منافق بظاہر کیوں کامیاب لگتا ہے؟


روزمرہ زندگی میں ہمارا بہت سارے منافقین سے واسطہ پڑتا ہے، یہ وہ افراد ہیں جو دنیا کے سامنے نیکی اور شرافت کے لبادے میں نظر آئیں گے اور تنہائی میں شر کے منصوبے بنائیں گے، آپ کو ایسی نصیحتیں کرتے ملیں گے جن پر خود کبھی عمل نہیں کیا ہو گا۔ ان کے دعوے جھوٹے اور بدنیتی پر مبنی ہوتے ہیں۔ انا پرستی کا منافقت سے قریبی تعلق ہے۔ اپنی غلط سوچ، ذات اور شخصیت کو اس حد تک چاہنا کہ دنیا کے سامنے اچھا نظر آنے کی اداکاری کرنی پڑے، منافقت ہے۔

کسی صورت بھی باطل کی طرف داری نہیں کرنا
منافق کی طرح ہرگز اداکاری نہیں کرنا

کچھ مہینے پہلے میرا منافقت پر ایک مختصر مضمون ’دوہرا معیار: خود احتسابی کیجئے‘ کے عنوان سے شائع ہوا تھا، آج اس دوہرے معیار یا منافقت پر تفصیل سے گفتگو کرتے ہیں۔

ایک منافق آدمی دراصل اپنی اخلاقی گراوٹ اور کمزوریوں کو چھپانے کے لئے جب الفاظ یا عمل کے ذریعے جھوٹ کا سہارا لیتا ہے تو وہ منافقت کر رہا ہوتا ہے۔

سورہ منافقون میں ناصرف منافقین کی سرزنش کی گئی ہے بلکہ ان کی پہچان بھی بتائی گئی ہے۔

جب منافق آپ کے پاس آتے ہیں تو کہنے لگتے ہیں کہ ہم گواہی دیتے ہیں کہ آپ اللہ کے بھیجے ہوئے پیغمبر ہیں۔ اللہ جانتا ہے کہ آپ اسی کے بھیجے ہوئے ہیں مگر اللہ جانتا ہے کہ منافق اپنے اظہارات میں جھوٹے ہیں (منافقون 1) ۔

دین اسلام میں تین طرح کے گروہ ہیں۔ مومن، کافر اور منافق۔ مومن وہ ہے جو دل، زبان اور عمل سے دین اسلام اور اسلامی تعلیمات کو قبول کرتا ہے، کافر ظاہری اور باطنی طور پر ان کا منکر ہوتا ہے، جبکہ منافق ظاہری طور پر تو خود کو مسلمان دکھاتا ہے لیکن دل سے اسلام اور اس کی تعلیمات کو تسلیم نہیں کرتا ہے۔ پس ایسے لوگ جن کے قول اور فعل میں تضاد ہو، منافق کہلاتے ہیں۔

ایک ایسا نام نہاد دوست یا کولیگ جو آپ کے ساتھ بیٹھ کر ہمدردی جتائے، آپ کے دکھ درد سنے، آپ کا ساتھی اور ہمدرد ہونے کے دعوے کرے اور آپ کی غیر موجودگی میں آپ کے مخالفین کے ساتھ بیٹھ کر آپ کے خلاف سازشوں میں شامل ہو جائے، منافقین کی خطرناک ترین اقسام میں سے ایک ہے۔ ایسے لوگ ہمارے آس پاس وافر تعداد میں پائے جاتے ہیں، انہیں پہچاننا اور ان سے محتاط رہنا بہت ضروری ہے۔

کتنی ہمدردی جتانے آئے ہیں
گہری خندق میں گرانے آئے ہیں

دنیاوی آنکھ سے منافقین کامیاب نظر آتے ہیں لیکن حقیقت اس کے بر عکس ہے۔ دنیا میں ان کی کامیابی اس وقت تک ہے جب تک اللہ کی پکڑ میں نہ آ جائیں اور ان کے پول نہ کھل جائیں۔ اس کے بعد ذلت اور عذاب ہے۔ وقتی کامیابی کے لئے مستقل زندگی کو برباد کرنا عقلمندی نہیں۔

آنکھوں دیکھا، کانوں سے سنا اور دل سے محسوس کیا ایک سچا واقعہ یاد آ گیا جو منافقت کی ایک گھٹیا شکل ہے۔ ہمارے معاشرے میں لالچی سسرال اور موج کے شوقین داماد بھی بہت پائے جاتے ہیں۔ ایسے افراد مظلومیت اور جھوٹ کی داستان سنا کر اور مجبوریوں کا ڈرامہ رچا کر سسرال کو کنگال کرتے ہیں۔ یہ شاطر لوگ گھر کی بہو اور بیوی کے باپ کے جذبات سے کھیلتے ہوئے بہت سوں کے حقوق پر ڈاکا ڈالتے ہیں اور بینک اکاؤنٹس تک خالی کروا دیتے ہیں۔ دعا کریں کہ اللہ ہر ماں باپ کو ایسے منافق لوگوں کے شر اور جھوٹ سے محفوظ رکھے اور ان کے اصل چہرے دکھا دے۔ نظر دوڑائیں تو آپ کو بھی ایسے بہروپیے آسانی سے مل جائیں گے، اگر نہ ملیں تو مجھ سے رابطہ کریں، ملوا دوں گا، معلومات اور عبرت کے لئے۔

بعض بچے جب غلط کام کریں اور ان کو سمجھایا جائے تو خود پر غلط ہونے کا لیبل لگنے کے خوف سے کہہ دیتے ہیں کہ فلاں بھی ایسا کرتا ہے، بچوں کے اس عمل کو اگر وقت پر اچھی تربیت کے ذریعے روک لیا جائے تو غلط راستے پر جانے سے بچایا جا سکتا ہے۔

میری طرح آپ نے بھی دفاتر میں افسران کی ہر صحیح اور غلط بات پر ہاں میں ہاں ملانے والے ماتحت دیکھے ہوں گے، ایسے خوشامدی افراد بھی منافقین کی اعلیٰ اقسام میں شمار ہوتے ہیں۔ بقول شاعر

ارے وہ ہو گا منافق تمہارا یار نہیں
ہر ایک بات پہ جو ہاں میں ہاں ملاتا ہے

سر پر ٹوپی، ہاتھ میں تسبیح اور چہرے پر داڑھی کے ساتھ سرکاری ملازمت اور پھر رشوت سے بھری جیب کے بارے میں بھی سوچئے، ایسی منافقت کا کیا کریں؟

میں ایک ذمہ دار شہری ہونے کا دعویدار ہو کر راستہ چلتے سڑک پر کچرا پھینکنے کے بعد اپنے بچوں کو صفائی پر لیکچر دیتا ہوا کیسا لگتا ہوں، غور کریں۔

ایک اعلیٰ افسر جو بے ایمان بھی ہے لیکن ایک نئے ادارے یا ڈیپارٹمنٹ کی ذمہ داریاں سنبھالنے کے بعد ملازمین کے درمیان بیٹھ کر اعلان کرتا ہے کہ بے ایمان ملازمین کو فارغ کرنے کے انتظامات مکمل ہیں۔ اب حرام سے وہ اپنا پیٹ بھرنا چاہتا ہے، ایسا پیٹ جو بھرنا کبھی نہیں، اس مقصد کے لئے اس کو اپنے اعتماد کے لوگ چاہئیں۔ کچھ اس بارے میں بھی سوچئیے کیوں کہ ایسے لوگ بھی اسی سیارے میں بستے ہیں۔ ان کی ظاہری کامیابی حقیقت میں دائمی ناکامی کی طرف پیش قدمی ہے۔

ایک تازہ ترین خبر کے مطابق لاہور سٹی ٹریفک پولیس نے سموگ کے خاتمے کے لئے عوامی رابطہ مہم شروع کی ہے جس میں شہریوں سے درخواست کی گئی ہے کہ وہ دھواں چھوڑنے والی گاڑیوں کی ویڈیوز اور تصاویر سٹی ٹریفک پولیس کے سرکاری واٹس ایپ نمبر پر بھیجیں اور سموگ کو ختم کرنے کی کوشش میں اپنا کردار ادا کریں۔ بہت اچھا فیصلہ ہے۔ ٹریفک پولیس کے ایک اعلیٰ افسر کا کہنا ہے کہ ایسی گاڑیوں کے خلاف فوری کارروائی ہو گی اور شکایت کرنے والے شہریوں کو تعریفی اسناد دی جائیں گی۔

میں سڑک پر چلتی موٹر سائیکلوں پر سوار پولیس والوں کی نمبر پلیٹوں پر ضرور نظر ڈالتا ہوں کیونکہ وہ اکثر غائب یا ٹوٹی ہوئی ہوتی ہیں، شاید وہ خود کو قانون سے بالاتر سمجھتے ہیں۔ کبھی کبھی ٹریفک وارڈنز کسی چوک پر سگنل بند ہونے پر بھی آگے نہیں آتے اور ایک کنارے کھڑے گپیں لگانے میں مصروف ہوتے ہیں غالباً اس انتظار میں کہ کوئی حادثہ یا خلاف ورزی ہو تو منظر عام پر آئیں اور اپنا کام کر سکیں۔ بعض ٹریفک پولیس والے ڈیوٹی کے دوران خوشگوار موڈ میں موبائل فون استعمال کرتے بھی دیکھے گئے ہیں۔ کبھی کبھی اعتماد کے ساتھ ٹریفک قوانین کی خلاف ورزی کرتے بھی بے شمار ٹریفک وارڈنز اور پولیس ملازمین نظر آتے ہیں۔ میرا ایک سوال ہے اگر کوئی شہری ویڈیو یا تصویر کے ذریعے پولیس کے محکمے کے ان ملازمین کی شکایت کرے تو اسے بھی اسناد سے نوازا جائے گا؟

مجھے ایک سرکاری ملازم کی یاد آ رہی ہے جس نے میرے ایک ماتحت سے ایک ہی ملاقات کے دوران دو مختلف باتیں کی تھیں جن کو جاننے کے بعد بھی مجھے حیرانی اس لئے نہیں ہوئی تھی کے یہ سب ہمارے معاشرے میں عام ہے۔ رشوت کی فرمائش کے بعد ان صاحب نے عمرے پر جانے کا منصوبہ یہ کہہ کر بتایا کہ ان کو خواب میں بلاوا آیا ہے۔ آپ بھی اپنا سر ضرور پکڑیں لیکن حیران نہ ہوں۔

منافقت سے نجات حاصل کرنے کے لئے اس کو سمجھنا اور برا جاننا ضروری ہے۔ جب تک کسی گناہ کو ہم گناہ نہیں سمجھیں گے، اسے اچھائی سمجھ کر کرتے رہیں گے۔ مذہبی تعلیمات، اخلاقیات اور اقدار سے دوری منافقت کی وجہ ہے۔ اپنی سوچ اور عمل کو بہتر کریں، قول و فعل کے تضاد کو ختم کریں اور مصنوعی خول کو اتار پھینکیں۔ جھوٹ، دھوکہ اور منافقت وقتی آرام اور کامیابی تو دے سکتے ہیں لیکن اس کے بعد نہ ختم ہونے والی رسوائی اور ناکامی ہے، اس پر جواب دہی ہونی ہے، یہاں بھی اور وہاں بھی۔

بے شک منافق دوزخ کے سب سے نچلے درجہ میں ہوں گے، اور تو ان کے لیے ہرگز کوئی مددگار نہ پائے گا۔ (سورۃ النساء 145 )


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments