موجودہ سیاسی گرما گرمی


موجودہ سیاسی ماحول کا تجزیہ کیا جائے تو محسوس ہوتا ہے کہ ‏عمران نیازی صاحب نے جو دنگا فساد سیاسی جنگ کے نام پہ شروع کیا تھا اس میں بری طرح ناکام ہو چکے ہیں۔ اگر اس صورت حال کا تنقیدی جائزہ لیا جائے تو معلوم ہو گا کہ ان سے پہلی غلطی اپریل میں تحریک عدم اعتماد کے آئینی طریقہ کار کو سیاسی طور پر نا سمجھ کر اور ایک کھلنڈرے اور لا ابالی پن کا مظاہرہ کرنے کے ساتھ شروع ہوئی تھی۔ اس کے بعد ان کے ذہن میں شاید یہ سوچ راسخ تھی کہ عوام میں اپنی مقبولیت کی بنا پر جب چاہوں الیکشن کروا لوں گا۔ پھر لانگ مارچ سے بھی شاید اپنے سیاسی قد سے بڑھ کر امیدیں لگائے بیٹھے تھے۔ لیکن لانگ مارچ عملی طور پر ناکام ہو چکا ہے کیونکہ عوام کی دلچسپی کسی طور توڑ پھوڑ اور جتھے بازی کی طرف نہیں ہے۔

عمران خان کی ریلی پر فائرنگ ایک اندوہناک واقعہ تھا لیکن یہ واقعہ بھی تحریک انصاف کے لیے سیاسی طور پر مطلوبہ نتائج کے حصول میں معاون نہیں بن سکا، بلکہ اس ضمن میں عمران نیازی صاحب کی چند بین الاقوامی نیوز چینلز میں کی گئی گفتگو کا ”ڈیمیج“ انہیں بیک فٹ پر لے گیا ہے۔ وہ صحافیوں کے سوالات کا تسلی بخش جواب نہیں دے سکے۔ اب ان کی جماعت بجائے فائرنگ واقعہ پہ عوامی ہمدردی لینے کے لیے بات کرے وہ ان بین الاقوامی انٹرویوز میں عمران نیازی کی گفتگو کی وضاحت کرنے میں مصروف ہیں۔ لوگ حتی کہ تحریک انصاف کے حامی بھی میڈیا خصوصاً سوشل میڈیا پہ یہ سوال اٹھا رہے ہیں کہ عمران خان سی این این اور دوسرے بین الاقوامی چینلز پر حکومت پر لگائے گئے الزامات کے ثبوت پیش کرنے میں ناکام رہے ہیں۔

ان تمام واقعات کے بعد دیکھا جا سکتا ہے کہ وہ کسی بھی طرح حکومت کو پریشر میں لانے میں کامیاب نہیں ہو سکے۔ سیاسی طور پر متعلق رہنے کے لیے اب ان کے پاس صرف جو ایک ایشو بچا ہے وہ نئے آرمی چیف کی تعیناتی کو متنازعہ بنانے کا ہے جسے وہ یکسو ہو کر ہر حربے سے متنازعہ بنا رہے ہیں۔ خیال یہی ہے کہ آخر کو تحریک انصاف کا یہ غلط فیصلہ بھی بیک فائر کر جائے گا۔

مندرجہ بالا سیاسی صورت حال کو اگر حکومتی اتحاد خصوصاً مسلم لیگ نون کے حوالے سے دیکھا جائے تو وہ اوپر بیان کردہ واقعات میں سے مزید پراعتماد ہو کر نکلے ہیں۔ خصوصاً جب سے سینیٹر اسحاق ڈار وزیر اعظم شہباز شریف صاحب کی ٹیم میں شامل ہوئے ہیں مسلم لیگ نون دفاعی پوزیشن سے نکل آئی ہے۔ شروع میں حکومت مہنگائی اور ڈالر کی اڑان میں بری طرح پھنسی ہوئی تھی۔ آئی ایم ایف کی سخت شرائط اور اشیائے خورد و نوش کی قیمتوں میں ہوشربا اضافے کی بدولت عوام بلبلا اٹھے تھے اور شہباز شریف اور ان کی ٹیم دن رات تنقید کی زد میں تھی۔ اس کے ساتھ پٹرول کی قیمتوں میں اضافے نے پارٹی کارکنان کو بھی تنقید کا موقع فراہم کر دیا تھا۔

اسی طرح آئندہ انتخابات کے حوالے سے شہباز شریف اپنے اتحادیوں کو اس بات پہ قائل کر چکے ہیں کہ الیکشن وقت پر ہی ہوں گے اور اسی طرح لانگ مارچ سے نمٹنے کی نرم حکمت عملی نے اس غبارے سے ویسے ہی ہوا نکال دی ہے۔ شہباز شریف نے سیلاب متاثرہ علاقوں میں بروقت اقدامات کرنے اور بین الاقوامی سطح پر دوست ممالک سے امدادی اقتصادی پیکیج لینے میں اپنی کامیابی کو عمران نیازی کی جاری حالیہ خلفشار کی سیاست سے کامیابی اور مہارت سے نتھی کر دیا ہے۔ عوام اب ان دو لیڈروں کو اسی تقابل میں دیکھتے ہیں۔

تحریک انصاف خصوصاً عمران نیازی کے لیے بہتر آپشن یہ تھا کہ عدم اعتماد کو کھلے دل اور وقار سے تسلیم کرتے اور آئندہ انتخابات کے حوالے سے اصلاحات کی طرف توجہ مرکوز رکھتے۔ دوسروں پہ تنقیدی تیر پھینکے کی بجائے اپنی پارٹی کی اصلاح کرتے اور آنے والے الیکشن کے امیدواروں کا بہتر انتخاب کرنے میں توانائیاں صرف کرتے۔ اپنی پارٹی کی نئی صف بندی کرتے اور اپنی سیاسی ناکامیوں پہ پارٹی میں کھل کر بحث کرواتے۔ اس دوران مہنگائی کی وجہ سے کھولتی عوام کو دوست بناتے اور وزیر اعظم شہباز شریف کو اسمبلی میں ٹف ٹائم دیتے تو تحریک انصاف کے ساتھ ساتھ ملک کے لیے بھی بہتر ہوتا۔ لیکن دلی ہنوز دور است کے مصداق عمران نیازی صاحب ایسے معاملات پہ توجہ کم ہی دیتے ہیں۔

اس کے علاوہ لوگ اب تحریک انصاف کی جانب سے بے نام امریکی خط اور سازش کے بیانیے کو یکسر مسترد کر چکے ہیں اور آئے روز کی سیاسی ہلچل سے بھی اکتا چکے ہیں۔ جیسے 2014 میں تحریک انصاف کے دھرنوں کی وجہ سے چینی صدر کا دورہ ملتوی ہوا تھا اسی طرح تحریک انصاف کی جانب سے حالیہ دنگے فساد کی وجہ سے سعودی عرب نے پرنس محمد بن سلمان کا دورہ آخری لمحات میں ملتوی کر دیا ہے۔ یاد رہے اس مختصر دورے میں سعودی عرب کم و بیش 12 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کے معاہدوں پر دستخط کرنے والا تھا جو ایک بار پھر عمران نیازی کی سیاسی ضد اور انا کی نظر ہو گے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments