”راجہ گدھ“ میری نظر میں
راجہ گدھ بانو قدسیہ کا مقبول ترین ناول ہے جو عنوان کے لحاظ سے نہایت جاندار، منفرد، جاذب نظر اور تجسس کا حامل ہے۔ اس میں ذہنی اور نفسیاتی تصور کا مطالعہ مذہبی اقدار کی روشنی میں پیش کیا گیا ہے۔ جس سے ناول کا تناظر علامتی بن گیا ہے۔ بانو قدسیہ نے یہ تناظر انسان (خصوصاً مرد) کی نفسیات اور سرشت کو دریافت کرنے کے لیے تشکیل دیا ہے۔ جس میں انھیں خاطر خواہ کامیابی ملی ہے۔ لیکن ان کا نظریہ ان کے فن پر غالب آ نے کی وجہ سے ان کا مطمح نظر متن کے پردے میں کارفرما ہونے کی بجائے متن پر حاوی دکھائی دیتا ہے۔ اسے ناول کا سقم کہا جا سکتا ہے۔ لیکن اس سقم کے باوجود جس انداز سے ناول کی بنت کی گئی ہے وہ قابل داد ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ ناول کے بعض حصوں میں یہ احساس اجاگر ہوتا ہے کہ کہانی اور اس کے کردار فطری طور پر آگے نہیں بڑھ رہے بلکہ ان کو گھسیٹا جا رہا ہے۔
عموماً ناولوں کے ابتدائی حصے سپاٹ بور اور تھکا دینے والے ہوتے ہیں۔ لیکن راجہ گدھ اس حوالے سے منفرد ناول ہے کیونکہ اس کا آغاز غیر معمولی طریقے سے ہوا ہے۔ جو دلچسپی کا عنصر لیے ہوئے ہے۔ کہانی کے نیریٹر کو کچھ ساعتوں کے لیے پوشیدہ رکھا گیا ہے تاکہ قاری متجسس رہے اور وہ ذہنی طور پر اسے کھوجنے کی کوشش کرے۔ اس سے ناول کی ریڈ ابیلٹی میں اضافہ ہوا ہے۔
ناول کے آغاز میں کلاس کا ماحول دکھایا گیا ہے۔ ایم اے کی کلاس کا تیسرا پریڈ ہے۔ جس میں سیمی شاہ اور آفتاب کے ساتھ پروفیسر سہیل کو اس طرح سے متعارف کروایا گیا ہے کہ پروفیسر طبقے میں پنپنے والی رعونت، غرور اور تکبر کے ساتھ اس طبقے میں پائی جانے والے احساس کمتری کا عنصر بھی نمایاں ہو جاتا ہے۔
بانو قدسیہ نے کلاس کے ماحول میں فرد پر معاشرے کے اثرات، فرد اور معاشرے کی کشمکش اور خود کشی کے اسباب پر بحث کا اہتمام بڑی مہارت سے کیا ہے۔ جس سے بہت سے سماجی اور نفسیاتی سوال اپنی تمام تر توانائیوں کے ساتھ جلوہ گر ہوتے ہیں۔ جن کی روشنی میں یہ طے پاتا ہے کہ خودکشی کا سبب دیوانہ پن ہے۔ اس سے ایک نیا سوال جنم لیتا ہے کہ پھر دیوانہ پن کی وجہ کیا ہو سکتی ہے۔ یہی ناول کا بنیادی سوال ہے۔ جس پر ناول کی پوری عمارت تعمیر کی گئی ہے۔
بانو قدسیہ کی ایک خاص بات یہ ہے کہ وہ جس کردار کو سامنے لاتی ہیں اس کا مکمل پس منظر دکھانے کی کوشش کرتی ہیں۔ اس کے لیے وہ تشبیہ کا سہارے لیتی ہیں۔ لیکن بعض جگہوں پر ضرورت سے زیادہ تشبیہ برت گئیں ہیں۔ جس سے ناول کی اوریجنیلٹی متاثر ہوئی ہے۔ قیوم ناول کا مرکزی کردار ہے جس پر کہانی کی ساری بنت کا دارو مدار۔ اس کردار نے ناول کے دیگر حصوں کو متحد رکھا ہوا ہے۔ اس کردار کی شخصیت اور ذہنیت کو اجاگر کرنے کے لیے بانو قدسیہ نے پرندوں کی کانفرنس کروائی ہے۔
جس میں پرندے آپس میں تکلم کرتے ہوئے یہ خدشہ ظاہر کرتے ہیں کہ گدھ انسانوں کی طرح جنونی ہو جائے گا اور وہ اپنے ہم جنسوں کو مٹانے کا خبط پال لے گا۔ جیسا کہ انسان نے کیا ہے۔ یہاں بانو قدسیہ نے عظیم جنگوں میں ہونی والی تباہی بربادی کی طرف اشارہ کیا ہے جو کہ انسانی جنون کی وجہ سے ہوئی۔ اس طرح ناول عصریت کا حامل ہو جاتا ہے جو کہ فکشن کا خاصا ہے۔ دراصل قیوم ایک سمبل ہے ہر اس انسان کے لیے جو روحانی طور پر مردہ ہو چکا ہے۔ جو اس انتظار میں رہتا ہے کہ کب کوئی مجبور بے بس اس کے جال میں پھنسے اور وہ اس کی مجبوری سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اس کے بدن کو نوچ ڈالے۔
بانو قدسیہ کے نزدیک مرد گدھ کا روپ ہے اور عورت پاکیزہ فطرت کی مالک ہے۔ چاہے وہ گندگی کی دلدل میں ہی کیوں نہ پھنسی ہو۔ سیمی گلبرگی لڑکی ہے۔ وہ اطوار زندگی اور گفتگو کے انداز سے مغربی تہذیب کی پروردہ ہے۔ لیکن اس کی روح مشرقی ہے جو وہ آفتاب کو دے بیٹھتی ہے۔ سیمی خود اذیتی اور ملامتی حد تک آفتاب کی محبت میں اسیر ہو جاتی ہے اور آفتاب کی شادی کسی اور لڑکی سے ہو جاتی ہے۔ سیمی ہر وقت آفتاب کی یادوں میں کھوئی رہتی ہے اور اسے آفتاب کی باتیں کر کے بہت اچھا لگتا ہے۔
اب اسے کسی ایسی شخص کی ضرورت محسوس ہوتی ہے جس سے وہ آفتاب کے متعلق باتیں کر سکے۔ اس کی یہ کمزوری اسے قیوم کے قریب کر دیتی ہے۔ دوسری طرف قیوم بھی سیمی سے تعلق بنانا چاہتا ہے۔ اس طرح ان کے درمیان رشتہ ضرورت قائم ہو جاتا ہے۔ جس سے فائدہ اٹھاتے ہوئے قیوم سیمی کے جسم کو نوچ لیتا ہے۔ وہ سیمی کو اس وقت بھی نہیں بخشتا جب وہ خود کشی کر لیتی ہے۔ سیمی کا روح آفتاب کو دے دینا اور جسم قیوم کے سپرد کرنا اور قیوم کا یہ جانتے ہوئی بھی کہ سیمی دل و جان سے آفتاب کو چاہتی ہے۔ وہ اب اس کی نہیں ہو سکتی، اس کے بدن کو نوچ ڈالنا۔ ذات، حالات اور شخصیتوں کے تضاد کو اجاگر کرتا ہے۔ یہ تضاد ان سماجی مسائل کی وجہ سے ہے جو پاکستانی قوم کو قیام پاکستان کے ساتھ تحفے میں ملے تھے۔
اصولی طور پر دکھا جائے تو جس ناول کا آغاز ایم اے کی کلاس کے تیسرے پریڈ سے ہوا تھا وہ سیمی کی موت پر ختم ہو جاتا ہے۔ بانو قدسیہ اسے سیمی کا المیہ بنا سکتی تھی۔ لیکن انھوں ایسا نہیں کیا کیونکہ اس طرح ان کے مطمح نظر اور نظریے کی ترسیل ممکن نہ تھی۔ انھوں نے مطمح نظر اور اپنے نظریے کے ابلاغ کے لیے ناول کو دن ڈھلے کے بعد ،
لا متناہی تجسس کے ساتھ آ گئے بڑھایا ہے۔ اور پرندوں کی دوسری کانفرنس منعقد کی ہے۔ اس کانفرنس کے سمن گدھ برادری کے پاس اس وقت آتے ہیں جب وہ شیخوپورہ کے اس علاقے میں ہوتے ہیں جہاں قیوم کا آبائی گاؤں چندرا ہے۔ اس طرح بانو قدسیہ نے گدھ اور قیوم کے اباؤ اجداد میں ایک ربط پیدا کرنے کی کوشش کی تاکہ قیوم میں گدھ کے خصائص دکھاتے ہوئے کہانی کا فطری بہاؤ متاثر نہ ہو۔ سیمی کی موت کے بعد قیوم کو ایسے سوال گھیر لیتے ہیں جن کا کوئی تسلی بخش جواب نہیں۔
وہ ایک ایسی جستجو میں جت جاتا ہے جس کی کوئی منزل نہیں۔ بالآخر وہ پروفیسر سہیل کی وساطت سے یوگا کرتا ہے۔ جس کے لیے یکسوئی ضروری تھی جو کہ قیوم پیدا نہیں کر سکا۔ جس وجہ اس پر کچھ بھی منکشف نہیں ہوتا۔ جہاں بانو قدسیہ عابدہ کے کردار کو متعارف کرواتی ہیں جس سے مڈل کلاس کی عورت کی شخصیت اور اس کی ذہنیت کی عکاسی ہوتی ہے۔ زبان و بیان کے حوالے سے عابدہ کا کردار خاصا مضبوط ہے۔ کیونکہ بانو قدسیہ نے جن الفاظ کا چناؤ اس کردار کے لیے کیا ہے وہ الفاظ اس کردار سے فطری مناسبت رکھتے ہیں۔
عابدہ کے کردار سے وہ اداسی اور افسردگی جو سیمی کے کردار کی وجہ سے ناول کی ہیئت میں سمائی ہوئی تھی ختم ہونے لگتی ہے۔ بانو قدسیہ عابدہ سے کچھ ایسے جملے ادا کرواتی ہیں جس سے مزاح کی کیفیت پیدا ہوتی ہے جو بسا اوقات طنز کی حدوں کو چھونے لگتی ہے۔ جس سے غم اور غصے کی ملی جلی کیفیت پیدا ہوتی ہے :
”جب وہ مرے گا تو میں اس کے کتبے پر لکھواؤں گی یہاں ماں کا یار دفن ہے ”۔ (ص 231)
قیوم اور عابدہ کے کردار متوازی سوچ رکھتے ہیں۔ ان کی سوچ اور فکر کا کوئی نقطہ اتصال نہیں ہے۔ قیوم عابدہ کے وجود سے شکتی حاصل کرنا چاہتا ہے تاکہ اس کی روح توانا ہو سکے جبکہ عابدہ کو جسم کی بقا کی فکر ہے۔ جو وہ اولاد کے ذریعے سے چاہتی ہے۔ قیوم سیمی کی باتیں کرتا ہے اور عابدہ وحید کی۔ وہ ایک دوسرے کی عادات و اطوار سے مسلسل چڑتے رہتے ہیں۔ ان کا تعلق صحیح طرح سے نہیں پنپتا جس سے ناول میں بوریت اور یکسانیت در آتی ہے۔ اس یکسانیت اور بوریت سے چھٹکارا پانے کے لیے بانو قدسیہ قیوم کی ماں (رابعہ ) کے گھر سے بھاگ جانے کی واردات بڑی فنی مہارت سے سامنے لاتی ہیں۔ جس سے دلچسپی کا عنصر پھر بحال ہو جاتا ہے۔
قیوم ناول کا مرکزی کردار ضرور ہے لیکن اس کی سوچ اور فکر میں کسی قسم کا ارتقا نہیں۔ وہ پورے ناول میں گدھ ہی رہتا ہے۔ پروفیسر سہیل کا کردار سوچ اور فکر کے حوالے سے بدلتا رہتا ہے۔ بانو قدسیہ نے اس کردار کے ذریعے حرام کے تصور اور آدم (ع) کی مذہبی کہانی کی نئی تعبیر پیش کی ہے۔
بانو قدسیہ نے اپنا مطمح نظر بیان کرنے کے لیے کسی خاص تیکنیک کو نہیں برتا اور نہ ہی کسی تنظیم کو ملحوظ خاطر رکھا ہے۔ بلکہ جب وہ چاہتی ہیں تو کسی ایسے کر دار کو تخلیق کرتی ہیں جو مبلغانہ انداز میں یہ تاثر دیتا ہے کہ دیوانہ پن کا سبب حرام رزق ہے :
”ساری عمر حرام کھانا۔ ہم لوگ حلال کی اولاد کہاں سے پیدا کر لیں گے جی؟ میرے بیٹے کا بھی دماغ ٹھیک نہیں۔ تین بار مینٹل ہسپتال رہ آیا ہے۔ اس اس کے باپ کا خیال ٹھیک ہے ساری وجہ میری ہے نہ میں حرام رزق پر پلتی نہ میرا بیٹا ایسا ہوتا“ ۔ (ص 343 )
اس اقتباس سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ بانو قدسیہ نے ناول کو تخلیقی اور فنی لحاظ سے مضبوط کرنے کی بجائے اپنا سارا زور مطمح نظر اور نظریے کی ترسیل پر صرف کیا ہے۔ ناول کے کردار اپنی زبان بولنے کی بجائے بانو قدسیہ کی زبان بولتے ہیں۔
امتل کا کردار بنیادی طور پر طوائف کا کردار ہے۔ لیکن اس کردار سے ایک ایسی عورت کا کردار چھلکتا ہے۔ جو اپنی فطرت کی پاکیزگی اور خلوص کے حوالے سے شریف زادی ہے۔ امتل کا کردار بہت توانا ہے۔ اس کردار سے طوائف کی ذہنیت اور اس کے متعلق مردانہ سماج کی سوچ اجاگر ہوتی ہے۔ یہ کردار بانو قدسیہ کی فنی عظمت کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ مجموعی طور پر دکھا جائے تو ناول کے چاروں حصے قیوم کے کردار کے ذریعے باہم مربوط ہیں۔ قیوم کا کردار ناول کی بنیادی کڑی ہے جو کہ انتہائی کمزور ہے۔ لیکن بانو قدسیہ قیوم اور دیگر کرداروں کے ربط سے اپنا مطمح نظر پیش کرنے میں کامیاب رہی ہیں۔
انھوں نے بڑی کامیابی سے ناول کے مختلف حصوں میں یہ تاثر دینے کی کوشش کی ہے کہ حرام رزق دیوانہ پن کا سبب بنتا ہے اور باپ دادا کے گناہ جین میوٹیشن کی صورت میں اولاد پر اثر انداز ہوتے ہیں۔ یہ تاثر بہت جاندار ہے۔ جس کی بنیاد پر ناول زندہ رہے گا۔
- علم الاقتصاد :دیباچہ میری نظر میں - 19/03/2023
- ”راجہ گدھ“ میری نظر میں - 13/11/2022
- افسانہ ”سریلا آدمی“ میری نظر میں - 30/08/2022
Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).