’کسی کو خواب دیکھنے پر سزا نہیں دی جا سکتی‘، لاہور ہائیکورٹ کا توہینِ مذہب کے مقدمے میں فیصلہ


Court
لاہور ہائی کورٹ نے ایک شخص کے خلاف توہین مذہب کا مقدمہ خارج کرنے کا تفصیلی فیصلہ جاری کرتے ہوئے مذہبی عقائد سے متعلق جرائم کی تفتیش کے لیے چند اصول وضع کیے ہیں۔

عدالت عالیہ کے تحریری فیصلے کے مطابق توہینِ مذہب کے مقدمات میں تفتیشی افسر پہلے ملزم کے ذہنی و نفسیاتی حالت کے درست ہونے کا تعین کرے جس کے بعد کوئی بھی کارروائی شروع کی جائے۔

لاہور ہائی کورٹ کے فیصلے میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ ایسا ذہنی معذور انسان جو اپنا دفاع خود نہ کرسکتا ہو، اس کے خلاف ٹرائل نہیں کیا جا سکتا۔

یہ فیصلہ جسٹس طارق سلیم نے میانوالی میں توہینِ مذہب کے ایک مقدمے میں ایف آئی آر کو خارج کرتے ہوئے دیا۔

مقدمے کا پسِ منظر

ستمبر 2021 میں شہری نصر اللہ خان پر توہینِ مذہب کا مقدمہ اس وقت درج کیا گیا تھا جب انھوں نے علاقے کے کچھ لوگوں کے سامنے خواب میں اڑنے اور خدا کو دیکھنے کا دعویٰ کیا تھا۔

نصر اللہ کے اس بیان کے بعد ان پر میانوالی کے صدر تھانے میں شکایت کی گئی جس کے بعد ایس ایچ او نے ان پر 295 اے کے تحت توہینِ مذہب کی دفعات لگائیں۔ اور معاملہ ہائی کورٹ تک پہنچ گیا۔ اس مقدمے میں نصراللہ کے وکیل نے درخواست دائر کرتے ہوئے کہا کہ ایف آئی آر بدنیتی پر مبنی ہے۔

لاہور ہائی کورٹ میں درخواست گزار نصراللہ خان کے وکیل محمد عرفان ملک نے عدالت کو بتایا کہ تھانہ صدر کے ایس ایچ او کی ایف آئی آر جھوٹ پر مبنی اور سیاسی ہے۔

انھوں نے کہا کہ ایف آئی آر میں یہ ثابت نہیں ہوتا کہ کس بات پر توہینِ مذہب سرزد ہوئی۔ انھوں نے کہا کہ صرف ایک مخصوص الزام یہ عائد کیا گیا ہے کہ 26 ستمبر 2021 کو ملزم نصر اللہ نے اپنے علاقے میں لوگوں کو اپنے خوابوں کے بارے میں بتاتے ہوئے کہا تھا کہ انھوں نے خواب میں خدا کو دیکھا ہے۔ وکیل عرفان ملک نے کہا کہ ’ایسا بیان دینا قانوناً جرم نہیں ہے۔‘

سنیچر کے روز جسٹس طارق سلیم نے یہ مقدمہ خارج کرتے ہوئے کہا کہ اکثر اوقات دیکھا گیا ہے کہ توہینِ مذہب کے ملزمان کی ذہنی حالت صحیح نہیں ہوتی۔ انھوں نے مزید کہا کہ کسی شخص کو خواب دیکھنے اور اسے بیان کرنے پر سزا نہیں دی جاسکتی۔

police

تحریری فیصلے میں کیا اصول بیان کیے گئے؟

لاہور ہائی کورٹ کے تحریری فیصلے میں چند اصولوں کو وضاحت دیتے ہوئے کہا گیا ہے کہ ’عمومی طور پر سمجھا جاتا ہے کہ ہائی کورٹ کو ان معاملات کی تفتیش اور ٹرائل میں مداخلت نہیں کرنے چاہیے لیکن ہائی کورٹ اپنا آئینی دائرہ اختیار استعمال کرتے ہوئے ایسے مقدمات کو خارج کرسکتی ہے۔‘

عدالت عالیہ کے تحریری فیصلے میں کہا گیا کہ پاکستان کا قانون ذہنی بیماری میں مبتلا افراد کو تحفظ فراہم کرتا ہے۔ لاہور ہائی کورٹ کے تحریری فیصلے کے مطابق ضابطہ فوجداری کی دفعہ 464 کہتی ہے کہ کوئی بھی ذہنی طور پر بیمار شخص جو اپنے مقدمے میں بیان نہ دے سکے یا مدد نہ کر سکے، اس پر مقدمہ نہیں چلایا جا سکتا۔

اسی طرح تعزیراتِ پاکستان کی دفعہ 84 کے تحت بھی ایسے شخص کو قانونی طور پر مجرم نہیں قرار دیا جا سکتا جسے اس جرم کی سنگینی کا علم نہ ہو اور نہ ہی یہ پتا ہو کہ ایسا کرنا غلط یا جرم ہے۔

لاہور ہائی کورٹ کے جسٹس طارق سلیم نے کہا جب توہینِ مذہب کی شکایت کسی پولیس افسر کے پاس آئے تو اسے تمام تر تفتیش کے ساتھ اس بات کا بھی پتا لگانا چاہیے کہ آیا یہ انسان ذہنی طور پر ٹھیک ہے یا نہیں۔

اس مقدمے کے بارے میں جسٹس طارق سلیم نے کہا کہ اگر ذہنی بیمار شخص یا ان کا وکیل قانون کے مطابق تحفظ نہیں مانگ سکتے تو ٹرائل جج کو خود ان کے تحفظ کو یقینی بنانا چاہیے جبکہ انھوں نے بتایا کہ اس وقت پاکستان میں دو کروڑ 40 لاکھ افراد ذہنی بیماری میں مبتلا ہیں۔

جسٹس طارق سلیم نے کہا کہ اس فیصلے کی کاپی انسپکٹر جنرل پولیس کو بھیجی جائے تاکہ وہ ان احکامات کو بغور دیکھ کر سمجھ لیں۔

یہ بھی پڑھیے

توہینِ مذہب کے الزامات پر پاکستان سے بھاگنے پر مجبور افراد کی کہانیاں

پاکستان میں توہینِ مذہب کے قوانین ہیں کیا؟

توہین مذہب کے الزام میں ڈھائی سال قید رہنے والی خاتون کی رہائی کا حکم

گھوٹکی سندھ: توہین مذہب کے الزام میں معذور نوجوان قتل

قانونی ماہرین کی رائے

وکیل زینب ہارون اس کے بارے میں کہتی ہیں کہ ’لاہور ہائی کورٹ کی طرف سے یہ ایک اچھا اقدام ہے کہ انھوں نے ایک ایسے مقدمے میں فیصلہ سنایا ہے جس کے بارے میں بات کرنے سے بہت سے وکلا ڈرتے ہیں۔‘

انھوں نے کہا کہ یہ قوانین پہلے سے موجود ہیں، ’لیکن جہاں بات آتی ہے ذہنی طور پر بیمار افراد کی تو تحفظ دینے والے بہت کم ہوجاتے ہیں۔ اور خاص طور سے اگر مقدمہ توہینِ مذہب کا ہو۔‘

زینب نے کہا کہ ’ذہنی طور پر بیمار افراد کے تحفظ کے لیے پاکستان کے قانون میں پہلے سے شقیں موجود ہیں۔ لیکن معاملہ تب خراب ہوتا ہے جب یہ مقدمہ کسی مذہبی ایس ایچ او، وکیل یا جج کے پاس چلا جاتا ہے۔ تب اس پر بہت کم لوگ وضاحت دیتے ہیں۔ تاہم وضاحت دینا اور ایسے مقدمات کو چیلنج کرنا نہایت ہی ضروری ہے۔‘

Jail

پاکستان میں توہینِ مذہب کا قانون

مذہب سے متعلق قوانین سب سے پہلے برطانوی راج نے 1860 میں رائج کیے تھے جن کے تحت کسی بھی کمیونٹی کے مذہبی عقائد کو مجروح کرنا قانوناً جرم ہوگا۔

ان قوانین کو 1927 میں وسیع تر کیا گیا۔ برصغیر کی تقسیم کے بعد پاکستان کے حصے میں یہ قوانین آئے جن کو سابق فوجی آمر ضیا الحق کے دور میں مزید اسلامی بنایا گیا۔

سنہ 1980 سے لے کر 1986 تک توہینِ مذہب کے قوانین میں مزید ترامیم کر کے ان میں مذہبی شخصیات کے خلاف بات کرنے، قرآن کی بے حرمتی کرنے اور کسی بھی قسم کی مذہب مخالف بات کرنے کو جرم قرار دیتے ہوئے اس کے لیے سخت سزائیں متعارف کروائی گئیں۔

پاکستان کی انسانی حقوق کمیشن کے مطابق ان قوانین سے متاثر ہونے والے زیادہ تر مسلمان ہیں اور ان کے بعد احمدی کمیونٹی بھی شامل ہے۔ پاکستان میں توہینِ مذہب کے مقدمات لڑنے سے وکلا اور ملزم کے حق میں فیصلہ دینے سے جج عموماً کتراتے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32502 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments