حقیقی آزادی، لیکن کب؟


گزشتہ ہفتے وزیر اعلیٰ پنجاب چوہدری پرویز الہی کا ایک ٹویٹ پڑھنے کا اتفاق ہوا جس میں کہا گیا تھا ”۔ لانگ مارچ میں شامل پی ٹی آئی قیادت اور شرکا کو ہر شہر میں مکمل سیکورٹی فراہم کی جائے گی روٹ کے راستے کی عمارتوں کی چھتوں پر سنائپر کمانڈوز تعینات کیے جائیں گے۔ 15 ہزار پولیس اہلکار سیکورٹی ڈیوٹی سر انجام دیں گے۔ لانگ مارچ کی ڈرون اور سی سی ٹی وی کیمروں سے تسلسل کے ساتھ نگرانی کی جائے گی۔ لانگ مارچ کے گرد دو درجاتی حصار قائم کیا جائے گا۔

کنٹینر پر بلٹ پروف روسٹرم اور بلٹ پروف شیلڈز کا استعمال یقینی بنانے کے لئے ہدایات جاری کر دی ہیں“ یہ ایک ایسا ٹویٹ ہے جس کو پڑھ کر ایک درد مند دل رونے کے ساتھ ساتھ ہنسنے لگ جائے گا کہ ہمارے ملک میں شعبدہ اور مجمع باز سیاست دانوں کی سیکورٹی کے لئے اربوں روپے اس لئے بھی خرچ کیے جاتے ہیں کہ یہ زندہ رہیں اور گاہے بگاہے عوام کو اپنی ان تقریروں کے ذریعے بیوقوف بناتے رہیں جن میں بوقت ضرورت سیاسی، سماجی اور مذہبی ٹچ بھی شامل ہو تاکہ ہمارے بھولے بھالے عوام کے جذبات سے کھیلا جا سکے۔

پاکستانی سیاست میں احتجاجی دھرنوں، جلاؤ گھیراؤ، اور لانگ مارچ کی تاریخ کافی پرانی ہے۔ پچھلے پچاس سالوں میں دارالحکومت اسلام آباد کئی سیاسی تحریکوں اور لانگ مارچ کا عینی شاہد ہے مگر یہ بھی حقیقیت ہے کہ دھرنوں سے مسائل کا حل نہیں کبھی بھی نکلتا۔ اس دھرنے اور جلاؤ گھیراؤ کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہوتا ہے کہ حکومت وقت پر دباؤ بڑھتا ہے لیکن ترقیاتی اور معاشی سرگرمیوں کے ساتھ ساتھ انسانی سرگرمیاں بھی تعطل کا شکار ہوتی ہیں۔

حقیقی آزادی مارچ سے پہلے بھی عمران خان نے 14 اگست 2014 ء کو نون لیگ کی حکومت کے خلاف انتخابی نتائج دھاندلی کے الزام لانگ مارچ کیا، ہزاروں کی تعداد میں پولیس، ایف سی اور کنٹینرز کی دیواروں کو عبور کرتے ہوئے عمران خان اور طاہر القادری 20 اگست کو ریڈ زون میں داخل ہوئے۔ سپریم کورٹ کے دروازے پر سکھانے کے لئے کپڑے لٹکائے گئے۔ ڈی جے بٹ کے ترانے بھی چلے۔ عمران خاں نے اپنے بجلی اور گیس کے بل نکال کر آگ لگادی اور دھرنے کے شرکا نے پارلیمنٹ ہاؤس اور وزیر اعظم ہاؤس کی طرف مارچ بھی کیا۔

پی ٹی وی اور ریڈیو کی عمارت پر قبضہ بھی کیا گیا۔ آنسو گیس کی برسات ہوئی، ہزاروں شیل فائر کیے گئے اور بالآخر 70 دن کے بعد طاہر القادری اور 126 دن بعد عمران خان نے بھی دھرنا ختم کرنے کا اعلان کر دیا۔ اس دھرنے پر خرچ ہونے والی رقم کی تفصیلات کے بارے میں بی بی سی نے حال ہی میں ایک رپورٹ شائع کی ہے جس کے مطابق اسلام آباد مارچ میں خدمات دینے والے ایک شخص نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ ’اگر 50 ہزار لوگ اسلام آباد میں اکٹھے ہو جاتے ہیں اور یہ دھرنا پانچ دن تک رہتا ہے تو اس میں تمام اخراجات کا تخمینہ 15 کروڑ سے 20 کروڑ تک ہو سکتا ہے لیکن یہ محض اسلام آباد پڑاؤ ڈالنے کا خرچہ ہے۔

ان گاڑیوں کے کرائے، پیٹرول و ڈیزل اور عملے کا خرچہ شامل نہیں جو منصوبے کے مطابق گلگت بلتستان، کشمیر، سندھ، پنجاب یا خیبر پختونخوا سے شامل ہوں گی۔ اس مارچ اور دھرنے کے لیے ابتدائی پانچ دن کے انتظامات میں محض ساؤنڈ سسٹم پر جو خرچہ آ رہا ہے، وہ روزانہ 1 کروڑ 73 لاکھ بنتا ہے۔ لائٹس، ٹرک اور جنریٹر کا خرچہ الگ ہے۔ واضح رہے کہ ٹرکوں پر ساؤنڈ سسٹم انسٹال ہوتا ہے اور ہر ٹرک پر لائٹس لگائی جاتی ہے اور ایک جنریٹر بھی موجود ہوتا ہے۔

پی ٹی آئی کے اسلام آباد حقیقی آزادی مارچ کے لیے لگ بھگ ایسے 122 ٹرک تیار کیے گئے ہیں اور ایک ٹرک کا خرچہ روزانہ کی بنیاد پر تقریباً 24 ہزار روپے بنتا ہے۔ ایک دھرنے کے اخراجات میں شرکاء کے ناشتے، دوپہر اور شام کے کھانے کے علاوہ، ساؤنڈ سسٹم، کرسیوں، صوفے، لائٹس، کنٹینر، باہر سے آنے والی ٹرانسپورٹ، اس میں استعمال ہونے والا پیٹرول و ڈیزل اور عملے کا خرچہ شامل ہوتا ہے اس کے علاوہ دھرنے کے راستے میں آنے والے شہروں میں لگنے والے پینا فلیکس اور جھنڈوں کی لاگت شامل ہے۔ مختلف دھرنوں، جلسوں اور اجتماعات میں جنریٹرز مہیا کرنے والے ایک شخص نے بتایا کہ‘ ایک جنریٹر کا روزانہ کا کرایہ 15 ہزار تک ہوتا ہے۔ ایک بڑا جنریٹر فی گھنٹہ 20 لیٹر تیل استعمال کرتا ہے اور اس دھرنے میں ایک سو سے زائد جنریٹر استعمال ہو سکتے ہیں۔

اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس حقیقی آزادی مارچ کا مقصد کیا ہے؟ پاکستان تحریک انصاف کے رہنماؤں کے مطابق اسلام آباد مارچ اور ممکنہ دھرنے سے عوامی دباؤ کے نتیجے میں حکومت کو مجبور کیا جا سکتا ہے کہ وہ جلد از جلد عام انتخابات کا اعلان کرے۔ اب ان عام انتخابات کا فائدہ یہی ہو گا کہ موجودہ حکومت کی ناکامی اور نا اہلی کے چرچے زبان زد عام ہیں یعنی لوہا گرم ہے تو چوٹ کا وقت ہے اور پی ٹی آئی مستقبل میں اقتدار حاصل کر سکتی ہے لیکن شاید ہماری عوام کی اکثریت اس حقیقیت سے بے خبر ہے کہ ان تمام حکومتی اور غیر حکومتی اخراجات کا مقصد یا تو اقتدار کا حصول ہے یا پھر مخالف کو اقتدار کے حصول سے باز رکھنا ہوتا ہے، ہمارے ملک میں ابھی تک کوئی بھی ایسا حکمران، حکومتی ایوان میں نہیں پہنچا جس کا مقصد اختیار حاصل کرنا ہو۔

یاد رہے کہ ہماری مقامی پولیس افسران کا یہ اصول ہے کہ جب بھی کسی سب انسپکٹر کو کوئی تھانہ انچارج بنانا ہو تو پہلے اس کا انٹرویو لیا جاتا ہے تاکہ یہ دیکھا جائے کہ وہ کتنا بڑا کماؤ پوت ثابت ہو سکتا ہے۔ اس کے علاوہ کچھ افسران خصوصی طور پر اس امر کا بھی خیال رکھتے ہیں علاقے میں امن و امان بھی قائم رہ سکے اور متعلقہ افسر بہت اچھا مہتمم اور منتظم بھی ہو۔ میرا مشاہدہ یہ ہے کہ جب ملکی مہتمم اور منتظم کا انتخاب بھی ایک تھانے کے ایس ایچ او کی طرح عمل میں لایا جاتا ہے لیکن اس کو منتخب کرنے والے وہ اندرونی اور بیرونی عناصر شامل ہوتے ہیں جن کے مفادات مشترکہ ہوتے ہیں۔

سیلیکشن کے بعد اس کے اقتدار کی راہ ہموار کرنے کے لئے ہر جائز اور ناجائز ہتھکنڈہ استعمال کرنے سے دریغ نہیں کیا جاتا۔ آئی جے آئی کی تشکیل میں استعمال ہونے والے بریف کیس کی رقم سے لے کر مختلف سیاسی جماعتوں پر فارن فنڈنگ کیس اس بات کا منہ بولتا ثبوت ہیں کہ مقتدرہ کی ہمیشہ یہ کوشش رہی ہے کہ ایسے سیاست دان کو اقتدار میں لایا جائے جوان کے ظاہری اور مخفی مفادات کا تحفظ کرے۔ الیکٹرانک اور سوشل میڈیا پر اپنی گرفت مضبوط کرنے کے بعد وہ یہ مقاصد باآسانی حاصل کر سکتے ہیں۔

صرف یہ سوچیں کہ ہر حکومت ہماری جیب پر ڈاکہ مارنے، ہمارے بچوں کا حق حلال کا رزق چھیننے اور ہمارے رزق حلال سے اپنی تجوریاں بھرنے کے بعد خود کو آفات اور موت سے بچانے اور اقتدار کی راہ ہموار کرنے کے لئے ہم سے کس کس ذریعے سے پیسے نکلوا رہی رہی ہے۔ کبھی سب سے پہلے پاکستان کا نعرہ تو کبھی مدینہ جیسی اسلامی ریاست بنانے کا خواب دکھا کر ہمیں کیسے لوٹا جا رہا ہے کہ صرف پنجاب میں ایک چھوٹے سے مارچ کے لئے اپنی مرضی کے مطلوبہ نتائج کے حصول کے لئے 15 ہزار پولیس اہلکاروں کو 24 گھنٹے کھانا کھلانے کے اخراجات کی تفصیل تو بتا دیں، کوئی ہے جو اسلام آباد کی حقیقی آزادی پہ اٹھنے والے اربوں روپے کا تخمینہ لگا سکتا ہے۔

اگر ہم سوچیں تو ماضی میں بھی مقتدرہ کے ساتھ ڈیل کر کے ہمیں ان لانگ مارچ کے نام پر ہمیشہ بے وقوف بنایا گیا تھا لیکن ہم اسی عطار سے ایک بار پھر دوا لینے کو ہمہ وقت تیار بیٹھے ہیں۔ حالت یہ ہے کہ میرے اکثر قارئین، عمران خان کے عقیدت مند اور مداح ہیں تو کیا وہ کبھی نہیں سوچتے کہ حقیقی آزادی ہمیں اس وقت حاصل ہو گی جب ہم ایک قوم بنیں گے۔ جو ہر آمر کے سامنے سینہ تان کر کھڑی ہو سکے کیونکہ میرے خیال میں ایک بڑا ڈاکو اور چور اس وقت عوام کا سربراہ بنتا ہے جب پوری جماعت ہی چور اور ڈاکو ہو۔

٭٭٭٭٭


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments