ہیں۔ کوچہ گنگا رام میں ان کا گھر ہے مکان نمبر ڈی۔268 ہے

شیخ رشید احمد میں وہیں پیدا ہوئے ان کے والدین نے اسی گھر میں اپنی زندگی گزار دی شیخ رشید احمد ایک ذہین اور چالاک لیڈر ہونے ناتے ہم سب کو پیچھے چھوڑ گئے۔ سالہا سال کا سفر دنوں میں طے کر لیا۔ ان سے حسد کرنے والے والوں نے انہیں کبھی اصلی شیخ رشید احمد تسلیم نہیں کیا اور یہ پراپیگنڈہ تواتر سے کیا جاتا رہا۔ آج 54 سال گزرنے باوجود کچھ لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ شیخ رشید احمد نے عبدالرشید شیخ کا نام چرایا ہے جب کہ دونوں رشید الگ الگ تھے، دونوں کی شناخت الگ الگ تھی۔

عبد الرشید شیخ اور شیخ رشید احمد کو جنرل یحیی کے مارشل لاء میں ایک ایک سال قید کی سزا ہوئی۔ عبد الرشید شیخ کو ڈیرہ اسماعیل خان اور شیخ رشید احمد کو ہری پور جیل بھجوا دیا گیا۔ یہ سزا کچھ دنوں بعد ختم کر دی گئی۔ میں شیخ رشید احمد سے ملاقات کے لئے ان بھائی رفیق قمر مرحوم کے ہمراہ ہری پور جیل گیا شیخ رشید احمد کی تقاریر میں گہرائی نہیں ہوتی تھی جملے بازی میں ان کا کوئی ثانی نہیں تھا وہ تقریر میں“ چوکے چھکے ”لگانا بھی جانتے تھے۔

شیخ رشید احمد نے مسلسل جدوجہد کر کے سیاست میں اپنا مقام پیدا کر لیا لیکن عبدالرشید شیخ نے پیپلز پارٹی کے قریب ہوتے بھی اس کے ٹکٹ پر صوبائی اسمبلی کا ٹکٹ لینے سے انکار کر دیا اور آزاد امیدوار کی حیثیت سے انتخاب لڑا۔ اس ہار کے بعد وہ کافی عرصہ تک سیاست سے الگ تھلگ رہے وکالت کا پیشہ اپنا لیا۔ سیاست میں نام پیدا کرنے کا وقت کھو دیا جب کہ شیخ رشید احمد نے کیرئیر کا آغاز ہی مختلف سیاسی جماعتوں سے کیا۔ کبھی ائر مارشل اصغر خان کی پیچھے بھاگتے رہے پھر اس کے بعد انہوں نے مسلم لیگ نون جوائن کرلی

بصیر نوید نے لکھا کہ 7 اکتوبر 1968 سے کراچی سے تحریک شروع ہوئی ایک تو یہ بات خلاف واقعہ ہے۔ 6 نومبر 1968 کو گورنمنٹ پولی ٹیکنک انسٹی ٹیوٹ پشاور روڈ میں احتجاج کرنے والے طلبہ پر پولیس کی گولی سے عبدالحمید شہید ہو گیا۔ اگلے روز ذوالفقار علی بھٹو نے ہماری سٹوڈنٹس یونین کے عہدیداروں سے حلف لینا تھا تحریک چلنے حلف برداری کی تقریب دھری کی دھری رہ گئی کراچی میں ممکن ہے مقامی سطح پر کچھ ہوا ہو وہ لیکن اصل تحریک راولپنڈی سے شروع ہوئی۔ راولپنڈی میں لیفٹ رائٹ کا کوئی وجود نہیں تھا بصیر نوید صاحب سے میری واقفیت نہیں ان کی تحریر پڑھ کر اندازہ لگایا جاسکتا ہے ان کا تعلق لیفٹ ہے اور دانستہ تحریک کا کریڈٹ این ایس ایف کو دینا چاہتے ہیں جس کا راولپنڈی میں وجود ہی نہیں تھا۔ اس وقت اسلامی جمعیت طلبہ، ایم ایس ایف اور پی ایس ایف تھیں۔

راولپنڈی میں تحریک نظریاتی بنیادوں پر نہیں چلی گورنمنٹ پوسٹ گریجویٹ کالج اصغر مال راولپنڈی سے جلوس چلتا اور اور مری روڈ سے ہوتا ہوا راجہ بازار میں مولانا غلام اللہ کی مسجد دار العلوم تعلیم القرآن میں ختم ہو تا۔ سینئر صحافی منو بھائی احمد حسن اور محمد الیاس تحریک میں طلبہ لیڈروں کی حوصلہ افزائی کرتے لیکن انہوں کبھی طلبہ کی تحریک کو منظم نہیں کیا۔ ان سب کا تعلق لیفٹ سے تھا۔ میں تینوں کو جانتا ہوں یہ تینوں زبردست لوگ تھے۔ لیفٹ کے لوگوں کو پروموٹ کرتے تھے

لیکن یہاں رائٹ کے اکرام الحق شیخ کا نام نہ لینا زیادتی ہو گی وہ نوائے وقت کے پولیٹیکل رپورٹر تھے۔ انہوں نے دونوں شیخوں کی حوصلہ افزائی کی عبدالرشید شیخ نے منو بھائی، احمد حسن اور محمد الیاس کے ایما پر ہی لیاقت باغ میں نوابزادہ نصر اللہ کے جلسے سے واک آؤٹ کیا تو صرف چند لوگ لوگ باہر نکلے۔ مجھے یاد ہے کہ منو بھائی نے 30 روپے دے کر لاؤڈ سپیکر کا اہتمام کیا تھا۔ لنڈی کوتل سے آنے والے طلبہ کی تلاشی لی گئی اور ان سامان ضبط ضرور ہوا لیکن لیکن ذوالفقار علی بھٹو نے ان طلبہ سے کوئی خطاب نہیں کیا۔

جہاں تک شیخ رشید احمد کا تعلق ہے ان کی سیاسی زندگی کو چار چاند لگانے میں بندہ ناچیز نے بڑی محنت کی۔ ان کی گرفتاری کے بعد ان کی خبریں اخبارات میں شائع کرانا میری ذمہ داری تھی۔ ان کی کتاب“ لال حویلی سے اقوام متحدہ تک” میں اپنی سوانح عمری بیان کرتے ہوئے جو مبالغہ آرائی کی ہے اس کا پھر کسی وقت پوسٹ مارٹم کروں گا۔ ادھار باقی ہے

جنرل ایوب خان نے شیخ رشید کو ایوان صدر سے کیوں نکالا؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments